jigrot
Minister (2k+ posts)
اس وقت پاکستان ایک نازک ترین سیاسی و آئینی بحران سے گزر رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین، عمران خان، جیل میں ہیں، عدالتی نظام دباؤ کا شکار ہے، اور اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی اداروں کو اپنے اثر و رسوخ میں لے رکھا ہے۔ ایسے ماحول میں پی ٹی آئی کی اندرونی قیادت نہ صرف منتشر نظر آتی ہے بلکہ کئی اہم رہنما واضح طور پر کمپرومائزڈ (مصالحاتی یا مجبور) دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں تحریکِ انصاف کو ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ عارضی طور پر پارٹی کا کچھ تنظیمی و انتظامی اختیار اوورسیز پاکستانیوں کو سونپا جائے۔ وہ پاکستانی جو بیرون ملک بیٹھ کر نہ صرف پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں بلکہ آزاد ماحول میں بہتر تجزیہ، لائحہ عمل اور سفارتی دباؤ کے ذرائع تک بھی رسائی رکھتے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آتی رہی ہے بلکہ انہوں نے ہر فورم پر، چاہے وہ بین الاقوامی میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، عمران خان کے بیانیے کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ یہی اوورسیز پاکستانی قیادت کی خلا کو عارضی طور پر پُر کریں اور تحریکِ انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کو بیرون ملک سے منظم کریں۔
پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو چاہیئے کہ وہ باقاعدہ مشاورت سے ایک عارضی اوورسیز کونسل قائم کرے، جس کا مقصد درج ذیل ہو
عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عمران خان کی غیرقانونی قید پر آواز اٹھانا۔
پارٹی کے اندر شفاف نظم و ضبط بحال کرنا اور کمپرومائزڈ قیادت کو وقتی طور پر غیر فعال کرنا۔
پاکستان میں تنظیمی ڈھانچے کو نئے سرے سے فعال بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔
بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں اور اہم عالمی شخصیات سے رابطے بڑھانا تاکہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
یہ ایک وقتی اقدام ہو گا جس کا مقصد عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہو گا۔ جیسے ہی حقیقی قیادت بحال ہو، اوورسیز کونسل اپنی ذمہ داریاں واپس قومی قیادت کو سونپ دے گی۔
یہ وقت مصلحتوں اور خاموشی کا نہیں، تدبیر اور حکمتِ عملی کا ہے۔ اگر عمران خان کو آزادی دلانی ہے، تو ہمیں تنظیمی فیصلوں کو ان ہاتھوں میں دینا ہو گا جو آزاد ہیں، جرات مند ہیں اور نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تحریکِ انصاف اگر بیرونی دباؤ کو منظم انداز میں استعمال کر سکے، تو نہ صرف عمران خان کی رہائی ممکن ہو گی بلکہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی حقیقی تحریک بھی ایک نئے دور میں داخل ہو سکے گی۔