چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر تعینات افواج کی سطح کو حالیہ کشیدگی سے پہلے کی حالت پر لانے کے قریب ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان مستقبل میں کشیدگی اور غلط فیصلوں کے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو سنگاپور میں دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے 22 اپریل سے پہلے کی عسکری پوزیشن کی جانب واپسی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، ’’ہم اس حالت کے قریب پہنچ چکے ہیں یا ممکنہ طور پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن صورت حال نہایت خطرناک تھی اور مستقبل میں ’’اسٹریٹجک مس کیلکولیشن‘‘ کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا، ’’جب بحران پیدا ہوتا ہے تو ردعمل روایتی انداز سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس بار کچھ نہیں ہوا، مگر اگلی بار حالات بہت تیزی سے بگڑ سکتے ہیں۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے انکشاف کیا کہ اس بار کی لڑائی صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہی، بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دونوں جانب سے نقصانات کو تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن حملے بڑی حد تک حساس اور اسٹریٹجک مقامات پر کیے گئے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’’یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ آئندہ یہ لڑائی صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بھارت اور پاکستان کے اندرونی علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ کوئی بیک چینل رابطہ ہے اور نہ ہی کسی اعلیٰ سطحی ملاقات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایم اوز (Directors General of Military Operations) کی ہاٹ لائن کے علاوہ دونوں ممالک کے پاس رابطے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’یہ مسائل صرف میدانِ جنگ سے نہیں، بلکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
رائٹرز کے مطابق، حالیہ کشیدگی میں کمی جزوی طور پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی پسِ پردہ سفارت کاری کا نتیجہ تھی۔ تاہم بھارت نے کسی بھی تیسرے فریق کے کردار کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ جنرل مرزا نے اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ کوئی بحران پیدا ہوا تو ’’عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے وقت بہت کم ہوگا، اور تباہی پہلے ہی ہو چکی ہوگی۔‘‘
یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو بھارتی علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کے سفارتی عملے پر پابندیاں لگائیں اور پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کر دیے، حتیٰ کہ بیمار بچوں تک کو وطن واپس بھیج دیا گیا۔
جواب میں پاکستان نے بھارت کو کھلا پیغام دیتے ہوئے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو اعلانِ جنگ قرار دیا، بلکہ بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے فضائی حدود بند کر دی، اور ہر قسم کی تجارت بھی معطل کر دی۔
6 اور 7 فروری کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں — کوٹلی، مریدکے، بہاولپور، باغ اور مظفر آباد — پر میزائل حملے کیے، جن میں 26 شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 3 رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے۔
اس کے بعد بھارت نے پاکستان کی تین ایئربیسز کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا، جس کے بعد پاک فضائیہ نے "آپریشن بنیان مرصوص" کا آغاز کیا اور بھارت کے اندر کئی حساس تنصیبات، بشمول ادھم پور، پٹھان کوٹ، براہموس اسٹوریج، اور S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کو تباہ کر دیا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے واضح مؤقف اپنایا ہے کہ "بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے"۔ اس کے جواب میں جنرل شمشاد مرزا نے زور دیا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر موجودہ حالات میں دونوں ممالک کو بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر تعینات افواج کی سطح کو حالیہ کشیدگی سے پہلے کی حالت پر لانے کے قریب ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان مستقبل میں کشیدگی اور غلط فیصلوں کے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو سنگاپور میں دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے 22 اپریل سے پہلے کی عسکری پوزیشن کی جانب واپسی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، ’’ہم اس حالت کے قریب پہنچ چکے ہیں یا ممکنہ طور پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن صورت حال نہایت خطرناک تھی اور مستقبل میں ’’اسٹریٹجک مس کیلکولیشن‘‘ کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا، ’’جب بحران پیدا ہوتا ہے تو ردعمل روایتی انداز سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس بار کچھ نہیں ہوا، مگر اگلی بار حالات بہت تیزی سے بگڑ سکتے ہیں۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے انکشاف کیا کہ اس بار کی لڑائی صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہی، بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دونوں جانب سے نقصانات کو تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن حملے بڑی حد تک حساس اور اسٹریٹجک مقامات پر کیے گئے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’’یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ آئندہ یہ لڑائی صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بھارت اور پاکستان کے اندرونی علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔‘‘
جنرل شمشاد مرزا نے بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ کوئی بیک چینل رابطہ ہے اور نہ ہی کسی اعلیٰ سطحی ملاقات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایم اوز (Directors General of Military Operations) کی ہاٹ لائن کے علاوہ دونوں ممالک کے پاس رابطے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’یہ مسائل صرف میدانِ جنگ سے نہیں، بلکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
رائٹرز کے مطابق، حالیہ کشیدگی میں کمی جزوی طور پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی پسِ پردہ سفارت کاری کا نتیجہ تھی۔ تاہم بھارت نے کسی بھی تیسرے فریق کے کردار کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ جنرل مرزا نے اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ کوئی بحران پیدا ہوا تو ’’عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے وقت بہت کم ہوگا، اور تباہی پہلے ہی ہو چکی ہوگی۔‘‘
یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو بھارتی علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کے سفارتی عملے پر پابندیاں لگائیں اور پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کر دیے، حتیٰ کہ بیمار بچوں تک کو وطن واپس بھیج دیا گیا۔
جواب میں پاکستان نے بھارت کو کھلا پیغام دیتے ہوئے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو اعلانِ جنگ قرار دیا، بلکہ بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے فضائی حدود بند کر دی، اور ہر قسم کی تجارت بھی معطل کر دی۔
6 اور 7 فروری کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں — کوٹلی، مریدکے، بہاولپور، باغ اور مظفر آباد — پر میزائل حملے کیے، جن میں 26 شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 3 رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے۔
اس کے بعد بھارت نے پاکستان کی تین ایئربیسز کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا، جس کے بعد پاک فضائیہ نے "آپریشن بنیان مرصوص" کا آغاز کیا اور بھارت کے اندر کئی حساس تنصیبات، بشمول ادھم پور، پٹھان کوٹ، براہموس اسٹوریج، اور S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کو تباہ کر دیا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے واضح مؤقف اپنایا ہے کہ "بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے"۔ اس کے جواب میں جنرل شمشاد مرزا نے زور دیا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر موجودہ حالات میں دونوں ممالک کو بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔