بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (ا&#

Status
Not open for further replies.

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

السلام علیکم،

سچ بولو بھائی صاحب، آپ کی تحریر میں زبردست قسم کی خرابیاں ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ ٹھنڈے دل سے سوچیں، اللہ کو اپنا گواہ بنائیں اور انصاف سے کام لیتے ہوئے بات کریں۔
دین میں اضافہ اور جدید ایجادات و وسائل


الیوم اکملت لکم دینکم


آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے

جی ہاں، دین مکمل ہو چکا ہے۔

اور اسی دین میں اللہ تعالی نے اپنی مرضی سے "نفل عبادات" اپنے سہولت کے وقت میں انجام دینے کی اجازت رکھی ہے، مگر آج اپ لوگ اپنی بدعت کی خود ساختہ تعریف کے تحت اس حلال اللہ کو اپنی طرف سے حرام بنائے بیٹھے ہیں۔

بھائی صاحب، دین مکمل ہو چکا ہے اور اللہ کی شریعت میں جن نفل عبادات کی اجازت ہے، اسے آپ اپنی طرف سے حرام نہ بنائیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام امت سے افضل ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت نہیں دی کہ اپنے طور پر کسی عمل کو اچھا سمجھتے ہوئے اسے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ لیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ صحیح احادیث میں مذکور ہے جس میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سامان ہے

جاء ثلاث رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا : أين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم : أما أنا فإني أصلي الليل أبدا ، وقال آخر : أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر : أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني )
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح
تین آدمی (صحابی )نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے اور (ازواج مطہرات سے) نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو گویا انہوں نے اسے تھوڑا جانا۔ پھر کہنے لگے کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ ایک نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رات کو ہمیشہ قیام کروں گا، دوسرے صحابی نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے صحابی نے کہا میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف لائے تو (معاملے کی اطلاع ملنے پر) فرمایا تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہوں لیکن میں (نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

اس قصے سے بڑا اہم سبق ملتا ہے کہ تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اچھے کام کا ارادہ کیا اور اچھی نیت سے کیا۔ کون کہ سکتا ہے کہ روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا بری بات ہے۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں اپنے طریقے سے ہٹ کر نفلی روزہ اور نفلی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہو گیا کہ نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا بظاہر نیک عمل بھی اس وقت تک کوئی وزن نہیں رکھتا جب تک اس پر محمدی مہر تصدیق نہ ہو۔

سچ بولو بھائی صاحب۔۔۔۔ ذرا سچ بولیے گا کہ کیا آپ نے یہ لکھنے سے قبل میرا مراسہ پورا پڑھا بھی تھا کہ نہیں؟

کیونکہ اگر آپ نے میرا پورا مراسلہ آنکھیں کھول کر انصاف کے ساتھ پڑھا ہوتا تو پھر آپ کو یہ بودی دلیل لانے کی ہمت نہ ہوتی۔

یہ روایت اصل میں بذات خود آپ لوگوں کی زبردست طریقے سے تکذیب کر رہی ہے اور اس حدیث سے نفل عبادات کا حلال ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ آپ کے لیے ایک مرتبہ پھر وہی عرض کر رہی ہوں جو کہ پہلے مراسلے میں تفصیل سے بیان کیا تھا۔

by mehwish_ali


شریعت کی اصطلاح میں "بدعت" کیا ہے

ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ
جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
یعنی بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
رہبانیت اسی اصول کے تحت حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح
انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
یہ حدیث نئے افعال کے متعلق ہمیں چند مزید اصول دے رہی ہے۔اس حدیث کے میں جن نئے کاموں سے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے، ان کے متعلق نوٹ فرمائیے کہ:
ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔

اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔

شریعت کا پہلا اصول: کچھ چیزوں کو نام لے کر حلال/حرام کرنا، اور کچھ چیزوں کو ایک بنیادی اصول کی وجہ سے حلال/حرام قرار دینا

شریعت میں جو چیزیں نام لے کر حرام کی گئی ہیں، وہ واضح ہیں اور سب کو ان کا علم ہے۔مگر کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا وجود رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مثلاً ہیروئن کا نشہ رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ایک بنیادی اصول ہے کہ جو چیز بھی انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دے، وہ حرام ہے۔ اور اس بنیادی اصول کی وجہ سے آج کے دور میں ہیروئن کا نشہ حرام قرار پایا۔

شریعت کا دوسرا اصول: اگر کوئی عمل رسول ﷺ کی کسی سنت کو ختم کر دے، تو وہ حرام ہے

رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت کے زمرے میں آ جائے گا۔رہبانیت اسی اصول کی وجہ سے اسلام میں حرام ٹہری۔
اس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ نئے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً:
پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔

پس شریعت نے ایک بنیادی اصول یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس انتہا تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:
اگر میں نے ہفتے میں تین روزے رکھے ہیں، تو تم لوگ بھی صرف تین روزے رکھ سکتے ہو۔ اور اگر تم نے ہفتے میں تین کی جگہ چار یا پانچ روزے رکھنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اور اسی طرح اگر میں رات کے صرف ایک پہر عبادت کرتا ہوں، اور اگر تم نے ایک پہر کی جگہ دو یا تین پہر عبادت کرنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اسی طرح میں نے بارہ شادیاں کیں ہیں، مگر اگر کوئی اس نیت سے صرف ایک شادی کرتا ہے کہ زیادہ شادیاں کرنے سے اس کے پاس عبادت کا وقت کم ہو جائے گا، تو اُس کا یہ نیت کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل کیا جا سکتا ہے، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔
. پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
. اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔


شریعت کا تیسرا اصول: ہر چیز اصل میں مباح ہے جبتک نص سے اسکی حرمت نہ ظاہر ہو

کون سا نیا کام بدعت ہے، اور کونسا نہیں، اس کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم شریعت کے اس اصول کو اچھی طرح سمجھیں کہ دینِ اسلام میں ہر چیز اصل میں مباح ہے (یعنی اس کی اجازت ہے تاوقتیکہ کسی نص کی بنیاد پر اُس کام کو اللہ نے حرام نہ قرار دیا ہو)
مثلاً محمد و آلِ محمد (علیھم الصلوۃ و السلام) پر درود بھیجنا ایک بہت بابرکت عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر کام کے آغاز سے پہلے (مثلاً اذان سے قبل) درود پڑھنا چاہے، تو کیا شریعت میں یہ عملِ حرام قرار دیا جائے گا؟
نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ درود صرف کچھ خاص اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے، اور باقی اوقات میں پڑھنا حرام ہو۔
اور جب تک ایسی کوئی حرمت ثابت نہ ہو، اُس وقت تک شریعتِ محمدیہ میں اپنی ذاتی رائے/اجتہاد سے کیا گیا ہر نیا کام مباح رہتا ہے (چاہے رسول ﷺ نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو یا ایسا کوئی حکم موجود نہ ہو


اہلحدیث علماء کا ضعیف (بلکہ منکر) روایت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا

حیرت ہے کہ آپ کے علماء تو "صحیح" حدیث کے ایسے چیمپئین بنتے ہیں جیسے کہ صحیح حدیث کے وہ واحد ٹھیکیدار ہوں۔ مگر کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب اپنا مقصد حاصل کرنا ہو تو یہی علماء بڑھ چڑھ کر اسی ضعیف روایت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوتے ہیں۔

مگر بے چارے آپ کے یہ علماء کریں بھی تو کیا کریں۔ ڈھونڈھنے سے بھی رسول اللہ (ص) کی کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ملتی جس میں آپ ص نے کبھی نوافل کو بدعت کے نام پر حرام کہا ہو۔ لے دے کر رسول اللہ ص کی حدیث کی بجائے آپ کے علماء عبداللہ ابن مسعود کا یہ "اثر" (جو کہ حدیث نہیں ہے) لے کر آ جاتے ہیں۔

پر افسوس کہ اس اثر سے بھی آپ کے علماء اپنا مقصد نہیں پا سکتے کیونکہ یہ روایت سرے سےنہ صرف ضعیف ہے، بلکہ منکر بھی ہے۔

عبداللہ ابن مسعود والی روایت ذیل میں سچ بولو بھائی صاحب نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے:


by such bolo

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دفعہ وہ مسجد سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لوگ حلقے بنا کر بیٹھے ہیں اور (سب مل کر) تکبیر کہتے ہیں، اللہ کی تسبیح اور تہلیل بیان کرتے ہیں۔ تو ان سے فرمایا

اے امت محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) تمہاری ہلاکت کس قدر قریب آ گئی ہے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ (ذکر کا یہ نیا انداز نکال کر) محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے سے بہتر طریقے کے مدعی ہو یا پھر گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو

وہاں بیٹھے لوگوں نے کہا:
اے ابو عبدالرحمٰن(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت)! ہمارا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا
اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
کتنے ہی خیر کا ارادہ کرنے والے ہیں جو اسے پا تے نہیں ہیں
(اسے امام الدارمی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جلد 1 صفحہ68۔69)

تمام اہلحدیث علما کو چیلینج ہے کہ وہ اس حدیث کو "صحیح" ثابت کر دیں۔

اس روایت کا ایک راوی عمر ابن یحیی الھمدانی ہے جو کہ انتہائی ضعیف ہے۔
امام الذہبی اپنی کتاب المغنی فی الضعفاء میں راوی عمر ابن الھمدانی کے متعلق لکھتے ہیں:
4729 - عمرو بن يحيى بن عمرو بن سلمة قال يحيى بن معين ليس حديثه بشيء قد رأيته
یعنی امام یحیی ابن معین اسکے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی حدیثیں کچھ نہیں ہیں۔

اس روایت پر تفصیلی جرح اس لنک پر دیکھئیے۔

اور ہمارا چیلنج برقرار ہے کہ اہلحدیث علماء اس حدیث کو "صحیح" ثابت کریں اور وہ واقعی سچے ہیں۔

دارمی کی روایت ضعیف ہی نہیں، بلکہ منکر بھی ہے
منکر وہ روایت ہوتی ہے جو ضعیف بھی ہو اور کسی صحیح روایت کے مخالف بھی جا رہی ہو
صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء (آنلائن لنک)
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
چنانچہ دارمی کی روایت نہ صرف ضعیف بلکہ منکر بھی ہے، مگر اسکے باوجود بدقسمتی کہ ہمارے اہلحدیث بھائی اسے پھر بھی گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔



عبداللہ ابن عمر والی روایت
by such bolo:
ایک دوسرا واقعہ نئے امور کے بارے میں صحابہ کرام کی احتیاط کو بہت اچھی طرح بیان کر تا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے) کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا۔ اسے چھینک آئی تو اس نے کہا الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ٹوکتے ہوئے فرمایامیں بھی کہتا ہوں الحمدللہ و السلام علی رسول اللہ لیکن اس موقع پر (یعنی چھینک کے بعد) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی، بلکہ یہ تعلیم دی تھی کہ ہم کہیں الحمدللہ علی کل حال (الترمذی حدیث نمبر 2738 بسند صحیح)



اس روایت سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نیا ذکر بدعت ہے۔ بلکہ اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ "سنت نبوی" کے طریقے پر ادا کیے گئے نفل کی زیادہ اہمیت ہے۔ چنانچہ اہلحدیث حضرات جو اس سے عام نوافل کو یکسر حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بالکل لغو ہے۔

اور عبداللہ ابن عمر کے متعلق تو بذات خود بہت سی روایات موجود ہیں کہ وہ نئے نفلی افعال کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، جیسا کہ منبر نبوی ص کو چومنا اور اپنی آنکھوں سے لگانا، یا پھر روضہ رسول ص پر آ کر نام لے کر السلام علیکم کہننا ، اُن جگہوں پر نماز ادا کرنا جہاں رسول اللہ ص نے ادا کی تھی۔ ۔۔۔۔ میں بعد میں تفصیلا صحابی عبداللہ ابن عمر کے ان نئے نفلی افعال کے متعلق روایات نقل کروں گی۔ انشاء اللہ۔



اہلحدیث علماء کا رسول ص کی صحیح حدیث کو چھوڑ کر تابعی کے پیچھے بھاگنا

by such bolo:
صحابہ کرام کے شاگر د یعنی تابعین بھی نئے امور سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اس میں کثرت سے رکوع و سجود کرتا ہے۔ انہوں نے اسے منع کیا تو اس نے کہا اے ابو محمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا؟ تو سعید رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں، بلکہ تجھے خلاف سنت کام کرنے پر عذاب دے گا (رواہ البیہقی فی السنن الکبرٰی 2/466)ت


افسوس، صد افسوس ہے اس طرز عمل پر۔ کیا ان لوگوں کے لیے حضرت بلال والی صحیح حدیث کافی نہ تھی جس میں رسول اللہ ص واضح طور حضرت بلال کے اپنے اجتہاد سے کیے گئے نئے نفلی فعل پر کثیر ثواب کی خوشخبری دے رہے ہیں؟

اس تابعی کا فعل رسول اللہ ص کی اس روایت کے مقابلے میں منکر ہے۔

ایک دفعہ پھر حضرت بلال کی اس روایت کو پڑھئیے اور اس سے سبق حاصل کیجئے۔


اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج

اور اہلحدیث حضرات تو اذان سے قبل اور بعد میں رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ (درو) پڑھنے کو بدعتِ ضلالۃ قرار دیتے ہیں، مگر ذیل میں حضرت بلالؓ کا فعل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اذان کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا فعل اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک شریعت میں "مباح" عمل ہے۔ نیز وضو کرنے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور یہ بھی ایک نیا فعل تھا جو وہ اپنے اجتہاد سے انجام دیتے تھے۔امام حاکم نے اس روایت کو شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
مستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہےاورجب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔
مزید حوالہ جات:
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔


حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150 (آنلائن لنک)
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں (آنلائن لنک):
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ اہلحدیث حضرات جو ہم پر اذان سے قبل اور بعد میں درود بھیجنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں، وہ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔

 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

During the life of Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم), he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself was there to correct Muslims if they were going towards wrong direction. Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has completely delivered the religion before he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) died. After his (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) death there is nobody to correct if somebody is taking a wrong path, except Quraan and Sunnah.

Please leave this beautifull and simple religion Islam free of pollution like URS, Milad, Tazias, qawalis etc. and follow just Quraan and Sunnah because after the death of Prophet Muhammad nobody can claim that he is capable of inventing something in religion Islam which was missed by Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (Nauzobillah).


السلام علیکم

افسوس کہ عجیب و غریب منطق ہے ان بھائیوں کی، مگر انہیں اسکے عجیب و غریب ہونے کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔

انہیں اندازہ نہیں کہ انکے اس "بہانے" کا مطلب یہ نکل رہا ہے کہ معاذ اللہ معاذ اللہ رسولِ خدا (ص) نے اپنے زمانے میں صحابہ کو شترِ بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا ہوا تھا کہ جو نیا بدعتی عمل کرنا ہے وہ کرتے پھریں، اور بعد میں رسول (ص) تو موجود ہیں کہ ان بدعات کو ٹھیک کر دیں۔ (نعوذ باللہ)۔

یاد رکھئیے شریعت بنانا فقط اللہ کا کام ہے اور رسول (ص) کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت میں اپنی طرف سے ایک ذرا سی بھی زیادتی یا کمی کر سکیں۔

اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ مستقل طور پر اذان کے بعد اپنی طرف سے دو رکعت نفل نماز ادا کرتے تھے اور پاکی حاصل کرنے کے بعد اتنی نفل نماز ادا کرتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھی ہوتی تھی۔ اور انہوں نے اس نئے بدعتی فعل کا ذکر ہرگز ہرگز رسول اللہ (ّص) سے نہیں کیا۔

اور وہ تو معجزہ ہوا کہ جب رسول اللہ (ص) نے اس نئے نفلی فعل کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے جوتوں کی آواز جنت میں سن لی اور صرف اور صرف اسکے بعد انہیں حضرت بلال کے اس نئے نفلی عبادتی فعل کا علم ہوا، اور اس پر آپ (ص) نے بدعت کا فتویٰ جاری کرنے کی بجائے اجر عظیم کی بشارت دی۔


اور ان حضرات کی بہانہ بازی کہاں تک انکا ساتھ دے گی اور یہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا بہانہ بنائیں گے کیونکہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ تو شہید ہو گئے اور اپنا نیا بدعتی فعل رسول اللہ (ص) کے سامنے پیش بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اسکے باوجود شہادت سے پہلے دو رکعت نفلی نماز ادا کرنے کا بدعتی فعل مسلمانوں میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی وجہ سے رائج ہو گیا۔


اور ذیل کی روایات دیکھیے:۔

صحیحین میں یہ روایت موجود ہے:
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ أَنَّ أَبَا الرِّجَالِ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَی سَرِيَّةٍ فَکَانَ يَقْرَأُ لِأَصْحَابِهِ فِي صَلَاتِهِمْ فَيَخْتِمُ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَلَمَّا رَجَعُوا ذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَلُوهُ لِأَيِّ شَيْئٍ فَعَلَ ذَلِکَ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبِرُوهُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّهُ
حدیث
سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابوہلال، ابورجال، محمد بن عبدالرحمن، امہ عمرة، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو ایک چھوٹے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ نماز میں (سورۃ الحمد کے بعد) قرآن کریم تلاوت کرتا تھا پھر آخر میں قل ھو اللہ احد پڑھتا تھا۔ لوگوں نے یہ بات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس شخص سے دریافت کرو وہ شخص کس وجہ سے اس طریقہ سے کرتا ہے؟ لوگوں نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس شخص نے جواب دیا کہ سورہ قل ھو اللہ احد میں خداوند قدوس کی صف ہے اس وجہ سے مجھ کو اس سورت کا پڑھنا بہت عمدہ معلوم ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اس سے کہہ دو کہ خداوند قدوس اسے دوست رکھتا ہے۔

یہ صحابی یہ نیا فعل اپنے اجتہاد کے مطابق انجام دے رہا ہے، اور رسول اللہ (ص) اہلحدیث حضرات کی طرح اس نئے فعل پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگانے کی بجائے اس صحابہ کو اجر عظیم کی بشارت دے رہے ہیں۔

اسی طرح کی ایک روایت صحیحین میں یہ بھی ہے جہاں ایک صحابی اپنے اجتہاد سے یہ نیا ذکر کرتا تھا کہ بار بار قل ھو اللہ احد پڑھتا تھا۔ دوسرے صحابی نے یہ نیا فعل جا کر رسول اللہ (ص) کو بیان کیا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ صرف قل ھو اللہ احد کہنا کافی نہیں ہے (یاد رکھئیے، اس دوسرے صحابی کے نزدیک بھی یہ نیا ذکر کا فعل بار بار کرنا بدعت نہیں تھا، بلکہ وہ اسے کافی نہین سمجھ رہا)۔

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا سَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يُرَدِّدُهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ لَهُ ذَلِکَ وَکَأَنَّ الرَّجُلَ يَتَقَالُّهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ
حدیث

اسمعیل، مالک، عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ اپنے والد سے وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کو (قل ھو اللہ احد) بار بار پڑھتے ہوئے دیکھا، جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے تذکرہ اس طرح کیا گویا وہ اس کو بہت کم سمجھ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، بے شک یہ تہائی قرآن کے برابر ہے۔


رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا اپنے اجتہاد سے نئے افعال انجام دینا

اور پہلے مراسلے میں میں نے کئی روایات بیان کی تھیں جہاں رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد صحابہ کرام اپنے اجتہاد سے نئے افعال انجام دے رہے ہیں۔ ان تمام روایات کے متعلق تو ان بھائیوں کے پاس کوئی بہانہ بھی نہیں ہے سوائے اسکے یہ یہ ان روایات کو چھپا جاتے ہیں، ہضم کر جاتے ہیں اور نظریں پھیر لیتے ہیں۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ اور اہل مدینہ کا رسول ﷺ کے بالوں سےنظرِ بد اور بیماری سے شفا حاصل کرنا

رسول ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس رسول ﷺ کے چند بال تھے۔ اُنکا اور اہل مدینہ کا عمل یہ تھا کہ جب کوئی بیمار ہو جاتا تھا (یا کسی کو نظرِ بد لگ جاتی تھی) تو وہ ان بالوں سے مس شدہ پانی پیتا تھا تاکہ شفایاب ہو سکے۔ اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکے وصال کے بعد یوں بیماری سے شفا حاصل کی جائے۔ مگر چونکہ یہ بات عام تھی کہ تبرکات نبوی میں برکت ہے، لہذا ام سلمہؑ اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے یوں موئے مبارک کے ذریعے شفا حاصل کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب اللباس:
حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی اپنی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں :
اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔
اب اگر اہلحدیث حضرات میں ہمت ہے اور واقعی اپنی بدعت کے معاملے میں ظاہر پرستی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو پھر لگائیں وہ ام المومنین حضرت ام سلمہؑ اور اہل مدینہ پر بدعت و ضلالت کے فتوے۔

حضرت انس کا اپنے اجتہاد سے موئے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہونا

علامہ ابن حجر العسقلانی، اپنی کتاب الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں روایت نقل کرتے ہیں:
هَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِيَ تَحْتَ لِسَانِهِ.
حضرت ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
اب رسول ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ انکے موٗے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہو۔ مگر چونکہ صحابہ کو پتا تھا کہ موئے مبارک میں برکت ہے، اس لیے وہ اپنے اجتہاد سے یہ نیا کام کر رہے ہیں۔

حضرت اسماء بنتِ ابی بکر کا اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے جبے کے توسط سے شفا حاصل کرنا

صحیح مسلم، کتاب اللباس:
هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّي قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَي يُسْتَشْفَي بِهَا.
حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اﷲ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اﷲ عنھا فرمانے لگیں :
یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تو اسے میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیبِ تن فرماتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی (تبرکًا) بیماروں کو شفاء یابی کے لئے پلاتے ہیں۔
اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکی رحلت کے بعد انکے جبے کو دھو کر بیماری سے شفا حاصل کرو۔ مگر حضرت اسماء بنتِ ابی بکر اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے اس جبے کو دھو کر بیماروں کو شفایابی کے لیے پلاتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ کا نبی ﷺ کے پیالے سے برکت حاصل کرنا

صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ طيبہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور ا نہوں نے کہا : میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔

رسول ﷺ کے پیالے کے پانی کو سر پر چھڑکنا اور درود پڑھنا

اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔

صحابی کا اپنے اجتہاد سےعرقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبرکًا کفن میں لگانے کی وصیت

حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امِ سلیم کے پاس ایک شیشی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ اور چند موئے مبارک محفوظ تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اپنے کفن میں اسی عرق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ خوشبو لگانے کی وصیت کی، حضرت ثمامہ کا بیان ہے :
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان:
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصي إلي أن يُجْعل في حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل في حنوطه.
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔


والسلام

نیز: اگر آپ کو ذکر کے کچھ طریقوں پر اعتراض ہے جیسا کہ سر گھمانا، یا تعزیہ یا قوالی وغیرہ تو بالکل ان پر آپ اعتراض کریں، مگر اس بنیاد پر آپ ہر اس نفلی عبادت کو کیوں بدعت بنا رہے ہیں کہ جو کہ شریعت میں عین حلال قرار دی گئی ہیں، جیسا کہ اذان سے قبل دور پڑھنا، یا کسی بھی محفل میں فقط درود پڑھنا، رسول اللہ ص کی ولادت پر ذکر کی محفلوں کا انعقاد کرنا؟؟؟

اس روایت کو پھر غور سے پڑھیں:۔

رسول ﷺ کے پیالے کے پانی کو سر پر چھڑکنا اور درود پڑھنا

اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک دوسرا نیا فعل بھی کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
 

Beatle

MPA (400+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (

BiBi:- Islam came from Saudi Arabia & they are the best Muslims in the world they are true followers. We know Islam from their reference. If they do so then it should be done here if not then it should be not done. Simple. Please use brains while talking on Islamic issues.
There is no sense in your argument. If we accept it just for the sake of discussions, then all major books of Ahadees were compiled outside Saudia, in fact far away from that land. Furthermore, it is insane to believe that real Islam is practiced only there. You have to be there to observe it.
 

babadeena

Minister (2k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

Join the Groups in this Group Forum and discuss there. http://www.siasat.pk/forum/group.php

WHY SPECIAL TREATMENT TO THIS THREAD? Revived after closed?

The glaring example of "Bidat" is 'addition' of words in Kalma. That is "Ali is waliullah and wasiyah rasoolilla and khaliftan bilfasil"
Something like this. Mewish was this the Kalma statement at the time of Prophet(PBUH), First,Second and Third Caliphs.
Anyhow those who do not wish to acknowledge the "Progeny of Abu Talib" and termed them as "Auladay Rasool" is an other
example.
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top