خوف کے سائے میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں

allahkebande

Minister (2k+ posts)
اصل میں یہ انگلی پاکستان کے لیے جو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی صورت میں پاکستان کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے

افعانستان - ایک اور 'گریٹ گیم' کا آغاز


آپ جسے گریٹ گیم کہتے ہیں وہ افغانستان کے لوگوں کی زندگیوں کی تلخ حقیقتیں ہیں جنکا طالبان اور دیگر جنگجوؤ نے فائدہ اٹھایا ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
آپ جسے گریٹ گیم کہتے ہیں وہ افغانستان کے لوگوں کی زندگیوں کی تلخ حقیقتیں ہیں جنکا طالبان اور دیگر جنگجوؤ نے فائدہ اٹھایا ہے
آرٹیکل میں نے نہیں لکھا. یہ تلخ حقیقتیں سپر پاورز کی محاذ آرائی کا نتیجہ ہیں
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے سبب کشت وخون کا جو بازار گرم ہے، اس تناظر ميں يہ بحث کہ 80 کی دہائ ميں امريکی حکومت کے افغانستان ميں کسی مخصوص گروہ کے ساتھ کس نوعيت کے تعلقات رہے ہوں گے خاصی بے مقصد اور بے معنی ہے۔ اگر امريکہ سميت عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ نے ايک قابض فوج کے مقابلے ميں افغانستان کے عوام کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ دو دہائيوں کے بعد اسی ملک کے کچھ گروہوں اور افراد کو اس بات کا لائسنس اور کھلی چھٹی مل جانی چاہيے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی مدد کريں اور دنيا بھر ميں اپنی سوچ اور نقطہ نظر کو مسلط کرنے کے لیے بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے پھریں۔

کيا اس دليل ميں منطق کا کوئ پہلو ہے کہ چونکہ 30 برس قبل امريکہ نے دنيا کے ساتھ مل کر افغانستان پر ہونے والی جارحيت کی مذمت کی تھی اور افغان عوام کے درست موقف کی حمايت کی تھی چنانچہ اب ہميں طالبان کی سوچ اور ان کی فکر کی بھی حمايت کرنی چاہيے، وہی طالبان جنھوں نے القائدہ اور اس کی قيادت کو محفوظ ٹھکانے فراہم کيے۔ ايک ايسی تنظيم جس نے امريکہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا۔

امريکہ نے تيس
برس قبل جو کيا، اسے ہر لحاظ سے ايک درست خارجہ پاليسی قرار ديا جا سکتا ہے جسے دنيا کی تمام اہم اقوام نے درست قرار دے کر اس کی حمايت کی تھی۔ ليکن يہ نہيں بھولنا چاہیے کہ اس وقت بھی امريکی حکومت افغانستان میں مختلف افراد اور گروہوں کو براہراست کنٹرول کرنے اور ہدايات دينے کے عمل کا حصہ نہيں تھی۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے پاکستان ميں امريکہ کے سخت ترين نقاد جرنل حميد گل نے بھی تسليم کيا تھا۔

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


Opium-Afghanistan-chart.jpg

 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)



شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ اس وقت افغانستان ميں رياست کے معاملات امريکی حکومت يا سی آئ اے نہيں بلکہ افغانستان کے منتخب نمايندے چلا رہے ہيں۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ طالبان نے مقامی کسانوں سميت عام شہريوں کے خلاف اپنی دہشت اور بربريت پر مبنی مہم کے ليے ہميشہ منشيات اور ديگر مجرمانہ کاروائيوں کا سہارا ليا ہے۔

يہ بات عياں ہے کہ افغانستان ميں ان علاقوں ميں يہ وبا زيادہ پھيل رہی ہے جہاں طالبان کا اثر ورسوخ ہے، اس سے ان کے اس دعوے کی بھی قلعی کھل جاتی ہے کہ ان کی تحريک عام لوگوں کی بہتری کے ليے ہے۔

اس وقت بھی افغانستان ميں افيوم کی کاشت کی روک تھام کے ليے امريکہ، افغان حکومت، آئ ايس اے ايف، عالمی اتحادی اور منشيات سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ مل کر کام کر رہے ہيں۔

تاہم منشيات کی روک تھام سے متعلق کوششيں امريکی حکومت يا عالمی اتحاديوں کے نہيں بلکہ افغانستان کی حکومت کے ہاتھ ميں ہے۔ منشيات کو تلف کرنے يا کسی بھی دوسری کوشش کے ضمن ميں امريکی تعاون اور حمايت افغانستان حکومت کی جانب سے اتفاق راۓ پر منحصر ہے۔


اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان ميں اس کاروبار کے مکمل خاتمے کے ليے کوئ جادوئ نسخہ نہيں ہے۔ مقامی غريب کاشت کاروں اور کسانوں کو کاروبار کے متبادل زرا‏ئع مہيا کيے بغير اس مسلۓ کو ديرپا بنيادوں پر حل نہيں کيا جا سکتا۔

سال 2012 ميں اختيارات افغان حکومت کو منتقل کرنے اور اس ضمن ميں اہداف کو ملحوظ رکھتے ہوۓ منشيات کی روک تھام سے متعلق پاليسی ميں ردوبدل کيا تھا۔ اس پاليسی کے تحت منتقلی کے عمل کو "دو مساوی اور جاری ذمہ داريوں" سے تعبير کيا گيا تھا جس ميں يہ واضح کيا گيا تھا کہ نا صرف يہ کہ سيکورٹی سے متعلق معاملات بتدريج افغان عوام کے منتخب نمايندوں کے سپرد کيے جانے تھے بلکہ افغانستان ميں انسداد منشيات سے متعلق کاروائيوں کی ذمہ داری اور قوانين کے نفاذ کو يقينی بنانا بھی افغان حکومت کی ذمہ داری گردانا گيا تھا۔

يہ درست ہے کہ ہم بدستور افغان حکومت کو ہر قسم کی مدد فراہم کر رہے ہيں اور تمام متعلقہ اداروں اور شعبوں کو بھی فعال کرنے کے ليے وسائل کی فراہمی کو يقينی بنا رہے ہيں، تاہم حتمی تجزيے ميں اس معاملے سے متعلق اہم ذمہ داری اب مقامی افغان حکومت کے سر ہے۔


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)

یہ طالبان نہیں ہیں. طالبان روس کی شکست کے بعد وجود میں آئے/لائے گئے.



شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟ جہاں تک اسامہ بن لادن کا سوال ہے تو دہشت گردی کا راستہ ان کا اپنا دانستہ فيصلہ تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان سرکاری دستاويز سے ثابت ہيں جو اس فورم پر متعدد بار پوسٹ کی جا چکی ہيں۔

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس کے علاوہ يہ بھی ياد رہے کہ طالبان کا آغاز 90 کی دہائ کے وسط ميں ہوا تھا جب امريکہ کو خطے سے نکلے ہوۓ کئ برس ہو چکے تھے۔


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟ جہاں تک اسامہ بن لادن کا سوال ہے تو دہشت گردی کا راستہ ان کا اپنا دانستہ فيصلہ تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان سرکاری دستاويز سے ثابت ہيں جو اس فورم پر متعدد بار پوسٹ کی جا چکی ہيں۔

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس کے علاوہ يہ بھی ياد رہے کہ طالبان کا آغاز 90 کی دہائ کے وسط ميں ہوا تھا جب امريکہ کو خطے سے نکلے ہوۓ کئ برس ہو چکے تھے۔


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

حقیت یہ ہے کے امریکا اس وقت کی پاکستانی حکومت کے تعاون سے طالبان کو افغان-روس جنگ کے گروہوں کے متبادل کے طور پر لے کا آیا جس کا تذکرہ حامد میر کی گفتگو میں ہے. طالبان کی اٹھان کا ملبہ پاکستان پر ڈال دینا بددیانتی کا مظہر ہے

امریکہ افغانستان ٢٠٠١ میں آیا جس طرح روس اسی کی دہائی میں آیا تھا اسی طرح واپس جائے گا جس طرح روس گیا تھا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ اس وقت افغانستان ميں رياست کے معاملات امريکی حکومت يا سی آئ اے نہيں بلکہ افغانستان کے منتخب نمايندے چلا رہے ہيں۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ طالبان نے مقامی کسانوں سميت عام شہريوں کے خلاف اپنی دہشت اور بربريت پر مبنی مہم کے ليے ہميشہ منشيات اور ديگر مجرمانہ کاروائيوں کا سہارا ليا ہے۔

يہ بات عياں ہے کہ افغانستان ميں ان علاقوں ميں يہ وبا زيادہ پھيل رہی ہے جہاں طالبان کا اثر ورسوخ ہے، اس سے ان کے اس دعوے کی بھی قلعی کھل جاتی ہے کہ ان کی تحريک عام لوگوں کی بہتری کے ليے ہے۔

اس وقت بھی افغانستان ميں افيوم کی کاشت کی روک تھام کے ليے امريکہ، افغان حکومت، آئ ايس اے ايف، عالمی اتحادی اور منشيات سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ مل کر کام کر رہے ہيں۔

تاہم منشيات کی روک تھام سے متعلق کوششيں امريکی حکومت يا عالمی اتحاديوں کے نہيں بلکہ افغانستان کی حکومت کے ہاتھ ميں ہے۔ منشيات کو تلف کرنے يا کسی بھی دوسری کوشش کے ضمن ميں امريکی تعاون اور حمايت افغانستان حکومت کی جانب سے اتفاق راۓ پر منحصر ہے۔


اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان ميں اس کاروبار کے مکمل خاتمے کے ليے کوئ جادوئ نسخہ نہيں ہے۔ مقامی غريب کاشت کاروں اور کسانوں کو کاروبار کے متبادل زرا‏ئع مہيا کيے بغير اس مسلۓ کو ديرپا بنيادوں پر حل نہيں کيا جا سکتا۔

سال 2012 ميں اختيارات افغان حکومت کو منتقل کرنے اور اس ضمن ميں اہداف کو ملحوظ رکھتے ہوۓ منشيات کی روک تھام سے متعلق پاليسی ميں ردوبدل کيا تھا۔ اس پاليسی کے تحت منتقلی کے عمل کو "دو مساوی اور جاری ذمہ داريوں" سے تعبير کيا گيا تھا جس ميں يہ واضح کيا گيا تھا کہ نا صرف يہ کہ سيکورٹی سے متعلق معاملات بتدريج افغان عوام کے منتخب نمايندوں کے سپرد کيے جانے تھے بلکہ افغانستان ميں انسداد منشيات سے متعلق کاروائيوں کی ذمہ داری اور قوانين کے نفاذ کو يقينی بنانا بھی افغان حکومت کی ذمہ داری گردانا گيا تھا۔

يہ درست ہے کہ ہم بدستور افغان حکومت کو ہر قسم کی مدد فراہم کر رہے ہيں اور تمام متعلقہ اداروں اور شعبوں کو بھی فعال کرنے کے ليے وسائل کی فراہمی کو يقينی بنا رہے ہيں، تاہم حتمی تجزيے ميں اس معاملے سے متعلق اہم ذمہ داری اب مقامی افغان حکومت کے سر ہے۔


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/usdosdot_urdu

http://www.facebook.com/usdoturdu

https://www.instagram.com/doturdu/



تو یہ اعداد و شمار ۲۰۰۱ میں اور اس سے پہلے اتنی نچلی سطح پر کیوں تھے؟ تب تو افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی ہے۔ اور بعد از یہ اعداد بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب یا تو امریکہ کے دعوے کھوکھلے ہیں کہ انھوں نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے، یا پھر دوسرا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ یہ کاشت کاری امریکہ دوست افغان حکومت ہی کروا رہی ہے۔
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)

امریکہ افغانستان ٢٠٠١ میں آیا جس طرح روس اسی کی دہائی میں آیا تھا اسی طرح واپس جائے گا جس طرح روس گیا تھا

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی، پرلے درجے کی لاعلمی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آۓ ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔

اب اگر آپ 80 کی دہائ کی صورت حال کا افغانستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کريں تو يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاتے ہوۓ صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی، پرلے درجے کی لاعلمی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آۓ ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔

اب اگر آپ 80 کی دہائ کی صورت حال کا افغانستان کی موجودہ صورت حال سے موازنہ کريں تو يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں ہمارے مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لاتے ہوۓ صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/usdosdot_urdu

http://www.facebook.com/usdoturdu

https://www.instagram.com/doturdu/

دنیا کو اندازہ ہے کے مقبوضہ افواج اور ان کے بدعنوان پٹھو افغانستان کو کس قدر ترقی و کمال دے رہے ہیں نتیجتا مہاجرین افغانستان واپس جانے سے کتراتے ہیں
 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)
دنیا کو اندازہ ہے کے مقبوضہ افواج اور ان کے بدعنوان پٹھو افغانستان کو کس قدر ترقی و کمال دے رہے ہیں نتیجتا مہاجرین افغانستان واپس جانے سے کتراتے ہیں[/size]


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی افغان معاشرے کی بنيادوں کو بدلنے يا پورے ڈھانچے کو ہی ازسرنو تعمير کرنے کے ليے ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکہ ان عالمی کاوشوں ميں پيش پيش ہے جو برسا برس سے تشدد کا شکار افغان عوام کی مدد کے ليے کی جا رہی ہيں۔ تاہم ہماری فوجی مداخلت اس دہشت گرد حملے کا براہراست ردعمل تھا جو ہماری سرزمين پر کيا گيا تھا۔ اس وقت ہمارے پاس اس ضمن ميں کوئ دوسرا حل نہيں تھا سواۓ اس کے کہ مستقبل ميں ايسے حملوں کو روکنے کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھاۓ جائيں۔

ہماری تمام تر کاوشوں اور وسائل تک رسائ فراہم کرنے کے باوجود افغانستان ميں ملک کو مضبوط بنانے اور حکومت کے مختلف اداروں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ قانون پر عمل درآمد کو يقينی بنانے کی ذمہ داری افغان عوام اور ان کے منتخب نمايندوں کی ہے۔

افغان حکومت کے طويل المدت شراکت دار اور اتحادی کی حيثيت سے امريکی حکومت نے افغانستان ميں جمہوری اداروں کے استحکام کے ليے ہر ممکن قدم اٹھايا ہے۔ ملک ميں حکومت سازی کے ليے سرگرم عمل مختلف اداروں کو فعال بنانے کے ليے گزشتہ ايک دہائ کے دوران امريکی حکومت کے بے شمار ترقياتی منصوبے اور امدادی پروگرامز اس حقيقت کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ ميں نے خود اس فورم پر ايسے بے شمار منصوبوں کی تفصيل پيش کی ہے۔ يقينی طور پر مشکل معاشی حالات ميں امريکی حکومت اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ضائع کرنے کی متحمل نہيں ہو سکتی، اگر آپ کے دعوے کے مطابق ہمارا مقصد افغانستان ميں حکومتی ڈھانچے کو کمزور کر کے محض اپنی مبينہ کٹھ پتليوں کے ہاتھوں ميں اقتدار دينے تک محدود ہوتا۔

ايک جمہوری معاشرے کے حوالے سے ہماری پوزيشن بالکل واضح ہے۔ ايک آزاد ميڈيا، عدليہ اور عوام کے سامنے جوابدہ حکومت ہی مضبوط جمہوريت کا حصہ ہیں۔ ليکن ايسے قائدين کے انتخاب کا فيصلہ جو قوم کی امنگوں کے حقيقی ترجمانی کرتے ہیں، ملک کے عوام کے ہاتھوں ميں ہے


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی افغان معاشرے کی بنيادوں کو بدلنے يا پورے ڈھانچے کو ہی ازسرنو تعمير کرنے کے ليے ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکہ ان عالمی کاوشوں ميں پيش پيش ہے جو برسا برس سے تشدد کا شکار افغان عوام کی مدد کے ليے کی جا رہی ہيں۔ تاہم ہماری فوجی مداخلت اس دہشت گرد حملے کا براہراست ردعمل تھا جو ہماری سرزمين پر کيا گيا تھا۔ اس وقت ہمارے پاس اس ضمن ميں کوئ دوسرا حل نہيں تھا سواۓ اس کے کہ مستقبل ميں ايسے حملوں کو روکنے کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھاۓ جائيں۔

ہماری تمام تر کاوشوں اور وسائل تک رسائ فراہم کرنے کے باوجود افغانستان ميں ملک کو مضبوط بنانے اور حکومت کے مختلف اداروں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ قانون پر عمل درآمد کو يقينی بنانے کی ذمہ داری افغان عوام اور ان کے منتخب نمايندوں کی ہے۔

افغان حکومت کے طويل المدت شراکت دار اور اتحادی کی حيثيت سے امريکی حکومت نے افغانستان ميں جمہوری اداروں کے استحکام کے ليے ہر ممکن قدم اٹھايا ہے۔ ملک ميں حکومت سازی کے ليے سرگرم عمل مختلف اداروں کو فعال بنانے کے ليے گزشتہ ايک دہائ کے دوران امريکی حکومت کے بے شمار ترقياتی منصوبے اور امدادی پروگرامز اس حقيقت کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ ميں نے خود اس فورم پر ايسے بے شمار منصوبوں کی تفصيل پيش کی ہے۔ يقينی طور پر مشکل معاشی حالات ميں امريکی حکومت اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ضائع کرنے کی متحمل نہيں ہو سکتی، اگر آپ کے دعوے کے مطابق ہمارا مقصد افغانستان ميں حکومتی ڈھانچے کو کمزور کر کے محض اپنی مبينہ کٹھ پتليوں کے ہاتھوں ميں اقتدار دينے تک محدود ہوتا۔

ايک جمہوری معاشرے کے حوالے سے ہماری پوزيشن بالکل واضح ہے۔ ايک آزاد ميڈيا، عدليہ اور عوام کے سامنے جوابدہ حکومت ہی مضبوط جمہوريت کا حصہ ہیں۔ ليکن ايسے قائدين کے انتخاب کا فيصلہ جو قوم کی امنگوں کے حقيقی ترجمانی کرتے ہیں، ملک کے عوام کے ہاتھوں ميں ہے


شانزے خان – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/


خود ہی دعوی کرتی ہیں اور خود ہی مسترد بھی

صورتحال یہی ہے کے افغانستان ہو یا عراق دونوں ممالک میں امریکی واسرائے تعین ہیں جن کی ساری توجہ ان سے امریکی توقعات اور عوام کے جذبات میں توازن قائم کرنے پر مرکوز ہے. یعنی نوکری بھی نا جائے اور لوگ بھی ناراض نا ہوں
 

Back
Top