دو ہزار ارب ڈالر کا معمہ
----------------------------
افغانستان میں "مدرسہ-گان" جس سرعت سے منزلوں پر منزل مار رہے ہیں اور جس رفتار سے صوبائی مراکز پکے ہوۓ پھل کی طرح یکے بعد دیگرے گر رہے ہیں، اس پیش رفت پر اکثر سیاسی پنڈت و دفاعی ماہرین حیران ہیں اور کچھ قدرے پریشان بھی
قریب 100 ارب ڈالر سے کھڑی کی گئی افغان فوج خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر رہی ہے، یوں لگتا ہے کہ ایک سراب تھا جسے دانستہ حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی گئی تھی- 2001ء میں جب امریکی طاقت کے نشے میں دھت افغان سرزمین پر اترے تو مقصد محض مدرسہ گان کا دھڑن تختہ نہیں تھا بلکہ افغانی قوم کی ازسرنو تعمیر بھی تھا- معلوم جدید انسانی تاریخ میں یہ معجزہ ہوتا کہ ایک غاصب قوت کسی قوم پر حملہ آور ہو، آگ وبارود سے دھرتی کو نہلا دے اور پھر اس زخم رسیدہ قوم کو اپنی منشاء اور تہذیبی سانچوں میں تعمیر کرے- قبائل، لسانیت اور مذہبی فرقوں میں بٹی قوم کو طاقت کے زعم اور بےبہا پیسوں کی چکاچوند سے مغربی لبرل جمہوری پٹڑی پر چڑھانا انہونی ہوتی جو ہوکر نہ رہی- خیر، خوش فہمیوں کی انتہا نہیں اور ایڈونچرازم گورے کی سرشت میں ہے
ٹی وی مباحثوں میں اس بات کی مسلسل تکرار ہو رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغان جنگ میں قریب دو ہزار ارب ڈالر جھونک دئیے- اگرچہ ان اعدادوشمار میں کسی حد تک مبالغہ آرائی ہے مگر محتاط تخمینہ بھی اگر لگایا جاۓ تو یہ نمبر ایک ہزار ارب ڈالر سے اوپر ہے- زمینی صورتحال یہ ہے کہ ان گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان میں نہ تو سڑکوں کا جال بچھا اور نہ ہی ڈیموں کی قطار لگی، انڈسٹری لگی اور نہ ہی کان کنی و زراعت کے شعبے میں انقلابی کام ہوا، صحت، تعلیم، روزگار، اور بنیادی اشیاء پہلے بھی کمیاب اجناس تھیں اور اب بھی- بیس سال اور ایک ہزار ارب جیسی خطیر رقم سے تو ایک نئی نسل کو آئی ٹی و دیگر تعلیمی شعبوں میں مسابقتی بنایا جاسکتا تھا حتیٰ کہ اس قدر زر کثیر سے اس اجڑے دیار کو سنگاپور ایسے ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کیا جا سکتا تھا- زمینی حالات مگر اس کے بالکل برعکس ہیں- ٹی وی اسکرینوں پر افغانستان کا جو منظرنامہ پیش کیا جا رہا ہے اس میں کچے مکانات ہیں اور ٹوٹی پھوٹی گڑھوں سے بھری سڑکیں، جن سے گرد اور دھول یوں اٹھتی ہے جیسے آندھی اپنے ساتھ مٹی اڑاتی ہے
سوال یہ ہے کہ آخر یہ ا تا 2 ہزار ارب ڈالر صرف کہاں ہوۓ؟
جواب کی تلاش سبھی اسٹیک ہولڈرز کو ہے- امریکی مصنفین بالخصوص محقیقن اور غیرجانبدار صحافیوں کی اس موضوع سے متعلق کتابیں پڑھیں تو اس کہاوت پر یقین ہونے لگتا ہے کہ
The Devil is in the details
اس معمے کی گھتی اس کی تفصیل میں پنہاں ہے- یہ پیاز کی وہ تہیں ہیں جسے جتنا چھلتے جائیں گے اتنی ہی آگاہی ملے گی
حوالے کے لیے چند کتابیں پیش خدمت ہیں:
معروف امریکی پروفیسر اسٹیوکول کی کتابیں
Ghost Wars-2004
Directorate S - 2018
مشہور انوسٹیگیٹیو جرنلسٹ باب ووڈ ورڈ کی
Obama´s Wars - 2010
پڑھیے
کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ (انصاف) کا ہوتا ہے- یہ بات نامکمل ہے- مکمل بات یہ ہے کہ جنگ جہاں عام انسان کے لیے تباہی اور بربادی لاتی ہے وہیں سیاستدانوں، جنرلوں، کرونیز، پراکسیز، اور ملوث کاروباریوں کے لیے دھن دولت کمانے کے مواقع لاتی ہے- افغان جنگ میں عام افغانیوں (پاکستانیوں) نے جانیں گنوائیں تو امریکی وافغانی سیاستدانوں، امریکی جرنیلوں (وپاکستانی)، افغان وار لارڈز، قبائلی سرداروں نے ڈالروں میں اشنان بھی کیے
اوباما کی پہلی صدارتی یادداشتوں پر مشتمل کتاب
A Promised Land 2020
میں چند اہم انکشافات کیے گۓ ہیں- اوباما کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی امریکہ کی افغانستان میں فوجی شکست دیوار پر لکھی تحریر کی طرح واضح دیکھائی دے رہی تھی
پہلی صدارت مدت کی ابتداء، 2009ء میں اوباما جب وائٹ ہاؤس وارد ہوۓ تو اولین ترجیحات میں فوجی جرنیلوں کو افغان اسٹریٹجی کو تبدیل کیے جانے کی ہدایت کی گئی- جنرل ملر نے منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق افغانستان میں مزید چالیس ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا جانا تھا جس کی لاجسٹک لاگت 40 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر سالانہ تھی- اوباما کی تحقیقات میں جانے اور مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج بھیجنے کے پیچھے جرنیلوں کے اپنے مالی مفادات و مراعات تھیں
دو ہزار ارب ڈالر کے کھرے اگر تلاش کرنا ہیں تو پھر سوئٹزرلینڈ، دبئی اور نیویارک کے بینک اکاؤنٹس اور بڑے مالی اداروں کے پورٹ فولیوز میں جھانکیں، جزیروں اور مہنگی رئیل اسٹیٹ کے خریداروں کے مالکان کی شناخت کریں، آف شور اکاؤنٹس کا پتہ لگوائیں، اور جنگ میں ملوث سیاسی وفوجی کرداروں کے عزیز واقارب کے اکاؤنٹس چیک کروائیں، سب کچا چٹھا کھل کر سامنے آ جاۓ گا
جنگ عام افغانی کے لیے محض بربادی لائی، ہاں کچھ کرداروں نے خوب دیہاڑیاں لگائیں اور شاید مزید لگائیں
----------------------------
افغانستان میں "مدرسہ-گان" جس سرعت سے منزلوں پر منزل مار رہے ہیں اور جس رفتار سے صوبائی مراکز پکے ہوۓ پھل کی طرح یکے بعد دیگرے گر رہے ہیں، اس پیش رفت پر اکثر سیاسی پنڈت و دفاعی ماہرین حیران ہیں اور کچھ قدرے پریشان بھی
قریب 100 ارب ڈالر سے کھڑی کی گئی افغان فوج خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر رہی ہے، یوں لگتا ہے کہ ایک سراب تھا جسے دانستہ حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی گئی تھی- 2001ء میں جب امریکی طاقت کے نشے میں دھت افغان سرزمین پر اترے تو مقصد محض مدرسہ گان کا دھڑن تختہ نہیں تھا بلکہ افغانی قوم کی ازسرنو تعمیر بھی تھا- معلوم جدید انسانی تاریخ میں یہ معجزہ ہوتا کہ ایک غاصب قوت کسی قوم پر حملہ آور ہو، آگ وبارود سے دھرتی کو نہلا دے اور پھر اس زخم رسیدہ قوم کو اپنی منشاء اور تہذیبی سانچوں میں تعمیر کرے- قبائل، لسانیت اور مذہبی فرقوں میں بٹی قوم کو طاقت کے زعم اور بےبہا پیسوں کی چکاچوند سے مغربی لبرل جمہوری پٹڑی پر چڑھانا انہونی ہوتی جو ہوکر نہ رہی- خیر، خوش فہمیوں کی انتہا نہیں اور ایڈونچرازم گورے کی سرشت میں ہے
ٹی وی مباحثوں میں اس بات کی مسلسل تکرار ہو رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغان جنگ میں قریب دو ہزار ارب ڈالر جھونک دئیے- اگرچہ ان اعدادوشمار میں کسی حد تک مبالغہ آرائی ہے مگر محتاط تخمینہ بھی اگر لگایا جاۓ تو یہ نمبر ایک ہزار ارب ڈالر سے اوپر ہے- زمینی صورتحال یہ ہے کہ ان گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان میں نہ تو سڑکوں کا جال بچھا اور نہ ہی ڈیموں کی قطار لگی، انڈسٹری لگی اور نہ ہی کان کنی و زراعت کے شعبے میں انقلابی کام ہوا، صحت، تعلیم، روزگار، اور بنیادی اشیاء پہلے بھی کمیاب اجناس تھیں اور اب بھی- بیس سال اور ایک ہزار ارب جیسی خطیر رقم سے تو ایک نئی نسل کو آئی ٹی و دیگر تعلیمی شعبوں میں مسابقتی بنایا جاسکتا تھا حتیٰ کہ اس قدر زر کثیر سے اس اجڑے دیار کو سنگاپور ایسے ترقی یافتہ شہر میں تبدیل کیا جا سکتا تھا- زمینی حالات مگر اس کے بالکل برعکس ہیں- ٹی وی اسکرینوں پر افغانستان کا جو منظرنامہ پیش کیا جا رہا ہے اس میں کچے مکانات ہیں اور ٹوٹی پھوٹی گڑھوں سے بھری سڑکیں، جن سے گرد اور دھول یوں اٹھتی ہے جیسے آندھی اپنے ساتھ مٹی اڑاتی ہے
سوال یہ ہے کہ آخر یہ ا تا 2 ہزار ارب ڈالر صرف کہاں ہوۓ؟
جواب کی تلاش سبھی اسٹیک ہولڈرز کو ہے- امریکی مصنفین بالخصوص محقیقن اور غیرجانبدار صحافیوں کی اس موضوع سے متعلق کتابیں پڑھیں تو اس کہاوت پر یقین ہونے لگتا ہے کہ
The Devil is in the details
اس معمے کی گھتی اس کی تفصیل میں پنہاں ہے- یہ پیاز کی وہ تہیں ہیں جسے جتنا چھلتے جائیں گے اتنی ہی آگاہی ملے گی
حوالے کے لیے چند کتابیں پیش خدمت ہیں:
معروف امریکی پروفیسر اسٹیوکول کی کتابیں
Ghost Wars-2004
Directorate S - 2018
مشہور انوسٹیگیٹیو جرنلسٹ باب ووڈ ورڈ کی
Obama´s Wars - 2010
پڑھیے
کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ (انصاف) کا ہوتا ہے- یہ بات نامکمل ہے- مکمل بات یہ ہے کہ جنگ جہاں عام انسان کے لیے تباہی اور بربادی لاتی ہے وہیں سیاستدانوں، جنرلوں، کرونیز، پراکسیز، اور ملوث کاروباریوں کے لیے دھن دولت کمانے کے مواقع لاتی ہے- افغان جنگ میں عام افغانیوں (پاکستانیوں) نے جانیں گنوائیں تو امریکی وافغانی سیاستدانوں، امریکی جرنیلوں (وپاکستانی)، افغان وار لارڈز، قبائلی سرداروں نے ڈالروں میں اشنان بھی کیے
اوباما کی پہلی صدارتی یادداشتوں پر مشتمل کتاب
A Promised Land 2020
میں چند اہم انکشافات کیے گۓ ہیں- اوباما کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی امریکہ کی افغانستان میں فوجی شکست دیوار پر لکھی تحریر کی طرح واضح دیکھائی دے رہی تھی
پہلی صدارت مدت کی ابتداء، 2009ء میں اوباما جب وائٹ ہاؤس وارد ہوۓ تو اولین ترجیحات میں فوجی جرنیلوں کو افغان اسٹریٹجی کو تبدیل کیے جانے کی ہدایت کی گئی- جنرل ملر نے منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق افغانستان میں مزید چالیس ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا جانا تھا جس کی لاجسٹک لاگت 40 ارب ڈالر سے 100 ارب ڈالر سالانہ تھی- اوباما کی تحقیقات میں جانے اور مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج بھیجنے کے پیچھے جرنیلوں کے اپنے مالی مفادات و مراعات تھیں
دو ہزار ارب ڈالر کے کھرے اگر تلاش کرنا ہیں تو پھر سوئٹزرلینڈ، دبئی اور نیویارک کے بینک اکاؤنٹس اور بڑے مالی اداروں کے پورٹ فولیوز میں جھانکیں، جزیروں اور مہنگی رئیل اسٹیٹ کے خریداروں کے مالکان کی شناخت کریں، آف شور اکاؤنٹس کا پتہ لگوائیں، اور جنگ میں ملوث سیاسی وفوجی کرداروں کے عزیز واقارب کے اکاؤنٹس چیک کروائیں، سب کچا چٹھا کھل کر سامنے آ جاۓ گا
جنگ عام افغانی کے لیے محض بربادی لائی، ہاں کچھ کرداروں نے خوب دیہاڑیاں لگائیں اور شاید مزید لگائیں