
جنوبی کوریا میں صدر یون سک یول کی جانب سے غیر معمولی اور قلیل المدتی مارشل لا کے نفاذ کے بعد، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے بدھ کے روز اُن کے مواخذے کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک جمع کرائی۔ اس اقدام کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے صدر کے فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق، صدر یون کی جانب سے سویلین حکمرانی کو معطل کرنے کی کوشش نے جنوبی کوریا کو عمیق افراتفری میں دھکیل دیا ہے، جس کے باعث ملک کے قریبی اتحادیوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ یون سک یول، جو 2022 میں صدر منتخب ہوئے تھے، کا سیاسی مستقبل اب غیر یقینی نظر آتا ہے۔
حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) کے رکن کم یونگ من نے بتایا کہ “ہم نے فوری طور پر مواخذے کی تحریک پیش کی ہے،” تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ تحریک کب رائے شماری کے لیے پیش کی جائے گی، البتہ ممکنہ طور پر یہ جمعہ کو ہو سکتی ہے۔ جنوبی کوریا کی 300 رکنی پارلیمان میں حزب اختلاف کو بھاری اکثریت حاصل ہے، اور ان کی تحریک کی منظوری کے لیے صدر کی جماعت کے چند ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
ڈیموکریٹک پارٹی نے اعلامیہ میں بتایا کہ وہ صدر یون، ان کے وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور دیگر اہم فوجی و پولیس عہدیداروں کے خلاف بغاوت کے الزامات عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہاں تک کہ صدر کی اپنی حکمران جماعت کے بعض رہنماؤں نے بھی اس اقدام کو ’المناک‘ قرار دیا ہے۔
یون سک یول نے ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں ملک کے خلاف موجود شمالی کوریا اور ’ریاست مخالف قوتوں‘ کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کا اعلان کیا تھا۔ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب پارلیمنٹ میں 280 سے زائد فوجی اپنی موجودگی کے ساتھ پہنچے، لیکن 190 قانون گذاروں نے اس اقدام کی مخالفت کی اور مارشل لا کے خلاف ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ میں پہنچے۔
صدر یون نے عالمی وقت کے مطابق شام 7:30 بجے ایک دوسرے خطاب میں مارشل لا ختم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ مظاہرین رات بھر چوکس رہے اور صدر کے فیصلے کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔
مظاہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مارشل لا کا بغیر کسی جائز سبب نفاذ سنگین جرم ہے اور اس نے صدر کی مواخذے کی راہ ہموار کی ہے۔ مزید مظاہروں کی توقع کے پیش نظر پولیس کی بڑی تعداد بدھ کی شام اہم راستوں پر گشت کر رہی ہے۔
جنوبی کوریا میں سیاسی کشیدگی اور معاشرتی بے چینی کی یہ صورتحال نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اہمیت کی حامل ہے، اور اس کے نتائج آنے والے دنوں میں مزید واضح ہو سکتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://i.postimg.cc/KzQ8CyXp/Kor.jpg