اس وقت مہنگائی عروج پر ہے اور عوام الناس اس سے بے حد پریشان ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت کی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود صرف یہی ایک وجہ ہےجس کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔ میں یہاں اس مہنگائی کی وجوہات اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس فورم کے ذریعے میری بات جناب حماد اظہر تک پہنچ جائے جن کی ذمہ داری ہے۔
مہنگائی کی وجہ
پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں سے کرپٹ عناصر اقتدار میں رہے ہیں اور ان حکومتوں نے خود تو لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہی اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو اسی راستے پر ڈال دیاتا کہ ان سے کوئی سوال نہ ہو ۔ ایک ریڑھی والے سے لے کر کریانہ سٹور تک اور ایک کلرک سے لے کر افسر تک جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ لوٹ رہا ہے۔ ایسے بھی کاروباری حضرات ہیں جنہوں نے کمائی کر کے کڑوروں کے اثاثے بنائیں ہیں لیکن کبھی ایک ٹکہ بھی ٹیکس نہیں دیا اور نہ ہی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی اکثریت اس شر اور زر کی حکومتوں کی حمایت کرتی آ رہی ہے۔ جن کا موٹو یہی رہا ہے کےلوٹو اور پھوٹو۔
مہنگائی کی اس وجہ کا ثبوت
یہی لوگ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں اور جب لوگ ان سے شکایت کرتے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اور عمران خان کو ووٹ دو۔ یہاں تک کہ کئی دکانداروں یہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے پر ہم سے بحث نہ کریں جا کر کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت کو انجوائے کریں۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وہ مافیا ہے جو اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کو ناکام بنانا چاہتا ہے تا کہ ان کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے۔ اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے جو لوگ ذمہ دار ہیں وہ بھی شر کی حکومتوں کے حمایت یافتہ ہیں اور ان مافیاز کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کی کوششیں
یہ جاننا اور ماننا بہت ضروری ہے کہ نہ ہی عمران خان اور نہ تحریک انصاف کی حکومت اس مہنگائی کے حق میں ہو سکتے ہیں۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور لوگ حکومت کے مخالف ہوں اور اپوزیشن کو انہیں استعمال کرنے کا موقع ملے؟ حکومت ان تیس سالوں کے گلے سڑے ںظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہی عادی کرپٹ لوگ اپنے تئیں پوری کوشش میں ہیں کہ اس کو ناکام بنایا جائے۔ نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے اور نہ رشوت کی کمائی کو چھوڑنے پر تیار ہے۔ اگر ان میں سے آدھےلوگ عوام کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسرے آدھے ان کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ حرام کھانے کے عادی ہو چکے ہیں وہ کبھی بھی آسانی سے یہ نہیں چھوڑیں گے۔
زخیرہ اندوزاور گراں فروش مافیا کو ہرانے کا حل
پچھلے ایک سال سے حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک میں پچاس ہزار نئے یوٹیلیٹی سٹورز قائم کئے جائے گے اور اس سے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کے لئے کاروباری مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ منصوبہ بہت سست روی کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ان یوٹیلٹی سٹورز کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں روزمرہ استعمال کی بنیادی ضرورت کی اشیاء خاص طور پر آٹا، چینی، دالیں، گھی اور چاول اور ضروری ادویات کنٹرول ریٹ پر مہیا کی جائیں۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشی کا خاتمہ ممکن ہے۔ جب عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیا مناسب قیمتوں پر دستیاب ہونگی تو ذخیرہ اندوز اور گراں فروش خود ہی ان اشیا کو اسی قیمت یا اس سے کم قیمت پر بیچنے کے لئے تیار ہونگے۔
یوٹیلٹی سٹورز کو کامیاب بنانے کے لئے ان نئے یوٹیلی سٹورز کے قیام کے ساتھ ہی حکومت کو ہر ضلع میں موجود اپنے ممبرصوبائی اسمبلی کی ذمہ داری لگانی چاہئے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے علاقے کے یوٹیلی سٹورز پر اشیا کی فراہمی اور نرخوں کی نگرانی کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ ممبر علاقے کے یوٹیلٹی سٹورز کا اچانک دورہ کرے اور وہاں ان اشیا کی ترسیل اور فراہمی کی نگرانی کرے۔
مہنگائی کی وجہ
پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں سے کرپٹ عناصر اقتدار میں رہے ہیں اور ان حکومتوں نے خود تو لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہی اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو اسی راستے پر ڈال دیاتا کہ ان سے کوئی سوال نہ ہو ۔ ایک ریڑھی والے سے لے کر کریانہ سٹور تک اور ایک کلرک سے لے کر افسر تک جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ لوٹ رہا ہے۔ ایسے بھی کاروباری حضرات ہیں جنہوں نے کمائی کر کے کڑوروں کے اثاثے بنائیں ہیں لیکن کبھی ایک ٹکہ بھی ٹیکس نہیں دیا اور نہ ہی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی اکثریت اس شر اور زر کی حکومتوں کی حمایت کرتی آ رہی ہے۔ جن کا موٹو یہی رہا ہے کےلوٹو اور پھوٹو۔
مہنگائی کی اس وجہ کا ثبوت
یہی لوگ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں اور جب لوگ ان سے شکایت کرتے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اور عمران خان کو ووٹ دو۔ یہاں تک کہ کئی دکانداروں یہ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے پر ہم سے بحث نہ کریں جا کر کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت کو انجوائے کریں۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وہ مافیا ہے جو اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کو ناکام بنانا چاہتا ہے تا کہ ان کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے۔ اس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے جو لوگ ذمہ دار ہیں وہ بھی شر کی حکومتوں کے حمایت یافتہ ہیں اور ان مافیاز کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کی کوششیں
یہ جاننا اور ماننا بہت ضروری ہے کہ نہ ہی عمران خان اور نہ تحریک انصاف کی حکومت اس مہنگائی کے حق میں ہو سکتے ہیں۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور لوگ حکومت کے مخالف ہوں اور اپوزیشن کو انہیں استعمال کرنے کا موقع ملے؟ حکومت ان تیس سالوں کے گلے سڑے ںظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہی عادی کرپٹ لوگ اپنے تئیں پوری کوشش میں ہیں کہ اس کو ناکام بنایا جائے۔ نہ کوئی ٹیکس دینا چاہتا ہے اور نہ رشوت کی کمائی کو چھوڑنے پر تیار ہے۔ اگر ان میں سے آدھےلوگ عوام کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسرے آدھے ان کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ حرام کھانے کے عادی ہو چکے ہیں وہ کبھی بھی آسانی سے یہ نہیں چھوڑیں گے۔
زخیرہ اندوزاور گراں فروش مافیا کو ہرانے کا حل
پچھلے ایک سال سے حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک میں پچاس ہزار نئے یوٹیلیٹی سٹورز قائم کئے جائے گے اور اس سے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کے لئے کاروباری مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ منصوبہ بہت سست روی کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر ان یوٹیلٹی سٹورز کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں روزمرہ استعمال کی بنیادی ضرورت کی اشیاء خاص طور پر آٹا، چینی، دالیں، گھی اور چاول اور ضروری ادویات کنٹرول ریٹ پر مہیا کی جائیں۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشی کا خاتمہ ممکن ہے۔ جب عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیا مناسب قیمتوں پر دستیاب ہونگی تو ذخیرہ اندوز اور گراں فروش خود ہی ان اشیا کو اسی قیمت یا اس سے کم قیمت پر بیچنے کے لئے تیار ہونگے۔
یوٹیلٹی سٹورز کو کامیاب بنانے کے لئے ان نئے یوٹیلی سٹورز کے قیام کے ساتھ ہی حکومت کو ہر ضلع میں موجود اپنے ممبرصوبائی اسمبلی کی ذمہ داری لگانی چاہئے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے علاقے کے یوٹیلی سٹورز پر اشیا کی فراہمی اور نرخوں کی نگرانی کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ ممبر علاقے کے یوٹیلٹی سٹورز کا اچانک دورہ کرے اور وہاں ان اشیا کی ترسیل اور فراہمی کی نگرانی کرے۔