Arslan
Moderator
صرف صدر زرداری نے نہیں اُن کی کرپٹ حکومت نے بھی پانچ برس آسانی سے مکمل کر لئے اور اِس کا کریڈٹ چونکہ مسلم لیگ نون کو جاتا ہے تو ہم یہ توقع کر رہے تھے بجائے اِس کے کوئی ظہرانہ وزیراعظم نواز شریف صدر زرداری کے اعزاز میں دیں صدر زرداری وزیراعظم نواز شریف کے اعزاز میں دیں گے اور اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ پانچ برسوں میں عوام کو جتنی تکلیفیں ہم نے دیں اور ملک کی جس قدر رسوائی کا باعث بنے اُس کی بنیاد پر تو ہماری حکومت شاید دو تین برسوں میں ہی ختم ہو جاتی مگر آپ کی مہربانی آپ نے ہمیں سہارا دیئے رکھا جس کی وجہ سے ملک کا تو بے پناہ نقصان ہوگیا مگر ذاتی طور پر ہم فائدے میں رہے اور اِس کے نتیجے میں ذاتی طو رپر اب آپ بھی فائدے میں رہیں گے
اگلے روز اخبارات میں سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی طرف سے صدر زرداری کے پانچ سالہ کارناموں کی تفصیل اشتہارات کی صورت میں شائع ہوئی ہے تو میں سوچ رہا ہوں اِن کارناموں کا کوئی فائدہ عوام کو ہوا ہوتا تو یہ کارنامے اشتہارات کے بجائے خبروں، اداریوں اور کالموں کی زینت بنتے۔ اب جہازی سائز کے یہ اشتہارات دیکھ کر ہم جیسے پاگل توقع کرنے لگے ہیں پانچ برسوں میں جن ذلتوں اور اذیتوں سے عوام کو دو چار ہونا پڑا اُن کی تفصیلات جوابی اشتہارات میں کوئی اور شائع کروائے نہ کروائے وہ خادم پنجاب ضرور کروائیں گے جو الیکشن سے قبل بھٹوانہ سٹائل میں کی گئی اپنی تقریروں میں صدر مملکت کو اُن کی کرپشن کی وجہ سے سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں اس قدر جوش و جذبے سے کرتے تھے ہم سوچتے تھے کرپشن کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی مگر مچھوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا پھر تو ایک بھی سیاستدا ن ایسا نہیں بچے گا جو سڑکوں پر گھسیٹے جانے کے قابل نہ ہو۔ اقتدار کی شاید اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ہو سکتا ہے شریف برادران کو اب احساس ہوگیا ہو صدر زرداری اور اُن کی ٹیم مجبوری کے تحت ہی کرپشن کرتی رہی ہے، کیونکہ بغیر کرپشن کے حکمرانی کا مزہ ہی نہیں آتا۔ شکر ہے صدر زرداری اور اُن کی ٹیم کو کرپشن کے جرم میں سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے اب دم توڑ گئے ہیں، اِن دعووں کو قانونی شکل دے دی جاتی تو حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ حکمرانوں کو سڑکوں پر گھسیٹے جانا بھی ایک قانونی تقاضا ہوتا، اور سڑکوں پر گھسیٹے جانا چونکہ جیل میں کچھ دن گزارنے کے عمل سے زیادہ اذیت ناک ہے تو اچھا ہے یہ دعویٰ انتخابی بڑھکوں تک ہی محدود رہا
اگلے روز وزیراعظم نواز شریف نے رخصت ہونے والے صدر زرداری کے اعزاز میں شاندار ظہرانے کا اہتمام کیا۔ اطلاعات کے مطابق انواع و اقسام کے کھانے تیار کروائے گئے تھے۔ سنا ہے صدر زرداری نے اِس موقع پر کسی سے کہا آج مان گئے میاں صاحب ہم سے واقعی بڑی محبت کرتے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد مسائل کا انبار دیکھ کر ہر معاملے میں سادگی اختیار کرنے کے اعلانا ت اُنہوں نے کئے تو ہم سمجھے آج کے ظہرانے میں ہماری تواضع بھی صرف دال روٹی سے ہی کی جائے گی مگر اُنہوں نے تو ایسے ایسے شاندار کھابوں کا اہتمام کر رکھا ہے کہ اُن کی دریا دلی میں ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ شکر ہے چھوٹے میاں صاحب عرف خادم پنجاب اِس موقع پر موجود نہیں ہیں ورنہ دِل ہی دِل میں وہ کڑھتے جس شخص کو میں اقتدار میں آکر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتا تھا بڑے بھائی جان اقتدار میں آکر انواع و اقسام کے کھابوں سے اُس کی تواضع کرکے نہ صرف مجھے چڑا رہے ہیں بلکہ میری ون ڈش پالیسی کی توہین بھی کر رہے ہیں.ویسے خادم پنجاب وزیراعظم ہوتے تو صدر زرداری کی تواضع کس سے کرتے؟ نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ بڑے میاں صاحب کو چاہئے چھوٹے میاں صاحب کی بھی زرداری صاحب سے اب صلح کروا دیں۔ جس کے نتیجے میں اُمید ہے زرداری صاحب فراغت کے بعد لاہور میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ورنہ خادم پنجاب کو بھی زیادہ وقت لاہور میں ہی گزارنا پڑے گا جس کا فائدہ مرکز میں چوہدری نثا ر علی خان کسی بھی وقت اُٹھا سکتے ہیں۔ اب جبکہ آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ بھی قریب ہے تو چھوٹے میاں صاحب کا اسلام آباد رہ کر حساس معاملات کی کڑی نگرانی کرنا اور بھی ضروری ہے
بہرحال وزیراعظم کی جانب سے صدر زرداری کے اعزاز میں دیئے جانے والا ظہرانہ بڑا یادگار تھا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی تعریفوں کے پُل باندھے گئے جبکہ انتخابات سے قبل ایک دوسرے کے آگے دیواریں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ اگر یہ سیاست ہے تو اِس کا نام بدل کر منافقت رکھ دینا چاہئے۔ اُمید ہے جمہوریت اِس سے مزید مضبوط ہوگی۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بددیانتی، دہشت گردی اور اِس نوعیت کی دیگر لعنتوں کا دائرہ مزید وسیع ہوا تو زرداری اور اُن کی پارٹی ویسا ہی رویہ اختیار کرے گی جیسا پانچ برسوں تک نواز شریف اینڈ کمپنی کرتی رہی۔ جمہوریت کی بقاءکے لئے یہ ضروری ہے۔ اور ملک کی بقاءکے لئے جو ضروری ہے اُس کی کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔ ملک کی سالمیت پر اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور جمہوریت مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اگلے روز ایک وزیر کسی چینل پر فرما رہا تھا ملک ایک جسم کی طرح ہوتا ہے اور جمہوریت اُس کی آنکھیں ہوتی ہیں . مجھے وہ سردار جی یاد آگئے جن کے اکلوتے بیٹے کا جسم گولیوں سے کسی نے چھلنی کر دیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ جاں بحق ہوگیا تو اُس کی آخری رسومات پر سردار جی رو رو کر لوگوں کو بتا رہے تھے دُشمنوں نے اُس کے جسم پر اتنی گولیاں برسائیں کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا مگر شکر ہے اُس کی آنکھیں بچ گئیں
یہ اچھی بات ہے کہ جمہوریت کو اب کوئی خطرہ نہیں مگر جمہوریت کو خود بھی ایک خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے مل کر جمہوریت کے خلاف ہونے والی ہر سازش ناکام بنا دی ہے اور جو سازشیں ملک کے خلاف ہو رہی ہیں اور اُن میں مسلسل اضافہ ہی ہوتاجا رہا ہے اُنہیں مل کر ناکام بنانے کا کچھ اہتمام اب تک نہیں ہوا۔ سب دوستیاں دُشمنیاں ذاتی مفادات کی خاطر پروان چڑھتی رہیں۔ ملک اور عوام کو نہ اِن کی دوستی کا کوئی فائدہ ہوا نہ دُشمنی کا۔ اور اب جو دوستی پھر ہونے جا رہی ہے بلکہ ہوگئی ہے تو اُس کے نتیجے میں بھی ملک اور عوام کے ہاتھ میں تو یقینا کچھ نہیں آئے گا، جمہوریت البتہ اِس سے مزید مضبوط ہو جائے گی جس کے نتیجے میں زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری اور نواز شریف کے بعد شہباز شریف، حمزہ شریف ہمارے حکمران ہوں گے۔ آمریت بانجھ ہے اور جمہوریت بچے ہی نہیں بھائی، بھتیجے اور داماد بھی جَن رہی ہے۔ جمہوریت کا یہ تسلسل قائم رہنا چاہئے۔ رہی بات مہنگائی، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، بددیانتی، بدنیتی اور اِس نوعیت کی دیگر بیماریوں کی تو یہ سب جمہوریت کا حُسن ہیں۔ اور کسی مائی کے لال میں جرات نہیں جمہوریت کے اِس حُسن سے عوام کو محروم کر دے۔ صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں زرداری نے فرمایا تھا جمہوریت بہترین انتقام ہے .جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے جو زرداری نے عوام سے لے لیا۔ عوام اِس کے مستحق تھے۔ کیونکہ نو برسوں تک زرداری جیل میں رہا اور عوام کو اُس کی رہائی کی کوئی فکر یا جلدی نہیں تھی۔ رہی بات جمہوریت کے حُسن کی تو جمہوریت کے حُسن کا قومی ترانہ اِن دِنوں بہت مشہور ہو رہا ہے۔
اے طائر لاہوتی.
ستر روپے دی دال8روپے دی روٹی
سو دے کارڈ تے35دی کٹوتی
حکمراناں دی گردن ہوگئی ہور موٹی
شیر کھا گیا اے قوم دی بوٹی بوٹی
جِتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی
Source
اگلے روز اخبارات میں سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی طرف سے صدر زرداری کے پانچ سالہ کارناموں کی تفصیل اشتہارات کی صورت میں شائع ہوئی ہے تو میں سوچ رہا ہوں اِن کارناموں کا کوئی فائدہ عوام کو ہوا ہوتا تو یہ کارنامے اشتہارات کے بجائے خبروں، اداریوں اور کالموں کی زینت بنتے۔ اب جہازی سائز کے یہ اشتہارات دیکھ کر ہم جیسے پاگل توقع کرنے لگے ہیں پانچ برسوں میں جن ذلتوں اور اذیتوں سے عوام کو دو چار ہونا پڑا اُن کی تفصیلات جوابی اشتہارات میں کوئی اور شائع کروائے نہ کروائے وہ خادم پنجاب ضرور کروائیں گے جو الیکشن سے قبل بھٹوانہ سٹائل میں کی گئی اپنی تقریروں میں صدر مملکت کو اُن کی کرپشن کی وجہ سے سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں اس قدر جوش و جذبے سے کرتے تھے ہم سوچتے تھے کرپشن کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی مگر مچھوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا سلسلہ شروع ہوگیا پھر تو ایک بھی سیاستدا ن ایسا نہیں بچے گا جو سڑکوں پر گھسیٹے جانے کے قابل نہ ہو۔ اقتدار کی شاید اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور ہو سکتا ہے شریف برادران کو اب احساس ہوگیا ہو صدر زرداری اور اُن کی ٹیم مجبوری کے تحت ہی کرپشن کرتی رہی ہے، کیونکہ بغیر کرپشن کے حکمرانی کا مزہ ہی نہیں آتا۔ شکر ہے صدر زرداری اور اُن کی ٹیم کو کرپشن کے جرم میں سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے اب دم توڑ گئے ہیں، اِن دعووں کو قانونی شکل دے دی جاتی تو حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ حکمرانوں کو سڑکوں پر گھسیٹے جانا بھی ایک قانونی تقاضا ہوتا، اور سڑکوں پر گھسیٹے جانا چونکہ جیل میں کچھ دن گزارنے کے عمل سے زیادہ اذیت ناک ہے تو اچھا ہے یہ دعویٰ انتخابی بڑھکوں تک ہی محدود رہا
اگلے روز وزیراعظم نواز شریف نے رخصت ہونے والے صدر زرداری کے اعزاز میں شاندار ظہرانے کا اہتمام کیا۔ اطلاعات کے مطابق انواع و اقسام کے کھانے تیار کروائے گئے تھے۔ سنا ہے صدر زرداری نے اِس موقع پر کسی سے کہا آج مان گئے میاں صاحب ہم سے واقعی بڑی محبت کرتے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد مسائل کا انبار دیکھ کر ہر معاملے میں سادگی اختیار کرنے کے اعلانا ت اُنہوں نے کئے تو ہم سمجھے آج کے ظہرانے میں ہماری تواضع بھی صرف دال روٹی سے ہی کی جائے گی مگر اُنہوں نے تو ایسے ایسے شاندار کھابوں کا اہتمام کر رکھا ہے کہ اُن کی دریا دلی میں ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ شکر ہے چھوٹے میاں صاحب عرف خادم پنجاب اِس موقع پر موجود نہیں ہیں ورنہ دِل ہی دِل میں وہ کڑھتے جس شخص کو میں اقتدار میں آکر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتا تھا بڑے بھائی جان اقتدار میں آکر انواع و اقسام کے کھابوں سے اُس کی تواضع کرکے نہ صرف مجھے چڑا رہے ہیں بلکہ میری ون ڈش پالیسی کی توہین بھی کر رہے ہیں.ویسے خادم پنجاب وزیراعظم ہوتے تو صدر زرداری کی تواضع کس سے کرتے؟ نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ بڑے میاں صاحب کو چاہئے چھوٹے میاں صاحب کی بھی زرداری صاحب سے اب صلح کروا دیں۔ جس کے نتیجے میں اُمید ہے زرداری صاحب فراغت کے بعد لاہور میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ورنہ خادم پنجاب کو بھی زیادہ وقت لاہور میں ہی گزارنا پڑے گا جس کا فائدہ مرکز میں چوہدری نثا ر علی خان کسی بھی وقت اُٹھا سکتے ہیں۔ اب جبکہ آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ بھی قریب ہے تو چھوٹے میاں صاحب کا اسلام آباد رہ کر حساس معاملات کی کڑی نگرانی کرنا اور بھی ضروری ہے
بہرحال وزیراعظم کی جانب سے صدر زرداری کے اعزاز میں دیئے جانے والا ظہرانہ بڑا یادگار تھا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی تعریفوں کے پُل باندھے گئے جبکہ انتخابات سے قبل ایک دوسرے کے آگے دیواریں کھڑی کی جا رہی تھیں۔ اگر یہ سیاست ہے تو اِس کا نام بدل کر منافقت رکھ دینا چاہئے۔ اُمید ہے جمہوریت اِس سے مزید مضبوط ہوگی۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بددیانتی، دہشت گردی اور اِس نوعیت کی دیگر لعنتوں کا دائرہ مزید وسیع ہوا تو زرداری اور اُن کی پارٹی ویسا ہی رویہ اختیار کرے گی جیسا پانچ برسوں تک نواز شریف اینڈ کمپنی کرتی رہی۔ جمہوریت کی بقاءکے لئے یہ ضروری ہے۔ اور ملک کی بقاءکے لئے جو ضروری ہے اُس کی کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔ ملک کی سالمیت پر اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور جمہوریت مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اگلے روز ایک وزیر کسی چینل پر فرما رہا تھا ملک ایک جسم کی طرح ہوتا ہے اور جمہوریت اُس کی آنکھیں ہوتی ہیں . مجھے وہ سردار جی یاد آگئے جن کے اکلوتے بیٹے کا جسم گولیوں سے کسی نے چھلنی کر دیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ جاں بحق ہوگیا تو اُس کی آخری رسومات پر سردار جی رو رو کر لوگوں کو بتا رہے تھے دُشمنوں نے اُس کے جسم پر اتنی گولیاں برسائیں کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا مگر شکر ہے اُس کی آنکھیں بچ گئیں
یہ اچھی بات ہے کہ جمہوریت کو اب کوئی خطرہ نہیں مگر جمہوریت کو خود بھی ایک خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے مل کر جمہوریت کے خلاف ہونے والی ہر سازش ناکام بنا دی ہے اور جو سازشیں ملک کے خلاف ہو رہی ہیں اور اُن میں مسلسل اضافہ ہی ہوتاجا رہا ہے اُنہیں مل کر ناکام بنانے کا کچھ اہتمام اب تک نہیں ہوا۔ سب دوستیاں دُشمنیاں ذاتی مفادات کی خاطر پروان چڑھتی رہیں۔ ملک اور عوام کو نہ اِن کی دوستی کا کوئی فائدہ ہوا نہ دُشمنی کا۔ اور اب جو دوستی پھر ہونے جا رہی ہے بلکہ ہوگئی ہے تو اُس کے نتیجے میں بھی ملک اور عوام کے ہاتھ میں تو یقینا کچھ نہیں آئے گا، جمہوریت البتہ اِس سے مزید مضبوط ہو جائے گی جس کے نتیجے میں زرداری کے بعد بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری اور نواز شریف کے بعد شہباز شریف، حمزہ شریف ہمارے حکمران ہوں گے۔ آمریت بانجھ ہے اور جمہوریت بچے ہی نہیں بھائی، بھتیجے اور داماد بھی جَن رہی ہے۔ جمہوریت کا یہ تسلسل قائم رہنا چاہئے۔ رہی بات مہنگائی، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، بددیانتی، بدنیتی اور اِس نوعیت کی دیگر بیماریوں کی تو یہ سب جمہوریت کا حُسن ہیں۔ اور کسی مائی کے لال میں جرات نہیں جمہوریت کے اِس حُسن سے عوام کو محروم کر دے۔ صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں زرداری نے فرمایا تھا جمہوریت بہترین انتقام ہے .جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے جو زرداری نے عوام سے لے لیا۔ عوام اِس کے مستحق تھے۔ کیونکہ نو برسوں تک زرداری جیل میں رہا اور عوام کو اُس کی رہائی کی کوئی فکر یا جلدی نہیں تھی۔ رہی بات جمہوریت کے حُسن کی تو جمہوریت کے حُسن کا قومی ترانہ اِن دِنوں بہت مشہور ہو رہا ہے۔
اے طائر لاہوتی.
ستر روپے دی دال8روپے دی روٹی
سو دے کارڈ تے35دی کٹوتی
حکمراناں دی گردن ہوگئی ہور موٹی
شیر کھا گیا اے قوم دی بوٹی بوٹی
جِتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی
Source
- Featured Thumbs
- http://naibaat.pk/wp-content/uploads/col/tofeeq-butt.jpg