تحریک انصاف کی پنجاب میں واپسی کو کامران خان نے معجزہ قرار دیدیا

kamrn1h11h1.jpg


اپنے ویڈیو لاگ میں کامران خان نے کہا کہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ عمران خان کے اقتدارعلیحدگی کے 100 روز بعد آج عمران خان اقتدار واپسی سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 11 کروڑ والے صوبے میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ پرویز الٰہی حلف اٹھاچکےہیں۔خیبرپختونخوا میں پہلے ہی تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ ضمنی الیکشن نے ثابت کردیا کہ عمران خان پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر ہے، اب فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ مرکز میں شہباز، زرداری حکومت کب تک قائم رکھنی ہے۔

کامران خان کا کہنا تھا کہ شہباز زرداری حکومت کی اب سکت نہیں ہے کہ وہ جب تک چاہے اقتدار میں رہے۔ آج کا پاکستان تاریخ کے خطرناک ترین معاشی بحران سے نجات مانگ رہا ہے اور اسکے لئے سیاسی جنگ وجدل سے نجات درکارہے۔
https://twitter.com/x/status/1552199357054738432
انکے مطابق اولین ترجیح ملک کو معاشی گرداب سے نکالنا ہے ہزار فیصد ضروری آئی ایم ایف پروگرام بحالی ہے ۔معاشی ماہرین پر مشمل نگران حکومت فوری درکار ہے اس دوران عمران خان الیکشن تیاری کریں زبردست معاشی اور موثر ٹیم تشکیل دیں۔

ایک اور کلپ میں کامران خان کا کہنا تھا کہ اب سے گیم چینج ہوگیا ہے، رات 12 بجے سے پنجاب سے خیبرپختونخوا تک عمران خان کی حکومت ہوگی اور پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے تو ایک تجربہ کار وزیراعلیٰ ہوں گے جو گورننس معاملات کو دوسروں سے زیادہ جانتےہوں گے۔
https://twitter.com/x/status/1551989508819795973
 

Doctor sb

Senator (1k+ posts)
پے در پے پڑنی والی ہزیمت سے ن لیگ کچھ سیکھتی ہے کہ پھر ریت میں سر منہ دبائے معاملات کو اسی ڈگر پر چلائے رکھنا چاہتی ہے؟

مرکزی دھارے کی دائیں و بائیں بازو کی دونوں بڑی جماعتوں کو اس وقت بحران کا سامنا ہے۔ ان کا مخصوص علاقے یا برادری تک محدود ہونا جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ کسی ایک بڑی جماعت کی اجارہ داری قائم ہوگئی اور للکارنے والا کوئی نہ رہا تو اس کے آمرانہ روئیے اور پالیسیوں کا سیاست، جمہوریت، عوام ۔۔۔ سبھی اسٹیک ہولڈرز کو نقصان ہوگا۔ لہذا توازن برقرار رہے تو اچھا ہے!

دونوں پارٹیوں میں بحران قیادت کا ہے۔ قیادتوں کے اعمال نامے بدعنوانی سے سیاہ اور قانونی الزامات کا سامنا ہے۔ ہر دو جماعتوں پر خاندانی آمریت مسلط جن کی اپنی شناخت نہیں اور نہ ہی کریڈٹ پر عوامی خدمت۔ دامن پر کرپشن کے داغ ہوں تو پھر سیاست نظریے کی نہیں مفادات کی ہوتی ہے۔ اسی کمپرومائزڈ پوزیشن کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے کرنا پڑ رہے ہیں۔

نوے کی دہائی کی سیاست کا دور گزر چکا، ن لیگ اور پی پی اگر مین اسٹریم پالیٹکس کی خواہشمند ہیں تو انہیں موجود طرزِ سیاست ترک کرنا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے جب ان میں خاندانی آمریت کا خاتمہ ہوگا۔ کرپشن سے پاک میرٹ سے آئی قیادت ہی ان پارٹیوں کا احیاء کر سکتی ہے۔
 

Back
Top