بڑے ملکوں کے لمبے لمبے قرضے

uetian

Senator (1k+ posts)
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/10/131017_world_debts_fz.shtml

بڑے ملکوں کے لمبے لمبے قرضے

اگر سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو امریکی حکومت کے قرضے کی رقم انتہائی سنگین دکھائی دیتی ہے۔
امریکی حکومت کا مجموعی قرضے ایک سو سترہ کھرب ڈالر ہے۔ جو کہ اگلے پانچ برس میں بڑھ کر تین سو کھرب ہو جانے کی توقع ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس کا موزانہ دنیا کی دوسری بڑی معیشتوں سے کیسے کیا جائے۔


جاپان امریکہ سے کوئی زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ اس کے جاریہ قرضے ایک سو دس کھرب کے ہیں۔ کسی بھی معیار سے یہ بہت بڑی بڑی رقوم ہیں۔
اس فہرست میں امریکہ اور جاپان تناہ نہیں ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق دنیا کی تقریباً ہر بڑی معیشت کے قرضے ایک ٹریلین یا دس کھرب یا اس سے زیادہ ہیں۔
ملکی قرضوں کو سیاق و سباق میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ قرضے ضروری نہیں کہ ایک مسئلہ ہوں۔ اگر آپ کی آمدنی اتنی ہے کہ آپ قرضے ادا کر سکیں تو قرضے کوئی بری چیز نہیں ہیں۔
131017161744_global_debt_total_borrowing_464_urd.gif

اس لیے کسی ملک کے قرضوں کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے دو طریقے یا معیار ہیں۔ مجموعی قرضے ملک کی کل مجموعی پیداوار کا کتنے فیصد ہے۔ ملک کے بجٹ کا خسارہ یا حکومت کی آمدن اور اخراجات میں فرق جو ملک کی مجموعی پیداوار کے تناسب میں دیکھا جائے۔
کچھ حکومتوں کے پاس اضافی آمدن کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگر ان کی آمدن ان کے اخراجات سے زیادہ ہوتی ہے۔ اضافی آمدن کا ہونا ملک کے قرضے ادا کرنے یا کم کرنے کا سب سے احسن طریقہ ہے۔
قرضوں اور ملکی پیدوار کی شرح کے اعتبار سے امریکہ کے قرضے اس کی سالانہ پیداوار کے برابر ہیں۔ یہ ایک بڑے واضح فرق سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کے قرضے بھی بہت زیادہ ہیں۔
جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن اس کے مجموعی قرضے اس کی مجموعی پیداوار سے تقریباً دوگنا ہیں۔
اٹلی دنیا کو وہ تیسرا ملک ہے جس کے قرضے اس کی مجموعی ملکی پیداوار سے کہیں زیادہ ہیں گو کہ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا بھی زیادہ فرق سے پیچھے نہیں ہیں۔
حالاں کہ جرمنی جس کو مالی اعتبار سے بڑا منظم ملک کہا جاتا ہے اس کے قرضوں کی شرح بھی ملکی پیدوار کے اسی فیصد ہیں۔
131017173149_global_debt_borrowing_percentage_gdp2_464_urd.gif

قرضے برس ہا برس میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن سنہ دو ہزار آٹھ کے مالی بحران کے بعد ان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بینکوں کی مالی امداد، معیشت کو مندی سے نکالنے کے لیے اقدامات اور ٹیکسوں کی آمدن میں کمی نے حکومتوں کو زیادہ قرضے لینے پر مجبور کیا۔
مثال کے طور سنہ دو ہزار سات میں برطانیہ کے قرضے اور ملکی پیداوار کے چوالیس فیصد تھے جو شرح گزشتہ سال بڑھ کر اٹھاسی فیصد ہو گئی۔
امریکہ میں یہ شرح سنہ دو ہزار سات میں چونسٹھ فیصد تھی جو جرمنی اور فرانس کے برابر تھی ۔ چین اور بھارت جہاں معیشت سست روی کا شکار تو ہوئی لیکن وہاں مندی نہیں آئی وہاں قرضوں کی صورت حال اتنی زیادہ نہیں بگڑی۔ آئندہ پانچ برس میں بھی ان ملکوں کے قرضوں کی صورت حال اتنی زیادہ تبدیل نہیں ہو گی۔
چین کے قرضے اور ملکی مجموعی پیداوار کی شرح میں کمی واقع ہو گئی۔
131017173151_global_debt_deficit_percentage_gdp_464_urd.gif

دوسرے ملکوں کا منظر بالکل مختلف ہے اور زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے مطابق جرمنی کے علاوہ جن ملکوں کے قرضوں اور کل قومی پیداوار کی شرح زیادہ ہے انھیں قرضے کم کرنے میں شدید دشوای پیش آئے گی۔
برطانیہ جہاں حکومت ملک کے قرضے کم کرنے کی کوشش میں ہے وہاں بھی قرضوں کی شرح ملک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہو جائے گی۔
اس کی ایک وجہ حکومتوں کا خسارے سے نکل کر اضافی آمدن پیدا کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے وسائل میں رہ کر اپنی ضروریات کو پورا کرنا یا چادر دیکھ کر پیر پھیلانہ۔
آئی ایم ایف کے مطابق آسٹریلیا اور چین دنیا کی بارہ بڑی معیشتوں میں صرف دو ملک ایسے ہیں جن کی آمدن سنہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی ملکی اخراجات سے زیادہ ہو گی۔ جرمنی کی آمدن اور اخراجات میں جو فرق ہے وہ مثبت رہے گا بلکہ بہتر ہو گا۔ روس آمدن سے خسارے میں چلا جائے گا۔
دنیا کی اور بڑی بڑی معیشتیں بھی اپنے قرضوں اور کل ملکی پیداوار کی شرح میں کمی کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوں گی۔

 

Back
Top