آج مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں مولوی خادم رضوی کا جنازہ پڑھایا گیا۔۔ اتنا بڑا جنازہ شاید ہی پاکستانی تاریخ میں کسی کا ہو۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے شرکت کی کہ نہ صرف مینارِ پاکستان کا گراؤنڈ بھر گیا، بلکہ اردگرد کا علاقہ دور دور تک لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنی تقریروں کے ذریعے صرف اور صرف تشدد اور نفرت کا سبق دیا، جس کی گفتگو میں گالم گلوچ کی بھرمار ہوتی تھی، اورجس نے چند ہی سال میں اس ملک میں ایسی فضاء قائم کردی کہ توہینِ رسالت کے نام پر قتل کرنا، مقدمے درج کرانا عام ہوگیا، ایسے شخص کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کا اس قدر والہانہ محبت کا اظہار اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ نظریاتی طور پر مولوی خادم رضوی پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتا رہا۔ بہ الفاظِ دیگر پاکستانی قوم اسی متشدد سوچ کی حامل ہے جس کا پرچار مولوی خادم رضوی کرتا رہا۔ ممتاز قادری کے جنازے میں بھی قوم نے اسی جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا۔ اس متشددانہ رویہ کو صرف پاکستانی قوم تک محدود کردینا غلط ہوگا، یہ رویہ بحثیت مجموعی پوری امتِ مسلمہ میں پایا جاتا ہے۔ علم الدین جو کہ ممتاز قادری کی طرح ایک قاتل تھا، اس کے ساتھ بھی مسلمانوں نے ایسی ہی گرمجوش محبت کا اظہار کیا تھا، عامی تو ایک طرف رہے، اقبال اور جناح جیسے مسلم رہنما بھی علم الدین کو کاندھوں پر اٹھائے نظر آئے۔۔ آج بھی دنیا بھر کے مسلمان اپنی اسی پرتشدد روایت پر قائم ہیں۔ اس لئے مغربی ممالک میں دنیا کے مختلف مسلم ممالک سے آکر رہائش پذیر ہونے والے مسلمان وقتاً فوقتاً پرتشدد حملوں سے اس حقیقت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ایک جنگجو قبائلی آئیڈیالوجی کے حامل ہیں۔
یہی وہ سوچ اور رویہ ہے جس کی نشاندہی جب مغرب میں کی جاتی ہے تو اس کو اسلاموفوبیا قرار دیا جاتا ہے، مگر اب مغرب میں فرانس نے "اِنف اِز اِنف" کہتے ہوئے لیڈ لے لی ہے اور مسلمانوں کو سدھارنے کیلئے نئے قانون کے خدو خال تشکیل دے دیئے ہیں۔ مسلم رہنماؤں کو اس چارٹر پر دستخط کرنے کیلئے پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس نئے قانون کے تحت مسلمانوں کے بچوں کے گھروں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہوگی، مسلمانوں کے بچوں کو لازماً سکول جانا ہوگا، مسلمانوں کے بچوں کو مخصوص شناختی نمبر الاٹ کئے جائیں گے جن سے ان کی نگرانی کی جائے گی آیاکہ وہ سکول حاضر ہورہے ہیں یا نہیں۔ مزید برآں مساجد کے امام حکومت تعینات کرے گی اور حکومت معزول کرے گی۔ مساجد کو باہر سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوسکے گی۔ سیاسی اسلام پر مکمل طور پر پابندی ہوگی، اسلام کو ایک سیاسی تحریک کے نہیں بلکہ صرف مذہب کے طور پر لینا ہوگا، وہ بھی ہر فرد کے پرائیویٹ معاملے کے طور پر۔ اسلام میں جو اجتماعیت کا تصور ہے جو مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار ہونے نہیں دیتا، یہ قانون اس کی اچھی طرح بیخ کنی کرے گا۔ یعنی مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اگر فرانس میں رہنا ہے تو فرانس کی اقدار اپنانی ہوں گی، مذہب کے معاملے میں ان کے اندر جو حساسیت پائی جاتی ہے، اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ یہ خاکوں، کارٹونوں یا کتاب جلانے جیسے معمولی واقعات پر ردعمل دینے سے باز رہنا ہوگا۔۔ تب ہی وہ مغرب میں رہ پائیں گے، وگرنہ ان کو اپنے اپنے فرسودہ ممالک میں واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس قضیے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلمان سدھار مشن کی لیڈ فرانس لے رہا ہے۔۔ فرانس کوئی عام ملک نہیں ہے، تاریخی طور پر فرانس کا جدید دنیا کی تشکیل میں بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جدید جمہوریت، سیکولرزم، آزادی اظہار وغیرہ بھی فرانس کے دورِ انقلاب کی دین ہیں۔ جدید دنیا کی بنیادیں اسی دور میں استوار کی گئی تھیں جس کو ایج آف انلائٹنمنٹ کہا جاتا ہے۔ روسو کے سوشل کانٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کے تحت ہی آج کے جدید معاشرے قائم ہیں۔ جان لاک، والٹیئر، مونٹیسکیو ان سب نے اسی دورِ روشن خیالی میں جدید سیاست اور ریاست کے خدوخال تشکیل دیئے۔ اس دور میں بھی فرانس نے ہی امامت سنبھالی تھی اور آج بھی فرانس ہی سب سے آگے ہے۔ فرانس میں یہ نیا قانون پاس ہوکر اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا تو یورپ اور امریکہ میں بھی جلد ہی ایسے قوانین لانے کا زور اٹھے گا، کیونکہ مسلمانوں نے اپنی شدت پسندانہ حرکات سے ایک دنیا کو پریشان کررکھا ہے۔ انڈیا میں چونکہ مسلمان اچھی خاصی بڑی تعداد میں ہیں، اسلئے انہوں نے انڈیا میں سیکولرزم کو پنپنے نہیں دیا اور وہاں وہ حال کیا ہے کہ اب وہ سیکولرزم کو چھوڑ کر ہندوتوا کی طرف چل نکلے ہیں۔۔
میری نظر میں یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے، ایک تہذیب وہ جو تیز رفتاری سے علم و ہنر کی شاہراہ پر گامزن ہے اور دوسری وہ تہذیب ہے جس کے پلے ککھ بھی نہیں ہے اور وہ تہذیبِ اول کے اگائے ہوئے پھل کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ سوچیے جب تہذیبِ اول ان کو الگ کرکے پھینک دے گی تب ان کا کیا حشر ہوگا، کیا یہ واپس پتھر کے دور میں نہیں پہنچ جائیں گے۔۔؟
یہی وہ سوچ اور رویہ ہے جس کی نشاندہی جب مغرب میں کی جاتی ہے تو اس کو اسلاموفوبیا قرار دیا جاتا ہے، مگر اب مغرب میں فرانس نے "اِنف اِز اِنف" کہتے ہوئے لیڈ لے لی ہے اور مسلمانوں کو سدھارنے کیلئے نئے قانون کے خدو خال تشکیل دے دیئے ہیں۔ مسلم رہنماؤں کو اس چارٹر پر دستخط کرنے کیلئے پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس نئے قانون کے تحت مسلمانوں کے بچوں کے گھروں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہوگی، مسلمانوں کے بچوں کو لازماً سکول جانا ہوگا، مسلمانوں کے بچوں کو مخصوص شناختی نمبر الاٹ کئے جائیں گے جن سے ان کی نگرانی کی جائے گی آیاکہ وہ سکول حاضر ہورہے ہیں یا نہیں۔ مزید برآں مساجد کے امام حکومت تعینات کرے گی اور حکومت معزول کرے گی۔ مساجد کو باہر سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوسکے گی۔ سیاسی اسلام پر مکمل طور پر پابندی ہوگی، اسلام کو ایک سیاسی تحریک کے نہیں بلکہ صرف مذہب کے طور پر لینا ہوگا، وہ بھی ہر فرد کے پرائیویٹ معاملے کے طور پر۔ اسلام میں جو اجتماعیت کا تصور ہے جو مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار ہونے نہیں دیتا، یہ قانون اس کی اچھی طرح بیخ کنی کرے گا۔ یعنی مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اگر فرانس میں رہنا ہے تو فرانس کی اقدار اپنانی ہوں گی، مذہب کے معاملے میں ان کے اندر جو حساسیت پائی جاتی ہے، اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ یہ خاکوں، کارٹونوں یا کتاب جلانے جیسے معمولی واقعات پر ردعمل دینے سے باز رہنا ہوگا۔۔ تب ہی وہ مغرب میں رہ پائیں گے، وگرنہ ان کو اپنے اپنے فرسودہ ممالک میں واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس قضیے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلمان سدھار مشن کی لیڈ فرانس لے رہا ہے۔۔ فرانس کوئی عام ملک نہیں ہے، تاریخی طور پر فرانس کا جدید دنیا کی تشکیل میں بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ جدید جمہوریت، سیکولرزم، آزادی اظہار وغیرہ بھی فرانس کے دورِ انقلاب کی دین ہیں۔ جدید دنیا کی بنیادیں اسی دور میں استوار کی گئی تھیں جس کو ایج آف انلائٹنمنٹ کہا جاتا ہے۔ روسو کے سوشل کانٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کے تحت ہی آج کے جدید معاشرے قائم ہیں۔ جان لاک، والٹیئر، مونٹیسکیو ان سب نے اسی دورِ روشن خیالی میں جدید سیاست اور ریاست کے خدوخال تشکیل دیئے۔ اس دور میں بھی فرانس نے ہی امامت سنبھالی تھی اور آج بھی فرانس ہی سب سے آگے ہے۔ فرانس میں یہ نیا قانون پاس ہوکر اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا تو یورپ اور امریکہ میں بھی جلد ہی ایسے قوانین لانے کا زور اٹھے گا، کیونکہ مسلمانوں نے اپنی شدت پسندانہ حرکات سے ایک دنیا کو پریشان کررکھا ہے۔ انڈیا میں چونکہ مسلمان اچھی خاصی بڑی تعداد میں ہیں، اسلئے انہوں نے انڈیا میں سیکولرزم کو پنپنے نہیں دیا اور وہاں وہ حال کیا ہے کہ اب وہ سیکولرزم کو چھوڑ کر ہندوتوا کی طرف چل نکلے ہیں۔۔
میری نظر میں یہ دو تہذیبوں کا تصادم ہے، ایک تہذیب وہ جو تیز رفتاری سے علم و ہنر کی شاہراہ پر گامزن ہے اور دوسری وہ تہذیب ہے جس کے پلے ککھ بھی نہیں ہے اور وہ تہذیبِ اول کے اگائے ہوئے پھل کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ سوچیے جب تہذیبِ اول ان کو الگ کرکے پھینک دے گی تب ان کا کیا حشر ہوگا، کیا یہ واپس پتھر کے دور میں نہیں پہنچ جائیں گے۔۔؟