Syed Haider Imam
Chief Minister (5k+ posts)
رؤف کلاسرہ کی مجیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کا گرتا رجحان
سید حیدر امام
ٹورنٹو - کینیڈا
ٹورنٹو شام سات بجے ہیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سونے کا قصد کیا تھا مگر شائد رؤف کلاسرہ کو جواب لکھے بغیر آج نیند نہیں آئے گی
پروگرام مقابل کے حالیہ فارمیٹ کے مطابق سب سے پہلے عامر متین اپنی طرف سے چند ایک اچھی باتیں کرتے ہیں اور اسکے بعد رؤف کلاسرا صاحب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے مردہ کفن پھاڑ کر بول رہا ہے . مورخہ ٢ اکتوبر کے پروگرام میں لیہ ، چک ٣٦ کے معروف دانشور صاحب نے فرمایا کے
ایک بہت پڑھے لکھے امریکی ریٹرن پاکستانی سے انکی بات ہوئی ہے جو یہ " فرما " رہے تھے کے پرائم منسٹر ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے بیرونی سرمایا کاروں پر منفی اثر پڑا ہے اور باقی واہیات اپ سن ہی چکے ہوں گے اگر نہیں سنا تو کمینٹ میں ویڈیو شئیر کر دی ہے . سب سے پہلی بات یہ کے چینل ٩٢ کے پروگرام مقابل میں بندھی بھینس کو بھی شائد بیچنے کا وقت ا چکا ہے . دوسری بات یہ کے موصوف کے امریکی ریٹرن معاشی ایکسپرٹ ابھی تک نیو یارک کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا رہیں ہوتے ، اس بندے کو صرف پاکستان میں ہی دفتری نوکری مل سکتی تھی . ظاہر ہے اتنا ذلیل کرنے کے بعد مجھے اب دلیل سے بات کرنا پڑے گا ورنہ کمنٹس میں لوگ مجھے بھی ذلیل کریں گے اور ایسا میں سیاست پی کے پر ہونے نہیں دیتا
سرمایا کار بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں . معروف قسموں میں سے نمایاں
١- ممالک ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں ٹیکنالوجی ، سستی لیبر اور ملک میں قدرتی ذخائر کی وجہ سے زیادہ تر سرمایا کاری کرتے ہیں
٢- دوسرے فنانشل ادارے ہوتے ہیں . وہ کسی بھی ملک کی ریٹنگ دیکھ کر اس ملک کی اسٹاک ایکسچینج میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کی صورت میں سرمایہ لگاتے ہیں
٣- انڈسٹری لگانے والے سرمایہ کار - ایسے سرمایہ کار پاکستان جیسے ممالک میں سرمایا لگانے سے ٣ بڑ ی وجوہات کی وجہ سے سرمایا لگانے سے گریز کرتے ہیں
الف – ملک میں کرپشن اور سرخ فیتہ
٣ب – ملک میں امن اور امان کی صورت حال
٣پ – ملک میں بجلی اور گیس کی فراہمی
٤ ت – ملک میں دستیاب ہنر مند سستے مزدور
آخر میں کوسٹ اوف ڈ وینگ بزنس
اب تھوڑی تفصیل
پاکستان میں پہلے سے چین ملک میں ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہا ہے . عمران خان نے سعودی عرب کے دورے میں ١٠ بلین ڈالر سرمایہ کاری کے دستاویز پر دستخط کر چکے ہیں اور وسط اکتوبر میں جرمنی کی دعوت پر وہاں کا دورہ کر رہیں ہیں . یاد رہے کے عمران خان نے اعلان کیا تھا کے وہ تفریحی دورے نہیں کریں گے ، صرف وہاں جائیں گے جہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہوں گے
موصوف نے فرمایا کے الیکشن کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کوئی بڑھوتی نہیں ہوئی . بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کے کیسے کیسے لوگ بڑے بڑے پروگرام میں بڑ ی بڑ ی بونگیاں مارتے ہیں اور لوگ سن بھی لیتے ہیں اور چل بھی جاتا ہے . پاکستان کے "سٹہ مارکیٹ" میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو پتا ہے کے وہاں پر منی لانڈرنگ ، طالبان اور لوٹ مار کی دولت پارک ہو رہی تھی . جیسے ہی حکومت ختم ہوئی اور حکومت نے دولت مندوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا شروع کیا تو انڈکس ٹہر گیا ہے . ایک اور بڑ ی وجہ کرنسی میں گراوٹ اور استحکام کا نہ ہونا بھی ہے . اگر حکومت ٹیکس اکھٹا کرنے کے لئے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کرتی ہے تو لامحالہ اسٹاک مارکیٹ مزید گرے گی
پورٹ فولیو انویسٹمنٹ اس وقت کس ملک میں اتی ہے جب وہ مارکیٹ سستی ہو( ارننگ پر شئیر) اور گروتھ کا عنصر زیادہ ہو
Recent Stock Exchange data
Market attained all time high Index 52,876 on May 2017
Recent Low is 38,000 in Jan 2018
Current trading range is 40,000 – 42000
دنیا کے تمام ممالک کے سینٹرل بنک معیشت کو کنٹرول کرنے کے لئے ریٹ اوف انٹرسٹ میں کمی یا اضافہ کرتے ہیں اور آجکل شرح سود ریکارڈ کم سطح پر رہنے کی وجہ سے ہر ملک میں شرح سود میں بڑھوتی کا رجحان ہے کیونکے اسکا تعلق افراط زر کو کنٹرول کرنے ، اسٹاک مارکیٹ ،اور ریئل اسٹیٹ میں ببل سے ہے. یاد رہے کے دنیا کے تمام ممالک میں کم شرح سود کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور مکان خریدنا کسی بھی ملک میں ایک عام آدمی کے بس سے باہر ہے
کم شرح سود سے "سرمایہ "صرف سرمایا کاروں تک محدود رہتا ہے. امیر آدمی مزید امیر ہوتا ہے اور غریب مزید غریب جسکا رنڈی رونا یہ لوگ روزانہ روتے ہیں
کم شرح سود کی وجہ سے پاکستان اور دنیا کی تمام ملکوں کا اسٹاک انڈکس بغیر کسی بڑ ی کریکشن کے لگاتار ہائی پر ہائی لگا رہا ہے مگر ٢٠١٨ میں بیشتر اسٹاک انڈکس رینج بواؤنڈ ہو چکا ہے . کسی بھیاسٹاک انڈکس میں اگر ١٠ فیصد سے زیادہ کی کمی ہو ہو تو وہ مارکیٹ کریکشن میں چلی جاتی ہے یعنی گھٹنی شروع ہو جاتی ہے .پاکستان کی مارکیٹ ٥٢٠٠٠ کی سطح سے نیچے گر کے ٣٨٠٠٠ پر گئی تھی اور واپس ٤٦٠٠٠ پر مگروہاں ٹک نہ سکی لھذا ابھی تک مارکیٹ کریکشن فیز میں ہے . مجھے تھوڑا ٹیککنیکل اسلئے لکھنا پڑ ہے کیونکے لوگ مجھے بھی نیو یارک کا ٹیکسی والا /پاکستان میں لگا بابو سمجھنا نہ شروع کر دیں
ٹیکنیکل لحاظ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کریکشن فیز میں ہے اور اگر فنانس منسٹر ٹیکس اکھٹا کرنے مارکیٹ جا کر انلوگوں کے ہیوی اکاؤنٹ چیک کرنا شروع کرتا ہے جنکے پورٹ فولیو بلین میں ہیں مگر ٹیکس کبھی فائل نہیں کیا تو مارکیٹ کم از ٢٠ ہزار پوائنٹس مزید گرے گی.اسٹاک مارکیٹ کے بہت سے لوگ حکومت میں ہیں لھذا حکومت شائد ایسا نہ کرے
پاکستان میں انڈسٹری لگانے والوں کے لئے جب تک کوسٹ وف ڈونگ بزنس ، سرخ فیتہ، لیبر اپ گریڈ اور انرجی پر کام مکمل نہیں ہو گا ،سرمایہ کاری انے کے امکانات بہت کم ہیں
خدا کی قسم ، بحثیت طالبعلم میں یہ وثوق سے لکھ رہا ہوں کے سرمایا کاری میں بھینسوں کی فروخت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے . یہ ون ٹائم ٹرانزیکشن تھی . یہ صرف رؤف کلاسرا کے پینڈو دماغ کی اختراح ہے
ہے کوئی جو رؤف کلاسرا اور دوسرے بقراطوں کو سمجھا سکے کے پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور عزت سادات بچانے کے لئے مختصر عرصے میں پاکستان کو ٩ ارب ڈالر کا قرضہ درکار ہے جسکے لئے مالی سادگی کی مہم ڈونورز اداروں ( جنکی قرض دینے لئے یہ بنیادی شرط ہوتی ہے ) کو دکھانے کے لئے کی جا رہی ہے اور جسکا وعدہ عمران خان نے کیا تھا . اسکا سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے
اب واپس اتے ہیں نیشنل اور انٹرنیشنل صحافتی عقابوں کی رپورٹنگ پر ایک نظر . پاکستان کے چک ٣٦ صحافیوں کو تو ایک طرف رکھیں ، ہم دیکھتے ہیں بی بی سی نے کیا رپورٹ کیا تھا جسکی مثالیں دی جاتی ہیں کے ہم اپنے نشریاتی اداروں کو اسطرح کا بنائیں گے . بی بی سی کے رپورٹر کو بھی پرائم منسٹر ہاؤس میں بندھی بھینس پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ یہ سوال اٹھایا کے
١- نواز شریف جو ملک میں رہتا ہی نہیں تھا اور اگر رہتا بھی تھا تو "ایک پاؤ دودھ" پینے کے لئے ملین سے زیادہ کا سالانہ خرچ کیوں؟
٢- اپنی رپورٹنگ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کے وزیراعظم کے ایک " پاؤ دودھ "کے لئے کیا پاکستان جیسا قرضوں میں ڈوبا ملک متحمل ہو سکتا ہے کے نہیں ؟
٣- اپنی رپورٹنگ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کے پٹواریوں کو بھینسیں بیچنے سے ملک کو کتنا فائدہ حاصل ہوا اور مستقبل میں کتنی رقم کی بچت ہو گی
٤- اپنی رپورٹنگ میں یہ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا کے پاکستان کے ڈونر ایجنسیز اور بڑے ممالک کے سربراہ کسطرح وزیراعظم ہاؤس کے ماہانہ ایک ارب خرچے کو کنٹرول کر کے لاکھوں میں لانے سے کتنی متاثر ہوں گی
دنیا میں لوگوں کے سوچنے والوں کے ڈھنگ پر بھی بہت حیرت ہوئی . سب کو دودھ دینی والی بھیسوں میں دلچسپی محسوس ہوئی اور لکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے تمام مرد تھے اور کیوں نہ ہوتے ، شائد دودھ / بریسٹ پر نظر تو سب کی ٹکتی ہے
جاوید چودھری جیسے صحافیوں کو بی بی سی والے بھرتی کرتے ہیں تو اس ادارہ کا بھی الله ہی حافظ ہے . نواز شریف کے لفافے سے شائد دنیا کا کوئی صحافی مبرا نہیں ہے . پروگرام مقابل والوں کو اچھی طرح پتا ہے کے تحریک انصاف کی حکومت نے اشتہاروں پر پابندی لگائی ہوئی ہے . اگر سینیٹر فیصل جاوید وزیراعظم ہاؤس کے مجوں کے قریب کھڑے ہو کچھ کہ دیں تو آپکو اس وقت بھی تکلیف ہوتی ہے اور نہ کریں تب بھی آپکو تکلیف ہوتی ہے . باؤ ، کیسے پاسے چین نالوں بینا ئے کے نہیں ؟
ایک طرف اپ شروع کرتے ہیں ہیں بھیسوں کی سیل سے تمام لوگ خوش ہیں اور اسی سانس میں کہ دیتے ہیں کے تحریک انصاف والوں نے سہی سے پروموٹ نہیں کیا، مرو کتھے ٹکو وی
محمد علی اور زیبا کی یہ جوڑی.....گدھے ، بوڑھے اور اسکے لڑکے کی کہانی کے وہ کردار ہیں جو سامنے کھڑے ہو کر مخلتف حالتوں میں محتلف آوازیں کستے ہیں اور لاکھوں روپے اپنے اپنے چنیل سے اینھٹتے ہیں

سید حیدر امام
ٹورنٹو - کینیڈا
ٹورنٹو شام سات بجے ہیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے جلد سونے کا قصد کیا تھا مگر شائد رؤف کلاسرہ کو جواب لکھے بغیر آج نیند نہیں آئے گی
پروگرام مقابل کے حالیہ فارمیٹ کے مطابق سب سے پہلے عامر متین اپنی طرف سے چند ایک اچھی باتیں کرتے ہیں اور اسکے بعد رؤف کلاسرا صاحب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے مردہ کفن پھاڑ کر بول رہا ہے . مورخہ ٢ اکتوبر کے پروگرام میں لیہ ، چک ٣٦ کے معروف دانشور صاحب نے فرمایا کے
ایک بہت پڑھے لکھے امریکی ریٹرن پاکستانی سے انکی بات ہوئی ہے جو یہ " فرما " رہے تھے کے پرائم منسٹر ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے بیرونی سرمایا کاروں پر منفی اثر پڑا ہے اور باقی واہیات اپ سن ہی چکے ہوں گے اگر نہیں سنا تو کمینٹ میں ویڈیو شئیر کر دی ہے . سب سے پہلی بات یہ کے چینل ٩٢ کے پروگرام مقابل میں بندھی بھینس کو بھی شائد بیچنے کا وقت ا چکا ہے . دوسری بات یہ کے موصوف کے امریکی ریٹرن معاشی ایکسپرٹ ابھی تک نیو یارک کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا رہیں ہوتے ، اس بندے کو صرف پاکستان میں ہی دفتری نوکری مل سکتی تھی . ظاہر ہے اتنا ذلیل کرنے کے بعد مجھے اب دلیل سے بات کرنا پڑے گا ورنہ کمنٹس میں لوگ مجھے بھی ذلیل کریں گے اور ایسا میں سیاست پی کے پر ہونے نہیں دیتا
سرمایا کار بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں . معروف قسموں میں سے نمایاں
١- ممالک ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں ٹیکنالوجی ، سستی لیبر اور ملک میں قدرتی ذخائر کی وجہ سے زیادہ تر سرمایا کاری کرتے ہیں
٢- دوسرے فنانشل ادارے ہوتے ہیں . وہ کسی بھی ملک کی ریٹنگ دیکھ کر اس ملک کی اسٹاک ایکسچینج میں پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کی صورت میں سرمایہ لگاتے ہیں

٣- انڈسٹری لگانے والے سرمایہ کار - ایسے سرمایہ کار پاکستان جیسے ممالک میں سرمایا لگانے سے ٣ بڑ ی وجوہات کی وجہ سے سرمایا لگانے سے گریز کرتے ہیں
الف – ملک میں کرپشن اور سرخ فیتہ
٣ب – ملک میں امن اور امان کی صورت حال
٣پ – ملک میں بجلی اور گیس کی فراہمی
٤ ت – ملک میں دستیاب ہنر مند سستے مزدور
آخر میں کوسٹ اوف ڈ وینگ بزنس
اب تھوڑی تفصیل
پاکستان میں پہلے سے چین ملک میں ریکارڈ سرمایہ کاری کر رہا ہے . عمران خان نے سعودی عرب کے دورے میں ١٠ بلین ڈالر سرمایہ کاری کے دستاویز پر دستخط کر چکے ہیں اور وسط اکتوبر میں جرمنی کی دعوت پر وہاں کا دورہ کر رہیں ہیں . یاد رہے کے عمران خان نے اعلان کیا تھا کے وہ تفریحی دورے نہیں کریں گے ، صرف وہاں جائیں گے جہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہوں گے
موصوف نے فرمایا کے الیکشن کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کوئی بڑھوتی نہیں ہوئی . بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کے کیسے کیسے لوگ بڑے بڑے پروگرام میں بڑ ی بڑ ی بونگیاں مارتے ہیں اور لوگ سن بھی لیتے ہیں اور چل بھی جاتا ہے . پاکستان کے "سٹہ مارکیٹ" میں کام کرنے والے تمام لوگوں کو پتا ہے کے وہاں پر منی لانڈرنگ ، طالبان اور لوٹ مار کی دولت پارک ہو رہی تھی . جیسے ہی حکومت ختم ہوئی اور حکومت نے دولت مندوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا شروع کیا تو انڈکس ٹہر گیا ہے . ایک اور بڑ ی وجہ کرنسی میں گراوٹ اور استحکام کا نہ ہونا بھی ہے . اگر حکومت ٹیکس اکھٹا کرنے کے لئے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کرتی ہے تو لامحالہ اسٹاک مارکیٹ مزید گرے گی
پورٹ فولیو انویسٹمنٹ اس وقت کس ملک میں اتی ہے جب وہ مارکیٹ سستی ہو( ارننگ پر شئیر) اور گروتھ کا عنصر زیادہ ہو
Recent Stock Exchange data
Market attained all time high Index 52,876 on May 2017
Recent Low is 38,000 in Jan 2018
Current trading range is 40,000 – 42000

دنیا کے تمام ممالک کے سینٹرل بنک معیشت کو کنٹرول کرنے کے لئے ریٹ اوف انٹرسٹ میں کمی یا اضافہ کرتے ہیں اور آجکل شرح سود ریکارڈ کم سطح پر رہنے کی وجہ سے ہر ملک میں شرح سود میں بڑھوتی کا رجحان ہے کیونکے اسکا تعلق افراط زر کو کنٹرول کرنے ، اسٹاک مارکیٹ ،اور ریئل اسٹیٹ میں ببل سے ہے. یاد رہے کے دنیا کے تمام ممالک میں کم شرح سود کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور مکان خریدنا کسی بھی ملک میں ایک عام آدمی کے بس سے باہر ہے
کم شرح سود سے "سرمایہ "صرف سرمایا کاروں تک محدود رہتا ہے. امیر آدمی مزید امیر ہوتا ہے اور غریب مزید غریب جسکا رنڈی رونا یہ لوگ روزانہ روتے ہیں
کم شرح سود کی وجہ سے پاکستان اور دنیا کی تمام ملکوں کا اسٹاک انڈکس بغیر کسی بڑ ی کریکشن کے لگاتار ہائی پر ہائی لگا رہا ہے مگر ٢٠١٨ میں بیشتر اسٹاک انڈکس رینج بواؤنڈ ہو چکا ہے . کسی بھیاسٹاک انڈکس میں اگر ١٠ فیصد سے زیادہ کی کمی ہو ہو تو وہ مارکیٹ کریکشن میں چلی جاتی ہے یعنی گھٹنی شروع ہو جاتی ہے .پاکستان کی مارکیٹ ٥٢٠٠٠ کی سطح سے نیچے گر کے ٣٨٠٠٠ پر گئی تھی اور واپس ٤٦٠٠٠ پر مگروہاں ٹک نہ سکی لھذا ابھی تک مارکیٹ کریکشن فیز میں ہے . مجھے تھوڑا ٹیککنیکل اسلئے لکھنا پڑ ہے کیونکے لوگ مجھے بھی نیو یارک کا ٹیکسی والا /پاکستان میں لگا بابو سمجھنا نہ شروع کر دیں
ٹیکنیکل لحاظ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کریکشن فیز میں ہے اور اگر فنانس منسٹر ٹیکس اکھٹا کرنے مارکیٹ جا کر انلوگوں کے ہیوی اکاؤنٹ چیک کرنا شروع کرتا ہے جنکے پورٹ فولیو بلین میں ہیں مگر ٹیکس کبھی فائل نہیں کیا تو مارکیٹ کم از ٢٠ ہزار پوائنٹس مزید گرے گی.اسٹاک مارکیٹ کے بہت سے لوگ حکومت میں ہیں لھذا حکومت شائد ایسا نہ کرے
پاکستان میں انڈسٹری لگانے والوں کے لئے جب تک کوسٹ وف ڈونگ بزنس ، سرخ فیتہ، لیبر اپ گریڈ اور انرجی پر کام مکمل نہیں ہو گا ،سرمایہ کاری انے کے امکانات بہت کم ہیں
خدا کی قسم ، بحثیت طالبعلم میں یہ وثوق سے لکھ رہا ہوں کے سرمایا کاری میں بھینسوں کی فروخت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے . یہ ون ٹائم ٹرانزیکشن تھی . یہ صرف رؤف کلاسرا کے پینڈو دماغ کی اختراح ہے
ہے کوئی جو رؤف کلاسرا اور دوسرے بقراطوں کو سمجھا سکے کے پاکستان مالی بحران کا شکار ہے اور عزت سادات بچانے کے لئے مختصر عرصے میں پاکستان کو ٩ ارب ڈالر کا قرضہ درکار ہے جسکے لئے مالی سادگی کی مہم ڈونورز اداروں ( جنکی قرض دینے لئے یہ بنیادی شرط ہوتی ہے ) کو دکھانے کے لئے کی جا رہی ہے اور جسکا وعدہ عمران خان نے کیا تھا . اسکا سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے
اب واپس اتے ہیں نیشنل اور انٹرنیشنل صحافتی عقابوں کی رپورٹنگ پر ایک نظر . پاکستان کے چک ٣٦ صحافیوں کو تو ایک طرف رکھیں ، ہم دیکھتے ہیں بی بی سی نے کیا رپورٹ کیا تھا جسکی مثالیں دی جاتی ہیں کے ہم اپنے نشریاتی اداروں کو اسطرح کا بنائیں گے . بی بی سی کے رپورٹر کو بھی پرائم منسٹر ہاؤس میں بندھی بھینس پر کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ یہ سوال اٹھایا کے
١- نواز شریف جو ملک میں رہتا ہی نہیں تھا اور اگر رہتا بھی تھا تو "ایک پاؤ دودھ" پینے کے لئے ملین سے زیادہ کا سالانہ خرچ کیوں؟
٢- اپنی رپورٹنگ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کے وزیراعظم کے ایک " پاؤ دودھ "کے لئے کیا پاکستان جیسا قرضوں میں ڈوبا ملک متحمل ہو سکتا ہے کے نہیں ؟
٣- اپنی رپورٹنگ میں یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کے پٹواریوں کو بھینسیں بیچنے سے ملک کو کتنا فائدہ حاصل ہوا اور مستقبل میں کتنی رقم کی بچت ہو گی
٤- اپنی رپورٹنگ میں یہ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا کے پاکستان کے ڈونر ایجنسیز اور بڑے ممالک کے سربراہ کسطرح وزیراعظم ہاؤس کے ماہانہ ایک ارب خرچے کو کنٹرول کر کے لاکھوں میں لانے سے کتنی متاثر ہوں گی
دنیا میں لوگوں کے سوچنے والوں کے ڈھنگ پر بھی بہت حیرت ہوئی . سب کو دودھ دینی والی بھیسوں میں دلچسپی محسوس ہوئی اور لکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے تمام مرد تھے اور کیوں نہ ہوتے ، شائد دودھ / بریسٹ پر نظر تو سب کی ٹکتی ہے
جاوید چودھری جیسے صحافیوں کو بی بی سی والے بھرتی کرتے ہیں تو اس ادارہ کا بھی الله ہی حافظ ہے . نواز شریف کے لفافے سے شائد دنیا کا کوئی صحافی مبرا نہیں ہے . پروگرام مقابل والوں کو اچھی طرح پتا ہے کے تحریک انصاف کی حکومت نے اشتہاروں پر پابندی لگائی ہوئی ہے . اگر سینیٹر فیصل جاوید وزیراعظم ہاؤس کے مجوں کے قریب کھڑے ہو کچھ کہ دیں تو آپکو اس وقت بھی تکلیف ہوتی ہے اور نہ کریں تب بھی آپکو تکلیف ہوتی ہے . باؤ ، کیسے پاسے چین نالوں بینا ئے کے نہیں ؟
ایک طرف اپ شروع کرتے ہیں ہیں بھیسوں کی سیل سے تمام لوگ خوش ہیں اور اسی سانس میں کہ دیتے ہیں کے تحریک انصاف والوں نے سہی سے پروموٹ نہیں کیا، مرو کتھے ٹکو وی
محمد علی اور زیبا کی یہ جوڑی.....گدھے ، بوڑھے اور اسکے لڑکے کی کہانی کے وہ کردار ہیں جو سامنے کھڑے ہو کر مخلتف حالتوں میں محتلف آوازیں کستے ہیں اور لاکھوں روپے اپنے اپنے چنیل سے اینھٹتے ہیں
Last edited: