
معروف صحافی اور اینکر پرسن کاشف عباسی نے کہا کہ جھوٹی خبر وہ نہیں جو حکومت با ربار کہہ رہی ہے، بلکہ "فیک نیوز" وہ ہوتی ہے جو کسی قسم کا سیاسی ، معاشی یا انتخابات سے متعلق بڑا فائدہ حاصل کرنے کے لئے مبینہ طور پر پھیلائی جاتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'خبر ہے" میں حال ہی میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی کاشف عباسی نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس میں نئی ترمیم کے تحت فیک نیوز دینے والوں کا ٹرائل 6 ماہ کے دوران ہر صورت مکمل کرنا ہو گا جبکہ ثابت ہونے کے خلاف ورزی کرنے والے کو 5 سال کی سزا دی جائے گی، لیکن فیک نیوز وہ نہیں ہے جو حکومت بار بار کہہ رہی ہے۔
اینکر پرسن کاشف عباسی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ اخلاقاً وزیراعظم کی فیملی کے بارے میں کوئی بھی غلط بات کرنا قابل مذمت ہیں، لیکن یہ فیک نیوز کے زمرے میں نہیں آتی، اس طرح تو کوئی بھی کسی بھی نیوز چینل پر جا کر کسی اور کے بارے میں کوئی بھی بیان دے دیں اور پھر مدعا چینل پر ڈال دیں کہ فلاں چینل نے چلایا، تو چینل زد میں آئے گا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ فیک نیوز تھی، چینل نے تو دن میں ہزارخبریں چلانی ہیں۔
فیک نیوز کے بارے میں وضاحت دیتے ہوئےکاشف عباسی کیا کہنا تھا کہ یونیسکو کی 2018 کی کتاب "آف کام"میں "فیک نیوز" کی تشریح بتائی گئی ہے جس کے مطابق ایک صحافی کو بدنام 'ڈسکریڈٹ" کرنے کے لئے فیک نیوز کا لفظ ایجاد کیا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی بات کے اختتام میں کہا "اصولی طور پر فیک نیوز وہ ہے جو بڑے پیمانے پر معاشی فائدہ حاصل کرنے کے لئے دی جائے، عوام کو گمراہ کرے غلط خبر فیک نیوز نہیں ہے۔"
واضح رہے کہ اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت شخص کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
نئی ترامیم کے مطابق اب ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی ہے۔
اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔
ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔
آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔