کچھ ماہ پہلے سندھ ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ سارے پاکستان نے دیکھا، تحریک انصاف کے کئی منحرف اراکین سندھ ہاؤس سے برآمد ہوئے۔
یہ منظر انتہائی شرمناک تھا لیکن عمران خان مخالف اینکرز اور صحافی اسے زرداری کا سیاسی کمال اور اس وقت کی اپوزیشن کی بڑی کامیابی قرار دیتے رہے۔ یہ صحافی ان کا دفاع کرنیکی کوشش کرتے رہے، انہیں ٹی وی چینلز پر بلاتے رہے، حامد میر نے تو انکی نماز پڑھنے کی ویڈیودکھاکر انہیں نیک اور پارسا ثابت کرنیکی بھی کوشش کی۔
ان منحرف اراکین کی آؤ بھگت خوب جاری ہے، یہ تو پتہ نہیں کہ انہوں نے ان خدمات کے عوض کتنا پیسہ لیا لیکن انکی آج کل پانچوں گھی میں ہیں، جگہ جگہ انکی دعوتیں ہورہی ہیں، انکے ناز نخرے اٹھائے جارہے ہیں۔
راجہ ریاض ، نورعالم خان جیسے منحرف اراکین کا خیال ہے کہ اپنی جماعت کے ساتھ غداری کے بعد انہیں آئندہ الیکشن میں ن لیگ یا پیپلزپارٹی انہیں ٹکٹ دیدے گی لیکن یہ بھی انکی خوش فہمی ہے یہ سچ ہے کہ انہیں اس وقت آنکھوں پر بٹھایا جارہا ہے، نازنخرے اٹھائے جارہے ہیں لیکن کب تک؟
ذرا تصور کیجئے کیا ن لیگ راجہ ریاض جس کا اپنا ذاتی ووٹ بنک نہیں ، آزاد الیکشن لڑتا تو شاید اسکی ضمانت ضبط ہوجاتی ،اسے اپنے دیرینہ ساتھی مرحوم رانا افضل کے بیٹے پر ترجیح دے گی؟ کیا ن لیگ اپنے سب سے وفادار طلال چوہدری پر نواب شیر وسیر کو ترجیح دے گی جو پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آیا اور بعد میں منحرف ہوکر اس وقت کی اپوزیشن سے مل گیا؟
کیا جہلم سے مسلم لیگ ن اپنے دیرینہ کارکن ندیم خادم جس نے الیکشن 2018 میں ایک لاکھ سے زائد ووٹ لئے تھے اسکی جگہ منحرف رکن فرخ الطاف کو ٹکٹ دیگی؟ کیا پیپلزپارٹی سندھ ہاؤس سے برآمد ہونیوالے احمد حسین ڈیہر کو یوسف رضاگیلانی کے بیٹوں پر ترجیح دے گی اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا ن لیگ ٹکٹ دے گی؟ اگر سکندرحیات بوسن ن لیگ میں شامل ہوتا ہے تو ن لیگ یقنی طور پر احمد حسین ڈیہر پر ترجیح دے گی۔
کیا ن لیگ اپنی خواتین کارکنوں کو نظر انداز کرکے اپنے ضمیر بیچنے والی وجیہہ قمر اور جویریہ ظفر کو مخصوص نشست دیں گی؟ انکا تو سیاسی کیرئیر ختم ہی سمجھیں۔ انکا بھی وہی حال ہوگا جو سوات سے تعلق رکھنے والی مسرت احمد زیب کا ہوا۔
ماضی میں سوات سے تعلق رکھنےو الی تحریک انصاف کی ایم این اے مسرت احمد زیب منحرف ہوکر ن لیگ کیساتھ مل گئی تھیں لیکن ن لیگ نے اسے یکسرنظرانداز کردیا اور مسرت احمدزیب ہاتھ ملتی رہ گئیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ منحرف اراکین کھل کر اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے، انکے ووٹرز کو بھی ان پر غصہ ہے کہ ووٹ تحریک انصاف کے نام پر لیا اور آخر میں ن لیگ اور پی پی کیساتھ مل گئے۔ اسکے باوجود ن لیگ کچھ ایسے منحرف اراکین ہیں جنہیں شاید ٹکٹ دیدے، یہ ٹکٹ ان راکین کو دینا ن لیگ کی مجبوری ہے کیونکہ ان حلقوں میں ن لیگ کے پاس کوئی مضبوط امیدوار نہیں ہے۔
جن کو ٹکٹ ملنے کے امکانات ہیں ان میں سمیع الحسن گیلانی، طلال گوپانگ، باسط سلطان بخاری، ریاض مزاری، امجد فاروق کھوسہ، مبین عالم، عاصم نذیر وغیرہ شامل ہیں لیکن انکے جانے سے ان حلقوں سے تحریک انصاف اب بھی کمزور نہیں ہوئی۔سمیع الحسن کے مقابلہ میں تحریک انصاف کے پاس الیکشن 2018 میں آزادلڑنے والے نواب بہاول عباسی ہے جو 3ہزار ووٹو ںس ے ہارا۔
باسط سلطان بخاری کے متبادل کے طور پر معظم جتوئی، امجد فاروق کھوسہ کے متبادل کے طور پر سیف الدین کھوسہ ، عاصم نذیر کے مقابلہ میں ذوالقرنین ساہی، طلال گوپانگ کے مقابلہ میں شاید سردار خضر حیات، ریاض مزاری کے مقابلہ میں اسکے بھائی نے الیکشن میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔
عامرلیاقت، رمیش کمار کو تو آئندہ ٹکٹ نہیں مل سکے گا، عامرلیاقت نے تو منحرف ہونے کے بعد ویڈیو لیکس کی وجہ سے اپنی حماقت سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اسکا سیاسی کیرئیر تو ختم ہی سمجھیں۔
رہا نورعالم خان تو اسکی حالت یہ ہے کہ اپنے حلقے میں کھل کر چل نہیں سکتا، اپنے گھر میں اپنی زمینوں پر کام کرنیوالے مزارعوں کے ساتھ تصاویر کھنچواکر یہ ثابت کرنیکی کوشش کررہا ہے کہ وہ بہت مقبول ہے۔ اسی حلقے سے 2013 میں تحریک انصاف کے ایک غیرمعروف کارکن ساجد خان نے اسکی ضمانت ضبط کی تھی لیکن تحریک انصاف نے اپنے کارکن کو نظرانداز کرکے نورعالم خان جیسے ایک لوٹے کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔
اب کی بار نورعالم خان کا واسطہ شاید تیمورجھگڑا سے پڑے جو خیبرپختونخوا حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ ہے، کرونا وبا میں اسکے کام کے اسکے ناقدین بھی معترف ہیں۔
باقی رہے علیم خان، جہانگیرترین جو کبھی تحریک انصاف کے ٹاپ 10 میں شمار ہوتے تھے، اگر ن لیگ میں چلے جائیں تو انکی کیا حیثیت ہوگی؟جس علیم خان کو تحریک انصاف وزیراعلیٰ بنانا چاہتی تھی اسے حمزہ شہباز نے جیلوں میں سہولیات فراہم کرنے کا کام دیدیا جو جہانگیرترین کبھی عمران خان کے بعد تحریک انصاف کا دوسرا بڑا ہوا کرتا تھا،آج اسکی حیثیت کیا ہے؟
کیا ن لیگ جہانگیرترین کو خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر والا مقام دیگی؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔علیم خان کا تو وہ حال ہوا ہے کہ نہ خدا ملا نہ وصال صنم، سیاسی کیرئیر بھی تباہ کیا اور حال ہی میں خریدے گئے چینل سماء ٹی وی کی ریٹنگ بھی نیچے لے آیا۔
ن لیگ میں حمزہ شہباز کبھی علیم خان کو خواجہ عمران نذیر، ملک احمد خان والا مقام نہیں دے گا یا شاید یوں کہہ لیں کہ اسے رمضان صدیق بھٹی والا مقام بھی ملنے سے رہا۔
صوبائی اسمبلی سے نذیرچوہان، اسدکھوکھر، عون چوہدری کے بھائی امین چوہدری اور دیگر کی بجائے اپنے ہی اراکین کو ترجیح دینا پڑے گی، یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے دیرینہ کارکنوں کو سائیڈلائن کرکے ان لوگوں کو آگے لائے جو اپنی جماعت کے نہ ہوسکے۔