آج کے میچ میں جب ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی نے جیتنے کے بعد شین وارن کو کہا کہ میرا بَلّا بولتا ہے، تو کئی دوستوں نے پوچھا کہ اُس کا اس میچ سے کیا لینا دینا ۔
مندرجہ ذیل مضمون بی۔بی۔سی برطانیہ کی اردو سروس کا ہے، اتنی مار تو بنتی تھی گوروں کی اس طرح کی بےغیرتی کی۔
http://www.bbc.com/urdu/sport/2016/04/160403_wt20_final_analysis_sq
سنہ 1976 میں جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے انگلینڈ کے کپتان ٹونی گریگ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک سیریز سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کو زمین پر لٹا کر ماریں گے۔
برطانیہ کی نوآبادیاتی دور کی ظالمانہ تاریخ کے تناظر میں ٹونی گریگ کا فقرہ ویسٹ انڈیز کے لیے کسی نشتر سے کم نہیں تھا اور اس کے اثرات ان کے اندازے سے کہیں زیادہ برے نکلے۔ بعد میں ٹونی گریگ کو احساس ہوا کہ انھوں نے کس قدر غلط بات کی تھی۔ چنانچہ اس کے ازالے کے لیے سیریز کے اختتام پر بطور مذاق وہ خو میدان میں منھ کے بل لیٹ گئے اور ویسٹ انڈیز کے شائقین کے سامنے اپنے غلط فقرے کی تلافی کرنے کی کوشش کی۔سنہ 1976 کے بعد سے برسوں میں بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ان ذلت آمیز کلمات کو نہیں بھولی اور ان برسوں میں اس نے کرکٹ کی دنیا میں نہ صرف انگلینڈ کی خوب پٹائی کی بلکہ کرکٹ میں عالمی سطح پر بھی راج کیا۔یہاں تک کے اگلے 15 برس تک، بلکہ جب تک دنیا میں کرکٹ کھیلی جائے گی، لوگ ویسٹ انڈیز کو اس ٹیم کو نہیں بھولیں گے جو ان برسوں میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کر رہی تھی۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ اتفاق نہ کریں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج رات کولکتہ کے میدان میں کرکٹ کی تاریخ کا ایک تاریخ ساز لمحہ رقم ہوا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ویسٹ انڈیز نے ٹی 20 کرکٹ میں اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے انگلینڈ کو ایک ایسی شکست سے دوچار کیا جو ویسٹ انڈیز کے علاہ کوئی دوسری ٹیم نہیں کر سکتی تھی۔اس ٹورنامنٹ سے پہلے انگلینڈ کے کرکٹ کے ایک گرو مارک نکلسن نے کہا تھا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں دماغ کی کمی ہے۔ فائنل تک پہنچتے پہنچتے ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کئی مرتبہ مارک نکلسن کے نفرت انگیز بیان کا حوالہ دیا اور وہ اس سارے ٹورنامنٹ میں اس بات کو بھولے نہیں۔
آج رات ویسٹ انڈیز نے دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ساری باتیں کہ وہ کرائے کے قاتل ہیں، ان کا دماغ کام نہیں کرتا، یہ سب ان کے خلاف تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔کرکٹ کھیلنے کی عقل اور سمجھ ہمیں جو طریقہ بتاتی ہے وہ اس طریقے سے بالکل مختلف ہے جس طریقے سے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ عقل اور سمجھ سے فیصلہ کرنے میں خوف کا عنصر بھی ہمیشہ فیصلوں پر اثرا انداز ہوتا رہتا ہے۔اتنے بڑے میچ میں اتنی بڑی شاٹیں کھیلنے کا اعصاب شکن دباؤ ذہنوں کو سُن کر دینے کے لیے بہت ہوتا ہے۔ کچھ کھلاڑی اس خوف سے مبرا ہوتے ہیں، اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم مجموعی طور پر اس خوف سے آزاد ہے۔ اس وجہ سے ڈوین براوو کے ویب پر مقبول ہونے والے گانے چیمپیئن میں ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑیوں کے نام شامل ہیں۔
ٹیمیں اکثر ایک یا دو کھلاڑیوں کی کارکردگی پر میچ جیت جاتی ہیں اور ٹیم کے 11 کھلاڑیوں میں سے یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ٹیم میں حوصلے اور اعتماد کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔سوال یہ ہے کہ مستقبل میں اس میچ کو کیسے دیکھا جائے گا۔کیا مستقبل میں بھی لوگ اس طرح حیران ہوں گے جس طرح آج فائنل کے آخری اوور میں چار لگاتار چھکے لگنے سے ہوئے؟ اور کیا یہ ایک معمول بن جائے گا کہ جہاں بلے باز آ خری اوور میں اتنے زیادہ رن بنانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہوں گے؟اس سےپہلے ٹی 20 کی تاریخ میں کبھی فائنل اوور میں کسی ٹیم نے اتنے زیادہ رن بنا کر میچ نہیں جیتا۔آخر میں جو روٹ کا ذکر نہ کرنا غلط ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو روٹ ہی وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے انگلینڈ کو محدود اووروں کے کھیل میں اس کے اپنے روایتی بزدلانہ انداز سے نکالا ہے۔جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ انھوں نے آج کیا، انگلینڈ کے حصے میں شکست نہیں آنی چاہیے تھی، لیکن آج انگلینڈ کی ٹیم تاریخ کے اس بہاؤ کے سامنے بے بس نظر آئی جس پر اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔
برطانیہ کی نوآبادیاتی دور کی ظالمانہ تاریخ کے تناظر میں ٹونی گریگ کا فقرہ ویسٹ انڈیز کے لیے کسی نشتر سے کم نہیں تھا اور اس کے اثرات ان کے اندازے سے کہیں زیادہ برے نکلے۔ بعد میں ٹونی گریگ کو احساس ہوا کہ انھوں نے کس قدر غلط بات کی تھی۔ چنانچہ اس کے ازالے کے لیے سیریز کے اختتام پر بطور مذاق وہ خو میدان میں منھ کے بل لیٹ گئے اور ویسٹ انڈیز کے شائقین کے سامنے اپنے غلط فقرے کی تلافی کرنے کی کوشش کی۔سنہ 1976 کے بعد سے برسوں میں بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ان ذلت آمیز کلمات کو نہیں بھولی اور ان برسوں میں اس نے کرکٹ کی دنیا میں نہ صرف انگلینڈ کی خوب پٹائی کی بلکہ کرکٹ میں عالمی سطح پر بھی راج کیا۔یہاں تک کے اگلے 15 برس تک، بلکہ جب تک دنیا میں کرکٹ کھیلی جائے گی، لوگ ویسٹ انڈیز کو اس ٹیم کو نہیں بھولیں گے جو ان برسوں میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کر رہی تھی۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ اتفاق نہ کریں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج رات کولکتہ کے میدان میں کرکٹ کی تاریخ کا ایک تاریخ ساز لمحہ رقم ہوا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ویسٹ انڈیز نے ٹی 20 کرکٹ میں اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے انگلینڈ کو ایک ایسی شکست سے دوچار کیا جو ویسٹ انڈیز کے علاہ کوئی دوسری ٹیم نہیں کر سکتی تھی۔اس ٹورنامنٹ سے پہلے انگلینڈ کے کرکٹ کے ایک گرو مارک نکلسن نے کہا تھا کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں دماغ کی کمی ہے۔ فائنل تک پہنچتے پہنچتے ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کئی مرتبہ مارک نکلسن کے نفرت انگیز بیان کا حوالہ دیا اور وہ اس سارے ٹورنامنٹ میں اس بات کو بھولے نہیں۔
آج رات ویسٹ انڈیز نے دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ساری باتیں کہ وہ کرائے کے قاتل ہیں، ان کا دماغ کام نہیں کرتا، یہ سب ان کے خلاف تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔کرکٹ کھیلنے کی عقل اور سمجھ ہمیں جو طریقہ بتاتی ہے وہ اس طریقے سے بالکل مختلف ہے جس طریقے سے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی کرکٹ کھیلتے ہیں۔ عقل اور سمجھ سے فیصلہ کرنے میں خوف کا عنصر بھی ہمیشہ فیصلوں پر اثرا انداز ہوتا رہتا ہے۔اتنے بڑے میچ میں اتنی بڑی شاٹیں کھیلنے کا اعصاب شکن دباؤ ذہنوں کو سُن کر دینے کے لیے بہت ہوتا ہے۔ کچھ کھلاڑی اس خوف سے مبرا ہوتے ہیں، اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم مجموعی طور پر اس خوف سے آزاد ہے۔ اس وجہ سے ڈوین براوو کے ویب پر مقبول ہونے والے گانے چیمپیئن میں ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑیوں کے نام شامل ہیں۔
ٹیمیں اکثر ایک یا دو کھلاڑیوں کی کارکردگی پر میچ جیت جاتی ہیں اور ٹیم کے 11 کھلاڑیوں میں سے یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ٹیم میں حوصلے اور اعتماد کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔سوال یہ ہے کہ مستقبل میں اس میچ کو کیسے دیکھا جائے گا۔کیا مستقبل میں بھی لوگ اس طرح حیران ہوں گے جس طرح آج فائنل کے آخری اوور میں چار لگاتار چھکے لگنے سے ہوئے؟ اور کیا یہ ایک معمول بن جائے گا کہ جہاں بلے باز آ خری اوور میں اتنے زیادہ رن بنانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہوں گے؟اس سےپہلے ٹی 20 کی تاریخ میں کبھی فائنل اوور میں کسی ٹیم نے اتنے زیادہ رن بنا کر میچ نہیں جیتا۔آخر میں جو روٹ کا ذکر نہ کرنا غلط ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو روٹ ہی وہ کھلاڑی ہیں جنھوں نے انگلینڈ کو محدود اووروں کے کھیل میں اس کے اپنے روایتی بزدلانہ انداز سے نکالا ہے۔جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ انھوں نے آج کیا، انگلینڈ کے حصے میں شکست نہیں آنی چاہیے تھی، لیکن آج انگلینڈ کی ٹیم تاریخ کے اس بہاؤ کے سامنے بے بس نظر آئی جس پر اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔