mehwish_ali
Chief Minister (5k+ posts)
نفلی عبادتی افعال وہ ہیں جو کہ شریعت کے کسی "بنیادی اصول" کے تحت جائز قرار پاتے ہیں ، (اور اس کی کوئی شرط نہیں کہ قرآن و سنت میں انکا کوئی براہ راست حکم پہلے سے موجود ہو )۔ صحابہ کرام ایسے "نئے " نفلی عباداتی افعال اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی ان نئے افعال پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ مثلاً:
صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء (آنلائن لنک)
مگر آج جب ہم لوگ میلاد النبی کے نام پر محفلیں سجاتے ہیں اور اللہ اور اسکے محبوب کا ذکر کرتے ہیں، انکی حمد و نعت پڑھتے ہیں تو اس پر اہلحدیث حضرات کا فوراً فتویٰ آ جاتا ہے کہ یہ بدعت و ضلالت ہے ۔
یہ فتویٰ جاری کر کے اہلحدیث حضرات بذات خود بدعت و ضلالت کا شکار ہیں اور "حلال اللہ" کو اپنی طرف سے "حرام اللہ" بنا رہے ہیں (یعنی اللہ نے ایسے نیک نفلی عبادتی افعال کو اپنی شریعت میں حلال رکھا ہے، مگر یہ لوگ اپنی شریعت جاری کرتے ہوئے ان مباح افعال کو حرام بنا رہے ہیں)۔
ان میں سے کچھ جو واقعی جہل کا شکار ہیں انکا کا اگلا فتویٰ یہ آ جاتا ہے کہ "ذکر" صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ، چنانچہ رسول کا ذکر شرک ہے۔ حالانکہ انکے جہل کے برعکس اللہ نے قرآن میں بذات خود فرما دیا ہے کہ "رفعنا لک ذکرک (القرآن 94:4)" ۔۔۔ یعنی اے رسول میں (اللہ ) نے تمہارا "ذکر" بلند کیا ہے۔ چنانچہ حبیبِ خدا کا ذکر کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں ہے بلکہ اسے شرک کہنا جہالت کی انتہا ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء (آنلائن لنک)
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ:- یہ صحابہ کرام اپنی مرضی سےمحفل میں حلقے بنا کر "ذکر" کر رہے تھے۔
- اللہ کے رسول نے انہیں ایسا کرنے کا براہ راست کوئی حکم نہیں دیا تھا، بلکہ یہ صحابہ کرام کا اپنا اجتہاد تھا کہ بنیادی اصول اللہ کا ذکر کرنا ہے اور اسکا طریقہ یعنی محفل بنا کر ذکر کرنا عین مباح فعل ہے اور اسلام کی کسی بنیادی اصول سے نہیں ٹکراتا ہے۔
- اس ذکر کی محفل کے "وقت" کا تعین بھی ان صحابہ نے اپنی مرضی سے کیا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ شریعت کا کوئی ایسا اصول نہیں ہے جو ایسے اوقات میں ذکر کی محفل کرنے کو حرام ٹہراتا ہے۔
- اور جب اللہ کے رسول ﷺ کو صحابہ کرام کے اس "نئے"نفلی عباداتی فعل کا علم ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کی بجائے ان صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انکے اس "نئے فعل" کی وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
مگر آج جب ہم لوگ میلاد النبی کے نام پر محفلیں سجاتے ہیں اور اللہ اور اسکے محبوب کا ذکر کرتے ہیں، انکی حمد و نعت پڑھتے ہیں تو اس پر اہلحدیث حضرات کا فوراً فتویٰ آ جاتا ہے کہ یہ بدعت و ضلالت ہے ۔
یہ فتویٰ جاری کر کے اہلحدیث حضرات بذات خود بدعت و ضلالت کا شکار ہیں اور "حلال اللہ" کو اپنی طرف سے "حرام اللہ" بنا رہے ہیں (یعنی اللہ نے ایسے نیک نفلی عبادتی افعال کو اپنی شریعت میں حلال رکھا ہے، مگر یہ لوگ اپنی شریعت جاری کرتے ہوئے ان مباح افعال کو حرام بنا رہے ہیں)۔
ان میں سے کچھ جو واقعی جہل کا شکار ہیں انکا کا اگلا فتویٰ یہ آ جاتا ہے کہ "ذکر" صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ، چنانچہ رسول کا ذکر شرک ہے۔ حالانکہ انکے جہل کے برعکس اللہ نے قرآن میں بذات خود فرما دیا ہے کہ "رفعنا لک ذکرک (القرآن 94:4)" ۔۔۔ یعنی اے رسول میں (اللہ ) نے تمہارا "ذکر" بلند کیا ہے۔ چنانچہ حبیبِ خدا کا ذکر کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں ہے بلکہ اسے شرک کہنا جہالت کی انتہا ہے۔
اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج
اور اہلحدیث حضرات تو اذان سے قبل اور بعد میں رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ (درو) پڑھنے کو بدعتِ ضلالۃ قرار دیتے ہیں، مگر ذیل میں حضرت بلالؓ کا فعل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اذان کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا فعل اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک شریعت میں "مباح" عمل ہے۔ نیز وضو کرنے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور یہ بھی ایک نیا فعل تھا جو وہ اپنے اجتہاد سے انجام دیتے تھے۔امام حاکم نے اس روایت کو شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
مستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150 (آنلائن لنک)
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں (آنلائن لنک):
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ اہلحدیث حضرات جو ہم پر اذان سے قبل اور بعد میں درود بھیجنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں، وہ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔
حضرت خبیب ؓ کی سنت، قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کا رواج بننامستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہےاورجب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔
مزید حوالہ جات:(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150 (آنلائن لنک)
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں (آنلائن لنک):
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ اہلحدیث حضرات جو ہم پر اذان سے قبل اور بعد میں درود بھیجنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں، وہ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر(آنلائن لنک):
اہلحدیث حضرات 30 راتوں تک باجماعت تراویح کیوں ادا کرتے ہیں؟والله ما رأيت أسيرا قط خيرا من خبيب، والله لقد وجدته يوما يأكل من قطف عنب في يده، وإنه لموثق في الحديد، وما بمكة من ثمر وكانت تقول إنه لرزق من الله رزقه خبيبا، فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، قال لهم خبيب ذروني أركع ركعتين. فتركوه، فركع ركعتين ثم قال لولا أن تظنوا أن ما بي جزع لطولتها اللهم أحصهم عددا. ولست أبالي حين أقتل مسلما على أى شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث، فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا
یہ ایک طویل روایت ہے۔ حضرت خبیبؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور انہیں قتل کرنے لگے تو اُس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کفار سے مہلت مانگی کہ انہیں قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے دی جائے۔ حضرت خبیبؓ کا یہ نیا فعل (جسکا قرآن وسنت میں پہلے سے کوئی حکم موجود نہیں تھا) اتنا پسندیدہ تھا کہ یہ رواج قید میں قتل کیے جانے والے ہر مسلمان کے لیے مسنون بن گیا:حارث کی بیٹی نے کہا اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اور اللہ کی قسم! میں نے تو ایک دن یہ دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ انگور کھارہا تھا دراں حالیکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اس وقت مکہ میں کوئی میوہ نہیں تھا اور وہ کہتی ہیں کہ یہ رزق من جانب اللہ نازل ہوا تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا پھر جب وہ لوگ حرم سے باہر چلے گئے تاکہ ان کو حرم کے باہر قتل کردیں تو خبیب نے ان سے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو چھوڑ دیا اور خبیب دو رکعت نماز سے فارغ ہو کر کہنے لگا کہ اگر تم کو یہ خیال نہ ہوتا کہ مجھے قتل کا خوف ہے تو ایک بہت لمبی نماز پڑھتا اور اے اللہ! ان کافروں کو گن گن کر مار (اور پھر کہا) مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں حالت اسلام میں شہید کیا جا رہا ہوں جس پہلو پر بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پچھاڑا جاؤں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کے ٹکڑوں میں برکت دے دے۔ پھر ان کو ابن حارث نے قتل کردیا اور خبیب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر مرد مسلمان کے لیے جو قید کرکے قتل کیا جائے دو رکعت نماز مسنون کردی ہے۔
تراویح نماز ایک بہت نیک فعل ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔ مگر:
چنانچہ رسول اللہ ﷺنے تو صرف 3 راتوں تک تراویح کی نماز ادا کی۔ اب اہلحدیث حضرات بتلائیں کہ کیا ان پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تھے کہ اہلحدیث حضرات اسکو رمضان کی 30 راتوں تک بڑھا لیں؟
یاد رکھیں، شریعت کو لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔ یہ نہیں ہوا کہ شریعت کا کوئی حصہ کسی صحابی پر نازل کیا گیا ہو۔ اور جو خلفہ راشدین اور صحابہ کی سنت کی بات ہوتی ہے، اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس "نئے" عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے بنائی گئی خود ساختہ شریعت میں ہر نیا نفلی عبادتی فعل بھی بدعت و ضلالت ہے۔
رمضان کی 30 راتوں پورے قرآن کو ختم کرنے کارواج- رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط "تین" راتوں تک ادا فرمائی۔ اہلحدیث حضرات یہ جواب دیں کہ انہیں یہ رمضان کی 30 راتوں والی تراویح کون سے قرآن یا حدیث میں ملتی ہے؟ (یاد رہے صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے، مگر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کے مطابق ایسے نئے افعال بدعت و ضلالت ہیں)۔
- مزید اہلحدیث حضرات یہ فرمائیں کہ انہوں نے باجماعت تراویح کی نماز کو فقط رمضان کی 30 راتوں تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے۔ کیوں نہیں وہ پورے سال کے 365 دنوں یہ باجماعت تراویح کی نماز نہیں پڑھتے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بتلایا ہے کہ باجماعت تراویح کی اجازت فقط رمضان کی 30 راتوں کے لیے ہے اور بقیہ مہینوں میں یہ پڑھنا حرام ہے؟
چنانچہ رسول اللہ ﷺنے تو صرف 3 راتوں تک تراویح کی نماز ادا کی۔ اب اہلحدیث حضرات بتلائیں کہ کیا ان پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تھے کہ اہلحدیث حضرات اسکو رمضان کی 30 راتوں تک بڑھا لیں؟
یاد رکھیں، شریعت کو لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔ یہ نہیں ہوا کہ شریعت کا کوئی حصہ کسی صحابی پر نازل کیا گیا ہو۔ اور جو خلفہ راشدین اور صحابہ کی سنت کی بات ہوتی ہے، اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس "نئے" عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے بنائی گئی خود ساختہ شریعت میں ہر نیا نفلی عبادتی فعل بھی بدعت و ضلالت ہے۔
اہلحدیث حضرات سے ایک اور اہم سوال ہے :
اہلحدیث حضرات نے بدعت کے فتوے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا ہے کہ ہم اذان سے قبل رسول ﷺ پر درود بھیجنے کی عادت و رسم کیوں بنا لی ہے، مگر جب یہ اہلحدیث حضرات خود تراویح کی 30 راتوں میں قرآن ختم کرنے کے رواج پر عمل کریں تو اس پر انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ڈبل سٹینڈرڈز۔
شبینہ بالمقابل تراویح- یہ بتلائیں کہ کیا رسول ﷺ نے کبھی رمضان کی تیس راتوں میں باجماعت تراویح میں پورا قرآن ختم کیا تھا؟
- اگر نہیں، تو پھر یہ ہی دکھا دیں کہ رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہو کہ انکی وفات کے بعد آنے والی مسلم نسلیں یہ کام انجام دیں۔
اہلحدیث حضرات نے بدعت کے فتوے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا ہے کہ ہم اذان سے قبل رسول ﷺ پر درود بھیجنے کی عادت و رسم کیوں بنا لی ہے، مگر جب یہ اہلحدیث حضرات خود تراویح کی 30 راتوں میں قرآن ختم کرنے کے رواج پر عمل کریں تو اس پر انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ڈبل سٹینڈرڈز۔
پاکستان میں اہلسنت مساجد میں ہر سال رمضان کے مہینے کی آخری راتوں میں شبینہ پڑھنے کا اہتمام ہوتا ہے جس میں قرآن پھر دوسری مرتبہ بھی ختم کیا جاتا ہے۔ مگر اہلحدیث حضرات شبینہ میں شرکت نہیں کرتے اور انکا عذر ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں انہیں شبینہ کا وجود نہیں ملتا۔ مگر اہلحدیث حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اس لحاظ سے تو رمضان کی تیس راتوں میں تراویح کے دوران قرآن ختم کرنے کا حُکم بھی قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ یہ کیا ڈبل سٹینڈرڈز ہوئے کہ ایک نئے عمل کو تو آپ "عملِ صالح" قرار دے دیں جبکہ دوسرے نئے فعل کو بدعت کو ضلالت قرار دے دیں؟
اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل صحابہ کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنا
اہلحدیث حضرات یہ فرمائیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کب حکم فرمایا کہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں صحابہ کے نام کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہا کریں؟ نہ رسول ﷺ کے زمانے میں یہ رائج تھا، نہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے ناموں کے بعد یہ کہتے تھے، نہ تابعین صحابہ کے ناموں کے بعد یہ کہتے تھے۔۔۔ بلکہ یہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں تھیں جنہوں یہ نیا رواج اپنی طرف سے جاری کیا۔ تو اب اہلحدیث حضرات اس نئےاپنی طرف سے بنائے گئے رواج کو بدعت و ضلالت کیوں نہیں کہتے؟
اہلحدیث حضرات اس پر زیادہ سے زیادہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ اللہ بیعت رضوان میں صحابہ سے "راضی" ہوا تھا، اور اس نے اس پر آیت نازل فرمائی تھی۔
جواباً عرض ہے کہ اللہ نے اس آیت میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ صرف اس "فعل" پر راضی ہوا کہ جب انہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ مگر اس آیت میں کہیں اللہ نے یہ حُکم نہیں دیا کہ صحابہ کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کا رواج جاری کر دو۔ رسول اللہﷺ قرآن کے سب سے بہترین شارح تھے، انہوں نے بھی یہ آیت پڑھی مگر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے جس پر آج اہلحدیث پہنچ رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ کہنا شروع کر دو)۔ صحابہ کرام نے بھی لاکھوں بار یہ آیت پڑھی مگر انہیں بھی اس چیز کا پتا نہیں جو کہ آج اہلحدیث حضرات بیان کر رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولنے کا حکم دیا جا رہا ہے)۔ چنانچہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولتے تھے اور نہ ہی تابعین نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ۔ بلکہ یہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں ہیں جو کہ اپنے اجتہاد کے مطابق صحابہ کرام کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کی رسم جاری کر رہے ہیں۔
جواباً عرض ہے کہ جب ہم رسول ﷺ پر اذان سے قبل صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی تو فقط دعا ہے۔ صلوۃ عربی کا لفظ ہے اور اسکے اپنے معنی "دعا" ہیں۔ یعنی جب ہم رسولﷺ پر صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو اسکامطلب فقط یہ ہے کہ ہم اللہ سے رسولﷺ کے لیے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔
تو کیا وجہ ہے کہ وہ دعا (صلوۃ) جس کی تعلیم خود اللہ نے دی، وہ پڑھنا بدعت و ضلات بن جاتی ہے، مگر صحابہ کے ناموں کے بعد آپ کی اپنی گھڑی ہوئی دعا کا رواج جاری کرنا بدعت و ضلالت نہیں بنتا ہے (بلکہ بلاشبہ یہ بدعت و ضلالت ہے کیونکہ آپ لوگوں نے اپنی طرف سے "رضی اللہ عنہ" کو صرف اور صرف صحابہ کے لیے مخصوص کر کے دوسروں کے لیے اسے پڑھنے کی ممانعت کر دی ہے۔ یہ نیا قانون جاری کر کے آپ شریعت ساز بن گئے ہیں اور یہ ہے اصل بدعت و ضلالت)۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
اوپر حضرت بلال کی روایت بھی گذر چکی ہے کہ جہاں وہ اذان دینے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل، جلد 3 ( لنک):
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
جس مجلس میں اللہ کا ذکر اور رسول (ص) پر درود نہ بھیجا جائے، وہ مجلس والے نقصان میں ہیں۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ اور اہل مدینہ کا رسول ﷺ کے بالوں سےنظرِ بد اور بیماری سے شفا حاصل کرنااہلحدیث حضرات اس پر زیادہ سے زیادہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ اللہ بیعت رضوان میں صحابہ سے "راضی" ہوا تھا، اور اس نے اس پر آیت نازل فرمائی تھی۔
جواباً عرض ہے کہ اللہ نے اس آیت میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ صرف اس "فعل" پر راضی ہوا کہ جب انہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ مگر اس آیت میں کہیں اللہ نے یہ حُکم نہیں دیا کہ صحابہ کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کا رواج جاری کر دو۔ رسول اللہﷺ قرآن کے سب سے بہترین شارح تھے، انہوں نے بھی یہ آیت پڑھی مگر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے جس پر آج اہلحدیث پہنچ رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ کہنا شروع کر دو)۔ صحابہ کرام نے بھی لاکھوں بار یہ آیت پڑھی مگر انہیں بھی اس چیز کا پتا نہیں جو کہ آج اہلحدیث حضرات بیان کر رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولنے کا حکم دیا جا رہا ہے)۔ چنانچہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولتے تھے اور نہ ہی تابعین نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ۔ بلکہ یہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں ہیں جو کہ اپنے اجتہاد کے مطابق صحابہ کرام کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کی رسم جاری کر رہے ہیں۔
اہم بات: سعودی حکومت (شاہ فہد پرنٹنگ پریس) نےلاکھوں کی تعداد میں قرآن بمع اردو ترجمہ و تفسیر چھپوا کر مفت تقسیم کیے ہیں۔ سورۃ المجادلہ کی آخری آیت کی تفسیر کے ذیل میں یہ اہلحدیث مفسر (صلاح الدین) لکھتے ہیں کہ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا ایک شعاریعنی رواج بن چکا ہے ۔ اور ساتھ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا جائز نہیں ہے۔
تو جواباً عرض ہے کہ یہ شعار اور رواج مسلمانوں کی نئی نسلوں نے بنایا اور اس پر اہلحدیث حضرات کی طرف سے کوئی بدعت کے فتوے نہیں ہیں، مگر پھر اذان سے قبل یا بعد میں درود پڑھنے کو رواج بنا لینے کو آپ کیوں بدعت و ضلالت کہنا شروع کر دیتے ہیں؟
نیز آپ کو شریعت میں حلال حرام اور جائز و ناجائز بنانے کا حق کس نے دیا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ رضی اللہ عنہ صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لیے کہنا جائز نہیں؟ یہ چیز بدعت کی سب سے سخت قسم بدعتِ کفریہ کے ضمن میں آتی ہے جہاں آپ خود شریعت ساز بن کر چیزوں کو اپنی طرف سے جائز و ناجائز قرار دے رہے ہیں۔
اگلا اہلحدیث بہانہ ہے کہ "رضی اللہ عنہ" ایک دعا ہے جو ہر وقت کی جا سکتی ہے۔جواباً عرض ہے کہ جب ہم رسول ﷺ پر اذان سے قبل صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی تو فقط دعا ہے۔ صلوۃ عربی کا لفظ ہے اور اسکے اپنے معنی "دعا" ہیں۔ یعنی جب ہم رسولﷺ پر صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو اسکامطلب فقط یہ ہے کہ ہم اللہ سے رسولﷺ کے لیے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔
تو کیا وجہ ہے کہ وہ دعا (صلوۃ) جس کی تعلیم خود اللہ نے دی، وہ پڑھنا بدعت و ضلات بن جاتی ہے، مگر صحابہ کے ناموں کے بعد آپ کی اپنی گھڑی ہوئی دعا کا رواج جاری کرنا بدعت و ضلالت نہیں بنتا ہے (بلکہ بلاشبہ یہ بدعت و ضلالت ہے کیونکہ آپ لوگوں نے اپنی طرف سے "رضی اللہ عنہ" کو صرف اور صرف صحابہ کے لیے مخصوص کر کے دوسروں کے لیے اسے پڑھنے کی ممانعت کر دی ہے۔ یہ نیا قانون جاری کر کے آپ شریعت ساز بن گئے ہیں اور یہ ہے اصل بدعت و ضلالت)۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
{سورۃ 33، آیت 56** بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر درود بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو
اگر بیعتِ رضوان والی آیت کافی ہے کہ جب بھی صحابہ کا نام آئے تو رضی اللہ عنہ بولا جائے، تو پھر درود والی آیت اس بات کے لیے کافی کیوں نہیں کہ اذان سے قبل رسول ﷺ پر درود بھیجا جائے؟اوپر حضرت بلال کی روایت بھی گذر چکی ہے کہ جہاں وہ اذان دینے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہے اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔(آنلائن لنک)
مزید حوالہ جات:(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔(آنلائن لنک)
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل، جلد 3 ( لنک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
جس مجلس میں اللہ کا ذکر اور رسول (ص) پر درود نہ بھیجا جائے، وہ مجلس والے نقصان میں ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
حدیث
محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ابوصالح مولی تو آئمہ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مجلس میں اللہ کا ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے تو اس مجلس والے نقصان میں ہیں۔ پس اللہ تعالی چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں بخش دے۔ یہ حدیث حسن ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم کے حوالے سے کئی سندوں سے منقول ہے۔
رسول ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس رسول ﷺ کے چند بال تھے۔ اُنکا اور اہل مدینہ کا عمل یہ تھا کہ جب کوئی بیمار ہو جاتا تھا (یا کسی کو نظرِ بد لگ جاتی تھی) تو وہ ان بالوں سے مس شدہ پانی پیتا تھا تاکہ شفایاب ہو سکے۔ اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکے وصال کے بعد یوں بیماری سے شفا حاصل کی جائے۔ مگر چونکہ یہ بات عام تھی کہ تبرکات نبوی میں برکت ہے، لہذا ام سلمہؑ اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے یوں موئے مبارک کے ذریعے شفا حاصل کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب اللباس:
حضرت انس کا اپنے اجتہاد سے موئے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہوناصحیح بخاری، کتاب اللباس:
حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی اپنی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں : مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔
اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔
اب اگر اہلحدیث حضرات میں ہمت ہے اور واقعی اپنی بدعت کے معاملے میں ظاہر پرستی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو پھر لگائیں وہ ام المومنین حضرت ام سلمہؑ اور اہل مدینہ پر بدعت و ضلالت کے فتوے۔
علامہ ابن حجر العسقلانی، اپنی کتاب الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں روایت نقل کرتے ہیں:
حضرت اسماء بنتِ ابی بکر کا اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے جبے کے توسط سے شفا حاصل کرناهَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِيَ تَحْتَ لِسَانِهِ.
حضرت ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
اب رسول ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ انکے موٗے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہو۔ مگر چونکہ صحابہ کو پتا تھا کہ موئے مبارک میں برکت ہے، اس لیے وہ اپنے اجتہاد سے یہ نیا کام کر رہے ہیں۔
صحیح مسلم، کتاب اللباس:
حضرت ابو ہریرہ کا نبی ﷺ کے پیالے سے برکت حاصل کرناهَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّي قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَي يُسْتَشْفَي بِهَا.
حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اﷲ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اﷲ عنھا فرمانے لگیں :یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تو اسے میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیبِ تن فرماتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی (تبرکًا) بیماروں کو شفاء یابی کے لئے پلاتے ہیں۔
اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکی رحلت کے بعد انکے جبے کو دھو کر بیماری سے شفا حاصل کرو۔ مگر حضرت اسماء بنتِ ابی بکر اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے اس جبے کو دھو کر بیماروں کو شفایابی کے لیے پلاتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:
رسول ﷺ کے پیالے کے پانی کو سر پر چھڑکنا اور درود پڑھناحضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ طيبہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور ا نہوں نے کہا : میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔
اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
صحابی کا اپنے اجتہاد سےعرقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبرکًا کفن میں لگانے کی وصیتمسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امِ سلیم کے پاس ایک شیشی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ اور چند موئے مبارک محفوظ تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اپنے کفن میں اسی عرق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ خوشبو لگانے کی وصیت کی، حضرت ثمامہ کا بیان ہے :
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان:
حضرت ابو ایوب انصاری کا اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کی قبر مبارک پر منہ رکھناصحیح بخاری، کتاب الاستئذان:
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصي إلي أن يُجْعل في حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل في حنوطه.
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔
مسند امام احمد بن حنبل :
شریعت کی اصطلاح میں "بدعت" کیا ہےحَدَّثَنَا عَبدُ الْمَلِكِ بنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بنُ زَيْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بنِ أَبي صَالِحٍ ، قَالَ : أَقْبلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَى الْقَبرِ ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ ؟ فَأَقْبلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبو أَيُّوب ، فَقَالَ : نَعَمْ ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَبكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ ، وَلَكِنْ ابكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
رہبانیت اسی اصول کے تحت حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
شریعت کا پہلا اصول: کچھ چیزوں کو نام لے کر حلال/حرام کرنا، اور کچھ چیزوں کو ایک بنیادی اصول کی وجہ سے حلال/حرام قرار دینارسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ
جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)
یعنی بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔رہبانیت اسی اصول کے تحت حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح
انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
یہ حدیث نئے افعال کے متعلق ہمیں چند مزید اصول دے رہی ہے۔اس حدیث کے میں جن نئے کاموں سے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے، ان کے متعلق نوٹ فرمائیے کہ:انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
- ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
- دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
- تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔
اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
شریعت میں جو چیزیں نام لے کر حرام کی گئی ہیں، وہ واضح ہیں اور سب کو ان کا علم ہے۔مگر کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا وجود رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مثلاً ہیروئن کا نشہ رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ایک بنیادی اصول ہے کہ جو چیز بھی انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دے، وہ حرام ہے۔ اور اس بنیادی اصول کی وجہ سے آج کے دور میں ہیروئن کا نشہ حرام قرار پایا۔
شریعت کا دوسرا اصول: اگر کوئی عمل رسول ﷺ کی کسی سنت کو ختم کر دے، تو وہ حرام ہے
رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت کے زمرے میں آ جائے گا۔رہبانیت اسی اصول کی وجہ سے اسلام میں حرام ٹہری۔
اس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ نئے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً:
پس شریعت نے ایک بنیادی اصول یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس انتہا تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:
پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل کیا جا سکتا ہے، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔
شریعت کا تیسرا اصول: ہر چیز اصل میں مباح ہے جبتک نص سے اسکی حرمت نہ ظاہر ہواس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ نئے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً:
- پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
- دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
- تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔
پس شریعت نے ایک بنیادی اصول یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس انتہا تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:
- اگر میں نے ہفتے میں تین روزے رکھے ہیں، تو تم لوگ بھی صرف تین روزے رکھ سکتے ہو۔ اور اگر تم نے ہفتے میں تین کی جگہ چار یا پانچ روزے رکھنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
- اور اسی طرح اگر میں رات کے صرف ایک پہر عبادت کرتا ہوں، اور اگر تم نے ایک پہر کی جگہ دو یا تین پہر عبادت کرنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
- اسی طرح میں نے بارہ شادیاں کیں ہیں، مگر اگر کوئی اس نیت سے صرف ایک شادی کرتا ہے کہ زیادہ شادیاں کرنے سے اس کے پاس عبادت کا وقت کم ہو جائے گا، تو اُس کا یہ نیت کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل کیا جا سکتا ہے، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔
- . پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
- . اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
- اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔
کون سا نیا کام بدعت ہے، اور کونسا نہیں، اس کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم شریعت کے اس اصول کو اچھی طرح سمجھیں کہ دینِ اسلام میں ہر چیز اصل میں مباح ہے (یعنی اس کی اجازت ہے تاوقتیکہ کسی نص کی بنیاد پر اُس کام کو اللہ نے حرام نہ قرار دیا ہو)
مثلاً محمد و آلِ محمد (علیھم الصلوۃ و السلام) پر درود بھیجنا ایک بہت بابرکت عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر کام کے آغاز سے پہلے (مثلاً اذان سے قبل) درود پڑھنا چاہے، تو کیا شریعت میں یہ عملِ حرام قرار دیا جائے گا؟
نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ:
مثلاً محمد و آلِ محمد (علیھم الصلوۃ و السلام) پر درود بھیجنا ایک بہت بابرکت عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر کام کے آغاز سے پہلے (مثلاً اذان سے قبل) درود پڑھنا چاہے، تو کیا شریعت میں یہ عملِ حرام قرار دیا جائے گا؟
نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ:
- اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ درود صرف کچھ خاص اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے، اور باقی اوقات میں پڑھنا حرام ہو۔
- اور جب تک ایسی کوئی حرمت ثابت نہ ہو، اُس وقت تک شریعتِ محمدیہ میں اپنی ذاتی رائے/اجتہاد سے کیا گیا ہر نیا کام مباح رہتا ہے (چاہے رسول ﷺ نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو یا ایسا کوئی حکم موجود نہ ہو)