گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔
رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔
سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔
ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔
سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔
ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔