ملک کا نظام تعلیم تبا ہی کی جانب گامزن کردیا گیا ہے۔عجیب کمال کے اقدامات ہیں۔کبھی کو ئی کہتا ہے کہ پرائیویٹ بڑے سکو لوں کو قومیا لءا جائے۔کبضی کو فیسوں کا رونا روتا ہے۔عجیب و غریب لا علمی کی کہانی ہے۔۔اس ملک بلکہ کراچی میں ایسے بھی سکول ہیں جہاں ماہانہ لاکھوں فیس ہے۔مگر حرام ہے کبھی ان سکولوں کے بچوں کے والدین نے شور مچایا ہو۔وہ افورڈ کر سکتے ہیں تو فیسیں دے رہے ہیں۔
مگر ادھر تو گنگا ہک الٹی بہہ رہی ہے۔بچے بھی من پسند سکو لوں میں پڑھانے ہیں اور شور بھی مچا نا ہے۔شور مچانے والوں سے کو ئی پو چھے کہ کو ئی ان کی منت تو نہیں کرتا کہ متعلقہ سکول میں بچہ داخل کرائیں۔۔فیس افورڈ نہیں کر سکتے تو اس سکول میں بچے داخل کرائیں جہاں کی فیسیں افورڈ کر سکتے ہیں۔خدارا تعلیمی نظام کو تباہ نہ کریں۔یا تو حکومت کے سکول سہولیات کے اعتبار سے اتنے معیاری ہوں جہاں والدین بچے داخل کراکے مطمعین ہوں۔۔مگر گررنمنٹ سکولوں میں تو اساتذہ کے وظیفے لگے ہیں۔رزلٹ جو مرضی آئے تنخواہ تو ملنی ہے۔مگر پرائیویٹ سیکٹر میں اہلیت دکھانا پڑتی ہے۔۔اگر حکومتی سکول معیاریتعلیم دینے کے قابل ہوں پھر بچے پرائیوٹ سکو لوں میں کءوں آئیں۔۔پرائیویٹ سکول آفیسر اور
سرکاری سکول کلرک پیدا کر رہے ہیں۔۔یہاں لوگ ایسی مثال لازمی دینگے کہ فلاں آفیسر ٹاٹ والے سرکاری سکول سے پڑھا۔۔تو جناب چیدہ چیدہ مثالیں ہر جگہ ہو تی ہیں۔۔بات اکثریت کی ہو تی ہے۔۔
اصل مسئلہ چھٹیوں کی فیسوں اور دو بہن بھائی کا اٹھیا گیا کہ دو ایک سکول میں ہوں تو فیس کم لی جائے۔گرمی کی چھٹیوں فیس نہ لی جائے تو عرض ہے کہ یہاں بہت سے ادارے ہیں جہاں گرمیوں کی چھٹیاں ہو تی ہیں۔سرکاری ملازمین چھٹیاں جاتے ہیں کیا ان کی تنخواہیں کٹتی ہیں ۔جواب ہے نہیں۔پھر دوہرا نظام کیوں۔کیا جب والدین کہیں شاپنگ کرتے ہیں۔۔ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔پی آئی اے میں سفر کرتے ہیں۔۔وہاں دو بچوں کے ناطے رعایت مانگتے ہیں۔جاب ہے نہیں۔پھر یہ لوگ تعلیم کو برباد کرنے کے درپے کیں ہیں۔کیا پرائیویٹ سکول بند ہو جائیں تو حکومت اتنے بچوں کو تعلیم دے سکتی ہے۔ایسا ممکن ہی نہیں۔پہلے ہی لا تعداد بچے سکولں سے باہر ہیں۔اور جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر کوئی تعلیم کے میدان میں خدمات سر انجام دے رہا ہے تو ہمیں اس کا شکر گزار ہو نا چاہئیے۔نہ اس اس کی آتما کو رول دیں۔میں یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ آج جو پرائیویٹ سکولوں کے خلاف آواز اُٹھ رہی ہے اس کا نقصان آج نہیں کم ازکم ایک نسل کے بعد ظاہر ہو گا۔
۔کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو اس کی نسلوں سے تعلیم جیسی نعمت چھین لیں۔۔پھر دیکھیں اس قوم کی تباہی۔۔آج جو بھی اقدام اٹے رہے ہیں اس کے دور رس نتائج دیکھیں۔۔آپ جہاں تعلیم دلواسکتے ہاں وہاں اپنے بچوں کو داخل کرائیں۔۔نظام کو تباہ نہ کریں۔۔با اختیار ادرے جانتے ہیں۔۔کچھ مخصوص سکول تمام حدود و قیود سے آزاد ہیں۔یہ ترجیحی سلوک تعلیم کو تباہ و برباد کر دے گا۔۔قانون سب کے لئے ایک ہوتا ہے۔۔پھر چوز اینڈ پِک کا نظام کیوں۔۔آخر ہم پنا مستقبل (یعنی اپنے بچے) کیوں تباہ کر رہے ہیں۔ایک اور اہم بات اگر زیادہ تنگ کیا جائے گا تو پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سکول بند کرکے اور کوئی بزنس شروع کر دینگے۔۔جب یہ سکول بند ہو نگے تو کتنی بےروزگاری پھیلے گی کیا اس کا اندازہ ہے کسی کو۔۔ملک میں جہالت کا دور آجائے گا۔۔آج بھی کسی سرکاری سکول میں بچہ داخل کرانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سرکاری نوکری حاصل کرنا۔میرا مقصد ادھر کسی کی وکالت کرنا نہیں مگر بحثیت صحافی ہماری نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔۔باخبر ہوتے ہیں ہم لوگ۔بر وقت آگاہی کرانے سے قومیں بڑے نقصانات سےبچ جاتی ہیں۔۔خدارا نظام کو تباہ نہ کریں۔۔آج کا نام نہاد معمولی فائدہ کل کا نا قابل تلافی نقصان بن سکتا ہے
مگر ادھر تو گنگا ہک الٹی بہہ رہی ہے۔بچے بھی من پسند سکو لوں میں پڑھانے ہیں اور شور بھی مچا نا ہے۔شور مچانے والوں سے کو ئی پو چھے کہ کو ئی ان کی منت تو نہیں کرتا کہ متعلقہ سکول میں بچہ داخل کرائیں۔۔فیس افورڈ نہیں کر سکتے تو اس سکول میں بچے داخل کرائیں جہاں کی فیسیں افورڈ کر سکتے ہیں۔خدارا تعلیمی نظام کو تباہ نہ کریں۔یا تو حکومت کے سکول سہولیات کے اعتبار سے اتنے معیاری ہوں جہاں والدین بچے داخل کراکے مطمعین ہوں۔۔مگر گررنمنٹ سکولوں میں تو اساتذہ کے وظیفے لگے ہیں۔رزلٹ جو مرضی آئے تنخواہ تو ملنی ہے۔مگر پرائیویٹ سیکٹر میں اہلیت دکھانا پڑتی ہے۔۔اگر حکومتی سکول معیاریتعلیم دینے کے قابل ہوں پھر بچے پرائیوٹ سکو لوں میں کءوں آئیں۔۔پرائیویٹ سکول آفیسر اور
سرکاری سکول کلرک پیدا کر رہے ہیں۔۔یہاں لوگ ایسی مثال لازمی دینگے کہ فلاں آفیسر ٹاٹ والے سرکاری سکول سے پڑھا۔۔تو جناب چیدہ چیدہ مثالیں ہر جگہ ہو تی ہیں۔۔بات اکثریت کی ہو تی ہے۔۔
اصل مسئلہ چھٹیوں کی فیسوں اور دو بہن بھائی کا اٹھیا گیا کہ دو ایک سکول میں ہوں تو فیس کم لی جائے۔گرمی کی چھٹیوں فیس نہ لی جائے تو عرض ہے کہ یہاں بہت سے ادارے ہیں جہاں گرمیوں کی چھٹیاں ہو تی ہیں۔سرکاری ملازمین چھٹیاں جاتے ہیں کیا ان کی تنخواہیں کٹتی ہیں ۔جواب ہے نہیں۔پھر دوہرا نظام کیوں۔کیا جب والدین کہیں شاپنگ کرتے ہیں۔۔ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔پی آئی اے میں سفر کرتے ہیں۔۔وہاں دو بچوں کے ناطے رعایت مانگتے ہیں۔جاب ہے نہیں۔پھر یہ لوگ تعلیم کو برباد کرنے کے درپے کیں ہیں۔کیا پرائیویٹ سکول بند ہو جائیں تو حکومت اتنے بچوں کو تعلیم دے سکتی ہے۔ایسا ممکن ہی نہیں۔پہلے ہی لا تعداد بچے سکولں سے باہر ہیں۔اور جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر کوئی تعلیم کے میدان میں خدمات سر انجام دے رہا ہے تو ہمیں اس کا شکر گزار ہو نا چاہئیے۔نہ اس اس کی آتما کو رول دیں۔میں یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ آج جو پرائیویٹ سکولوں کے خلاف آواز اُٹھ رہی ہے اس کا نقصان آج نہیں کم ازکم ایک نسل کے بعد ظاہر ہو گا۔
۔کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو اس کی نسلوں سے تعلیم جیسی نعمت چھین لیں۔۔پھر دیکھیں اس قوم کی تباہی۔۔آج جو بھی اقدام اٹے رہے ہیں اس کے دور رس نتائج دیکھیں۔۔آپ جہاں تعلیم دلواسکتے ہاں وہاں اپنے بچوں کو داخل کرائیں۔۔نظام کو تباہ نہ کریں۔۔با اختیار ادرے جانتے ہیں۔۔کچھ مخصوص سکول تمام حدود و قیود سے آزاد ہیں۔یہ ترجیحی سلوک تعلیم کو تباہ و برباد کر دے گا۔۔قانون سب کے لئے ایک ہوتا ہے۔۔پھر چوز اینڈ پِک کا نظام کیوں۔۔آخر ہم پنا مستقبل (یعنی اپنے بچے) کیوں تباہ کر رہے ہیں۔ایک اور اہم بات اگر زیادہ تنگ کیا جائے گا تو پرائیویٹ سکولوں کے مالکان سکول بند کرکے اور کوئی بزنس شروع کر دینگے۔۔جب یہ سکول بند ہو نگے تو کتنی بےروزگاری پھیلے گی کیا اس کا اندازہ ہے کسی کو۔۔ملک میں جہالت کا دور آجائے گا۔۔آج بھی کسی سرکاری سکول میں بچہ داخل کرانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سرکاری نوکری حاصل کرنا۔میرا مقصد ادھر کسی کی وکالت کرنا نہیں مگر بحثیت صحافی ہماری نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔۔باخبر ہوتے ہیں ہم لوگ۔بر وقت آگاہی کرانے سے قومیں بڑے نقصانات سےبچ جاتی ہیں۔۔خدارا نظام کو تباہ نہ کریں۔۔آج کا نام نہاد معمولی فائدہ کل کا نا قابل تلافی نقصان بن سکتا ہے