
دو روز قبل جہانگیر ترین گروپ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس میں ارکان نے ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہونے کی تجویز دی
ذرائع کے مطابق جہانگیرترین گروپ کی اکثریت نے کھل کر سیاسی میدان میں آنے فیصلہ کیا اور حکومت مخالف کھل کر لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
ترین گروپ نے عدم اعتماد کی تحریک باضابطہ پیش ہونے پر اپنا لائحہ عمل لانے کا فیصلہ کر لیا، جبکہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے تک ترین گروپ نے سیاسی کارڈز خفیہ رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔
ترین گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر ترین گروپ اپوزیشن کاساتھ دے سکتا ہے۔لوگ بھی مہنگائی کی وجہ سے تحریک انصاف سے تنگ ہیں۔ترین گروپ کے انتخابی حلقوں میں تحریکِ انصاف کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں مضبوط شخصیات پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینا پسند نہیں کریں گی۔
ارکان کا مؤقف تھا کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، اراکین اسمبلی کو حلقوں میں سخت عوامی ردِعمل کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ترین گروپ تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن کاساتھ دے سکتا ہے؟
کچھ عرصہ قبل جہانگیرترین کی پارٹی کے رہنماؤں نے جہانگیرترین کو اپنا علیحدہ فارورڈبلاک بنانے کی تجویز دی، ترین گروپ کے کچھ رہنماؤں نے عمران خان، عثمان بزدار کے خلاف سخت زبان استعمال کی تو اس پر تحریک انصاف کے سپورٹرز کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا، وہ لوگ جو جہانگیرترین کیساتھ تھے، انہوں نے بھی جہانگیرترین پر تنقید شروع کردی جس کی جہانگیرترین کو وضاحتیں دینا پڑیں اور کچھ ارکان ترین گروپ کاساتھ چھوڑگئے۔
اسکے بعد جہانگیرترین کو عدالت سے ریلیف ملا تو ترین گروپ اچانک ہی منظر سے غائب ہوگیا لیکن جب دوبارہ تحریک عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئیں تو یہ گروپ ایک بار پھر منظرعام پر آگیا۔
جہانگیرترین گروپ کے زیادہ تر ارکان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں، اگر وہ تحریک انصاف کے خلاف جاتے ہیں تو وہ نااہل ہوسکتے ہیں اور اپنی اسمبلی کی سیٹ سے ہاتھ دھوسکتے ہیں۔
دوسرا جہانگیرترین اگر مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتا ہے تو ن لیگ کے اس بیانئے کہ تحریک انصاف چینی چور آٹا چور ہے کو بہت بڑا دھچکا لگے گا اور لیگی مخالفین کو کہنے کاموقع ملے گا کہ جس شخص پر یہ الزام تھےوہ تو آپکے ساتھ ہی مل گیا ہے۔
تیسرا جہانگیرترین کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی، تحریک انصاف میں انہیں پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا سمجھاجائے گا۔
ترین گروپ میں شامل بعض ارکان ایسے ہیں جو ترین گروپ کی طرف سے کھڑاہوکر یا آزادکھڑا ہوکر نہیں جیت سکتے ان میں ایک مثال راجہ ریاض اور نورعالم خان کی ہے۔ کئی ارکان ایسے ہیں جو اگر پارٹی چھوڑدیتے ہیں اور ن لیگ میں شامل ہوتے ہیں تو یا تو انکے متبادل تحریک انصاف کے پاس موجود ہیں یا بعض ن لیگی رہنما ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوسکتے ہیں۔
ترین گروپ کی طرف سے یہ خبریں آتی رہیں گی کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں ن لیگ کا ساتھ دے گا تاکہ وہ بارگیننگ کی پوزیشن میں رہے لیکن وہ ساتھ دے گا نہیں۔ غالبا ترین گروپ پانچ سال پورے ہونے کے بعد یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کس گروپ میں جانا ہے یا آزادحیثیت برقراررکھنی ہے۔
ترین گروپ کے کئی ارکان کو تحریک انصاف توڑنے میں کامیاب رہی ہے جن میں نذیرچوہان، خرم لغاری شامل ہیں، بعض ترقیاتی فنڈز کیلئے یا اپنی سیٹ بچانے کیلئے تحریک انصاف سے دوبارہ رجوع کرسکتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کے بعد انہیں کچھ نہیں ملے گا، ن لیگ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نئے الیکشن چاہتی ہے جبکہ یہ ارکان پانچ سال تک اپنی سیٹ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/tareen011h1h1.jpg
Last edited: