Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (
Join the Groups in this Group Forum and discuss there. http://www.siasat.pk/forum/group.php
Join the Groups in this Group Forum and discuss there. http://www.siasat.pk/forum/group.php
دین میں اضافہ اور جدید ایجادات و وسائل
الیوم اکملت لکم دینکم
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام امت سے افضل ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت نہیں دی کہ اپنے طور پر کسی عمل کو اچھا سمجھتے ہوئے اسے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ لیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ صحیح احادیث میں مذکور ہے جس میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سامان ہے
جاء ثلاث رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا : أين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم : أما أنا فإني أصلي الليل أبدا ، وقال آخر : أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر : أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني )
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح
تین آدمی (صحابی )نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے اور (ازواج مطہرات سے) نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو گویا انہوں نے اسے تھوڑا جانا۔ پھر کہنے لگے کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔ ایک نے کہا جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رات کو ہمیشہ قیام کروں گا، دوسرے صحابی نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے صحابی نے کہا میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف لائے تو (معاملے کی اطلاع ملنے پر) فرمایا تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہوں لیکن میں (نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
اس قصے سے بڑا اہم سبق ملتا ہے کہ تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اچھے کام کا ارادہ کیا اور اچھی نیت سے کیا۔ کون کہ سکتا ہے کہ روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا بری بات ہے۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں اپنے طریقے سے ہٹ کر نفلی روزہ اور نفلی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہو گیا کہ نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا بظاہر نیک عمل بھی اس وقت تک کوئی وزن نہیں رکھتا جب تک اس پر محمدی مہر تصدیق نہ ہو۔
by mehwish_ali
شریعت کی اصطلاح میں "بدعت" کیا ہے
ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ
جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
یعنی بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
رہبانیت اسی اصول کے تحت حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح
انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
یہ حدیث نئے افعال کے متعلق ہمیں چند مزید اصول دے رہی ہے۔اس حدیث کے میں جن نئے کاموں سے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے، ان کے متعلق نوٹ فرمائیے کہ:
ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔
اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
شریعت کا پہلا اصول: کچھ چیزوں کو نام لے کر حلال/حرام کرنا، اور کچھ چیزوں کو ایک بنیادی اصول کی وجہ سے حلال/حرام قرار دینا
شریعت میں جو چیزیں نام لے کر حرام کی گئی ہیں، وہ واضح ہیں اور سب کو ان کا علم ہے۔مگر کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا وجود رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مثلاً ہیروئن کا نشہ رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ایک بنیادی اصول ہے کہ جو چیز بھی انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دے، وہ حرام ہے۔ اور اس بنیادی اصول کی وجہ سے آج کے دور میں ہیروئن کا نشہ حرام قرار پایا۔
شریعت کا دوسرا اصول: اگر کوئی عمل رسول ﷺ کی کسی سنت کو ختم کر دے، تو وہ حرام ہے
رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت کے زمرے میں آ جائے گا۔رہبانیت اسی اصول کی وجہ سے اسلام میں حرام ٹہری۔
اس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ نئے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً:
پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔
پس شریعت نے ایک بنیادی اصول یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس انتہا تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:
اگر میں نے ہفتے میں تین روزے رکھے ہیں، تو تم لوگ بھی صرف تین روزے رکھ سکتے ہو۔ اور اگر تم نے ہفتے میں تین کی جگہ چار یا پانچ روزے رکھنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اور اسی طرح اگر میں رات کے صرف ایک پہر عبادت کرتا ہوں، اور اگر تم نے ایک پہر کی جگہ دو یا تین پہر عبادت کرنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اسی طرح میں نے بارہ شادیاں کیں ہیں، مگر اگر کوئی اس نیت سے صرف ایک شادی کرتا ہے کہ زیادہ شادیاں کرنے سے اس کے پاس عبادت کا وقت کم ہو جائے گا، تو اُس کا یہ نیت کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل کیا جا سکتا ہے، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔
. پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
. اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔
شریعت کا تیسرا اصول: ہر چیز اصل میں مباح ہے جبتک نص سے اسکی حرمت نہ ظاہر ہو
کون سا نیا کام بدعت ہے، اور کونسا نہیں، اس کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم شریعت کے اس اصول کو اچھی طرح سمجھیں کہ دینِ اسلام میں ہر چیز اصل میں مباح ہے (یعنی اس کی اجازت ہے تاوقتیکہ کسی نص کی بنیاد پر اُس کام کو اللہ نے حرام نہ قرار دیا ہو)
مثلاً محمد و آلِ محمد (علیھم الصلوۃ و السلام) پر درود بھیجنا ایک بہت بابرکت عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر کام کے آغاز سے پہلے (مثلاً اذان سے قبل) درود پڑھنا چاہے، تو کیا شریعت میں یہ عملِ حرام قرار دیا جائے گا؟
نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ درود صرف کچھ خاص اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے، اور باقی اوقات میں پڑھنا حرام ہو۔
اور جب تک ایسی کوئی حرمت ثابت نہ ہو، اُس وقت تک شریعتِ محمدیہ میں اپنی ذاتی رائے/اجتہاد سے کیا گیا ہر نیا کام مباح رہتا ہے (چاہے رسول ﷺ نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو یا ایسا کوئی حکم موجود نہ ہو
by such bolo
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دفعہ وہ مسجد سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لوگ حلقے بنا کر بیٹھے ہیں اور (سب مل کر) تکبیر کہتے ہیں، اللہ کی تسبیح اور تہلیل بیان کرتے ہیں۔ تو ان سے فرمایا
اے امت محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) تمہاری ہلاکت کس قدر قریب آ گئی ہے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ (ذکر کا یہ نیا انداز نکال کر) محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے سے بہتر طریقے کے مدعی ہو یا پھر گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو
وہاں بیٹھے لوگوں نے کہا:
اے ابو عبدالرحمٰن(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت)! ہمارا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا
اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
کتنے ہی خیر کا ارادہ کرنے والے ہیں جو اسے پا تے نہیں ہیں
(اسے امام الدارمی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جلد 1 صفحہ68۔69)
by such bolo:
ایک دوسرا واقعہ نئے امور کے بارے میں صحابہ کرام کی احتیاط کو بہت اچھی طرح بیان کر تا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے) کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا۔ اسے چھینک آئی تو اس نے کہا الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ٹوکتے ہوئے فرمایامیں بھی کہتا ہوں الحمدللہ و السلام علی رسول اللہ لیکن اس موقع پر (یعنی چھینک کے بعد) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی، بلکہ یہ تعلیم دی تھی کہ ہم کہیں الحمدللہ علی کل حال (الترمذی حدیث نمبر 2738 بسند صحیح)
by such bolo:
صحابہ کرام کے شاگر د یعنی تابعین بھی نئے امور سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اس میں کثرت سے رکوع و سجود کرتا ہے۔ انہوں نے اسے منع کیا تو اس نے کہا اے ابو محمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا؟ تو سعید رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں، بلکہ تجھے خلاف سنت کام کرنے پر عذاب دے گا (رواہ البیہقی فی السنن الکبرٰی 2/466)ت
اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج
اور اہلحدیث حضرات تو اذان سے قبل اور بعد میں رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ (درو) پڑھنے کو بدعتِ ضلالۃ قرار دیتے ہیں، مگر ذیل میں حضرت بلالؓ کا فعل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اذان کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا فعل اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک شریعت میں "مباح" عمل ہے۔ نیز وضو کرنے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور یہ بھی ایک نیا فعل تھا جو وہ اپنے اجتہاد سے انجام دیتے تھے۔امام حاکم نے اس روایت کو شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
مستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہےاورجب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔
مزید حوالہ جات:
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150 (آنلائن لنک)
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں (آنلائن لنک):
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ اہلحدیث حضرات جو ہم پر اذان سے قبل اور بعد میں درود بھیجنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں، وہ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔
During the life of Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم), he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself was there to correct Muslims if they were going towards wrong direction. Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has completely delivered the religion before he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) died. After his (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) death there is nobody to correct if somebody is taking a wrong path, except Quraan and Sunnah.
Please leave this beautifull and simple religion Islam free of pollution like URS, Milad, Tazias, qawalis etc. and follow just Quraan and Sunnah because after the death of Prophet Muhammad nobody can claim that he is capable of inventing something in religion Islam which was missed by Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (Nauzobillah).
There is no sense in your argument. If we accept it just for the sake of discussions, then all major books of Ahadees were compiled outside Saudia, in fact far away from that land. Furthermore, it is insane to believe that real Islam is practiced only there. You have to be there to observe it.BiBi:- Islam came from Saudi Arabia & they are the best Muslims in the world they are true followers. We know Islam from their reference. If they do so then it should be done here if not then it should be not done. Simple. Please use brains while talking on Islamic issues.
Join the Groups in this Group Forum and discuss there. http://www.siasat.pk/forum/group.php
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|