atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
بربری کروڑوں پاؤنڈ کے ملبوسات اور پرس کیوں جلا رہا ہے؟
برطانوی فیشن برانڈ بربری کی جانب سے گذشتہ برس دو کروڑ 86 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ایسے ملبوسات، پرس اور پرفیومز نذرِ آتش کر دیے گئے تھے جو دکانوں میں فروخت نہیں ہو پائے تھے۔
کمپنی کی جانب سے اس اقدام کی وجہ اپنے برانڈ کا تحفظ بتائی گئی تھی۔ بربری گذشتہ پانچ برس کے دوران نو کروڑ پاؤنڈ مالیت سے زیادہ کی ایسی اشیا تلف کر چکا ہے۔
بربری اور اس جیسے کچھ فیشن ادارے اپنے اس سامان کو چوری ہونے یا ارزاں داموں پر فروخت ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھاتے ہیں۔
مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فیشن بزنس کی تعلیم دینے والی ماریا میلون کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ چند برسوں کے دوران بربری اپنے برانڈ کو دوبارہ سے ایکسکلوسِو بنانے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ حال ہی میں ایک زمانہ وہ آیا کہ نقالوں نے جہاں ممکن ہو سکا بربری کا مشہورِ زمانہ چیک لگا دیا تھا۔‘
ان کے مطابق اپنی اضافی مصنوعات کو تلف کرنا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔
ماریا کہتی ہیں کہ ’وہ یہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ بازار میں بربری کی سستی اشیا کی بھرمار نہ ہو جائے۔ وہ نہیں چاہتے کہ بربری کی چیزیں ہر کسی کے ہاتھ لگیں اور وہ انھیں سستے داموں بیچ کر برانڈ کی وقعت کو کم کر دیں۔‘
بربری وہ واحد کمپنی نہیں جسے اضافی سٹاک سے نمٹنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
ریچمونٹ کارٹیئے اور موں بلاں جیسے برانڈز کی مالک ہے اور اسے گذشتہ دو برس میں 43 کروڑ پاؤنڈ مالیت کی گھڑیاں واپس خریدنی پڑی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان گھڑوں کے کچھ حصے تو دوبارہ استعمال ہو جائیں گے لیکن زیادہ تر چیزیں ضائع کر دی جائیں گی۔
بربری اور اس جیسے کچھ فیشن ادارے اپنے سامان کو چوری ہونے یا ارزاں داموں پر فروخت ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھاتے ہیں
ماحولیاتی کارکن اس پر ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
گرین پیس سے تعلق رکھنے والی لو ین کا کہنا ہے کہ ’انتہائی مہنگے ہونے کے باوجود بربری اپنی مصنوعات کی قدر نہیں کرتا کہ ان کی تیاری میں کس قدر محنت ہوئی اور کتنے قدرتی وسائل استعمال کیے گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اضافی مصنوعات کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ چیزیں تیار کر رہے ہیں اور بجائے کہ وہ اپنی پیداوار کم کریں وہ بہترین حالت کے کپڑے اور دیگر مصنوعات جلا ڈالتے ہیں۔‘
لو کا کہنا ہے کہ ’یہ فیشن کی صنعت کا ایک گندا راز ہے اور بربری تو صرف اس کا ایک سِرا ہے۔‘
گلاسگو یونیورسٹی کے لندن کیمپس میں برٹش سکول آف فیشن کے سربراہ ٹم جیکسن کا کہنا ہے کہ بربری جیسی لگژری فیشن کمپنیوں کو ایک الٹ پھیر کا سامنا ہے۔
’اپنے شیئرہولڈرز کو مطمئن رکھنے کے لیے انھیں پیداوار بڑھانی ہے چاہے اس کا نتیجہ شناخت کھونے اور اضافی سٹاک کی شکل میں نکلے۔‘
ان کے مطابق ’اسی لیے ان کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کا کوئی حل نہیں ہے۔‘
Soruce
برطانوی فیشن برانڈ بربری کی جانب سے گذشتہ برس دو کروڑ 86 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے ایسے ملبوسات، پرس اور پرفیومز نذرِ آتش کر دیے گئے تھے جو دکانوں میں فروخت نہیں ہو پائے تھے۔
کمپنی کی جانب سے اس اقدام کی وجہ اپنے برانڈ کا تحفظ بتائی گئی تھی۔ بربری گذشتہ پانچ برس کے دوران نو کروڑ پاؤنڈ مالیت سے زیادہ کی ایسی اشیا تلف کر چکا ہے۔
بربری اور اس جیسے کچھ فیشن ادارے اپنے اس سامان کو چوری ہونے یا ارزاں داموں پر فروخت ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھاتے ہیں۔
مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فیشن بزنس کی تعلیم دینے والی ماریا میلون کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ چند برسوں کے دوران بربری اپنے برانڈ کو دوبارہ سے ایکسکلوسِو بنانے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ حال ہی میں ایک زمانہ وہ آیا کہ نقالوں نے جہاں ممکن ہو سکا بربری کا مشہورِ زمانہ چیک لگا دیا تھا۔‘
ان کے مطابق اپنی اضافی مصنوعات کو تلف کرنا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔
ماریا کہتی ہیں کہ ’وہ یہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ بازار میں بربری کی سستی اشیا کی بھرمار نہ ہو جائے۔ وہ نہیں چاہتے کہ بربری کی چیزیں ہر کسی کے ہاتھ لگیں اور وہ انھیں سستے داموں بیچ کر برانڈ کی وقعت کو کم کر دیں۔‘
بربری وہ واحد کمپنی نہیں جسے اضافی سٹاک سے نمٹنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
ریچمونٹ کارٹیئے اور موں بلاں جیسے برانڈز کی مالک ہے اور اسے گذشتہ دو برس میں 43 کروڑ پاؤنڈ مالیت کی گھڑیاں واپس خریدنی پڑی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان گھڑوں کے کچھ حصے تو دوبارہ استعمال ہو جائیں گے لیکن زیادہ تر چیزیں ضائع کر دی جائیں گی۔
بربری اور اس جیسے کچھ فیشن ادارے اپنے سامان کو چوری ہونے یا ارزاں داموں پر فروخت ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھاتے ہیں
ماحولیاتی کارکن اس پر ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
گرین پیس سے تعلق رکھنے والی لو ین کا کہنا ہے کہ ’انتہائی مہنگے ہونے کے باوجود بربری اپنی مصنوعات کی قدر نہیں کرتا کہ ان کی تیاری میں کس قدر محنت ہوئی اور کتنے قدرتی وسائل استعمال کیے گئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اضافی مصنوعات کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ چیزیں تیار کر رہے ہیں اور بجائے کہ وہ اپنی پیداوار کم کریں وہ بہترین حالت کے کپڑے اور دیگر مصنوعات جلا ڈالتے ہیں۔‘
لو کا کہنا ہے کہ ’یہ فیشن کی صنعت کا ایک گندا راز ہے اور بربری تو صرف اس کا ایک سِرا ہے۔‘
گلاسگو یونیورسٹی کے لندن کیمپس میں برٹش سکول آف فیشن کے سربراہ ٹم جیکسن کا کہنا ہے کہ بربری جیسی لگژری فیشن کمپنیوں کو ایک الٹ پھیر کا سامنا ہے۔
’اپنے شیئرہولڈرز کو مطمئن رکھنے کے لیے انھیں پیداوار بڑھانی ہے چاہے اس کا نتیجہ شناخت کھونے اور اضافی سٹاک کی شکل میں نکلے۔‘
ان کے مطابق ’اسی لیے ان کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کا کوئی حل نہیں ہے۔‘
Soruce