jigrot
Minister (2k+ posts)
پاکستان تحریکِ انصاف کبھی ایک عوامی قوت، ایک نظریے، اور تبدیلی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ مگر آج، جب پارٹی کو سب سے زیادہ نظریاتی قیادت، تنظیمی اتحاد اور سیاسی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، تو اس کی قیادت یوٹیوب چینلز پر ویوز اور ڈالرز کے پیچھے لگ گئی ہے۔
تنظیمی خلا اور لیڈرشپ کا انحراف
آج پاکستان تحریک انصاف ایک بے سمت قافلہ بن چکی ہے۔ عمران خان قید میں ہیں، کارکنان یا تو جیلوں میں ہیں یا خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور جو قیادت رہ گئی ہے وہ یا تو مصلحتوں کا شکار ہے یا خودغرضی کا۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی مثال سب سے نمایاں ہے۔
علی امین گنڈا پور جو ماضی میں ایک جارحانہ اور دلیر پارٹی ورکر کے طور پر سامنے آئے تھے، آج وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مکمل طور پر خاموش اور غیر فعال نظر آتے ہیں۔ نہ وہ خیبرپختونخوا میں کارکنوں کو متحرک کر رہے ہیں، نہ پارٹی کا کوئی واضح مؤقف پیش کر رہے ہیں۔ مختلف حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ کسی خاموش مفاہمت کے تحت "غیر متنازع" بنے رہنا چاہتے ہیں؟ کیا ان کا مقصد صرف وزیراعلیٰ کی کرسی بچانا ہے، یا وہ واقعی تحریک کی قیادت کرنا چاہتے ہیں؟
ان کی قیادت میں خیبرپختونخوا میں پارٹی کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو چکی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جہاں پورے ملک میں احتجاج ہوا، وہیں کے پی کے میں کسی بھی منظم مزاحمت یا کارکنوں کی تحریک کی قیادت نظر نہیں آئی جس کا بڑا سبب یہی سمجھا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے پارٹی کو ریاستی دباؤ سے بچانے کے لیے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔
یوٹیوب چینلز اور مالی مفادات کی دوڑ
موجودہ قیادت میں متعدد شخصیات اب تنظیمی کام کے بجائے اپنے یوٹیوب چینلز پر مصروف ہیں۔ وہ روز ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں، جذباتی تقاریر کرتے ہیں، اور لاکھوں روپے کماتے ہیں مگر نہ وہ تنظیم کو فعال کر رہے ہیں، نہ کارکنوں کو کوئی سمت دے رہے ہیں، اور نہ ہی کوئی عملی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پارٹی پر شدید ریاستی دباؤ ہے اور کارکنان مایوسی کا شکار ہیں۔
کمپرومائزڈ لیڈرشپ اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت
کئی رہنماؤں نے یا تو خاموش معاہدے کر لیے ہیں یا پسِ پردہ سمجھوتے۔ ایسے عناصر اب پارٹی میں صرف اس لیے موجود ہیں تاکہ وقتی حالات سے فائدہ اٹھا کر اپنی ذاتی سیاسی بقا کو یقینی بنا سکیں۔ ان کے فیصلوں میں نہ کوئی اصول ہے، نہ کارکنان کے لیے کوئی ویژن۔ یہ وہ قیادت ہے جو صرف اپنی "سیاسی انویسٹمنٹ" بچانے کے چکر میں ہے، پارٹی کو ایک نظریاتی تحریک کی بجائے، یوٹیوب شو میں تبدیل کر چکی ہے۔
جب قیادت نظریاتی نہ ہو، اور جدوجہد کی جگہ پیسہ کمانے کو ترجیح دی جائے، تو ایسی تحریکیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔ تنظیمی ڈھانچہ مفلوج ہو چکا ہے، اضلاع کی سطح پر کوئی فعال نیٹ ورک موجود نہیں، اور ورکرز بے یار و مددگار ہیں۔ اس صورتحال میں اگر قیادت صرف آن لائن "برینڈنگ" میں مصروف رہے گی تو یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔
تنظیمی خلا اور لیڈرشپ کا انحراف
آج پاکستان تحریک انصاف ایک بے سمت قافلہ بن چکی ہے۔ عمران خان قید میں ہیں، کارکنان یا تو جیلوں میں ہیں یا خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور جو قیادت رہ گئی ہے وہ یا تو مصلحتوں کا شکار ہے یا خودغرضی کا۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی مثال سب سے نمایاں ہے۔
علی امین گنڈا پور جو ماضی میں ایک جارحانہ اور دلیر پارٹی ورکر کے طور پر سامنے آئے تھے، آج وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مکمل طور پر خاموش اور غیر فعال نظر آتے ہیں۔ نہ وہ خیبرپختونخوا میں کارکنوں کو متحرک کر رہے ہیں، نہ پارٹی کا کوئی واضح مؤقف پیش کر رہے ہیں۔ مختلف حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ کسی خاموش مفاہمت کے تحت "غیر متنازع" بنے رہنا چاہتے ہیں؟ کیا ان کا مقصد صرف وزیراعلیٰ کی کرسی بچانا ہے، یا وہ واقعی تحریک کی قیادت کرنا چاہتے ہیں؟
ان کی قیادت میں خیبرپختونخوا میں پارٹی کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو چکی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جہاں پورے ملک میں احتجاج ہوا، وہیں کے پی کے میں کسی بھی منظم مزاحمت یا کارکنوں کی تحریک کی قیادت نظر نہیں آئی جس کا بڑا سبب یہی سمجھا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے پارٹی کو ریاستی دباؤ سے بچانے کے لیے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کر لی۔
یوٹیوب چینلز اور مالی مفادات کی دوڑ
موجودہ قیادت میں متعدد شخصیات اب تنظیمی کام کے بجائے اپنے یوٹیوب چینلز پر مصروف ہیں۔ وہ روز ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں، جذباتی تقاریر کرتے ہیں، اور لاکھوں روپے کماتے ہیں مگر نہ وہ تنظیم کو فعال کر رہے ہیں، نہ کارکنوں کو کوئی سمت دے رہے ہیں، اور نہ ہی کوئی عملی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پارٹی پر شدید ریاستی دباؤ ہے اور کارکنان مایوسی کا شکار ہیں۔
کمپرومائزڈ لیڈرشپ اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت
کئی رہنماؤں نے یا تو خاموش معاہدے کر لیے ہیں یا پسِ پردہ سمجھوتے۔ ایسے عناصر اب پارٹی میں صرف اس لیے موجود ہیں تاکہ وقتی حالات سے فائدہ اٹھا کر اپنی ذاتی سیاسی بقا کو یقینی بنا سکیں۔ ان کے فیصلوں میں نہ کوئی اصول ہے، نہ کارکنان کے لیے کوئی ویژن۔ یہ وہ قیادت ہے جو صرف اپنی "سیاسی انویسٹمنٹ" بچانے کے چکر میں ہے، پارٹی کو ایک نظریاتی تحریک کی بجائے، یوٹیوب شو میں تبدیل کر چکی ہے۔
جب قیادت نظریاتی نہ ہو، اور جدوجہد کی جگہ پیسہ کمانے کو ترجیح دی جائے، تو ایسی تحریکیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔ تنظیمی ڈھانچہ مفلوج ہو چکا ہے، اضلاع کی سطح پر کوئی فعال نیٹ ورک موجود نہیں، اور ورکرز بے یار و مددگار ہیں۔ اس صورتحال میں اگر قیادت صرف آن لائن "برینڈنگ" میں مصروف رہے گی تو یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔