
روزنامہ جنگ میں اپنے آرٹیکل میں انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں!
انصار عباسی کے مطابق یہ قیاس آرائیاں جارہی ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد پیش آنے والے واقعات اور حالات کے نتیجے میں عمران خان اپنی بڑی حمایت کھو چکے ہیں اور اب یہ چند ماہ کی کہانی رہ گئی ہے کہ حکومت شاید چلی جائے۔
سینئر صحافی انصار عباسی کا مزید کہنا تھا کہ حکمران اتحاد میں دراڑیں پڑنے اور پی ٹی آئی میں اندرونی طور پر فیصلے نہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے عمران خان حکومت کو فی الحال ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو انہیں پہلے کبھی درپیش نہ تھے۔
انکے مطابق تحریک انصاف کے 2 اتحادیوں ق لیگ اور ایم کیوایم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے معاملے پر تحفظات ہیں، پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کو بھی تحفظات ہیں اور کئی ارکان الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے انتخابی اصلاحات کے بل پر ووٹنگ کیلئے غیر حاضر تھے یا حامی نہیں تھے اور اجلاس ملتوی کیے جانے سے ایک گھنٹہ قبل ہی وزیراعظم کو اپنی پارٹی کے ارکان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ اس بل کو سنجیدہ لیں اور جہاد سمجھ کر اسے پارلیمنٹ سے منظور کرائیں
مسلم لیگ (ق) کے لیڈر پرویز الٰہی نے ق لیگ کے اندر عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کیخلاف بڑھتی ہوئی شکایات پر بات کرنے کیلئے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔
انصار عباسی نے اس صورتحال کو ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد چند ہفتوں کے اندر پیدا ہونے والے تنازع کو قرار دیا ، انکے مطابق اس صورتحال نے تقسیم شدہ اپوزیشن کو موقع فراہم کیاہے کہ وہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر ممکنہ طور پر ایسی مشترکہ سٹریٹجی بنائیں جس سے عمران حکومت کو چلتا کیاجا سکے۔
انصار عباسی نے بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور خورشید شاہ، شہبازشریف ملاقات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس نہیں آئی، اپوزیشن جماعتیں مل کر پارلیمنٹ میں سوچ بچار کر رہی ہیں۔
سینئر صحافی کے مطابق بگڑتی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مزید بے قدری اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مثبت نتیجہ آنے میں تاخیر کی وجہ سے عمران خان بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور انہوں نے جمعہ کے روز تحریک انصاف کی کور کمیٹی بلاکر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا اور نئی حکمت عملی مرتب کی۔
انصار عباسی نے اپنے آرٹیکل میں کامران خان کے ویڈیو لاگ کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان صاحب میری کوشش رہی عوام کی امیدیں قائم رہیں ، تبدیلی کے وعدے پورے کرنے میں آپکی حوصلہ افزائی کرتا رہوں لیکن اب میں تھک رہا ہوں،آپ سے جڑی امیدیں مدھم پڑ گئیں ہیں۔
کامران خان کا مزید کہنا تھا کہ ،آپ کے خوشامدیوں میں سے کسی نہیں بتایا تو میں بتا دیتا ہوں کہ آپ کی حکومت خطرناک بھنور میں پھنس چکی ہے،خطرہ ہےکہ کنارہ لگنے سے پہلے کشتی ڈوب جائے گی،آپ کپتان ہیں،اسے ڈوبنے سے بچائیں،کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں،چالیس ماہ گذر گئے، بہتری کیا آتی،ہر گزرتاہفتہ بگاڑ میں اضافہ کررہا ہے۔
کامران خان نے اپنے بیان میں ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے معاملے میں تنازع کا بھی حوالہ دیا کہ یہ عمران حکومت کی سب سے بڑی غلطی تھی اور کہا کہ فوج عمران خان کی حمایت کیلئے اب بھی موجود ہے لیکن عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں۔
جنگ کے ہی ایک اور صحافی فاروق اقدس نے دعویٰ کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں واقعتاً تبدیلی آ رہی ہے بلکہ خاصی حد تک آ چکی ہے۔ کچھ ہونے کا تاثر ہے اور وزراء گھبراہٹ کا شکار۔۔کچھ دن پہلے تک جو حکومتی وزراء یہ دعویٰ بڑے یقین اور اعتماد سے کررہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئندہ پانچ سال میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکمرانی کرے گی، اب ان کے اس بیان میں بھی اعتماد کا فقدان محسوس ہوتا ہے ۔
انکے مطابق اسلام آباد میں سفارتی کمیونٹی نے اب اپنے غیر اعلانیہ اور سیاستدانوں سے اعلانیہ رابطے فی الوقت روک دیئے ہیں
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/ik-bajwa-allies-123314.jpg