دنیا بھر میں نوجوان نسل اب خبریں حاصل کرنے کے لیے روایتی ذرائع جیسے اخبارات، ریڈیو یا ٹی وی کے بجائے جدید ڈیجیٹل ذرائع، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس، کا استعمال تیزی سے بڑھا رہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق، آکسفورڈ یونیورسٹی کے رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف جرنلزم کی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خبروں تک رسائی کے لیے چیٹ بوٹس کا استعمال نمایاں طور پر بڑھا ہے۔
ادارے کی ڈائریکٹر میتالی مکھرجی کے مطابق یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ خبروں کی سرخیاں اور اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے بوٹس کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ان صحافیوں، محققین اور میڈیا اداروں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے جو میڈیا کے بدلتے رجحانات پر نظر رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اب بھی دنیا کی اکثریت خبریں پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے، جب کہ تقریباً ایک تہائی لوگ آن لائن ویڈیوز کے ذریعے خبریں حاصل کرتے ہیں، اور 15 فیصد افراد خبروں کو سننا پسند کرتے ہیں۔ نوجوان افراد، خاص طور پر امریکا میں، ویڈیوز اور آڈیو فارمیٹس کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ امریکا میں 35 سال سے کم عمر کے 50 فیصد سے زائد نوجوان سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز کو خبروں کے بنیادی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 18 سے 24 سال کے افراد میں سے 44 فیصد نے کہا کہ وہ خبریں سوشل یا ویڈیو نیٹ ورکس سے حاصل کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس جیسے ChatGPT (اوپن اے آئی)، Gemini (گوگل) اور LLaMA (میٹا) خبروں کے حصول کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مطالعے میں شامل افراد نے ان بوٹس سے حاصل ہونے والی ذاتی نوعیت کی، مختصر اور بروقت خبروں کو سراہا۔ مزید اعداد و شمار کے مطابق 27 فیصد افراد نے خبروں کا خلاصہ حاصل کرنے کے لیے اے آئی استعمال کیا، 24 فیصد نے ترجمہ کے لیے، 21 فیصد نے آرٹیکل تجاویز کے لیے، اور ہر پانچ میں سے ایک نے حالاتِ حاضرہ سے متعلق سوالات کیے۔
اگرچہ لوگ اے آئی کا استعمال پسند کر رہے ہیں، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اب بھی شفافیت، درستگی اور بھروسے سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ روایتی میڈیا سے ہٹ کر اب نوجوان طبقہ یوٹیوب، پوڈکاسٹس اور آن لائن شخصیات کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔ امریکا میں 20 فیصد نے جوئے روگن کو خبروں یا تجزیوں کے لیے سنا یا دیکھا، جب کہ 14 فیصد نے ٹوکر کارلسن کے تبصرے سنے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آن لائن شخصیات اور سیاستدانوں کو دنیا بھر میں گمراہ کن معلومات کے سب سے بڑے ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جب کہ امریکا میں سیاستدانوں کو اس حوالے سے سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔
ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور نیوز ویب سائٹس اب سوشل میڈیا کے مقابلے میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اب بھی خبروں کے لیے ایک نمایاں ذریعہ ہے۔ امریکا میں 23 فیصد افراد اب بھی ’ایکس‘ کو خبروں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے۔ آسٹریلیا اور پولینڈ جیسے ممالک میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔