خدائی کے دعویداروں کا فیصلہ ہے کہ خان کو نومبر سے پہلےراستے سے ہٹانا ہے

News_Icon

Chief Minister (5k+ posts)


https://twitter.com/x/status/1767607584167514259
۹ اپریل ۲۰۲۲ کی رات کو شروع ہونے والا تماشہ ۹ فروری ۲۰۲۴ کو ختم نہیں ہونا تھا اور نا یہ ایسے ختم ہوگا۔
عمران خان کو جن کی ایما پر ہٹایا گیا تھا انہیں اُس کی واپسی قبول نہیں ہے، چاہے اُس کے لیے ۲۴ کروڑ کے ملک کو آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس بات کا ادراک ہمیں ۹ اپریل کی رات کو ہی تھا، ۹ فروری کے بعد صرف ہمارے خدشات پر ایک اور تصدیقی مہر ثبت ہوئ ہے۔ امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ بولنا، یوکرائن جنگ میں یورپی یونین کی ہم نوائی نا کرنا، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار اور ہندوستان کی اجارہ داری کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا عمران خان کے وہ جرائم ہیں جو بیرونی طاقتوں کے لیے تو نا قابلِ قبول ہیں ہی مگر ان کے اندرونی مہروں کی بقا بھی اسی میں ہے کہ عمران خان نام کی کوئی تلوار اُن کی بیش بہا اور آئین و قانون سے مبرا طاقت پر نا لٹکتی رہے۔

دو سال کی بدترین فسطائیت اسی امید پر تھی کہ عمران خان پیچھے ہٹ جائے یا یہ عوام تھک جائے۔ اس
دوران یہ کوشش بھی مستقل جاری رہی کہ عمران خان نام کا کانٹا ہی نکال دیا جائے، ایک بار نہیں کئی کئی بار عمران خان پر حملہ کیا گیا اور اب جب سے عمران خان کو پابندِ سلاسل کیا گیا ہے ہر ایک لمحہ اسی مقصد پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی میں صرف ہورہا ہے۔ میں متعدد بار یہ اشارہ دے چکا ہوں اور اب مزید واضح کررہا ہوں اس ملک پر قابض خدائی کے دعویداروں کا فیصلہ ہے کہ عمران خان کو نومبر سے پہلے پہلے راستے سے ہٹانا ہے۔

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس ذات نے آج تک عمران خان کی زندگی کی حفاظت کی ہے وہ انشاء اللہ آگے بھی کریگی مگر عین ممکن ہے کہ ۱۸ مارچ ۲۰۲۳ کی طرح اس مرتبہ بھی وسیلہ اللہ نے اُس کی قوم کو بنانا لکھا ہو اور یہ کوشش ہم پر فرض اس لیے بھی ہے کہ عمران خان کی زندگی کی ضرورت عمران خان کو نہیں ہے،عمران خان کی قوم کو ہے؛ ہمیں ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ ہم اپنی طاقتیں مجتمع کریں اور منظم ہو کر میدان میں اتریں۔ اُن کے پاس اگر ہتھیار اور اختیار ہے تو ہمارے پاس تقریر، تحریر اور قلبِ جرار ہے۔ حق پر ہونے کا اعزاز ہے۔

اس وقت مقتدرہ متعدد منصوبوں پر کاربند ہے۔
ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، عمران خان کے سائے تک سے نجات پانا۔ اس کے لیے اڈیالہ پر دہشت گرد حملوں اور سیکیوریٹی رسک کا ڈرامہ بھی رچایا گیا، مذہبی جنونیت اور جیل میں قیدیوں کی لڑائی کے قصے بھی پھیلائے گئے، ُان کی صحت کے حوالے سے پہلے ہی بی بی کو دھمکی دی گئی تھی، عمران خان کو بنی گالہ منتقل کرنے کے بابت بھی غوروخوض ہوا۔ بنی گالہ میں بشری بی بی سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے اور اُن کی منتقلی پر کیسی خبریں چلائی گئیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بہر صورت خان کو نقصان پہنچانے کی ذمہ دار وہی قوتیں ہوں گی کہ جو عدالتوں کے فیصلوں کو روند کر اُن سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کرنے پر قادر ہیں۔

ان تمام امکانات اور چند دیگر حقائق کہ جن کا ذکر فی الوقت مناسب نہیں ہے کی بنا پر درج ذیل نکات الیکشن کے فوراً بعد ہی قیادت اور اوور سیز نمائندگان تک پہنچا چکا ہوں اور اب چونکہ آپ کو حالات کی سنگینی کا درست اندازہ ہوچکا ہے اس لیے اپنی قوم کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔

ہمیں اس وقت مکمل فوکس اور یک جہتی سے عمران خان کی آواز بننا ہے۔ جہاں قومی اسمبلی میں مستقل عمران خان کی رہائی کی آواز کی گونج کم نہیں ہونی چاہئے وہیں اپنے مینڈیٹ کی واپسی کا علم عدالتوں، میڈیا اور سڑکوں پر اونچا لہرانا ہے۔


۱- عمران خان کی تصویر لیکر پروگراموں میں شرکت کریں جس چینل یا اینکر کو اس عمل پر اعتراض ہے اُس پروگرام میں ہی نا جائیں۔ عمران خان، بشری بی بی، شاہ محمود قریشی سمیت غیر قانونی طور پر پابندِ سلاسل کارکنان اور صحافیوں کی رہائی کے مطالبے سے بات کا آغاز کریں۔ میڈیا اپنی تمام تر مجبوریوں کی باوجود آپ کے وجود کی نفی نہیں کرسکتا کیونکہ آپ اس ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔

دو سال سے جس فسطائیت کا سامنا یہ قوم کر رہی ہے اس پر “ہیلنگ ٹچ” صرف انصاف کی صورت میں لگ سکتا ہے۔ انصاف کا پہلا مرحلہ قوم کے مینڈیٹ کی واپسی ہے۔ اُس سے کم پر آمادگی کا اظہار کرکے اپنے مقصد کو کمزور نا کریں یہ قوم کی قربانیوں کی توہین ہے۔

۲- سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، تحریک کے کارکنان، آفیشل اکاؤنٹس روزمرہ کے معاملات کے ساتھ اپنا فوکس مینڈیٹ کی واپسی اور عمران خان، پارٹی لیڈران اور کارکنان کی رہائی پر ایسے رکھیں جیسے آپ کی زندگی اِس پر منحصر ہو۔ کوئی بھی ذاتی بیانات، اختلافات، بیان در بیان اور آراء آپ کو یہ نہ بُھلا پائیں کہ یہ جنگ آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ آپ کو شاید آج اندازہ نہ ہورہا ہو لیکن آپ کی زندگی واقعی ان دو عوامل پر منحصر ہے، یقین نہیں آتا تو اُن قوموں کو دیکھ لیں جن کی شہ رگ میں فسطائیت پنجے گاڑ چکی ہیں، آپ کو اُن کے چہروں پر زندگی کی شاذ ہی کوئی رمق دکھائی دے گی۔

۳۔ جہاں ظلم کے اندھیرے گہرے ہونے کے عندیے دیے جارہے ہیں لازم ہے کہ ہم اتنے ہی دیے روشن کریں۔ جو لکھ سکتا ہے لکھے۔ جو بول سکتا ہے بولے۔ جس کی احتجاج کی سکت ہے وہ اُن میں شرکت کرے۔ لیکن جس تحمل کے ساتھ یہ عمل آپ دو سال سے جاری رکھے ہیں اُس صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ مدمقابل سفاک بھی ہے اور بے غیرت بھی۔ وہ اپنی کاروائیوں کا الزام آپ پر دھر کر آپ کے لیڈر کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے ہوش اور فوکس۔


۴- جو بیرون ملک ہیں وہ دنیا کو جگائیں۔ یاد رکھیں جمہوری معاشروں میں حکومتیں عوام کو جوبداہ ہوتی ہیں وہ ایک حد تک ہی اِن کے جبر اور غیر آئینی اقدامات سے چشم پوشی کرسکتی ہیں۔ آپ کے پروگرامز ، احتجاج، سوشل میڈیا پر آپ کی تحریکیں پرزور ہونی چاہئیے۔ یاد رکھیں عمران خان آپ کا وقار ہے۔ دنیا میں آپ کی عزت کا ضامن ہے۔ جن محفلوں میں آپ پر دہشت گردی کے لیبل لگتے رہے وہاں وہ آپ کا مقدمہ لڑا ہے۔ وہ جو کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکا تھا فقط آپ کے حق کے لیے سوالی بنا ہے۔

۵- سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری اس وقت وکلاء پر ہے۔ وکلاء قیادت بار کونسلز کے ذریعے عدلیہ کو جھنجھوڑیں ملک میں دو سال سے جو آئین و قانون کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے اُس پر شور مچائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اُن روگردانیوں سے آگاہ کریں کہ جن کے زریعے ۲۴ کروڑ کے ملک کو یرغمال بنایا گیا ہے۔

۶- قیادت کے مطابق وہ جلد ہی گذشتہ ہفتہ کی ملاقاتوں اور تنظیموں سے مشاورت کے مطابق لائحہ عمل کا اعلان کریگی۔ میں اس تناظر میں اپنے یوتھ، آئ ایس ایف، ٹرانسپورٹرز اور ٹریڈرز تنظیموں اور وی سی تنظیموں جو کہ صرف پختونخواہ میں ۷۰،۰۰۰ عہدیدار بنتے ہیں سے اپیل کرتا ہوں کہ آج رات سے ہی اپنی تیاری کرلیں۔ کسی بھی اعلان اور پر امن تحریک کے آغاز میں آپ کا کلیدی کردار ہوگا۔


میں ایک مرتبہ پھر دہرا دوں مدمقابل سفاک بھی ہے اور بے غیرت بھی وہ آپ ہی کو آپ کے خلاف استعمال کریگا۔ ہمیں ہر قدم یہ سوچ کر اٹھانا ہے کہ ہمارے سامنے مقصد بہت بڑا ہے۔ ہمیں ان بیرونی طاقتوں کے آلہ کاروں، خدائی کے دعویداروں سے اپنے لیڈر کی زندگی، اپنا مینڈیٹ اور اپنا ملک تینوں بچانے ہیں۔

ان کی طاقت کا دار ومدار آپ کی خاموشی پر ہے۔ ان کی امید آپ کے حوصلے ٹوٹنے سے وابستہ ہے، آپ کے اونچے سر۔ آپ کی محکم آوازیں۔ آپ کی جمے قدم ان کے پیروں تلے سے زمیں سرکا رہے ہیں یاد رکھیں آپ وہی قوم ہیں جو ۱۵ اور ۱۸ مارچ کو عمران خان کی ڈھال بنی تھی آپ متحد تھے، فوکسڈ تھے تو قدرت نے بھی آپ کی مدد کی تھی۔ دل نہیں چھوڑنا آپ کے خدا کو آج بھی کوئ شراکت نہیں۔
 
Last edited by a moderator:

abdlsy

Prime Minister (20k+ posts)


https://twitter.com/x/status/1767607584167514259
۹ اپریل ۲۰۲۲ کی رات کو شروع ہونے والا تماشہ ۹ فروری ۲۰۲۴ کو ختم نہیں ہونا تھا اور نا یہ ایسے ختم ہوگا۔ عمران خان کو جن کی ایما پر ہٹایا گیا تھا انہیں اُس کی واپسی قبول نہیں ہے، چاہے اُس کے لیے ۲۴ کروڑ کے ملک کو آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس بات کا ادراک ہمیں ۹ اپریل کی رات کو ہی تھا، ۹ فروری کے بعد صرف ہمارے خدشات پر ایک اور تصدیقی مہر ثبت ہوئ ہے۔ امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ بولنا، یوکرائن جنگ میں یورپی یونین کی ہم نوائی نا کرنا، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار اور ہندوستان کی اجارہ داری کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا عمران خان کے وہ جرائم ہیں جو بیرونی طاقتوں کے لیے تو نا قابلِ قبول ہیں ہی مگر ان کے اندرونی مہروں کی بقا بھی اسی میں ہے کہ عمران خان نام کی کوئی تلوار اُن کی بیش بہا اور آئین و قانون سے مبرا طاقت پر نا لٹکتی رہے۔

دو سال کی بدترین فسطائیت اسی امید پر تھی کہ عمران خان پیچھے ہٹ جائے یا یہ عوام تھک جائے۔ اس دوران یہ کوشش بھی مستقل جاری رہی کہ عمران خان نام کا کانٹا ہی نکال دیا جائے، ایک بار نہیں کئی کئی بار عمران خان پر حملہ کیا گیا اور اب جب سے عمران خان کو پابندِ سلاسل کیا گیا ہے ہر ایک لمحہ اسی مقصد پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی میں صرف ہورہا ہے۔ میں متعدد بار یہ اشارہ دے چکا ہوں اور اب مزید واضح کررہا ہوں اس ملک پر قابض خدائی کے دعویداروں کا فیصلہ ہے کہ عمران خان کو نومبر سے پہلے پہلے راستے سے ہٹانا ہے۔

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس ذات نے آج تک عمران خان کی زندگی کی حفاظت کی ہے وہ انشاء اللہ آگے بھی کریگی مگر عین ممکن ہے کہ ۱۸ مارچ ۲۰۲۳ کی طرح اس مرتبہ بھی وسیلہ اللہ نے اُس کی قوم کو بنانا لکھا ہو اور یہ کوشش ہم پر فرض اس لیے بھی ہے کہ عمران خان کی زندگی کی ضرورت عمران خان کو نہیں ہے،عمران خان کی قوم کو ہے؛ ہمیں ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ ہم اپنی طاقتیں مجتمع کریں اور منظم ہو کر میدان میں اتریں۔ اُن کے پاس اگر ہتھیار اور اختیار ہے تو ہمارے پاس تقریر، تحریر اور قلبِ جرار ہے۔ حق پر ہونے کا اعزاز ہے۔

اس وقت مقتدرہ متعدد منصوبوں پر کاربند ہے۔ ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، عمران خان کے سائے تک سے نجات پانا۔ اس کے لیے اڈیالہ پر دہشت گرد حملوں اور سیکیوریٹی رسک کا ڈرامہ بھی رچایا گیا، مذہبی جنونیت اور جیل میں قیدیوں کی لڑائی کے قصے بھی پھیلائے گئے، ُان کی صحت کے حوالے سے پہلے ہی بی بی کو دھمکی دی گئی تھی، عمران خان کو بنی گالہ منتقل کرنے کے بابت بھی غوروخوض ہوا۔ بنی گالہ میں بشری بی بی سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے اور اُن کی منتقلی پر کیسی خبریں چلائی گئیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بہر صورت خان کو نقصان پہنچانے کی ذمہ دار وہی قوتیں ہوں گی کہ جو عدالتوں کے فیصلوں کو روند کر اُن سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کرنے پر قادر ہیں۔

ان تمام امکانات اور چند دیگر حقائق کہ جن کا ذکر فی الوقت مناسب نہیں ہے کی بنا پر درج ذیل نکات الیکشن کے فوراً بعد ہی قیادت اور اوور سیز نمائندگان تک پہنچا چکا ہوں اور اب چونکہ آپ کو حالات کی سنگینی کا درست اندازہ ہوچکا ہے اس لیے اپنی قوم کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔

ہمیں اس وقت مکمل فوکس اور یک جہتی سے عمران خان کی آواز بننا ہے۔ جہاں قومی اسمبلی میں مستقل عمران خان کی رہائی کی آواز کی گونج کم نہیں ہونی چاہئے وہیں اپنے مینڈیٹ کی واپسی کا علم عدالتوں، میڈیا اور سڑکوں پر اونچا لہرانا ہے۔

۱- عمران خان کی تصویر لیکر پروگراموں میں شرکت کریں جس چینل یا اینکر کو اس عمل پر اعتراض ہے اُس پروگرام میں ہی نا جائیں۔ عمران خان، بشری بی بی، شاہ محمود قریشی سمیت غیر قانونی طور پر پابندِ سلاسل کارکنان اور صحافیوں کی رہائی کے مطالبے سے بات کا آغاز کریں۔ میڈیا اپنی تمام تر مجبوریوں کی باوجود آپ کے وجود کی نفی نہیں کرسکتا کیونکہ آپ اس ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔

دو سال سے جس فسطائیت کا سامنا یہ قوم کر رہی ہے اس پر “ہیلنگ ٹچ” صرف انصاف کی صورت میں لگ سکتا ہے۔ انصاف کا پہلا مرحلہ قوم کے مینڈیٹ کی واپسی ہے۔ اُس سے کم پر آمادگی کا اظہار کرکے اپنے مقصد کو کمزور نا کریں یہ قوم کی قربانیوں کی توہین ہے۔

۲- سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، تحریک کے کارکنان، آفیشل اکاؤنٹس روزمرہ کے معاملات کے ساتھ اپنا فوکس مینڈیٹ کی واپسی اور عمران خان، پارٹی لیڈران اور کارکنان کی رہائی پر ایسے رکھیں جیسے آپ کی زندگی اِس پر منحصر ہو۔ کوئی بھی ذاتی بیانات، اختلافات، بیان در بیان اور آراء آپ کو یہ نہ بُھلا پائیں کہ یہ جنگ آپ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ آپ کو شاید آج اندازہ نہ ہورہا ہو لیکن آپ کی زندگی واقعی ان دو عوامل پر منحصر ہے، یقین نہیں آتا تو اُن قوموں کو دیکھ لیں جن کی شہ رگ میں فسطائیت پنجے گاڑ چکی ہیں، آپ کو اُن کے چہروں پر زندگی کی شاذ ہی کوئی رمق دکھائی دے گی۔

۳۔ جہاں ظلم کے اندھیرے گہرے ہونے کے عندیے دیے جارہے ہیں لازم ہے کہ ہم اتنے ہی دیے روشن کریں۔ جو لکھ سکتا ہے لکھے۔ جو بول سکتا ہے بولے۔ جس کی احتجاج کی سکت ہے وہ اُن میں شرکت کرے۔ لیکن جس تحمل کے ساتھ یہ عمل آپ دو سال سے جاری رکھے ہیں اُس صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ مدمقابل سفاک بھی ہے اور بے غیرت بھی۔ وہ اپنی کاروائیوں کا الزام آپ پر دھر کر آپ کے لیڈر کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے ہوش اور فوکس۔

۴- جو بیرون ملک ہیں وہ دنیا کو جگائیں۔ یاد رکھیں جمہوری معاشروں میں حکومتیں عوام کو جوبداہ ہوتی ہیں وہ ایک حد تک ہی اِن کے جبر اور غیر آئینی اقدامات سے چشم پوشی کرسکتی ہیں۔ آپ کے پروگرامز ، احتجاج، سوشل میڈیا پر آپ کی تحریکیں پرزور ہونی چاہئیے۔ یاد رکھیں عمران خان آپ کا وقار ہے۔ دنیا میں آپ کی عزت کا ضامن ہے۔ جن محفلوں میں آپ پر دہشت گردی کے لیبل لگتے رہے وہاں وہ آپ کا مقدمہ لڑا ہے۔ وہ جو کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکا تھا فقط آپ کے حق کے لیے سوالی بنا ہے۔

۵- سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری اس وقت وکلاء پر ہے۔ وکلاء قیادت بار کونسلز کے ذریعے عدلیہ کو جھنجھوڑیں ملک میں دو سال سے جو آئین و قانون کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے اُس پر شور مچائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اُن روگردانیوں سے آگاہ کریں کہ جن کے زریعے ۲۴ کروڑ کے ملک کو یرغمال بنایا گیا ہے۔

۶- قیادت کے مطابق وہ جلد ہی گذشتہ ہفتہ کی ملاقاتوں اور تنظیموں سے مشاورت کے مطابق لائحہ عمل کا اعلان کریگی۔ میں اس تناظر میں اپنے یوتھ، آئ ایس ایف، ٹرانسپورٹرز اور ٹریڈرز تنظیموں اور وی سی تنظیموں جو کہ صرف پختونخواہ میں ۷۰،۰۰۰ عہدیدار بنتے ہیں سے اپیل کرتا ہوں کہ آج رات سے ہی اپنی تیاری کرلیں۔ کسی بھی اعلان اور پر امن تحریک کے آغاز میں آپ کا کلیدی کردار ہوگا۔

میں ایک مرتبہ پھر دہرا دوں مدمقابل سفاک بھی ہے اور بے غیرت بھی وہ آپ ہی کو آپ کے خلاف استعمال کریگا۔ ہمیں ہر قدم یہ سوچ کر اٹھانا ہے کہ ہمارے سامنے مقصد بہت بڑا ہے۔ ہمیں ان بیرونی طاقتوں کے آلہ کاروں، خدائی کے دعویداروں سے اپنے لیڈر کی زندگی، اپنا مینڈیٹ اور اپنا ملک تینوں بچانے ہیں۔

ان کی طاقت کا دار ومدار آپ کی خاموشی پر ہے۔ ان کی امید آپ کے حوصلے ٹوٹنے سے وابستہ ہے، آپ کے اونچے سر۔ آپ کی محکم آوازیں۔ آپ کی جمے قدم ان کے پیروں تلے سے زمیں سرکا رہے ہیں یاد رکھیں آپ وہی قوم ہیں جو ۱۵ اور ۱۸ مارچ کو عمران خان کی ڈھال بنی تھی آپ متحد تھے، فوکسڈ تھے تو قدرت نے بھی آپ کی مدد کی تھی۔ دل نہیں چھوڑنا آپ کے خدا کو آج بھی کوئ شراکت نہیں۔
nobody civilians with families is that brave enough to face tanks and helicopters,

joe brave orr nidurr like mashallah IK n others thae woe jail mein n tortured with JALEE cases,


its not easy against fully armed authorities, what do you think?

iss leae full mafia budmashi, seems company agencies etc were expensively trained not for border war but fully used against civilians

so they can loot abuse Pakistan

WITH NO FEAR AND STEAL EVERYTHING

N THEY DONT CARE ABOUT LOWER LEVEL SEEPAHEES OR POLICE OR JUDGES OR POLITICIANS


AIK POOREE EVIL TOELEE IBLEESES ONLY 50 MUSTANDAE ARAAM SAE LOOT RAHAE HEIN

AIK RETIRE HOETAA HAE EXTENSION LAETA HAE

ORR DOOSRAA READY TO LOOT

ONCE HE JOINS 50 ELITE RULERS OF PAKISTAN GOOD FOOD GOOD REAL ESTATE MONEY UNLIMITED

ADD MORE NICE COLORED MEDALS ON CHEST EVERY FEW MONTHS FOR BRILLIANT BRAVE LOOTINGS

LUCKY FEW OF 50 GET A BAMBOO STICK FOR WHAT ALLAH KNOWS MAYBE THEIR WIFE USE IT TO STICK IN THEIR ASSES WHEN THEY CHEAT ORR GET DRUNK

TONS OF COMMISIONS ON DOLLAR LAUNDERING, SMUGGLING HUMAN TRAFFICKING ALL BORDERS

THERE NAALAEQ SHAETAAN KIDS SHIPPED ALL TO OVERSEAS FOR FULLY PAID LIVING

N ON N ON APNAE HEE PAKISTANI MUSALMAN 🤣 🤣
 

ranaji

President (40k+ posts)
عون چودری کے ہاتھ میں جو ہنر ہے وہ ہیرا منڈی چکلے کوٹھے کے ہر کنجر دلے اور بھڑوے کے ہاتھ میں ہوتا ہے
عون چودری کے بارے میں انکے اپنے وزیر عطاتارڑ باندر نے بتایا تھا کہ یہ عون چودری چند کرپٹ زانی شرابی حرامی جرنیلوں اور سیاتدانوں کو گشتیاں اور منشیات سپلائی کرتا ہے تو اگر عون چودری کیکڑے کئ شکل والا ٹیڑھے میڑھے بوتھے والا یہ گشتئ سپلائر منشیات فروش عون چودری پھر دوبارہ فل ٹائم دلا بھڑوا کنجر اور گشتی سپلائر منشیات فروشی کرے گا
 

Sach Bolo

Senator (1k+ posts)
he forgot to mention the year 🤪🤣😜

this is probably the 17th time Khan has been declared to be almost dead in hope to bring around 20,000 broiler chickens out on streets 🤣

last time they gave a call Sanam Javed came out dumping her infant son at home to "enjoy" defending Khan outside Bani Gala on dark rainy cold December night with bunch of men 🤪