بھونکے خان

Baadshaah

MPA (400+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
اپنے مفرور لیڈر سے کہو پاکستان آکر بھونکے خان سے جان چھڑائے کھوتے
 

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
مرتدوں میں شادیاں ہوتی ہیں یا ٹھیکے پر بھی کام چلایا جا سکتا ہے؟
 

Malik_007

Senator (1k+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
Ek Moka or day do "Taqdeer" badal donga!!! yeh thi wo rati ratai takreer
 
Last edited:

Diesel

Chief Minister (5k+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
agar time mile To aik bar sindh ka bi visit kar le. waha zardari ki govt 2007 se qayim hai.. zara pta lage zardari ne sindh ke liye ab tak kya kiya hai..
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)

پچھلی آئی ڈی آوٹ ہونے کے بعد یہ ایک نئی آئی ڈی ہے دیہاڑی لگانے کیلئے۔ اب کتنی منتوں سے باجی مریم کو راضی کیا ہے کہ آئیندہ ساری چراند اس نئی آئی ڈی سے ہو گی اور آپ حجرات بیچارے پر راشم پانی لیکر چڑھ دوڑے۔ اب آپ چاہتے کیا ہو؟ کیا بندہ ڈیوٹی بھی نا لگائے؟
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
مرتدوں میں شادیاں ہوتی ہیں یا ٹھیکے پر بھی کام چلایا جا سکتا ہے؟
دلے ہاراں والےُامرت سری کے خاندان میں ماں بیٹی اور داماد کیپٹن صفدر ملکر خاندانی افزائش نسل کرتی ہیں (بقول رانا ثنا اللہ ) اور کوئک سروس
یعنی نکاح کے چار پانچ ماہ میں مہر النِسا کی آمدہوجاتی ہے
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
شرط تھی کے سرپنچ کے نام کے آخر پر شریف یا بھٹو چاہے جعلی ہی کیوں نا ہوں لکھا ہو
شرط رکھنے والے بے وقوف تھے،بھٹو یا شریف کی بجائے لفظ "خلیفہ" بطور لاحقہ یا سابقہ استعمال کرتے تو قبر سے نکل کر مولوی اسرار بھی ان کا منّہ اور ماتھا چومنے دوڑے چلے آتے
 

Modest

Chief Minister (5k+ posts)
جی نہیں۔۔۔ میں تو بھونکے خان کی بات کررہا ہوں۔ ? ? ۔۔
Wahi great Khan jis ke Dar se Noora kutta bhag gaya aur Zardari kutta chari par aa gaya.
Wese paid Patwari tum bhonkne ke liye kitni IDs change karte rehte ho. Peso ki khartir dangar Patwari choro aur lutero ki bharwa geeri karte hai.
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
گئے زمانوں کی بات ہے، دھرتی کے کسی کونے پر ایک گاؤں تھا، گاؤں کے لوگ جیسی تیسی زندگی بسر کررہے تھے، اپنی کماتے تھے اپنی کھاتے تھے، ہر چند سال بعد گاؤں کے لوگ انتخابِ رائے سے اپنا سرپنچ (سردار) منتخب کرلیتے۔۔ گاؤں میں ایک فارغ اور آوارہ آدمی تھا جو کچھ بھی کرتا کراتا نہیں تھا اور لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتا تھا، فارغ وقت وہ گاؤں کے بھاری چھتنار برگد کے پیڑ تلے کھڑا ہوجاتا اور بلاوجہ اور بے تکان بولنے لگتا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام بھونکے خان رکھ دیا تھا۔ بھونکے خان ہر وقت لوگوں کو اس بات پر اکساتا رہتا کہ اس کو اگر گاؤں کا مکھیا بنا دیا جائے تو وہ گاؤں کی تقدیر بدل سکتا ہے، گاؤں کا ہر شخص امیر ہوجائے گا، اور گھر بیٹھ کر بغیر کچھ کام کاج کئے اس کی طرح مفت کی روٹیاں کھائے گا۔۔۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنستے۔ کئی لوگ کہتے، ارے او بھونکے خان ، تو خود تو دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے تو ہمیں کیا خوشحال کرے گا۔۔ اس پر بھونکے خان بغیر برا منائے کہتا کہ اس کے پاس ایک ایسی سکیم ہے جو گاؤں کی زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گی۔۔

رفتہ رفتہ گاؤں کے کچھ آوارہ، فارغ اور نکمے نوجوان اس کی باتوں میں آگئے اور اس کے ارد گرد ہر وقت جمع ہوکر تبدیلی شبدیلی کا نعرہ لگاتے رہتے۔۔ بھونکے خان جب اپنے اردگرد گاؤں کے آوارہ نوجوانوں کو دیکھتا تو خوشی سے اس کا دل بھر آتا۔۔ ہوا کچھ یوں کے گاؤں کا چوکیدار بھی بھونکے خان کی باتوں کو سچ سمجھنے لگا، اسے کیا پتا تھا کہ بھونکے خان چرس کا نشہ کرتا ہے اور اسی نشے کے زیرِ اثر وہ برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر اونگیاں بونگیاں مارتا رہتا ہے۔۔۔ چوکیدار نے بھونکے خان کے ساتھ مل کر سازش رچائی، گاؤں کے منتخب سرپنچ کو نکال باہر کیا اور بھونکے خان کو گاؤں کا سرپنچ بنادیا گیا۔۔ بھونکے خان کے مکھیا بنتے ہی چوکیدار اور گاؤں کے آوارہ لونڈے یہ امید باندھ کر بیٹھ گئے کہ اب ان کا گاؤں ترقی کی منازل طے شروع کردے گا۔۔

سرپنچ بننے کے بعد بھی بھونکے خان کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہ آئی، وہ اسی طرح برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوجاتا اور تقریریں کرتا کہ وہ بہت جلد گاؤں کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔۔ دن پر دن گزرتے گئے ، بھونکے خان کی باتوں میں آکر بیوقوف بننے والے گاؤں کے آوارہ لونڈے اور چوکیدار انتظار کرتے رہے کہ کب گاؤں ترقی کرتا ہے، مگر گاؤں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی گئی۔ ایک سال گزرا، دوسال گزرے، پھر تیسرا سال گزرا اور بھونکے خان ویسے ہی روز برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہوکر واہیات تقریریں کرتا رہا۔ جب چوتھا سال چڑھا تو گاؤں کے آوارہ لونڈوں اور چوکیدار کی امیدیں بھی دم توڑنے لگیں۔ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت تو پہلے ہی بھونکے خان کی "قابلیت" سے اچھی طرح واقف تھی۔۔۔

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ بھونکے خان کو زیادہ ہی مستی چڑھ گئی اور وہ برگد کے پیڑ کے نیچے ہی چرس کے سوٹے لگانے لگا اور سوٹے لگانے کے بعد وہی سالوں سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑنے لگا۔۔ گاؤں کے لوگوں کا صبر کا پارہ لبریز ہوچکا تھا۔ انہوں نے بھونکے خان کو پکڑ لیا اور اسی برگد کے پیڑ کے نیچے لمبے ڈال لیا۔ گاؤں کا ہر باسی آتا اور بھونکے خان کی تشریف پر پانچ لتر لگاتا اور آگے بڑھ جاتا۔ تین چار دن تک بھونکے خان کی چھتر پریڈ کرکے اس کا لیول زمین کے برابر کردیا گیا۔۔۔ اگلے چار پانچ ماہ بھونکے خان کو صحت کی بحالی میں لگ گئے۔۔۔ راوی بتاتا ہے کہ اس کے بعد بھونکے خان جنگلوں کی طرف منہ کرگیا، اس کا سارا نشہ اتر گیا، اس نے بونگیاں مارنی بھی چھوڑدیں اور جنگل میں قائم جادوگرنی کی چھوٹی سی کٹیا میں جنتر منتر سیکھتے ہوئے باقی زندگی گزارنے لگا۔۔۔
اس میں پرویز رشید مرزائی قادیانی کی روح ہے۔۔۔
ساؤتھ لندن سے آپریٹ ہونے والے میڈیا سیل کا ایک کتا ہے۔