Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
آج جب سکول کے باہر سے گزرنے لگا، تو سکول کے باہر بچوں کو لینے کے لیئے آنے والوں کی قطار میں سے ایک آواز آئی ۔۔۔ آج کے دن تو چھٹی ہونی چاہیے تھی۔ یکلخت اس جملے سے دل کی ایک دھڑکن جیسے منجم ہو گئی۔۔۔ آج ۱۶ دسمبر ہے۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ کہنے اور سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔
لیکن یہ دھڑکن تب بھی رک سی گئی تھی، جب ایک گمنام سی خبر ایک اخبار کے ایک چھوٹے سے حصے پر نمودار ہو کر دیگر چھوٹی موٹی خبروں کی طرح کہیں گم ہوگئی تھی۔۔۔۔ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۶، جب پہلے پہل خبر آئی کہ پاکستان آرمی نے بمباری کر کے باجوڑ کے ایک گاوٗں میں کچھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا، لیکن بعد ازاں راز سے پردہ اٹھا کہ نہ تو حملہ پاکستان آرمی نے کیا تھا اور مرنے والوں میں بچوں کی تعداد ۷۰ کے قریب بتائی گئی تھی۔
یہ تاریخیں علیٰحدہ ہیں، واقعات بھی، لیکن یہ مسئلہ صرف ایک ہے۔ اور اگر دیکھیں تو ان واقعات کے محرکات بھی ایک جیسے ہی ہیں:۔ ہم نے ۲۰۰۶ میں امریکہ کے حملے کو اپنے گلے کا ہار بنایا اور ۲۰۱۴ میں بھی کسی نے ہمارے اصل دشمن کی کارکردگی پر اپنا سینا کسی کنگ کانگ کی طرح پیٹ کر اپنی وحشت کا اظہار کیا ۔ کرے کوئی، بھرے کوئی اور ناچے کوئی۔
کہتے ہیں کہ یہ گند ضیا الحق چھوڑ کر گیا، جسے ہماری قوم کے بچوں کے لہو سے اب تک دھویا جا رہا ہے۔ اب تو پاکستان کے صدور کی فہرست میں سے ضیا کا نام بھی نکال دیا گیا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ نالائقی ضیا کی نہیں تھی، اس کے بعد آنے والے کیا ستو اور دھنیئے کا عرق پی کر آئے تھے کہ جن سے اس مسئلے میں کوئی سوال نہ کیا جائے، جیسے کہ یہ انکی ذمہ داری ہی نہیں تھی۔
ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ضیا نے جہاد افغانستان میں ان قبائلیوں کو استعمال کیا اور ایک کامیاب’ فورتھ جنریشن‘ کی جنگ جیتی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اس نے ڈالروں کے لیئے کیا، لیکن آج تک کوئی ایک شخص بھی یہ نہ بتا پایا کہ ضیا کے کتنے اکاوٗنٹ اور آف شور کمپنیاں نکلیں؟ کوئی یہ نہیں بتا پایا کہ روس کیا افغانستان کی جنگ میں صرف اسی لیے شامل ہوا تھا کہ افغانستان میں ڈیرہ جما کر پاکستان کو وہاں سے خیر سگالی کے پیغامات بھیجتا رہے؟ آج ہم کیوں روتے ہیں کہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر ہمارے لیئے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں مسائل پیدا کر رہا ہے؟ کیا جہاد افغانستان کے وقت جب انڈیا اور روس کی گاڑھی چھنتی تھی، یہی مسئلہ ہمارے پیش نظر نہیں تھا؟
فورتھ جنریشن جنگوں کا ایک طریق کار ہوتا ہے، پہلے ایک ’پراکسی‘ کو تیار کیا جاتا ہے، پھر اسے جنگ میں بھیجا جاتا ہے، اور جب جنگ ختم ہو جائے تو اسے واپس روز مرہ کی زندگی میں لایا جاتا ہے، جسے ’ری ہیبلیٹیشن‘ کہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہوا یہ کہ جہاد افغانستان کے ختم ہونے کے فورا بعد ضیا الحق کے جہاز کو ’حادثہ‘ در پیش آگیا، اور اس کے فورا بعد جو عوامی حکومت آئی اس نے ضیا کے بغض میں تمام تر آرمی کی باگ ڈور میں سے ہر ایسے شخص کو نکال باہر کیا جس پر ذرا سا بھی ضیا کا سایہ کبھی پڑا ہو۔ دوسری عوامی جماعت جنھوں نے ضیا کی آستینوں میں ہی پرورش پائی تھی، انھوں نے ان ،مسلح مجاہدین کو اپنی سیاسی دہشتگردی کے لیئے آلہ کار بنایا۔ انکو ’ری ہیبلیٹیٹ‘ کرنے کے بارے میں کسی نے نہ سوچا۔ پھر نوے کی دہائی میں کس کو یہ بات نہیں معلوم رہی کہ ان علاقوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، غیر قانونی اسلحہ کی فیکٹریاں، منشیات کا کاروبار، اغوا برائے تاوان اور کیا کیا نہ تھا جو یہاں نہ ہوتا ہو۔ کبھی بجلی کا بل تک تو یہاں سے اکٹھا نہ کیا جا سکا۔ اس سے بھی بڑا کاروبار یہاں جہاد کا بن گیا۔ مجاہد بہ طور ایک جنس فروخت ہونے لگے۔
ضیا کی تو زندگی نے وفا نہ کی، لیکن اس کے بعد کے آنے والوں نے اس گند کو اتنا بڑھایا کہ یہ ایک ناسور بن گیا۔ سپریم کورٹ سے غلط فیصلے لے کر پاٹا کے علاقوں کو حکومت کی تحویل میں لے لیا گیا، اور پھر جب وہاں کے ’وار لارڈز‘ کو اپنی ملوکیت جاتی نظر آئی تو انھوں نے پھر سے ایکبار مذہب کا سہارا لیا اور تحریک نفاذ شریعت محمدی وجود میں آ گئی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد جب امریکہ بہادر افغانستان میں پدھارے تو یہ یتیم وار لارڈز اپنے آپکو طالبان کے ساتھ ملانے لگے، لیکن طالبان افغانستان نے انکو انکی حرکتوں کی وجہ سے کبھی گھانس نہیں ڈالی، اور یہ ٹی ٹی پی کا نام استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طالبان کا مقصد تو امریکی تسلط کے خلاف جنگ تھا، لیکن ان ٹی ٹی پی والوں کا مقصد وہی تھا کہ انھیں ان علاقوں میں پھر سے لوگوں کو غلام بنانے کی اجازت ہو، منشیات، اسلحہ اور مجاہدین کا کاروبار پھر سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔
ادھر امریکہ بہادر بھی نیو ورلڈ آرڈر لے کر افغانستان پہنچے تھے اور انکو یہ معلوم تھا کہ یہاں پر قدم جمانے کے لیئے اگر اٹک سے پیچھے کا علاقہ کسی طرح افغانستان کے ساتھ شامل کروا لیا جائے تو یہاں کی عوام انکو ہیرو تسلیم کر کے انکو یہاں ڈیرے ڈالنے کے لیئے خود سے ہی کہے گی۔ لہٰذا پاکستان کے ان علاقوں میں خوب آگ بھڑکائی گئی۔ ڈرون حملوں کے ذریعے یہاں عام لوگوں میں بھی پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھارا گیا، ادھر پاکستانی فوج کو ملک کی معیشت اور باقی تین صوبوں میں خلفشار سے دھمکا کر بہت ساری غلطیاں کروائی گیئں۔
کاش ہم نے اپنی ذمہ داری ۹۰ کی دہائی میں ہی سمجھ لی ہوتی اور یہ گند تب ہی صاف کر لیا ہوتا، کاش دو آنسو ہم نے ۲۰۰۶ میں بھی بہا لیئے ہوتے، تو یہ نوبت آج یہاں تک نہ پہنچتی۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ فوج کا اپنا رخ چین کی طرف موڑنا، سلالہ اور ریمنڈ ڈیوس کے واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ نہیں آجاتی اور جب تک یہ گند اپنی سرحدوں کے اندر سے صاف نہیں کیا جاتا، تب تک ہم ایسے ہی زخم کھاتے رہیں گے۔
آج دو ہفتے کی خاموشی کے بعد پھر سے ہمیں کچھ یاد کروانے کے لیئے ایل او سی پر سے ایک بچوں کی سکول وین کو نشانہ بنایا گیا۔ کیا اس سے واضع ثبوت کی ہمیں اب بھی ضرورت ہے کہ ۱۶ دسمبر ہمیں کون اور کیسے یاد کروا رہا ہے۔ کون ٹی ٹی پی کے اسلام کو دوام بخش رہا ہے اور بخشتے آیا ہے؟ کون ہمیں یہ دن ۴۵ سال پرانی تاریخ کے پس منظر میں یاد کروا رہا ہے۔ ؟ ہمارا ’دشمن‘ کون ہے؟
ضرورت اب بھی اس امر کی ہے کہ ہم سے جو غلطیاں کروائی گیئں انکا مداوا کیسے ہو؟ میں سوچتا ہوں لیکن میری سوچ مجھ تک لوٹ آتی ہے۔ میری ایک آنکھ اگر اے پی ایس کے معصوموں کے لیئے اشکبار ہوتی ہے، تو دوسری باجوڑ کے مدرسے کے معصوموں کے لیئے۔ یہ دونوں ہی میرے اپنے ہیں۔ میں کیسے یہ سب ختم کروا سکتا ہوں؟ کیا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ میری سوچ لوٹ آتی ہے مجھ تک
لیکن یہ دھڑکن تب بھی رک سی گئی تھی، جب ایک گمنام سی خبر ایک اخبار کے ایک چھوٹے سے حصے پر نمودار ہو کر دیگر چھوٹی موٹی خبروں کی طرح کہیں گم ہوگئی تھی۔۔۔۔ ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۶، جب پہلے پہل خبر آئی کہ پاکستان آرمی نے بمباری کر کے باجوڑ کے ایک گاوٗں میں کچھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا، لیکن بعد ازاں راز سے پردہ اٹھا کہ نہ تو حملہ پاکستان آرمی نے کیا تھا اور مرنے والوں میں بچوں کی تعداد ۷۰ کے قریب بتائی گئی تھی۔
یہ تاریخیں علیٰحدہ ہیں، واقعات بھی، لیکن یہ مسئلہ صرف ایک ہے۔ اور اگر دیکھیں تو ان واقعات کے محرکات بھی ایک جیسے ہی ہیں:۔ ہم نے ۲۰۰۶ میں امریکہ کے حملے کو اپنے گلے کا ہار بنایا اور ۲۰۱۴ میں بھی کسی نے ہمارے اصل دشمن کی کارکردگی پر اپنا سینا کسی کنگ کانگ کی طرح پیٹ کر اپنی وحشت کا اظہار کیا ۔ کرے کوئی، بھرے کوئی اور ناچے کوئی۔
کہتے ہیں کہ یہ گند ضیا الحق چھوڑ کر گیا، جسے ہماری قوم کے بچوں کے لہو سے اب تک دھویا جا رہا ہے۔ اب تو پاکستان کے صدور کی فہرست میں سے ضیا کا نام بھی نکال دیا گیا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ نالائقی ضیا کی نہیں تھی، اس کے بعد آنے والے کیا ستو اور دھنیئے کا عرق پی کر آئے تھے کہ جن سے اس مسئلے میں کوئی سوال نہ کیا جائے، جیسے کہ یہ انکی ذمہ داری ہی نہیں تھی۔
ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ضیا نے جہاد افغانستان میں ان قبائلیوں کو استعمال کیا اور ایک کامیاب’ فورتھ جنریشن‘ کی جنگ جیتی۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اس نے ڈالروں کے لیئے کیا، لیکن آج تک کوئی ایک شخص بھی یہ نہ بتا پایا کہ ضیا کے کتنے اکاوٗنٹ اور آف شور کمپنیاں نکلیں؟ کوئی یہ نہیں بتا پایا کہ روس کیا افغانستان کی جنگ میں صرف اسی لیے شامل ہوا تھا کہ افغانستان میں ڈیرہ جما کر پاکستان کو وہاں سے خیر سگالی کے پیغامات بھیجتا رہے؟ آج ہم کیوں روتے ہیں کہ بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر ہمارے لیئے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں مسائل پیدا کر رہا ہے؟ کیا جہاد افغانستان کے وقت جب انڈیا اور روس کی گاڑھی چھنتی تھی، یہی مسئلہ ہمارے پیش نظر نہیں تھا؟
فورتھ جنریشن جنگوں کا ایک طریق کار ہوتا ہے، پہلے ایک ’پراکسی‘ کو تیار کیا جاتا ہے، پھر اسے جنگ میں بھیجا جاتا ہے، اور جب جنگ ختم ہو جائے تو اسے واپس روز مرہ کی زندگی میں لایا جاتا ہے، جسے ’ری ہیبلیٹیشن‘ کہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہوا یہ کہ جہاد افغانستان کے ختم ہونے کے فورا بعد ضیا الحق کے جہاز کو ’حادثہ‘ در پیش آگیا، اور اس کے فورا بعد جو عوامی حکومت آئی اس نے ضیا کے بغض میں تمام تر آرمی کی باگ ڈور میں سے ہر ایسے شخص کو نکال باہر کیا جس پر ذرا سا بھی ضیا کا سایہ کبھی پڑا ہو۔ دوسری عوامی جماعت جنھوں نے ضیا کی آستینوں میں ہی پرورش پائی تھی، انھوں نے ان ،مسلح مجاہدین کو اپنی سیاسی دہشتگردی کے لیئے آلہ کار بنایا۔ انکو ’ری ہیبلیٹیٹ‘ کرنے کے بارے میں کسی نے نہ سوچا۔ پھر نوے کی دہائی میں کس کو یہ بات نہیں معلوم رہی کہ ان علاقوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، غیر قانونی اسلحہ کی فیکٹریاں، منشیات کا کاروبار، اغوا برائے تاوان اور کیا کیا نہ تھا جو یہاں نہ ہوتا ہو۔ کبھی بجلی کا بل تک تو یہاں سے اکٹھا نہ کیا جا سکا۔ اس سے بھی بڑا کاروبار یہاں جہاد کا بن گیا۔ مجاہد بہ طور ایک جنس فروخت ہونے لگے۔
ضیا کی تو زندگی نے وفا نہ کی، لیکن اس کے بعد کے آنے والوں نے اس گند کو اتنا بڑھایا کہ یہ ایک ناسور بن گیا۔ سپریم کورٹ سے غلط فیصلے لے کر پاٹا کے علاقوں کو حکومت کی تحویل میں لے لیا گیا، اور پھر جب وہاں کے ’وار لارڈز‘ کو اپنی ملوکیت جاتی نظر آئی تو انھوں نے پھر سے ایکبار مذہب کا سہارا لیا اور تحریک نفاذ شریعت محمدی وجود میں آ گئی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد جب امریکہ بہادر افغانستان میں پدھارے تو یہ یتیم وار لارڈز اپنے آپکو طالبان کے ساتھ ملانے لگے، لیکن طالبان افغانستان نے انکو انکی حرکتوں کی وجہ سے کبھی گھانس نہیں ڈالی، اور یہ ٹی ٹی پی کا نام استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طالبان کا مقصد تو امریکی تسلط کے خلاف جنگ تھا، لیکن ان ٹی ٹی پی والوں کا مقصد وہی تھا کہ انھیں ان علاقوں میں پھر سے لوگوں کو غلام بنانے کی اجازت ہو، منشیات، اسلحہ اور مجاہدین کا کاروبار پھر سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔
ادھر امریکہ بہادر بھی نیو ورلڈ آرڈر لے کر افغانستان پہنچے تھے اور انکو یہ معلوم تھا کہ یہاں پر قدم جمانے کے لیئے اگر اٹک سے پیچھے کا علاقہ کسی طرح افغانستان کے ساتھ شامل کروا لیا جائے تو یہاں کی عوام انکو ہیرو تسلیم کر کے انکو یہاں ڈیرے ڈالنے کے لیئے خود سے ہی کہے گی۔ لہٰذا پاکستان کے ان علاقوں میں خوب آگ بھڑکائی گئی۔ ڈرون حملوں کے ذریعے یہاں عام لوگوں میں بھی پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھارا گیا، ادھر پاکستانی فوج کو ملک کی معیشت اور باقی تین صوبوں میں خلفشار سے دھمکا کر بہت ساری غلطیاں کروائی گیئں۔
کاش ہم نے اپنی ذمہ داری ۹۰ کی دہائی میں ہی سمجھ لی ہوتی اور یہ گند تب ہی صاف کر لیا ہوتا، کاش دو آنسو ہم نے ۲۰۰۶ میں بھی بہا لیئے ہوتے، تو یہ نوبت آج یہاں تک نہ پہنچتی۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ فوج کا اپنا رخ چین کی طرف موڑنا، سلالہ اور ریمنڈ ڈیوس کے واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ نہیں آجاتی اور جب تک یہ گند اپنی سرحدوں کے اندر سے صاف نہیں کیا جاتا، تب تک ہم ایسے ہی زخم کھاتے رہیں گے۔
آج دو ہفتے کی خاموشی کے بعد پھر سے ہمیں کچھ یاد کروانے کے لیئے ایل او سی پر سے ایک بچوں کی سکول وین کو نشانہ بنایا گیا۔ کیا اس سے واضع ثبوت کی ہمیں اب بھی ضرورت ہے کہ ۱۶ دسمبر ہمیں کون اور کیسے یاد کروا رہا ہے۔ کون ٹی ٹی پی کے اسلام کو دوام بخش رہا ہے اور بخشتے آیا ہے؟ کون ہمیں یہ دن ۴۵ سال پرانی تاریخ کے پس منظر میں یاد کروا رہا ہے۔ ؟ ہمارا ’دشمن‘ کون ہے؟
ضرورت اب بھی اس امر کی ہے کہ ہم سے جو غلطیاں کروائی گیئں انکا مداوا کیسے ہو؟ میں سوچتا ہوں لیکن میری سوچ مجھ تک لوٹ آتی ہے۔ میری ایک آنکھ اگر اے پی ایس کے معصوموں کے لیئے اشکبار ہوتی ہے، تو دوسری باجوڑ کے مدرسے کے معصوموں کے لیئے۔ یہ دونوں ہی میرے اپنے ہیں۔ میں کیسے یہ سب ختم کروا سکتا ہوں؟ کیا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ میری سوچ لوٹ آتی ہے مجھ تک
Last edited: