
بلوچستان میں گزشتہ سال کے بدترین سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد غربت کے مارے اپنی بیٹیاں بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں،بی بی سی کی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے اردو پلیٹ فارم پر شائع کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2022 میں بلوچستان میں ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد کے حالات بہت برے ہیں، غربت کے ہاتھوں مجبور افراد زندگی گزارنے کیلئے مشکل سے مشکل راستوں پرچلنے سے بھی گریز نہیں کررہے۔
رپورٹ میں بلوچستان کے دور دراز کے ضلع جعفر آباد کے علاقے چوکی جمالی میں رہنےو الے افراد کے بارے میں انکشاف کیا گیا کہ سیلاب کے بعد یہاں رہنےوالوں کے حالات بہت برے ہیں، لوگ شدید غربت کا شکار ہیں اور غربت کے مارے اپنی بیٹیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
چوکی جمالی کے ایک مزدور نے اس حوالے سے بی بی سی کےنمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیلاب کے دوران میری بیوی کا آپریشن ہونا تھا، میں نے فوری طور پر ساڑھے تین لاکھ روپے قرض لے کر بیوی کا آپریشن کروادیا، میرا بچہ ضائع ہوگیا مگر میری بیوی بچ گئی، بعد میں قرض دینے والوں نے اس پر سود عائد کرکے مجھ سےپانچ لاکھ روپے کا تقاضہ شروع کردیا۔
اس مزدور نے کہا کہ قرض واپس کرنے کیلئے جب مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا میں نے اپنی 10 سال کی بیٹی اپنے ایک پڑوسی کو فروخت کردی، میں نے اپنی بیٹی کو رضامند کرنے کیلئے اسےسمجھایا کہ اگر وہ اس 40 سالہ شخص سے شادی کرلے گی تو اس کے بدلے میں ہمیں پیسے ملیں گے، ان پیسوں سے ماں کا علاج ہوگا اور اس کیلئے دوائیاں آئیں گی۔
رپورٹ کے مطابق فروخت ہونےو الی بچیوں کی قیمت 3 سے 5 لاکھ روپے لگائی جاتی ہے، سیلاب کے دوران علاقے کے کسان اور مزدور قرض لے کر گزارا کرتے رہے اور پھر اس قرض پر سود لگتا چلا گیا، قرض چکانے کیلئے ان مزدوروں اور کسانوں کو اپنی بیٹیاں40 سے 60 سال کے عمر کے مردوں کو بیچنا پڑیں۔
بیٹیوں کو فروخت کرکے ملنے والی رقم سے یا تو قرض کی ادائیگی کی جاتی ، یا کسی بیمار کا کراچی سے علاج ہوتا یا بیٹوں کی تعلیم پر وہ رقم لگادی جاتی، جس کے گھر میں بیٹیاں نہیں ہوتیں وہ سیلاب کے بعد اپنے گھر کا سارا سازو سامان بیچ کر کسی زمیندار کی زمین پر کام کرکے قرض کی رقم اتار رہے ہیں۔