تعلیم بکتی ہے یہاں،
گوجرانوالہ بورڈ کی انوکھی منطق لائق اور محنتی طالب کو دسویں کے سالانہ امتحانات میں صرف 43 نمبر دیئے شیئر کیجئیے،
عمر رضا منڈی بہاؤ الدین کے نواحی علاقے پاہڑیانوالی کا رہائشی ہے. عمر کا باپ نذیر احمد درزی کا کام کرتا ہے اور بمشکل گھر کی دال روٹی چلاتا ہے، ایسے میں خواہشات پوری کرنا یا سیر و تفریح کرنا خواب ہی ہے. بچپن کی محرومیوں نے عمر رضا میں محنت کا جذبہ پیدا کیا اور اس نے پڑھ لکھ کر کچھ بننے کا عزم کر لیا..
عمر نے نویں جماعت کے امتحانات دئیے اور چار سو پینتیس 435 نمبر حاصل کئے اور اگلے سال دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری زور و شور سے شروع کر دی. میٹرک کا رزلٹ دیکھا تو عمر رضا کو صرف 43 تریالیس نمبر دے کر سی گریڈ دیا گیا تھا. پہلے تو عمر کو یقین ہی نہیں آیا، وہ بھاگم بھاگ گوجرانوالہ بورڈ کے دفتر گیا تو پتا چلا کہ پیپرز ری چیکنگ کی فیس آٹھ ہزار روپے جمع کرائے گا تبھی کوئی صورت نکلے گی. اس غریب نے جیسے تیسے آٹھ ہزار روپے جمع کرائے اور ایک مہینہ بورڈ کے چکر لگاتا رہا..
ایک ماہ کے بعد عمر کو اس کے پیپرز دکھائے گئے، رولنمبر تو عمر کا ہی لکھا تھا لیکن یہ پیپرز عمر کے نہیں تھے. بورڈ کے کسی بندے نے پیسے لے کر پیپرز تبدیل کر دئیے تھے. گورنمنٹ ہائی سکول پاہڑیانوالی کے ہیڈ ماسٹر جناب خالد محمود احمد اور عمر رضا کے کلاس ٹیچر مظہر اقبال سہیل کا کہنا ہے کہ بچہ لائق اور محنتی ہے اس کے میٹرک میں کم از کم 1000 نمبر آنے چاہئیں تھے بورڈ والوں نے بچے کے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے بچے کو اس کا حق ملنا چاہیے اور اس کو اصل پیپرز کے مطابق رزلٹ ملنا چاہیے. بورڈ ملازمین کی نااہلی کی وجہ سے عمر رضا کی زندگی کا ایک قیمتی سال ضائع ہو چکا ہے.
پیپرز ری چیکنگ اور بورڈ آفس کے چکر لگانے میں ہی عمر کے بیس پچیس ہزار روپے لگ چکے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ غلطی بورڈ آفس کرے لیکن اس کا خمیازہ غریب طلبہ کو بھگتنا پڑے؟
ہم وزیر اعلی پنجاب اور بورڈ آفس گوجرانوالہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عمر رضا کے اصل پیپرز ڈھونڈ کر اس کو نمبر دئیے جائیں اور ری چیکنگ کے چکروں میں خرچ ہوئے بیس ہزار روپے بھی واپس کیے جائیں. اور یہ بیس ہزار روپے اس واقعے کے زمہ داران کی تنخواہوں سے وصول کیے جائیں تاکہ آئندہ کے لیے بورڈ ملازمین کو بھی نصیحت حاصل ہو.
گوجرانوالہ بورڈ کی انوکھی منطق لائق اور محنتی طالب کو دسویں کے سالانہ امتحانات میں صرف 43 نمبر دیئے شیئر کیجئیے،
عمر رضا منڈی بہاؤ الدین کے نواحی علاقے پاہڑیانوالی کا رہائشی ہے. عمر کا باپ نذیر احمد درزی کا کام کرتا ہے اور بمشکل گھر کی دال روٹی چلاتا ہے، ایسے میں خواہشات پوری کرنا یا سیر و تفریح کرنا خواب ہی ہے. بچپن کی محرومیوں نے عمر رضا میں محنت کا جذبہ پیدا کیا اور اس نے پڑھ لکھ کر کچھ بننے کا عزم کر لیا..
عمر نے نویں جماعت کے امتحانات دئیے اور چار سو پینتیس 435 نمبر حاصل کئے اور اگلے سال دسویں جماعت کے امتحانات کی تیاری زور و شور سے شروع کر دی. میٹرک کا رزلٹ دیکھا تو عمر رضا کو صرف 43 تریالیس نمبر دے کر سی گریڈ دیا گیا تھا. پہلے تو عمر کو یقین ہی نہیں آیا، وہ بھاگم بھاگ گوجرانوالہ بورڈ کے دفتر گیا تو پتا چلا کہ پیپرز ری چیکنگ کی فیس آٹھ ہزار روپے جمع کرائے گا تبھی کوئی صورت نکلے گی. اس غریب نے جیسے تیسے آٹھ ہزار روپے جمع کرائے اور ایک مہینہ بورڈ کے چکر لگاتا رہا..
ایک ماہ کے بعد عمر کو اس کے پیپرز دکھائے گئے، رولنمبر تو عمر کا ہی لکھا تھا لیکن یہ پیپرز عمر کے نہیں تھے. بورڈ کے کسی بندے نے پیسے لے کر پیپرز تبدیل کر دئیے تھے. گورنمنٹ ہائی سکول پاہڑیانوالی کے ہیڈ ماسٹر جناب خالد محمود احمد اور عمر رضا کے کلاس ٹیچر مظہر اقبال سہیل کا کہنا ہے کہ بچہ لائق اور محنتی ہے اس کے میٹرک میں کم از کم 1000 نمبر آنے چاہئیں تھے بورڈ والوں نے بچے کے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے بچے کو اس کا حق ملنا چاہیے اور اس کو اصل پیپرز کے مطابق رزلٹ ملنا چاہیے. بورڈ ملازمین کی نااہلی کی وجہ سے عمر رضا کی زندگی کا ایک قیمتی سال ضائع ہو چکا ہے.
پیپرز ری چیکنگ اور بورڈ آفس کے چکر لگانے میں ہی عمر کے بیس پچیس ہزار روپے لگ چکے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ غلطی بورڈ آفس کرے لیکن اس کا خمیازہ غریب طلبہ کو بھگتنا پڑے؟
ہم وزیر اعلی پنجاب اور بورڈ آفس گوجرانوالہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عمر رضا کے اصل پیپرز ڈھونڈ کر اس کو نمبر دئیے جائیں اور ری چیکنگ کے چکروں میں خرچ ہوئے بیس ہزار روپے بھی واپس کیے جائیں. اور یہ بیس ہزار روپے اس واقعے کے زمہ داران کی تنخواہوں سے وصول کیے جائیں تاکہ آئندہ کے لیے بورڈ ملازمین کو بھی نصیحت حاصل ہو.

- Featured Thumbs
- http://i.imgur.com/BgZNOFH.jpg
Last edited by a moderator: