بدگمانی اہل جنت[FONT=&] کا طریقہ نہیں ,بدگمانی سے کفار متصف [/FONT][FONT=&]تھے[/FONT]
امن وسلامتی دراصل باہمی مضبوط روابط انسانیت اور آپسی محبت وانسیت سے فروغ پاتی ہے۔ جس سماج میں بھی انسانیت اور آپسی محبت وانسیت کا جس قدر وجود ہوگا اسی کے بقدر وہاں پر امن وسلامتی کے آثار ملیں گے اور جس سر زمین پرجس قدر یہ چیزیں مفقود ہوں گی وہاں پر اسی کے بقدر امن وسلامتی کا وجود بھی خطرے میں ہوگا۔
یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ جس محلہ اور گاؤں میں لوگوں کے باہمی تعلقات مستحکم ہوتے ہیں، وہاں آپسی محبت واُنسیت نظر آتی ہے۔ اور جہاں آپسی محبت واُنسیت کی حکمرانی ہوتی ہے، وہاں انسانیت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اور جہاں انسانیت کا وجود ہوتا ہے، وہاں لوگ ایک دوسرے کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی عزت وآبرو کی مکمل حفاظت کرتے ہیں، وہاں پر کسی پر کیچڑ اچھالنا تو دور کی بات؛ بلکہ دوسرے پر اچھالے گئےکیچڑ کو صاف کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔ اور جس سماج میں یہ خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں وہی سماج امن وسلامتی کا گہوارہ کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں آپسی کشیدگی ہو، دلوں میں بغض وحسد کا آتش فشاں پھٹ رہا ہو، جہاں پر بدظنی کی لہر پائی جاتی ہو، وہاں آپسی محبت واُنسیت کی روح مر جاتی ہے اور اخوت وبھائی چارگی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے سماج میں پھر انسانیت کا تصوّر عبث ہے اور اس کی امید کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ بلاشبہ اس سماج میں جہنم کا ماحول نظر آئے گا اور وہاں امن وسکون کا دور دور تک نام ونشان نہ ہوگا۔
بلکہ وہاں رنجشوں کی بھٹی ہر وقت دہکتی ہوگی، جو تعلقات کو جلا کر خاکستر کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہاں نفرت وبدظنی کی آندھی ہوگی، جو اُخوت وبھائی چارگی کو بنیاد سے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہاں ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے کا ایسا گھناؤنا ماحول ہوگا جس سے انسانیت پناہ مانگتی ہوگی۔ انہی امراض ناسور سے بچنے کے لیے قرآن حکیم نے بدظنی سے بچنے کا حسین نظریہ پیش کیا۔ ارشاد باری ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ 12 ) [الحجرات: 12]
اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
اور حدیث شریف میں بھی اس بدگمانی سے بچنے کی بےحد تاکید آئی ہے:
إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث متفق عليه
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بد گمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ بخاری:5143مسلم:2563
قرآن کریم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر بدظنی سے اس قدر دور رہنے کی تاکید کیوں کی ہے؟ بلاشبہ یہ تاکید ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناً بدظنی ایک بہت ہی بری چیز ہے اور اس سے بڑے بڑے خطرات وجود میں آتے ہیں۔ یہ تاکید اس لیے بھی کی گئی تاکہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ یہ تاکید اس لیے بھی کی گئی تاکہ امن وسکون کا ماحول بن پائے ۔ چنانچہ دین اسلام نے کتاب وسنت کے ذریعہ متعدد طرق سے لوگوں کو حسن ظن کی ترغیب دلاتےاوربدظنی کی مذمت کرتے ہوئے اس کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ لوگ اس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کریں۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ ایک برائی دوسری برائی کو کھینچ لاتی ہے اور اس طرح صرف ایک برائی کئی برائیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے نیز اس کا انجام، باعث شرم وندامت اور سبب ذلت وخواری ہوتاہے۔ ذرا غور کیجئے قرآن مجید کی اس آیت کریمہ پر:
وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ 62 أَتَّخَذْنَاهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ص:62 - 63
اور جہنمی کہیں گے کیا بات ہے کہ وه لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ کیا ہم نے ہی ان کا مذاق بنا رکھا تھا یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں۔
مکہ کے کفار ومشرکین کے فاجر قسم کے لوگ غریب اور نادار مومنوں کا مذاق اڑیا کرتے تھے ۔ تفسیر ابن کثیر میں ان فاجروں میں ابو جہل کا نام ذکر کیا گیا ہے جو حضرت بلال، حضرت عمار اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑاتا تھا اور ان کو ازراہ خبث برے لوگوں میں شمار کرتا تھا ۔
دوسری تفاسیر میں مطلق طور پر روسائے کفار قریش کا ذکر کیا گیا ہے اور صحابہ میں حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت سلمان وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین کا نام پیش کیا گيا ہے کہ ان نادار مومنوں کو مکہ کے سردار لوگ اشرارکہا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ بد ظنی کی بنیاد پر کیا کرتے تھے۔ ان کا گمان تھا کہ فقیر لوگ جو ان کے آبائی دین سے دور ہو چکے ہیں وہ اشرار ہیں اور وہ جہنم میں جائیں گے۔ مگر آخرت میں نتیجہ اس کے بر عکس ہوگا۔ بلکہ یہ بد گمانی رکھنے والے اور خود کو برحق سمجھنے والے ہی جہنم میں جائیں گے۔
قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے اور اس کا آخری نتیجہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آَمَنُوا يَضْحَكُونَ 29 وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ 30 وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ31 وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ 32 وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ 33 فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ - المطففين:29 - 34
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑیا کرتے اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے۔ اور جب اپنے لوگوں کی طرف لوٹتے تو دل لگی کرتے تھے اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقینا یہ لوگ گمراہ ہیں یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہيں بھیجے گئے۔ پس آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے ۔ تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے۔ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پالیا۔
اور ارشاد ربانی ہے
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آَمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ - البقرة: 212
کافروں کے لیے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے۔ وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؛ حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کےدن ان سے اعلیٰ ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتاہے۔
چونکہ مسلمانوں کی اکثریت غرباء پر مشتمل تھی جو دنیوی آسائش اور سہولتوں سے محروم تھے اس لیے کفار یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اُڑاتے تھے جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور میں شیوہ رہاہے۔ اہل ایمان کے فقراء کا اور ان کی سادگی کا کفار جو استہزا کرتے اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہاہے کہ قیامت والے دن یہی فقراء اپنے تقویٰ کی بدولت بلندی والے ہوں گے۔ بےحساب روزی کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ان فقراء پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دئیے جن سے سامان دنیا اوررزق کی فراوانی ہوگئی۔ أحسن البیان:84-85
یہاں تک اللہ تعالیٰ نے بدگمانی کا وہ فلسفہ پیش کیا جو کفار ومومنوں کے درمیان تھا۔ مومنوں کی صفت بدگمانی سے خالی تھی۔ جبکہ کفار بدگمانی سے متصف تھے۔ اور آخرت میں یہ بدگمانی باعث ندامت ثابت ہوئی اور ان سب کا ٹھکا نہ جہنم بن گیا؛ بلکہ جن کے بارے میں وہ بدگمانیوں میں مبتلاتھے وہ جنت میں داخل ہوگئے۔ یعنی بدگمانی کواہل جنت کا شیوہ نہیں؛ بلکہ اہل جہنم کا شیوہ بتلا یا گیا۔ اور بدگمانی اس قدر بری چیزہے کہ مومنوں کو اس سے محتاط رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ 12 - الحجرات: 12
اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔
ظن کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب، اہل خیر اور اہل صلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسا گمان رکھنا جو بےاصل ہو،یقیناً تہمت وافتراءکے ضمن میں آتاہے۔اسی لیے اس کا ترجمہ بدگمانی سےکیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أکذب الحدیث (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے إياكم والظن(البخارى) ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے، ان کے گناہوں کی وجہ سے بدگمانی رکھنا، وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور جس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔
إن الظن القبيح بمن ظاهره الخير لايجوز، وإنه لا حرج فی الظن القبيح بمن ظاهره القبيح
(القرطبی - أحسن البيان:1459-1460)
ايسے شخص كے بارے ميں بدگمانی جائز نہيں جس كا ظاهر خير ہو البتہ جس كا ظاهر ہی برا(يعنی گناه پر مبنی ) ہو اس كے بارے ميں بدگمانی ميں كوئی حرج نہيں۔
اگر اس آیت کریمہ کے اندر آپ غور کریں تو آپ کو بخوبی یہ اندازہ ہو جائےگا کہ یہاں نہ صرف بد گمانی سے روکا گیاہے؛ بلکہ کسی کا بھید ٹٹولنے اور غیبت کرنے سے بھی منع کیا گیاہے، تاکہ مسلمانوں کی عزت وآبرو کا قلعہ محفوظ رہ سکے۔ کیونکہ انسان جب کسی کے بارے میں بدظنی کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر نہ اس کے بھید ٹٹولنے سےباز آتا ہے اور نہ ہی اس کی غیبت کرنے سے احتراز کرتا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں انسان کی عزت وناموس کے قلعہ میں شگاف پیدا کر دیتی ہیں۔ اور ان ساری قباحتوں کا اصل سبب یہی بدگمانی ہے۔
آیت کریمہ میں غیبت کو اپنےمردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قراردیا گیا ہے۔ یعنی اس مذموم فعل کی جسارت کرنے اور اس کے انجام دینے کا سبب بھی یہی بدگمانی ہے۔ اگر انسان بدگمانی میں مبتلا نہ ہو، تو وہ ان وعیدوں کے زمرہ میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔ ورنہ بدگمانی کے چکر میں قدم قدم پر اس کا پھسلنا یقینی ہے۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَنَافَسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا مسلم:6701
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بد گمانی سے بچو، کیوں کہ بد گمانی سب سے بڑ اجھوٹ ہے، اور عیبوں کی ٹوہ مت لگاؤ اور نہ جاسوسی کرو، اور نہ دوسرے کا حق غصب کرنے کی حرص اور اس کے لیے کوشش کرو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ باہم بغض رکھو، نہ ایک دوسرے کو پیٹھ دکھاؤ، اور اے اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی ہو جاؤ۔ (امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو باب تحریم الظن کے تحت ذکر کیا ہے ۔ یعنی بد گمانی کو حرام کاموں میں شمار کیا ہے۔)
عموماً بدگمانی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی عیب جوئی میں لگ جاتے ہیں۔ جب کہ عیب جوئی نہایت ہی گھٹیا خصلت ہے۔ ایک مسلمان کی صفت یہ ہے جب کسی کےاندر کوئی عیب دیکھ بھی لے تو اس کو چھپانے کی کوشش کرے۔
من ستر مسلما ستر اللہ لہ یوم القیامۃ
جو کسی کا عیب چھپائےگا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا عیب چھپائے گا۔
جو شخص کسی کے عیب ظاہر کرنے میں لگ جاتا ہے،تو وہ گویا فتنہ وفساد کو جنم دینے میں لگ جاتا ہے۔
عن معاوية رضی الله عنه قال:سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول:إنك إن اتبعت عورات المسلمين، أفسدتهم أو كدت أن تفسدهم
(أبوداود: 4888 حدیث صحیح)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا، آپ فرماتے تھے کہ: اگر تو مسلمانوں کے عیبوں کی تلاش میں رہےگا تو ان کے اندر بگاڑ پیداکرےگا یا قریب ہے کہ تو ان کے اندر فساد پیداکردےگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بد گمانی اور اس سے پیدا ہونے والی تمام برائیوں سے محفوظ رکھے، آمین۔
أقول قولی هذاواستغفرالله لی ولکم ولسائرالمسلمين،واستغفروہ،إنہ ھوالغفورالرحیم۔
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَا وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ
صحیح بخاری:6313، اور یہ لفظ بخاری کے ہیں، صحیح مسلم:2710،
اے اللہ میں نے اپنی جان کو تیرا فرمانبردار بنالیا، اپنا کام تیرے سپرد کردیا، اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کرلیا، اپنی کمر تیرے لئے جھکادی، تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے، نہ تجھ سے بھاگ کر جانے کی کوئی پناہ ہے نہ راہ نجات ہے مگر تیری طرف ہی، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تونے نازل کیا اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔