
فرانسیسی مصنف نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں ہندتوا کی سوچ کے خلاف رائے دینے والے کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا جاتا ہے۔
خبررساںا دارے کی رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے بھارتی سیاست و سماجیات کے پروفیسر اور فرانسیسی مصنف کرسٹوف جیفر لاٹ نے پرنسٹن یونیورسٹی سے شائع ہونے والی اپنی کتاب " Modi’s India: Hindu Nationalism and the Rise of Ethnic Democracy" میں بھارت میں دم توڑنے والی جمہوریت اور ہندو انتہا پسند سوچ کے حوالے سے ہوشربا انکشافات کردیئے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران کھوکھلا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت نے بھارت میں جنم لیا ہے، مگر مودی جی سے کوئی یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آج بھارت میں جمہوریت کس حال میں ہے؟
انہوں نے کہا کہ بھارت میں جمہوریت آہستہ آہستہ کمزور ہوتے ہوتے آج زوال پزیر ہوچکی ہے جس کے عالمی اداروں کی جانب سے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں اور یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے۔
فرانسیسی مصنف نے کہا کہ بھارت میں ہندتوا کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو غداری اور ملک دشمنی قرار دیا جاتا ہے، پریس کی آزادی کے حوالے سے بھارت 9 پوائنٹس تنزلی کا شکار ہوا ہے اور اس وقت 142 ویں نمبر پر ہے، ہندوانتہا پسند اور قوم پرست حکمران بھارت میں سیلف سنسرشپ نافذ کرنے کیلئے مختلف حربے اور طریقے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف بھارت کے انتہاپسند ونامور ہندورہنما سنت پرم ہنس نے ملک کو ہندو ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر دیا اور اس مقصد کیلئے حکومت کو 2 اکتوبر تک کی ڈیڈلائن بھی دے دی۔
انکے مطابق انتہا پسندوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو انتہا سے زیادہ تنگ کر کے انہیں ملک سے نکال باہر کیا جائے۔
ہندوؤں کی ایک انتہاپسند جماعت کے رہنما سنت پرم ہنس اچاریہ نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ وہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں سے ان کی بھارتی شہریت چھین لے۔اگر 2 اکتوبر تک حکومت نے اس کے انتہاپسند عزائم کی تکمیل نہ کی تو پھر بھارت میں جل سمادھی ہو گی۔
اس انتہاپسند ہندو رہنما نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر بھارت کو ایک ہندو ریاست ڈکلیئر کرے اور یہاں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں پر زور دے کہ وہ بھی ہندودھرم اختیار کریں بصورت دیگر ملک چھوڑ دیں
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/bY8B2pH.jpg