حالیہ ہفتوں میں شہرت جنرل عاصم منیر کا تعاقب کرتی دکھائی دی

Arshad Chachak

Moderator
Siasat.pk Web Desk
Gp3Xq-QWwAAJ3hJ

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں تشہیر کا شوق نہیں ہے۔

مگر حالیہ ہفتوں میں بظاہر شہرت خود ان کا تعاقب کرتی دکھائی دی اور اُن کا نام نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار انڈیا اور دنیا کے مختلف سفارتی دارالحکومتوں میں بھی لیا جا رہا ہے۔

کشمیر سے متعلق اُن کے بیان نے، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے سے چند روز قبل دیا گیا تھا، پاکستان کی عسکری پالیسی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی میں اس کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی بنیاد رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک اِس کے مکمل کنٹرول کے دعویدار ہیں تاہم دونوں کے پاس ہی اس خطے کا جزوی انتظام ہے۔

اگرچہ پاکستان کے آرمی چیف کے کشمیر سے متعلق حالیہ بیان کا براہِ راست تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے الفاظ اور لہجے کو تجزیہ کاروں نے جنرل عاصم منیر اور پاکستان کی فوج کی جانب سے ٹکراؤ پر مبنی طرز عمل کی جانب ایک شفٹ کے طور پر دیکھا۔

جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا سب سے طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسے ملک کا سب سے طاقتور شخص جس کی فوج پر طویل عرصے سے سیاست میں مداخلت، حکومتوں کو لانے اور ہٹانے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جنرل عاصم منیر کو جوہری ہتھیاروں سے لیس اس خطے میں مرکزی کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں اور کیا چیز انھیں متحرک کرتی ہے؟

جنرل عاصم منیر کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس کے قریب ہے۔ وہ ایک سکول کے پرنسپل اور مقامی مذہبی سکالر کے بیٹے ہیں۔

انھوں نے پاکستانی فوج میں شمولیت سنہ 1986 میں منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت مکمل ہونے کے بعد اختیار کی، جہاں انھیں بہترین کیڈٹ قرار دیتے ہوئے اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ ٹریننگ سکول سے فراغت کے بعد انھیں 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔

تقریباً چار دہائیوں پر محیط اپنی سروس کے دوران انھوں نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کی حساس شمالی سرحدوں پر فوج کی کمان کی، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت کی اور سعودی عرب میں دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔

اُن کے پاس اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ’پبلک پالیسی اور سٹریٹجک سکیورٹی مینجمنٹ‘ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے جبکہ وہ جاپان اور ملائیشیا کی ملٹری اکیڈمیوں سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔

میں نے پہلی بار جنرل عاصم منیر کو سنہ 2023 میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے اس ہال میں دیکھا جو وزرا، سفارتکاروں، آرمی افسران اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سول لباس میں ملبوس اور پُراعتماد انداز میں سٹیج کی جانب بڑھتے ہوئے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑا رہے تھے۔

اُس روز انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا، جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ کسی افسر کا حافظ قرآن ہونا پاکستان کی فوجی قیادت میں خال ہی نظر آتا ہے۔

نجی گفتگو میں وہ نرم گفتار اور شائستہ نظر آئے، مگر سٹیج پر جاتے ہی اُن کا انداز سخت اور نگاہیں چوکس ہو گئیں، بالکل ایک ایسے شخص کی مانند جو برسوں تک خفیہ اداروں کی قیادت کرتا رہا ہو۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جو پاکستان کی دونوں فوجی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ رہے ہیں۔

ایک ایسا انسان جس کی ٹریننگ دیکھنے، سُننے اور انتظار کرنے کی ہو، اب اُس کے الفاظ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی گونج رہے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر ایک ایسے وقت میں تعینات ہوئے جب ملک سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا شکار تھا جبکہ فوج کے گورننس جیسے معاملات میں مبینہ کردار پر عوام مایوسی کا شکار تھے۔

ان کی تقرری کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد ممکن ہو پائی تھی، اور اس کی بنیادی وجہ اُن کے اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان اختلافات تھے۔

اس سے قبل جنرل عاصم منیر صرف آٹھ ماہ تک پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے تھے مگر پھر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ مبصرین اسے عمران خان کا ذاتی اور سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہیں، تاہم دونوں ہی اسے رد کرتے ہیں۔

اور یہی وہ موقع تھا جو ان دونوں شخصیات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ آج عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ جنرل عاصم منیر ملک کے طاقتور ترین شخص بن چکے ہیں۔


 

Qudsi

Minister (2k+ posts)
Gp3Xq-QWwAAJ3hJ

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں تشہیر کا شوق نہیں ہے۔

مگر حالیہ ہفتوں میں بظاہر شہرت خود ان کا تعاقب کرتی دکھائی دی اور اُن کا نام نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار انڈیا اور دنیا کے مختلف سفارتی دارالحکومتوں میں بھی لیا جا رہا ہے۔

کشمیر سے متعلق اُن کے بیان نے، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے سے چند روز قبل دیا گیا تھا، پاکستان کی عسکری پالیسی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی میں اس کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی بنیاد رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک اِس کے مکمل کنٹرول کے دعویدار ہیں تاہم دونوں کے پاس ہی اس خطے کا جزوی انتظام ہے۔

اگرچہ پاکستان کے آرمی چیف کے کشمیر سے متعلق حالیہ بیان کا براہِ راست تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے الفاظ اور لہجے کو تجزیہ کاروں نے جنرل عاصم منیر اور پاکستان کی فوج کی جانب سے ٹکراؤ پر مبنی طرز عمل کی جانب ایک شفٹ کے طور پر دیکھا۔

جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا سب سے طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسے ملک کا سب سے طاقتور شخص جس کی فوج پر طویل عرصے سے سیاست میں مداخلت، حکومتوں کو لانے اور ہٹانے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جنرل عاصم منیر کو جوہری ہتھیاروں سے لیس اس خطے میں مرکزی کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں اور کیا چیز انھیں متحرک کرتی ہے؟

جنرل عاصم منیر کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس کے قریب ہے۔ وہ ایک سکول کے پرنسپل اور مقامی مذہبی سکالر کے بیٹے ہیں۔

انھوں نے پاکستانی فوج میں شمولیت سنہ 1986 میں منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت مکمل ہونے کے بعد اختیار کی، جہاں انھیں بہترین کیڈٹ قرار دیتے ہوئے اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ ٹریننگ سکول سے فراغت کے بعد انھیں 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔

تقریباً چار دہائیوں پر محیط اپنی سروس کے دوران انھوں نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کی حساس شمالی سرحدوں پر فوج کی کمان کی، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت کی اور سعودی عرب میں دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔

اُن کے پاس اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ’پبلک پالیسی اور سٹریٹجک سکیورٹی مینجمنٹ‘ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے جبکہ وہ جاپان اور ملائیشیا کی ملٹری اکیڈمیوں سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔

میں نے پہلی بار جنرل عاصم منیر کو سنہ 2023 میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے اس ہال میں دیکھا جو وزرا، سفارتکاروں، آرمی افسران اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سول لباس میں ملبوس اور پُراعتماد انداز میں سٹیج کی جانب بڑھتے ہوئے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑا رہے تھے۔

اُس روز انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا، جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ کسی افسر کا حافظ قرآن ہونا پاکستان کی فوجی قیادت میں خال ہی نظر آتا ہے۔

نجی گفتگو میں وہ نرم گفتار اور شائستہ نظر آئے، مگر سٹیج پر جاتے ہی اُن کا انداز سخت اور نگاہیں چوکس ہو گئیں، بالکل ایک ایسے شخص کی مانند جو برسوں تک خفیہ اداروں کی قیادت کرتا رہا ہو۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جو پاکستان کی دونوں فوجی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ رہے ہیں۔

ایک ایسا انسان جس کی ٹریننگ دیکھنے، سُننے اور انتظار کرنے کی ہو، اب اُس کے الفاظ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی گونج رہے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر ایک ایسے وقت میں تعینات ہوئے جب ملک سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا شکار تھا جبکہ فوج کے گورننس جیسے معاملات میں مبینہ کردار پر عوام مایوسی کا شکار تھے۔

ان کی تقرری کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد ممکن ہو پائی تھی، اور اس کی بنیادی وجہ اُن کے اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان اختلافات تھے۔

اس سے قبل جنرل عاصم منیر صرف آٹھ ماہ تک پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے تھے مگر پھر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ مبصرین اسے عمران خان کا ذاتی اور سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہیں، تاہم دونوں ہی اسے رد کرتے ہیں۔

اور یہی وہ موقع تھا جو ان دونوں شخصیات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ آج عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ جنرل عاصم منیر ملک کے طاقتور ترین شخص بن چکے ہیں۔


Fermayeshi post?...... looks like West loves Asshole munir.
 

Azpir

Minister (2k+ posts)
Gp3Xq-QWwAAJ3hJ

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں تشہیر کا شوق نہیں ہے۔

مگر حالیہ ہفتوں میں بظاہر شہرت خود ان کا تعاقب کرتی دکھائی دی اور اُن کا نام نا صرف پاکستان بلکہ سرحد پار انڈیا اور دنیا کے مختلف سفارتی دارالحکومتوں میں بھی لیا جا رہا ہے۔

کشمیر سے متعلق اُن کے بیان نے، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے سے چند روز قبل دیا گیا تھا، پاکستان کی عسکری پالیسی اور خطے میں بڑھتی کشیدگی میں اس کے کردار پر بحث چھیڑ دی ہے۔

سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے مسئلہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی بنیاد رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک اِس کے مکمل کنٹرول کے دعویدار ہیں تاہم دونوں کے پاس ہی اس خطے کا جزوی انتظام ہے۔

اگرچہ پاکستان کے آرمی چیف کے کشمیر سے متعلق حالیہ بیان کا براہِ راست تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے الفاظ اور لہجے کو تجزیہ کاروں نے جنرل عاصم منیر اور پاکستان کی فوج کی جانب سے ٹکراؤ پر مبنی طرز عمل کی جانب ایک شفٹ کے طور پر دیکھا۔

جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا سب سے طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسے ملک کا سب سے طاقتور شخص جس کی فوج پر طویل عرصے سے سیاست میں مداخلت، حکومتوں کو لانے اور ہٹانے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جنرل عاصم منیر کو جوہری ہتھیاروں سے لیس اس خطے میں مرکزی کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں اور کیا چیز انھیں متحرک کرتی ہے؟

جنرل عاصم منیر کی عمر لگ بھگ ساٹھ برس کے قریب ہے۔ وہ ایک سکول کے پرنسپل اور مقامی مذہبی سکالر کے بیٹے ہیں۔

انھوں نے پاکستانی فوج میں شمولیت سنہ 1986 میں منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول سے تربیت مکمل ہونے کے بعد اختیار کی، جہاں انھیں بہترین کیڈٹ قرار دیتے ہوئے اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ ٹریننگ سکول سے فراغت کے بعد انھیں 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔

تقریباً چار دہائیوں پر محیط اپنی سروس کے دوران انھوں نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کی حساس شمالی سرحدوں پر فوج کی کمان کی، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت کی اور سعودی عرب میں دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کے حوالے سے خدمات سرانجام دیں۔

اُن کے پاس اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ’پبلک پالیسی اور سٹریٹجک سکیورٹی مینجمنٹ‘ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے جبکہ وہ جاپان اور ملائیشیا کی ملٹری اکیڈمیوں سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔

میں نے پہلی بار جنرل عاصم منیر کو سنہ 2023 میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے اس ہال میں دیکھا جو وزرا، سفارتکاروں، آرمی افسران اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سول لباس میں ملبوس اور پُراعتماد انداز میں سٹیج کی جانب بڑھتے ہوئے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑا رہے تھے۔

اُس روز انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن کی تلاوت سے کیا، جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ کسی افسر کا حافظ قرآن ہونا پاکستان کی فوجی قیادت میں خال ہی نظر آتا ہے۔

نجی گفتگو میں وہ نرم گفتار اور شائستہ نظر آئے، مگر سٹیج پر جاتے ہی اُن کا انداز سخت اور نگاہیں چوکس ہو گئیں، بالکل ایک ایسے شخص کی مانند جو برسوں تک خفیہ اداروں کی قیادت کرتا رہا ہو۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جو پاکستان کی دونوں فوجی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ رہے ہیں۔

ایک ایسا انسان جس کی ٹریننگ دیکھنے، سُننے اور انتظار کرنے کی ہو، اب اُس کے الفاظ پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی گونج رہے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر ایک ایسے وقت میں تعینات ہوئے جب ملک سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کا شکار تھا جبکہ فوج کے گورننس جیسے معاملات میں مبینہ کردار پر عوام مایوسی کا شکار تھے۔

ان کی تقرری کئی ماہ کی قیاس آرائیوں کے بعد ممکن ہو پائی تھی، اور اس کی بنیادی وجہ اُن کے اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان اختلافات تھے۔

اس سے قبل جنرل عاصم منیر صرف آٹھ ماہ تک پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے تھے مگر پھر اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ مبصرین اسے عمران خان کا ذاتی اور سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہیں، تاہم دونوں ہی اسے رد کرتے ہیں۔

اور یہی وہ موقع تھا جو ان دونوں شخصیات کے درمیان ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ آج عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ جنرل عاصم منیر ملک کے طاقتور ترین شخص بن چکے ہیں۔


لوڑہ بہن چود
 

Back
Top