لاہور پریس کلب کے باہرنابینا افراد کی طرف سے دھرنا دیا گیا جس میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات سیدھے سے ہیں، ہم نے وزارت اعلیٰ کی کرسی مانگی ہے نہ ہی گورنر کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں، صرف اپنا حق مانگا ہے ،ہم معذور لوگ باعزت روزگار کے ذریعے گھر والوں کا سہارا بننا چاہتے ہیں۔ نابینا افراد کا کہنا تھا کہ پیر کے روز انتظامیہ کی طرف سے انہیں پناہ گاہ میں قید کردیا گیا تھا جہاں سے بمشکل باہر نکلے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کہ دیہاڑی دار 1200 ملازمین کو مستقل اور ریگولر ملازمین کا سپیشل الاؤنس 10 ہزار روپے کر کے 3 فیصد کوٹے کو 6 فیصد تک بڑھایا جائے۔ نابینا افرا د نے مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا تاہم مظاہرین سے مذاکرات کیلئے آنے والی خاتون اسسٹنٹ کمشنر ایک بزرگ شہری کو بیٹا بیٹا کہہ کر مخاطب کرتی رہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
وسیم اعجاز نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا: گوروں کا دیسی بابوؤں کو بھرتی کرنے کا بڑا تگڑا معیار ہوتا تھا!
رضی طاہر نے لکھا:سفید داڑھی والے سائل کو ایک اسسٹنٹ کمشنر بیٹا کہہ کر مخاطب کررہی ہے، نجانے یہ افسران سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد اخلاقیات بھول کیوں جاتے ہیں؟
راجہ حمزہ اظہار نے لکھا: یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد اس خاتون کی حماقت اور تکبرپر بہت دکھ ہو رہا ہے، جو خاندانی رئیس ہیں مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا، تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری افسری نئی نئی ہے!
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: پاکستان تک تک غریب، پسماندہ اور پرانا ہی رہے گا جب تک کہ وہ مہنگی ترین لیکن نااہل بیوروکریسی پیدا کرنے کے لیے سی ایس ایس کے امتحانات لیتا رہے گا!
ثوبان افتخار راجہ نے لکھا:حد ہے، سفید داڑھی والے سائل شہری کو اسسٹنٹ کمشنر بیٹا کہہ کر مخاطب کر رہی ہے، سارا معاشرہ ہی فرعون ہوا پڑا ہے!
یاسر اسلم نے لکھا: سفید داڑھی والے سائل کو ایک اسسٹنٹ کمشنر بیٹا کہہ کر مخاطب کررہی ہے، نجانے یہ افسران سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد اخلاقیات بھول کیوں جاتے ہیں؟
ایک صارف نے لکھا: چار سبجیکٹس مہنگی اکیڈمیوں سے رٹے لگا کر CSS کلیئر کرکےسفید داڑھی والے سائل کو ایک اسسٹنٹ کمشنر بیٹا کہہ کر مخاطب کررہی ہے! اس بندے کی جگہ اس کا اپنا باپ ہوتا تب بھی شاید اسی بےشرمی اور بے غیرتی سے بات کرتی، یہ پڑھی لکھی جاہل!
ایک صارف نے لکھا:پاکستان کی افسر شاھی! یہ نابینا افراد سے مذاکرات کا سٹائل ہے،اپنے سے بڑے لوگوں کو بیٹا بیٹا کہہ کر پکار رہی ہیں!
کاشف حسین نے لکھا: ان کو بابو بھی تم لوگوں نے ہی بنایا ہے، ہاتھ جوڑ کر پیچھے پیچھے بھاگنا، ایک بات یاد رکھیں یہ معذور افراد تمہارے ملازم ہیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو! اور اس خاتون کا کافی کپ کو پکڑنے کا انداز تو دیکھیں، ایڈی توں وال سٹریٹ جرنل کی انویسٹر!
محفوظ بھلو نرگانہ نے لکھا: سچ تو سو فیصد یہ ہے کہ سیاستدان بہت زیادہ بدنام ہو گئے ہیں، ملک تو یہ لوٹ کر کھا گئے ہیں! کل لاہور اور راولپنڈی ڈوبا ہوا تھا، کوئی ثبوت دے سکتا ہے کہ کہیں کبھی ان کے گھروں میں بھی پانی گیا ہو، بارش کا سارا پانی بھی غریبوں کے گھروں میں ہی جاتا ہے! دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں سائل کی بات سنی جاتی ہے، دیکھو اس عورت نے مجال ہے کسی کو بولنے دیا ہو!
طالب نامی صارف نے لکھا: ایک دفعہ میں نے ایک سابق سرکاری ملازم کو بطور اسسٹنٹ بھرتی کیا تھا اور اسے اگلے ہی ہفتے اس کی بری کارکردگی کے باعث نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور اس کا رویہ بھی غیرپیشہ ورانہ تھا، ان بابوؤں کو پرائیویٹ سیکٹر میں رکھنا چاہیے جہاں انہیں کمانے کے لیے کارکردگی دکھانی پڑتی ہے ورنہ فوراً نکال دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے مختلف صحافیوں ویڈیو ڈیلیٹ نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔