
سپریم کورٹ کے ضابطوں میں کی گئی حالیہ تبدیلی کے باعث جسٹس عائشہ اے ملک کا انتخابی فہرست میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیا گیا اختلافی نوٹ 9 مئی تک عوام کے سامنے نہیں آ سکا۔
ذرائع کے مطابق، عدالتِ عظمیٰ نے یہ تبدیلیاں ججوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے تاثر کو کم کرنے کے لیے کی ہیں۔ نئے ضوابط کے تحت کسی بھی بنچ کے سینئر ترین جج کی منظوری کے بغیر کسی اختلافی یا اضافی نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس یحیی آفریدی نے ججز کو اختلافی نوٹ دینے سے روکنے کے لیے پالیسی آپشن بھی جاری کروا دی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1922275714738373055
ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسا کئی بار ہوا کہ اختلافی نوٹس سماعت کے دوران ہی جاری کر دیے گئے، جس سے عدالت کی تقسیم شدہ رائے کا تاثر پیدا ہوا اور مقدمے کے آغاز ہی سے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا امکان بڑھ گیا۔
خاص طور پر جسٹس عمر عطا بندیال کے چیف جسٹس کے دور میں یہ رجحان زیادہ نمایاں رہا، جب جج صاحبان کے اختلافی نوٹ بغیر کسی تاخیر کے ویب سائٹ پر جاری کیے جاتے تھے۔ اس عمل سے بعض اوقات بنچ کی تعداد کم ہو جاتی تھی اور یہ بحث چھڑ جاتی تھی کہ اکثریتی فیصلہ کون سا ہے اور اقلیتی رائے کیا ہے۔
ایسا ہی واقعہ 6 مئی کو پیش آیا، جب جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے مسلم لیگ (ن)، الیکشن کمیشن اور پیپلز پارٹی کی نظرثانی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور عندیہ دیا کہ وہ بعد میں اپنی تفصیلی وجوہات فراہم کریں گے۔ ان دونوں ججوں کے فیصلے کے بعد 13 رکنی آئینی بنچ کی تعداد کم ہو کر 11 رہ گئی۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے 9 مئی کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو تحریری شکایت میں بتایا کہ اُن کا اختلافی نوٹ 8 مئی کو شام 3 بج کر 11 منٹ پر جاری کیا گیا تھا اور آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو فوراً اسے اپ لوڈ کرنا چاہیے تھا۔ تاہم بار بار یاد دہانی کے باوجود یہ نوٹ جمعے کی صبح تک ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا۔
نئے ضوابط کے تحت اب ایسے تمام اختلافی نوٹس کو سینئر جج کی منظوری کے بغیر ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا جائے گا، تاکہ عدالتی کارروائی کے دوران ججوں کی رائے عام ہونے سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بچا جا سکے۔
- Featured Thumbs
- https://4thpillarpost.com/uploads/news/021120241555104.jpg