حلال کاروبار

MariaAli

Banned
پ کا شیمپو ’حلال‘ ہے؟ کیا آپ کی لپ سٹک اور نیل پولش جیسی میک اپ کی مصنوعات میں الکوحل ہے؟

بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں آج کل دو بہنیں سبھی سے یہی سوال پوچھ رہی ہیں۔

مولی اور گرشما تیلي نے گزشتہ ماہ بھارت میں پہلا ’حلال‘ بیوٹی مصنوعات کا برانڈ ’ایبا‘ لانچ کیا۔ خوبصورتی سے متعلق مصنوعات ان کی اپنی فیکٹری میں ہی تیار ہوتی ہیں۔

بھارت میں ایسی مصنوعات کو حلال ہونے کا سرٹیفیكٹ بھی دیاجاتا ہے اور ایسی 300 مستند حلال کمپنیاں صرف ریاست گجرات میں ہیں۔

دنیا کے مختلف علاقوں کی طرح ’حلال‘ سرٹیفیكیٹ والی مصنوعات بھارت میں بھی تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

مولی اور گرشما احمد آباد کے ایک جین خاندان میں پیدا ہوئی تھیں اور دو برس قبل انہوں نے ’ایكوٹریل پرسنل کیئر‘ نامی کمپنی شروع کی۔

اپنے غیرملکی دورے کے دوران وہ دونوں بہنیں اکثر ’حلال‘ بیوٹی مصنوعات کی دکانیں دیكھتي تھیں۔

مولی کہتی ہیں ’جب حلال کے بارے میں جانا اور سمجھا تو پتہ چلا کہ بھارت میں مسلم خواتین کئی مصنوعات کااستعمال نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ حلال نہیں ہیں۔ بس یہیں سےشروعات ہوئی۔

گرشما کہتی ہیں ’زیادہ تر نیل پولش میں ایسے پولیمر ہوتے ہیں جو وضو کرتے وقت ناخن کو بھیگنے نہیں دیتے۔ بہت سی لپ سٹک مصنوعات میں سور کی چربی ہوتی ہے اور زیادہ تر شیمپو اور پرفیومز میں الکوحل ہوتا ہے۔ ہم نے اس پر تحقیق شروع کی اور ڈیڑھ سال میں کامیابی ملی۔

رانے شہر اور شاپنگ سینٹرز کو چھوڑ کر احمد آباد شہر میں چند ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ خریداری کرتے ہیں۔

مولی کا کہنا ہے ’مجھے خوشی ہے کہ ہماری دونوں دکانوں میں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں، جو احمد آباد میں بہت کم ہوتا ہے۔ آج بازار میں ملنے والے زیادہ تر کاسمیٹک مصنوعات کا جانوروں پر تجربہ کیا جاتا ہے اور یہ مکمل طور پر ویجیٹیریئن نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے ہندو، جین اور مسلمان سبھی ہماری مصنوعات کو سراہ رہے ہیں۔‘
مولی کا مزید کہنا ہے ’زیادہ تر لوگ حلال کا مطلب گوشت وغیرہ سمجھتے ہیں۔ ہم اس سوچ کو دور کرنا چاہتے ہیں۔‘

مولی بتاتی ہیں ’اپنی مصنوعات کا تجربہ ہم خود پر ہی کرتے ہیں۔ پرفيوم میں الکوحل کی جگہ پانی ہے، لپ سٹكز میں سور کی چربی کی جگہ کوکو بٹر ہے اور نیل پولش وضو فرینڈلی ہے اور کسی بھی چيز میں اینیمل پروڈکٹس نہیں ہیں۔‘

کئی مسلم ممالک میں خوراک یا دیگر مصنوعات کے لیے حلال کا سرٹیفکیٹ ضروری ہے۔

جن کمپنیوں کے پاس حلال کا سرٹیفیکٹ ہے وہ اپنی مصنوعات میں اینزائم، خون اور خون سے تیار کی گئی مصنوعات، گوشت،الکوحل اور جانوروں سے لی جانے والی جیسی بہت سی اشیا کا استعمال نہیں کر سکتیں۔

حلال سرٹیفیكٹ دوا بنانے والی فیکٹری، ہسپتال، بینک، ہوٹل اور انٹرنیٹ سائٹوں کو بھی دیے جاتے ہیں۔

مثلاً حلال کی سند حاصل کرنے والے انٹرنیٹ سرچ انجن میں سور کا گوشت، فحش مواد یا شراب جیسے لفظ لکھنے سے کوئی نتائج بر آمد نہیں ہوتے۔

بھارت حلال گوشت فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ عالمی سطح پر حلال کھانے کی اشیا اور اسلامی طرز زندگی کی مصنوعات کا بازار تقریباً 1.62 کھرب ڈالر کا مانا جاتا ہے۔

دنیا کے دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک بھارت میں ان مصنوعات کا بازار اب بڑا ہو رہا ہے۔

بھارت میں حلال سرٹیفیکٹس دینے والے ادارے ’حلال انڈیا‘ کے چیف آڈیٹر تفسیر انصاری کہتے ہیں ’بھارت میں تقریباً 600سے زیادہ کمپنیوں کو حلال سرٹیفیكٹ دیے گئے ہیں جن میں300 کے قریب صرف ریاست گجرات کی ہیں۔

انصاری بتاتے ہیں ’ہم نے بھارت میں تقریبا، 150 ریسٹورنٹ اور سات ہسپتالوں کو بھی حلال سرٹیفكیٹ دیا ہے۔ ان ہسپتالوں میں خاتون مریضوں کی جانچ اور علاج خاتون ڈاکٹر ہی کرتی ہیں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/...iness_india_rh.shtml?ocid=socialflow_facebook


 
Last edited by a moderator: