بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (ا&#

Status
Not open for further replies.

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)

اسلام میں "نفلی عباداتی" افعال کا تصور

نفلی عبادتی افعال وہ ہیں جو کہ شریعت کے کسی "بنیادی اصول" کے تحت جائز قرار پاتے ہیں ، (اور اس کی کوئی شرط نہیں کہ قرآن و سنت میں انکا کوئی براہ راست حکم پہلے سے موجود ہو )۔ صحابہ کرام ایسے "نئے " نفلی عباداتی افعال اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی ان نئے افعال پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ مثلاً:
صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء (آنلائن لنک)
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ:

  1. یہ صحابہ کرام اپنی مرضی سےمحفل میں حلقے بنا کر "ذکر" کر رہے تھے۔
  2. اللہ کے رسول نے انہیں ایسا کرنے کا براہ راست کوئی حکم نہیں دیا تھا، بلکہ یہ صحابہ کرام کا اپنا اجتہاد تھا کہ بنیادی اصول اللہ کا ذکر کرنا ہے اور اسکا طریقہ یعنی محفل بنا کر ذکر کرنا عین مباح فعل ہے اور اسلام کی کسی بنیادی اصول سے نہیں ٹکراتا ہے۔
  3. اس ذکر کی محفل کے "وقت" کا تعین بھی ان صحابہ نے اپنی مرضی سے کیا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ شریعت کا کوئی ایسا اصول نہیں ہے جو ایسے اوقات میں ذکر کی محفل کرنے کو حرام ٹہراتا ہے۔
  4. اور جب اللہ کے رسول ﷺ کو صحابہ کرام کے اس "نئے"نفلی عباداتی فعل کا علم ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کی بجائے ان صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انکے اس "نئے فعل" کی وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔

مگر آج جب ہم لوگ میلاد النبی کے نام پر محفلیں سجاتے ہیں اور اللہ اور اسکے محبوب کا ذکر کرتے ہیں، انکی حمد و نعت پڑھتے ہیں تو اس پر اہلحدیث حضرات کا فوراً فتویٰ آ جاتا ہے کہ یہ بدعت و ضلالت ہے ۔
یہ فتویٰ جاری کر کے اہلحدیث حضرات بذات خود بدعت و ضلالت کا شکار ہیں اور "حلال اللہ" کو اپنی طرف سے "حرام اللہ" بنا رہے ہیں (یعنی اللہ نے ایسے نیک نفلی عبادتی افعال کو اپنی شریعت میں حلال رکھا ہے، مگر یہ لوگ اپنی شریعت جاری کرتے ہوئے ان مباح افعال کو حرام بنا رہے ہیں)۔
ان میں سے کچھ جو واقعی جہل کا شکار ہیں انکا کا اگلا فتویٰ یہ آ جاتا ہے کہ "ذکر" صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ، چنانچہ رسول کا ذکر شرک ہے۔ حالانکہ انکے جہل کے برعکس اللہ نے قرآن میں بذات خود فرما دیا ہے کہ "رفعنا لک ذکرک (القرآن 94:4)" ۔۔۔ یعنی اے رسول میں (اللہ ) نے تمہارا "ذکر" بلند کیا ہے۔ چنانچہ حبیبِ خدا کا ذکر کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں ہے بلکہ اسے شرک کہنا جہالت کی انتہا ہے۔


اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل حضرت بلالؓ کا اذان کے بعداپنی طرف سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا رواج

اور اہلحدیث حضرات تو اذان سے قبل اور بعد میں رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ (درو) پڑھنے کو بدعتِ ضلالۃ قرار دیتے ہیں، مگر ذیل میں حضرت بلالؓ کا فعل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اذان کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا فعل اپنے اجتہاد کی بنیاد پر انجام دے رہے ہیں کیونکہ یہ ایک شریعت میں "مباح" عمل ہے۔ نیز وضو کرنے کے بعد بھی آپ اپنے ذاتی اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور یہ بھی ایک نیا فعل تھا جو وہ اپنے اجتہاد سے انجام دیتے تھے۔امام حاکم نے اس روایت کو شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
مستدرک علی الصحیحین (آنلائن لنک)
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہےاورجب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔
مزید حوالہ جات:
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔


حضرت بلالؓ کی یہ روایت بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہے جس میں حضرت بلال کا یہ اجتہاد درج ہے کہ وہ (وضو) کی پاکی حاصل کرنے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق اتنی نماز پڑھتے تھے جتنی انکے مقدر میں لکھا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1150 (آنلائن لنک)
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے انہوں نے ابو حیان یحیٰی بن سعید سے انہوں نے ابو زرعہ ہرم بن جریر سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز کے وقت بلالؓ سے فرمایا بلالؓ مجھ سے کہہ تو نے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ امید کا کونسا نیک کام کیا ہے۔ کیونکہ میں نے بہشت میں اپنے آگے تیرے جوتوں کی پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ بلالؓ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے (نفل) نماز پڑھتا رہا جتنی میری تقدیر میں لکھی تھی۔
امام ابن حجر العسقلانی (جن کاخلف محدثین میں وہی مقام ہے جو امام بخاری کا سلف محدثین میں) بخاری کی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں (آنلائن لنک):
ويستفاد منه جواز الاجتهاد في توقيت العبادة، لأن بلالا توصل إلى ما ذكرنا بالاستنباط فصوبه النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ:
اس حدیث میں جواز ہے کہ عبادات کے اوقات کے لیے انسان ذاتی اجتہاد کو استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ بلالؓ اپنے استنباط کے تحت اس عمل کو کر رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے (بعد میں پتا چلنے پر) انکی تائید کی۔
چنانچہ اہلحدیث حضرات جو ہم پر اذان سے قبل اور بعد میں درود بھیجنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگاتے ہیں، وہ دیکھ لیں کہ حضرت بلالؓ اپنے ذاتی اجتہاد سے اذان دینے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور اسی طرح وضو کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اپنے اجتہاد کے مطابق نفل نماز ادا کرتے تھے۔




حضرت خبیب ؓ کی سنت، قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کا رواج بننا

صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر(آنلائن لنک):
والله ما رأيت أسيرا قط خيرا من خبيب، والله لقد وجدته يوما يأكل من قطف عنب في يده، وإنه لموثق في الحديد، وما بمكة من ثمر وكانت تقول إنه لرزق من الله رزقه خبيبا، فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، قال لهم خبيب ذروني أركع ركعتين‏.‏ فتركوه، فركع ركعتين ثم قال لولا أن تظنوا أن ما بي جزع لطولتها اللهم أحصهم عددا‏.‏ ولست أبالي حين أقتل مسلما على أى شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث، فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا
یہ ایک طویل روایت ہے۔ حضرت خبیبؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور انہیں قتل کرنے لگے تو اُس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کفار سے مہلت مانگی کہ انہیں قتل ہونے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے دی جائے۔ حضرت خبیبؓ کا یہ نیا فعل (جسکا قرآن وسنت میں پہلے سے کوئی حکم موجود نہیں تھا) اتنا پسندیدہ تھا کہ یہ رواج قید میں قتل کیے جانے والے ہر مسلمان کے لیے مسنون بن گیا:
حارث کی بیٹی نے کہا اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اور اللہ کی قسم! میں نے تو ایک دن یہ دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ انگور کھارہا تھا دراں حالیکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اس وقت مکہ میں کوئی میوہ نہیں تھا اور وہ کہتی ہیں کہ یہ رزق من جانب اللہ نازل ہوا تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا پھر جب وہ لوگ حرم سے باہر چلے گئے تاکہ ان کو حرم کے باہر قتل کردیں تو خبیب نے ان سے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو چھوڑ دیا اور خبیب دو رکعت نماز سے فارغ ہو کر کہنے لگا کہ اگر تم کو یہ خیال نہ ہوتا کہ مجھے قتل کا خوف ہے تو ایک بہت لمبی نماز پڑھتا اور اے اللہ! ان کافروں کو گن گن کر مار (اور پھر کہا) مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں حالت اسلام میں شہید کیا جا رہا ہوں جس پہلو پر بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پچھاڑا جاؤں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کے ٹکڑوں میں برکت دے دے۔ پھر ان کو ابن حارث نے قتل کردیا اور خبیب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر مرد مسلمان کے لیے جو قید کرکے قتل کیا جائے دو رکعت نماز مسنون کردی ہے۔

اہلحدیث حضرات 30 راتوں تک باجماعت تراویح کیوں ادا کرتے ہیں؟

تراویح نماز ایک بہت نیک فعل ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔ مگر:

  1. رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے دوران یہ تراویح فقط "تین" راتوں تک ادا فرمائی۔ اہلحدیث حضرات یہ جواب دیں کہ انہیں یہ رمضان کی 30 راتوں والی تراویح کون سے قرآن یا حدیث میں ملتی ہے؟ (یاد رہے صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے، مگر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کے مطابق ایسے نئے افعال بدعت و ضلالت ہیں)۔
  2. مزید اہلحدیث حضرات یہ فرمائیں کہ انہوں نے باجماعت تراویح کی نماز کو فقط رمضان کی 30 راتوں تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے۔ کیوں نہیں وہ پورے سال کے 365 دنوں یہ باجماعت تراویح کی نماز نہیں پڑھتے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بتلایا ہے کہ باجماعت تراویح کی اجازت فقط رمضان کی 30 راتوں کے لیے ہے اور بقیہ مہینوں میں یہ پڑھنا حرام ہے؟

چنانچہ رسول اللہ ﷺنے تو صرف 3 راتوں تک تراویح کی نماز ادا کی۔ اب اہلحدیث حضرات بتلائیں کہ کیا ان پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تھے کہ اہلحدیث حضرات اسکو رمضان کی 30 راتوں تک بڑھا لیں؟
یاد رکھیں، شریعت کو لے کر حضرت جبرئیل علیہ السلام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے تھے۔ یہ نہیں ہوا کہ شریعت کا کوئی حصہ کسی صحابی پر نازل کیا گیا ہو۔ اور جو خلفہ راشدین اور صحابہ کی سنت کی بات ہوتی ہے، اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد کے مطابق اس "نئے" عباداتی فعل کو 30 راتوں تک پھیلایا ہے کیونکہ اس میں کوئی قباحت نہیں، مگر اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے بنائی گئی خود ساختہ شریعت میں ہر نیا نفلی عبادتی فعل بھی بدعت و ضلالت ہے۔

رمضان کی 30 راتوں پورے قرآن کو ختم کرنے کارواج

اہلحدیث حضرات سے ایک اور اہم سوال ہے :

  1. یہ بتلائیں کہ کیا رسول ﷺ نے کبھی رمضان کی تیس راتوں میں باجماعت تراویح میں پورا قرآن ختم کیا تھا؟
  2. اگر نہیں، تو پھر یہ ہی دکھا دیں کہ رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہو کہ انکی وفات کے بعد آنے والی مسلم نسلیں یہ کام انجام دیں۔

اہلحدیث حضرات نے بدعت کے فتوے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا ہے کہ ہم اذان سے قبل رسول ﷺ پر درود بھیجنے کی عادت و رسم کیوں بنا لی ہے، مگر جب یہ اہلحدیث حضرات خود تراویح کی 30 راتوں میں قرآن ختم کرنے کے رواج پر عمل کریں تو اس پر انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ ڈبل سٹینڈرڈز۔
شبینہ بالمقابل تراویح

پاکستان میں اہلسنت مساجد میں ہر سال رمضان کے مہینے کی آخری راتوں میں شبینہ پڑھنے کا اہتمام ہوتا ہے جس میں قرآن پھر دوسری مرتبہ بھی ختم کیا جاتا ہے۔ مگر اہلحدیث حضرات شبینہ میں شرکت نہیں کرتے اور انکا عذر ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں انہیں شبینہ کا وجود نہیں ملتا۔ مگر اہلحدیث حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اس لحاظ سے تو رمضان کی تیس راتوں میں تراویح کے دوران قرآن ختم کرنے کا حُکم بھی قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ یہ کیا ڈبل سٹینڈرڈز ہوئے کہ ایک نئے عمل کو تو آپ "عملِ صالح" قرار دے دیں جبکہ دوسرے نئے فعل کو بدعت کو ضلالت قرار دے دیں؟

اذان سے قبل درود پڑھنا بالمقابل صحابہ کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنا

اہلحدیث حضرات یہ فرمائیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کب حکم فرمایا کہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں صحابہ کے نام کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہا کریں؟ نہ رسول ﷺ کے زمانے میں یہ رائج تھا، نہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے ناموں کے بعد یہ کہتے تھے، نہ تابعین صحابہ کے ناموں کے بعد یہ کہتے تھے۔۔۔ بلکہ یہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں تھیں جنہوں یہ نیا رواج اپنی طرف سے جاری کیا۔ تو اب اہلحدیث حضرات اس نئےاپنی طرف سے بنائے گئے رواج کو بدعت و ضلالت کیوں نہیں کہتے؟
اہلحدیث حضرات اس پر زیادہ سے زیادہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ اللہ بیعت رضوان میں صحابہ سے "راضی" ہوا تھا، اور اس نے اس پر آیت نازل فرمائی تھی۔
جواباً عرض ہے کہ اللہ نے اس آیت میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ صرف اس "فعل" پر راضی ہوا کہ جب انہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ مگر اس آیت میں کہیں اللہ نے یہ حُکم نہیں دیا کہ صحابہ کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کا رواج جاری کر دو۔ رسول اللہﷺ قرآن کے سب سے بہترین شارح تھے، انہوں نے بھی یہ آیت پڑھی مگر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے جس پر آج اہلحدیث پہنچ رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ کہنا شروع کر دو)۔ صحابہ کرام نے بھی لاکھوں بار یہ آیت پڑھی مگر انہیں بھی اس چیز کا پتا نہیں جو کہ آج اہلحدیث حضرات بیان کر رہے ہیں (یعنی صحابہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولنے کا حکم دیا جا رہا ہے)۔ چنانچہ صحابہ کرام ایک دوسرے کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ بولتے تھے اور نہ ہی تابعین نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ۔ بلکہ یہ بعد میں آنے والی مسلمان نسلیں ہیں جو کہ اپنے اجتہاد کے مطابق صحابہ کرام کے ناموں کے بعد "رضی اللہ عنہ" کہنے کی رسم جاری کر رہے ہیں۔
اہم بات: سعودی حکومت (شاہ فہد پرنٹنگ پریس) نےلاکھوں کی تعداد میں قرآن بمع اردو ترجمہ و تفسیر چھپوا کر مفت تقسیم کیے ہیں۔ سورۃ المجادلہ کی آخری آیت کی تفسیر کے ذیل میں یہ اہلحدیث مفسر (صلاح الدین) لکھتے ہیں کہ صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا ایک شعاریعنی رواج بن چکا ہے ۔ اور ساتھ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لیے رضی اللہ عنہ کہنا جائز نہیں ہے۔
تو جواباً عرض ہے کہ یہ شعار اور رواج مسلمانوں کی نئی نسلوں نے بنایا اور اس پر اہلحدیث حضرات کی طرف سے کوئی بدعت کے فتوے نہیں ہیں، مگر پھر اذان سے قبل یا بعد میں درود پڑھنے کو رواج بنا لینے کو آپ کیوں بدعت و ضلالت کہنا شروع کر دیتے ہیں؟
نیز آپ کو شریعت میں حلال حرام اور جائز و ناجائز بنانے کا حق کس نے دیا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ رضی اللہ عنہ صحابہ کے علاوہ کسی اور کے لیے کہنا جائز نہیں؟ یہ چیز بدعت کی سب سے سخت قسم بدعتِ کفریہ کے ضمن میں آتی ہے جہاں آپ خود شریعت ساز بن کر چیزوں کو اپنی طرف سے جائز و ناجائز قرار دے رہے ہیں۔
اگلا اہلحدیث بہانہ ہے کہ "رضی اللہ عنہ" ایک دعا ہے جو ہر وقت کی جا سکتی ہے۔
جواباً عرض ہے کہ جب ہم رسول ﷺ پر اذان سے قبل صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو یہ بھی تو فقط دعا ہے۔ صلوۃ عربی کا لفظ ہے اور اسکے اپنے معنی "دعا" ہیں۔ یعنی جب ہم رسولﷺ پر صلوۃ بھیج رہے ہوتے ہیں تو اسکامطلب فقط یہ ہے کہ ہم اللہ سے رسولﷺ کے لیے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔
تو کیا وجہ ہے کہ وہ دعا (صلوۃ) جس کی تعلیم خود اللہ نے دی، وہ پڑھنا بدعت و ضلات بن جاتی ہے، مگر صحابہ کے ناموں کے بعد آپ کی اپنی گھڑی ہوئی دعا کا رواج جاری کرنا بدعت و ضلالت نہیں بنتا ہے (بلکہ بلاشبہ یہ بدعت و ضلالت ہے کیونکہ آپ لوگوں نے اپنی طرف سے "رضی اللہ عنہ" کو صرف اور صرف صحابہ کے لیے مخصوص کر کے دوسروں کے لیے اسے پڑھنے کی ممانعت کر دی ہے۔ یہ نیا قانون جاری کر کے آپ شریعت ساز بن گئے ہیں اور یہ ہے اصل بدعت و ضلالت)۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
{سورۃ 33، آیت 56** بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر درود بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو
اگر بیعتِ رضوان والی آیت کافی ہے کہ جب بھی صحابہ کا نام آئے تو رضی اللہ عنہ بولا جائے، تو پھر درود والی آیت اس بات کے لیے کافی کیوں نہیں کہ اذان سے قبل رسول ﷺ پر درود بھیجا جائے؟
اوپر حضرت بلال کی روایت بھی گذر چکی ہے کہ جہاں وہ اذان دینے کے بعد اپنے اجتہاد کے مطابق دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
''اور حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد حضرت بلال کو طلب کیا اور (جب وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ 'کس عمل کے ذریعے تم نے جنت میں مجھ سے پیش روی اختیار کی ہے (کیونکہ) میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ''یا رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں نے جب بھی اذان دی ہے تو اس کے بعد دو رکعت نماز (ضرور) پڑھی ہے اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا ہے میں نے اسی وقت وضو کر لیا اور میں نے اللہ کے واسطے دو رکعت نماز پڑھنی ضروری سمجھا ہے۔ (یعنی ہر وضو کے بعد پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی میں نے اپنے اوپر لازم قرار دے رکھی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ''اسی وجہ سے تم اس عظیم درجہ کو پہنچے ہو۔''
(امام حاکم فرماتے ہیں) یہ روایت شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق "صحیح"حدیث ہے۔(آنلائن لنک)
مزید حوالہ جات:
1۔ ابن تیمیہ ، کتاب "مجموع الفتاوی"، الصفحۃ اؤ الرقم 22/318
2۔ ابن حجر العسقلانی، کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح"، الصفحۃ اؤ الرقم 2/77
3۔ صحیح الترمذی ، الصفحۃ اؤ الرقم 3689۔۔۔۔ اور شیخ البانی صاحب نے اس پر حکم لگایا ہے "صحیح" حدیث کا۔ اسی روایت کو البانی صاحب نے اپنی کتاب "صحیح الترغیب (صفحہ 201)" پر نقل کیا ہے اور دوبارہ "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔پھر اسی روایت کو انہوں نے اپنی کتاب "تخریج مشکاۃ المصابیح (الصفحۃ اؤ الرقم 1277)" پر نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسکی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق "صحیح" ہیں۔
اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل، جلد 3 ( لنک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏​
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔
جس مجلس میں اللہ کا ذکر اور رسول (ص) پر درود نہ بھیجا جائے، وہ مجلس والے نقصان میں ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
حدیث
محمد بن بشار، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ابوصالح مولی تو آئمہ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مجلس میں اللہ کا ذکر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے تو اس مجلس والے نقصان میں ہیں۔ پس اللہ تعالی چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں بخش دے۔ یہ حدیث حسن ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم کے حوالے سے کئی سندوں سے منقول ہے۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ اور اہل مدینہ کا رسول ﷺ کے بالوں سےنظرِ بد اور بیماری سے شفا حاصل کرنا

رسول ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس رسول ﷺ کے چند بال تھے۔ اُنکا اور اہل مدینہ کا عمل یہ تھا کہ جب کوئی بیمار ہو جاتا تھا (یا کسی کو نظرِ بد لگ جاتی تھی) تو وہ ان بالوں سے مس شدہ پانی پیتا تھا تاکہ شفایاب ہو سکے۔ اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکے وصال کے بعد یوں بیماری سے شفا حاصل کی جائے۔ مگر چونکہ یہ بات عام تھی کہ تبرکات نبوی میں برکت ہے، لہذا ام سلمہؑ اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے یوں موئے مبارک کے ذریعے شفا حاصل کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری، کتاب اللباس:
حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی اپنی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں :
اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔
اب اگر اہلحدیث حضرات میں ہمت ہے اور واقعی اپنی بدعت کے معاملے میں ظاہر پرستی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو پھر لگائیں وہ ام المومنین حضرت ام سلمہؑ اور اہل مدینہ پر بدعت و ضلالت کے فتوے۔

حضرت انس کا اپنے اجتہاد سے موئے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہونا

علامہ ابن حجر العسقلانی، اپنی کتاب الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں روایت نقل کرتے ہیں:
هَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِيَ تَحْتَ لِسَانِهِ.​
حضرت ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
اب رسول ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ انکے موٗے مبارک کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہو۔ مگر چونکہ صحابہ کو پتا تھا کہ موئے مبارک میں برکت ہے، اس لیے وہ اپنے اجتہاد سے یہ نیا کام کر رہے ہیں۔

حضرت اسماء بنتِ ابی بکر کا اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے جبے کے توسط سے شفا حاصل کرنا

صحیح مسلم، کتاب اللباس:
هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّي قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَي يُسْتَشْفَي بِهَا.​
حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اﷲ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اﷲ عنھا فرمانے لگیں :
یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تو اسے میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیبِ تن فرماتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی (تبرکًا) بیماروں کو شفاء یابی کے لئے پلاتے ہیں۔
اب رسول ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ انکی رحلت کے بعد انکے جبے کو دھو کر بیماری سے شفا حاصل کرو۔ مگر حضرت اسماء بنتِ ابی بکر اور اہل مدینہ اپنے اجتہاد سے اس جبے کو دھو کر بیماروں کو شفایابی کے لیے پلاتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ کا نبی ﷺ کے پیالے سے برکت حاصل کرنا

صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ طيبہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور ا نہوں نے کہا : میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔
رسول ﷺ کے پیالے کے پانی کو سر پر چھڑکنا اور درود پڑھنا

اگر آج ہم اذان سے قبل درود پڑھ لیں تو بدعت و ضلالت کے فتوے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ادھر صحابہ کا طرز عمل دیکھئے جہاں وہ اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کے پیالے میں بھرے پانی کو اپنے سروں پر چھڑک رہے ہیں اور پھر درود پڑھ رہے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل (مسند انس ابن مالک):
12480 حدثنا روح بن عبادة، حدثنا حجاج بن حسان، قال كنا عند أنس بن مالك فدعا بإناء وفيه ثلاث ضباب حديد وحلقة من حديد فأخرج من غلاف أسود وهو دون الربع وفوق نصف الربع فأمر أنس بن مالك فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا على رءوسنا ووجوهنا وصلينا على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏​
ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔
یہ ایک "صحیح" روایت ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہیں۔
تو اب دکھائیے کہ کہاں رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے پیالے سے پانی لے کر اپنے چہروں اور سروں پر ڈالا جائے اور ایسا کرتے ہوئے ایک اور نیا فعل کیا جائے اور وہ یہ کہ رسول ﷺ پر درود بھی بھیجا جائے۔ اور ادھر حالت یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات اذان سے پہلے درود پڑھنے پر بدعت و ضلالت کے فتوے لگا کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔

صحابی کا اپنے اجتہاد سےعرقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبرکًا کفن میں لگانے کی وصیت

حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امِ سلیم کے پاس ایک شیشی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ اور چند موئے مبارک محفوظ تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے اپنے کفن میں اسی عرق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ خوشبو لگانے کی وصیت کی، حضرت ثمامہ کا بیان ہے :
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان:
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصي إلي أن يُجْعل في حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل في حنوطه.​
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔
حضرت ابو ایوب انصاری کا اپنے اجتہاد سے رسول ﷺ کی قبر مبارک پر منہ رکھنا

مسند امام احمد بن حنبل :
حَدَّثَنَا عَبدُ الْمَلِكِ بنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بنُ زَيْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بنِ أَبي صَالِحٍ ، قَالَ : أَقْبلَ مَرْوَانُ يَوْمًا فَوَجَدَ رَجُلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَى الْقَبرِ ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ ؟ فَأَقْبلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبو أَيُّوب ، فَقَالَ : نَعَمْ ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَبكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ ، وَلَكِنْ ابكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں "بدعت" کیا ہے

ہر وہ نئی چیز، جو شریعت کے کسی اصول کے خلاف جا رہی ہو، وہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت (سنتِ سئیہ) کے زمرے میں آجائے گا۔
ما احدث قوم بذعۃ ال رفع مثلھا من السنۃ
جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو اسی کی مثل سنت ختم ہو جاتی ہے۔ (مشکوۃ، ص ۳۱)​
یعنی بدعت وہ ہے جن کے اختیار کرنے سے سنت بدل جائے۔ اگر کسی عمل سے سنت نہیں بدلتی تو وہ عمل بدعت بھی نہیں کہلائے گا۔
رہبانیت اسی اصول کے تحت حرام قرار پائی۔ ذیل کی حدیث ملاحظہ فرمائیے:
صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح
انس ابن مالک روایت کرتے ہیں:
ازواجِ نبی کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا۔ جب اُن کو اِس کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت۔ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اچانک رسول ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کہ کیا تمہیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔ میں نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہی بھی رکھتا ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
یہ حدیث نئے افعال کے متعلق ہمیں چند مزید اصول دے رہی ہے۔اس حدیث کے میں جن نئے کاموں سے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے، ان کے متعلق نوٹ فرمائیے کہ:

  1. ایک صحابی نے عزم کیا کہ وہ پوری زندگی کبھی شادی نہیں کرے گا۔
  2. دوسرے صحابی نے عزم کیا کہ کہ وہ پوری زندگی کبھی سوئے گا نہیں (بلکہ ساری رات عبادت کرے گا)۔
  3. تیسرے صحابی نے عزم کیا کہ وہ تمام زندگی بلا ناغہ روزے رکھے گا۔

اس حدیث پر مزید تبصرہ کرنے سے قبل بہتر ہے کہ اس سلسلے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں سمجھی جائیں، کہ جن کو نظر انداز کر دینے سے ہم کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔

شریعت کا پہلا اصول: کچھ چیزوں کو نام لے کر حلال/حرام کرنا، اور کچھ چیزوں کو ایک بنیادی اصول کی وجہ سے حلال/حرام قرار دینا

شریعت میں جو چیزیں نام لے کر حرام کی گئی ہیں، وہ واضح ہیں اور سب کو ان کا علم ہے۔مگر کچھ چیزیں ہیں کہ جن کا وجود رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مثلاً ہیروئن کا نشہ رسول ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ایک بنیادی اصول ہے کہ جو چیز بھی انسان کو ہوش و حواس سے بیگانہ کر دے، وہ حرام ہے۔ اور اس بنیادی اصول کی وجہ سے آج کے دور میں ہیروئن کا نشہ حرام قرار پایا۔

شریعت کا دوسرا اصول: اگر کوئی عمل رسول ﷺ کی کسی سنت کو ختم کر دے، تو وہ حرام ہے

رسول ﷺ کی حدیث ہے کہ ہر وہ عمل، جو کسی سنت کو ختم کر دے، وہ بدعت کے زمرے میں آ جائے گا۔رہبانیت اسی اصول کی وجہ سے اسلام میں حرام ٹہری۔
اس حدیث میں جو نئے کام حرام قرار پائے ہیں، وہ اس لیے نہیں حرام ٹہرائے گئے کیونکہ وہ نئے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نئے اعمال اُس انتہا پر پہنچ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کچھ سنتیں ختم ہو رہی تھیں۔ مثلاً:

  1. پہلے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گا (یہ حرام اس لیے ہوا کیونکہ یہ رہبانیت کی حد آ گئی تھی، جبکہ رسول ﷺ کی ایک سنت شادی کر کے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے)
  2. دوسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر رات کو سوئے گا نہیں (جبکہ رسول ﷺ کی سنت رات کو سونا بھی تھا اور ایسا کرنے سے رسول ﷺ کی یہ سنت ختم ہو رہی تھی)
  3. تیسرے صحابی نے کہا کہ وہ ساری عمر بلا ناغہ روزے رکھے گا (جبکہ رسول ﷺ کی سنت کچھ دن ناغہ کرنے کی بھی تھی اور ایسا کرنے سے یہ سنت مکمل طور پر ختم ہو رہی تھی)۔

پس شریعت نے ایک بنیادی اصول یہ دیا کہ کوئی بھی کام اُس انتہا تک نہیں کرنا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ تو ایسا کوئی بھی نیک عمل، جو اس انتہا تک پہنچ جائے، وہ خود بخود حرام ہو جائے گا۔
مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے، جسے کچھ لوگ صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں۔
دیکھیں رسول ﷺ نے ان تین صحابہ کو یہ نہیں کہا کہ:

  1. اگر میں نے ہفتے میں تین روزے رکھے ہیں، تو تم لوگ بھی صرف تین روزے رکھ سکتے ہو۔ اور اگر تم نے ہفتے میں تین کی جگہ چار یا پانچ روزے رکھنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
  2. اور اسی طرح اگر میں رات کے صرف ایک پہر عبادت کرتا ہوں، اور اگر تم نے ایک پہر کی جگہ دو یا تین پہر عبادت کرنے کا نیا عمل کیا تو تم ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
  3. اسی طرح میں نے بارہ شادیاں کیں ہیں، مگر اگر کوئی اس نیت سے صرف ایک شادی کرتا ہے کہ زیادہ شادیاں کرنے سے اس کے پاس عبادت کا وقت کم ہو جائے گا، تو اُس کا یہ نیت کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کی غرض سے کوئی بھی ایسا نیا عمل کیا جا سکتا ہے، جو ذیل کی شرائط کو پورا کرے۔

  1. . پہلا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل قران و سنتِ رسول کے کسی اصول کے خلاف نہ ہو۔
  2. . اور دوسرا یہ کہ عبادت کا یہ نیا عمل رہبانیت کی اُس انتہا Extreme کی حد تک نہ ہو کہ جس کی وجہ سے رسول ﷺ کی کوئی سنت مکمل طور پر ختم ہو جائے۔
  3. اور تیسری شرط اور بیان کر دی جائے، اور وہ یہ کہ رسول ﷺ نے نام لیکر کہا ہوتا کہ یہ کام اتنی مقدار میں ہی ہو سکتا ہے، تو پھر اُس معاملے میں اِس مقدار سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا (مثلاً ظہر کی نماز نام لیکر رسول ﷺ نے چار رکعت مقرر کی ہے۔ اگر اس مقرر کردہ سنت میں (کہ جس کی تعداد رسول ﷺ نے خود مقرر کر دی ہے) زیادتی کی جائے، تو پھر دوبارہ یہ بدعت بن جائے گی۔
    مگر نفل نماز کی تعداد نام لیکر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ لہذا اس میں اجازت ہے کہ اگر رسول ﷺ شب بھر میں پچاس رکعات نماز ادا کرتے تھے تو آپ 100 رکعات نماز پڑھ سکتے ہیں۔

شریعت کا تیسرا اصول: ہر چیز اصل میں مباح ہے جبتک نص سے اسکی حرمت نہ ظاہر ہو

کون سا نیا کام بدعت ہے، اور کونسا نہیں، اس کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے کہ ہم شریعت کے اس اصول کو اچھی طرح سمجھیں کہ دینِ اسلام میں ہر چیز اصل میں مباح ہے (یعنی اس کی اجازت ہے تاوقتیکہ کسی نص کی بنیاد پر اُس کام کو اللہ نے حرام نہ قرار دیا ہو)
مثلاً محمد و آلِ محمد (علیھم الصلوۃ و السلام) پر درود بھیجنا ایک بہت بابرکت عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص ہر کام کے آغاز سے پہلے (مثلاً اذان سے قبل) درود پڑھنا چاہے، تو کیا شریعت میں یہ عملِ حرام قرار دیا جائے گا؟
نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ:

  1. اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ درود صرف کچھ خاص اوقات میں پڑھا جا سکتا ہے، اور باقی اوقات میں پڑھنا حرام ہو۔
  2. اور جب تک ایسی کوئی حرمت ثابت نہ ہو، اُس وقت تک شریعتِ محمدیہ میں اپنی ذاتی رائے/اجتہاد سے کیا گیا ہر نیا کام مباح رہتا ہے (چاہے رسول ﷺ نے اسے کرنے کا حکم دیا ہو یا ایسا کوئی حکم موجود نہ ہو)

 

Kashif Naqvi

New Member
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (

BiBi:- Islam came from Saudi Arabia & they are the best Muslims in the world they are true followers. We know Islam from their reference. If they do so then it should be done here if not then it should be not done. Simple. Please use brains while talking on Islamic issues.
 

Mr.Restless

Senator (1k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&#157

Apki bat qabil e ghor hai...lakin main apni taraf se es shariee maslay per kuch nahn keh skta..balkee ksi alim se pochna pray ga...boht saray aesay achay kam hen jin ka hazoor saw ne direct koi hukam nahn dia lakin ager wo kiay jain to bidat ya new kam main shumar hun ge..
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
Re: ???? ?? ??? ?? ???? ?????? ?? ???? ?????? (&

Apki bat qabil e ghor hai...lakin main apni taraf se es shariee maslay per kuch nahn keh skta..balkee ksi alim se pochna pray ga...boht saray aesay achay kam hen jin ka hazoor saw ne direct koi hukam nahn dia lakin ager wo kiay jain to bidat ya new kam main shumar hun ge..

Agar Hukm Na Ho to Sabit Karna Paray Ga Kah Yah Mana Hai, Har Woh "Jaiz" Kaam Jis Ka Hukm Na Ho Aur Mana Bhi Na Ho Woh "Mubah" Hota Hai.

Even Music which is highly controversial topic is allowed in Islam with limitation.

Rap Song by Son of Dr. Zakir Nayak:


By Daughter of Dr. Zakir Nayak:


Music:

 

mush_dewana

Banned
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

Mehwish BB
App ko MQM waloon na harcha pani dana kam ker dia ha kia
Ab Deen ki hidmaat kernay lagi ho yaa ya be koi MQM's conspiracy ha Musalmanoo ko laranay ki
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

دین میں اضافہ اور جدید ایجادات و وسائل



اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر جو دین نازل کیا وہ ہر لحاظ سے مکمل ہے جس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین میں اضافہ کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دین کی تکمیل ہو گئی تھی اس لیےایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح و سعادت کے لیے نئے نئے اضافوں کی ضرورت نہیں ہے۔فرمان الٰہی ہے


“الیوم اکملت لکم دینکم”


“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے”



عام طور پر سوال کیاجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا، ٹیلی فون نہیں تھا، ہوائی جہاز نہ تھے، لوگ اونٹوں پر سفرکرتے تھے، کنوؤں سے پانی پیتے تھے، تلوار سے جہاد کرتے تھے وغیرہ۔ اب ان وسائل کا استعمال متروک ہو چکا ہے تو ثابت ہوا کہ دین میں اپنی مرضی کی چیزیں داخل کی جا سکتی ہیں کیونکہ اسلام قیامت تک کے لیے ہے اور زمانے کے ساتھ بدلتے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کو اسی وقت اپنایا جا سکتا ہے جب اضافے کو جائز سمجھا جائے۔ کار میں سفر کرنا اور گھروں میں بجلی کا استعمال کرنا کیا نئی چیز نہیں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تو انہیں استعمال نہیں کیا تھا۔ اس عقلی دلیل کو بنیاد بناتے ہوئے ان سارے فرامین کی تاویل کی جاتی ہے جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی نئی چیزیں نکالنے سے منع کیا ہے۔

خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی میں دو قسم کے امور ہوتے ہیں۔

١) عقائد اور عبادات
٢) عادات
(معروف معنوں کے مطابق دنیاوی معاملات)

اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سوا کسی کو اختیار نہیں کہ اپنی مرضی سے حلال و حرام کا حکم جاری کرے، یا کسی عبادت کو مشروع کرے یا عبادت کی مقدار، کیفیت اور اوقات میں کوئی تبدیلی کرے، یا معاملات کے عمومی قواعد کو بدلے، یا اپنے عقل و فہم سے کسی چیز کو اچھا سمجھتے ہوئے اسے عبادت ، برکت یا تقرب الی اللہ کے ذریعے کے طور پر اپنائے اور اس کی ترویج کرے۔ اللہ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں سے ایک ایک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں برت کر دکھا دیا ہے اور اس کی تعلیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی۔ اب جو بھی نیا کام عقیدہ و عبادت میں نکالا جائے گا یا اسے اللہ کی خوشنودی کے ذریعے کے طور پر اپنایا جائے گا یا اسے برکت کے حصول کا ذریعہ مانا جائے گا وہ مردود ہے، ناقابل قبول ہے، اللہ کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے کہ
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد
“جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام نکالا جو اس میں نہیں ہے تو وہ کام مردود ہے

اور اسی سے ملتا جلتا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ ہے

من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد
جس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ رد ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام امت سے افضل ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت نہیں دی کہ اپنے طور پر کسی عمل کو اچھا سمجھتے ہوئے اسے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ لیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ صحیح احادیث میں مذکور ہے جس میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سامان ہے

جاء ثلاث رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا : أين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم : أما أنا فإني أصلي الليل أبدا ، وقال آخر : أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر : أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني )
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح”
“تین آدمی (صحابی )نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے اور (ازواج مطہرات سے) نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو گویا انہوں نے اسے تھوڑا جانا۔ پھر کہنے لگے “کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں”۔ ایک نے کہا “جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رات کو ہمیشہ قیام کروں گا، دوسرے صحابی نے کہا “میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے صحابی نے کہا “میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا”۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف لائے تو (معاملے کی اطلاع ملنے پر) فرمایا “تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہوں لیکن میں (نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے”۔

اس قصے سے بڑا اہم سبق ملتا ہے کہ تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اچھے کام کا ارادہ کیا اور اچھی نیت سے کیا۔ کون کہ سکتا ہے کہ روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا بری بات ہے۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں اپنے طریقے سے ہٹ کر نفلی روزہ اور نفلی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہو گیا کہ نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا بظاہر نیک عمل بھی اس وقت تک کوئی وزن نہیں رکھتا جب تک اس پر محمدی مہر تصدیق نہ ہو۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دفعہ وہ مسجد سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ لوگ حلقے بنا کر بیٹھے ہیں اور (سب مل کر) تکبیر کہتے ہیں، اللہ کی تسبیح اور تہلیل بیان کرتے ہیں۔ تو ان سے فرمایا

“اے امت محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) تمہاری ہلاکت کس قدر قریب آ گئی ہے” اور فرمایا “اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ (ذکر کا یہ نیا انداز نکال کر) محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے سے بہتر طریقے کے مدعی ہو یا پھر گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو”

وہاں بیٹھے لوگوں نے کہا:
“اے ابو عبدالرحمٰن(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت)! ہمارا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا”
اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
“کتنے ہی خیر کا ارادہ کرنے والے ہیں جو اسے پا تے نہیں ہیں”
(اسے امام الدارمی نے اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جلد 1 صفحہ68۔69)



ایک دوسرا واقعہ نئے امور کے بارے میں صحابہ کرام کی احتیاط کو بہت اچھی طرح بیان کر تا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے) کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا۔ اسے چھینک آئی تو اس نے کہا “الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ”۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ٹوکتے ہوئے فرمایا”میں بھی کہتا ہوں “الحمدللہ و السلام علی رسول اللہ” لیکن اس موقع پر (یعنی چھینک کے بعد) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی تھی، بلکہ یہ تعلیم دی تھی کہ ہم کہیں “الحمدللہ علی کل حال” (الترمذی حدیث نمبر 2738 بسند صحیح)



صحابہ کرام کے شاگر د یعنی تابعین بھی نئے امور سے سختی سے پرہیز کرتے تھے۔ مشہور تابعی سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ طلوع فجر کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھتا ہے اور اس میں کثرت سے رکوع و سجود کرتا ہے۔ انہوں نے اسے منع کیا تو اس نے کہا “اے ابو محمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا”؟ تو سعید رحمہ اللہ نے فرمایا “ نہیں، بلکہ تجھے خلاف سنت کام کرنے پر عذاب دے گا” (رواہ البیہقی فی “السنن الکبرٰی 2/466)ت



رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور تابعین کے طرز عمل سے اب وہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی ہو گی جسے میں نے اوپر لکھا ہے کہ “اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سوا کسی کو اختیار نہیں کہ اپنی مرضی سے حلال و حرام کا حکم جاری کرے، یا کسی عبادت کو مشروع کرے یا عبادت کی مقدار، کیفیت اور اوقات میں کوئی تبدیلی کرے، یا معاملات کے عمومی قواعد کو بدلے، یا اپنے عقل و فہم سے کسی چیز کو اچھا سمجھتے ہوئے اسے عبادت ، برکت یا تقرب الی اللہ کے ذریعے کے طور پر اپنائے یا اس کی ترویج کرے۔”ت



واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ جب نئے کام نکالنے کی اتنی سخت ممانعت ہے تو پھر جدید ایجادات اور وسائل کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ عادات و معاملات اور دنیاوی کاموں میں نئی چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جب تک انہیں اختیار کرنے سے دین کے کسی دوسرے اصول کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ آپ کو اجازت ہے کہ شریعت کے عمومی قواعد مثلا عدل و انصاف، دیانت و امانت وغیرہ کا خیال رکھتے ہوئے صنعت و حرفت، ٹیکنالوجی، جدید ذرائع آمدورفت، جدید ذرائع مواصلات وغیرہ سے پورا فائدہ اٹھائیں۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ “تم اپنی دنیا کے معاملات کو زیادہ اچھی طرح جانتے ہو”۔



اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں یوں بیان کیا ہے



“انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجوروں میں پیوند لگا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا “اگر تم یہ نہ کرو تو اچھا ہو گا”۔ (انہوں نے ایسا ہی کیا تو) اس کے بعد ردی کھجوریں پیدا ہوئیں۔پھر (دوبارہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا گزر ان پر سے ہوا تو پوچھا “تمہاری کھجوروں کا کیا ہوا”؟ (انہوں نے (ساری بات بتائی ) اور کہا “آپ نے اس اس طرح فرمایا تھا” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:ت



“تم اپنی دنیا کے معاملات کو زیادہ اچھی طرح جانتے ہو”



()دیکھیے صحیح مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علی سبیل الرای)۔



امید ہے کہ اس وضاحت سے غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں مدد ملے گی باذن اللہ۔



والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 
Last edited:

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

بدعتی شیطان کا سب زیادہ محبوب بندہ ہے

قال سفیان الثوری رحمہ اللہ
البدعۃ احب الی ابلیس من المعصیۃ، المعصیۃ یتاب منہا والبدعۃ لا یتاب منہا

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شیطان کو گناہ کے مقابلے میں بدعت زیادہ پسند ہے کیونکہ گناہ سے توبہ کی جاتی ہے جبکہ بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی

(شرح السنۃ للبغو کتاب الایمان باب رد البدع ج١/١٨٨،وحلیۃ الاولیاء ج٧/٢٦)
 

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

ترمذی کی ’کتاب اللباس‘ میں ’باب ما جاء في لبس الفراء‘‏ کے تحت یہ حدیث درج ہے ‫:

حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري حدثنا سيف بن هارون البرجمي عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

اردو ترجمہ ‫:
پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمن(مکھن) اور جبن (پنیر) اور الفراء (فر کے لباس) کے بارے میں تو فرمایا: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے خاموشی ہے تو اس میں درگزر ہے۔

مباح اور چیز۔

لفظ "مباح" کی یہ تعریف تو ہر پڑھے لکھے کو معلوم ہے کہ : ایک ایسا کام جس کو کرنے پر کوئی ثواب نہ ملے اور نہ کرنے پر گناہ بھی نہ ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ : اباحت کا یہ اصول کیا "عبادات" میں بھی لاگو ہوگا؟ بلکل نہیں کیوں کے اباحت کا اصول چیزوں کے لئے ہے عبادات کے لئے نہیں

میلاد النبی کو بطور عید منانا ، عرس برپا کرنا ، مخصوص ذکر کی محفلیں قائم کرنا ، وضو اور اذان کی بعض مخصوص دعاؤں کا ورد ۔۔۔
کیا یہ سب محض ’اشیاء‘ یعنی ’چیزیں‘ ہیں ؟
کوئی بھی عقلمند مسلمان ان کو ’اشیاء‘ نہیں کہے گا بلکہ عبادات سے متعلق اعمال و افعال قرار دے گا۔

اور عبادات کی اصل ’حرمت‘ ہے ، ’اباحت‘ نہیں ہے۔

کیونکہ ظاہر ہے ، کوئی بھی عبادت ، بغیر ثواب کے ، ہو ہی نہیں سکتی۔

عبادت صرف اسی طریقے پر ہوگی جس طریقے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہمیں بتائی اور سکھائی اور اپنی طرف سے نئی نئی عبادات کے طور طریقے ایجاد کرنا حرام ہے...جہاں تک چیزوں کا معاملہ ہے انمیں ہمیں رخصت ہے کے جب تک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہمیں حرام کا حکم نہیں مل جاتا ہے تب تک ہم چیزوں کے معاملے میں حرام کا حکم نہیں لگائیںگے بلکہ حلال کا حکم لگےگا...اور یہ سب ہماری آسانی کے لئے ہے...ت
 
Last edited:

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
YOU MUST PROVE IT that something you are doing is Ibadat (?????) and is accepted by Allah

You can't say that "Prove to me where Qur'aan says I can't do this". Actually it is the opposite, You have to prove what you are doing is Ibadat (?????) and that is something acceptable to Allah.

 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&#157

During the life of Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم), he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself was there to correct Muslims if they were going towards wrong direction. Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has completely delivered the religion before he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) died. After his (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) death there is nobody to correct if somebody is taking a wrong path, except Quraan and Sunnah.

Please leave this beautifull and simple religion Islam free of pollution like URS, Milad, Tazias, qawalis etc. and follow just Quraan and Sunnah because after the death of Prophet Muhammad nobody can claim that he is capable of inventing something in religion Islam which was missed by Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (Nauzobillah).
 

I_hate_Liars

Politcal Worker (100+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&#157

Bawa o ajdad ney jo kuch keh diya bus us per amal kartey roho baghair kuch sochey samjhey, Wo amal jo merey aqa ney khud nahi kiyey na un ka hukum diya apni ummat ko, woh sub bidaat main ata hai, afsos un logoun per jo apni batoun ko sabit karney key liyey ahadeeth ko bhi nahi bakhshtey, cut & paste ka najaiz istemal.....bhai such bolo, Pakistani1947, aap log masha allah apna kaam badi khoobsoorti key saath kar rahey hain, magar gumrahoun ka koi ilaj nahi. Veiley bhai abhi kuch waqt dein aap ki batoun ki gahriey main janey key liyey.

Mehwish jo aap kaa riwaya MQM key liyey hai, wohi mazahab main bhi wohi haal hai, akhit koi itni maharat key saath apney aap ko kaisey gumrah kar sakta hai.....afreen hai aap per..aur itney controversial issue to uthaney key liyey sirf aur sirf afsos hi kar saktey hain, Allah aap ko nek hidayat dey aur mukamil sahat bhi. Insha Allah.
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&


سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ:

  1. یہ صحابہ کرام اپنی مرضی سےمحفل میں حلقے بنا کر "ذکر" کر رہے تھے۔
  2. اللہ کے رسول نے انہیں ایسا کرنے کا براہ راست کوئی حکم نہیں دیا تھا، بلکہ یہ صحابہ کرام کا اپنا اجتہاد تھا کہ بنیادی اصول اللہ کا ذکر کرنا ہے اور اسکا طریقہ یعنی محفل بنا کر ذکر کرنا عین مباح فعل ہے اور اسلام کی کسی بنیادی اصول سے نہیں ٹکراتا ہے۔
  3. اس ذکر کی محفل کے "وقت" کا تعین بھی ان صحابہ نے اپنی مرضی سے کیا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ شریعت کا کوئی ایسا اصول نہیں ہے جو ایسے اوقات میں ذکر کی محفل کرنے کو حرام ٹہراتا ہے۔
  4. اور جب اللہ کے رسول ﷺ کو صحابہ کرام کے اس "نئے"نفلی عباداتی فعل کا علم ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس پر بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کی بجائے ان صحابہ کرام کو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی انکے اس "نئے فعل" کی وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔


Following is the Hadith you have quoted:

Abu Sa'id Khudri reported that Mu'awiya went to a circle in the
mosque and said: What makes you sit here? They said: We are sitting here in order to re- member Allah. He said: I adjure you by Allah (to tell me whether you are sitting here for this very purpose)? They said: By Allah, we are sitting here for this very purpose. Thereupon, he said: I have not demanded you to take an oath, because of any allegation against you and none of my rank in the eye of Allah's Messenger (may peace be upon him) is the narrator of so few ahadith as I am. The fact is that Allah's Messenger (may peace be upon him) went out to the circle of his Companions and said: What makes you sit? They said: We are sitting here in order to remember Allah and to praise Him for He guided us to the path of Islam and He conferred favours upon us. Thereupon he adjured by Allah and asked if that only was the purpose of their sitting there. They said: By Allah, we are not sitting here but for this very purpose, whereupon he (the Messenger) said: I am not asking you to take an oath because of any allegation against you but for the fact that Gabriel came to me and he informed me that Allah, the Exalted and Glorious, was talking to the angels about your magnificence. (Sahih Muslim Book #035, Hadith #6521)

Mehwish bibi, read the above hadith again. Mu'awiya (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) saw some Muslim praising to Allah in a mosque. Then he (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) approves their act by telling a Hadith.

There are some more Hadith in support of Praising Allah.

Anas reported: A man came panting and entered the row of worshippers and said: Praise be to Allah, much praised and blessed. When the Messenger of Allah (may peace be upon him) finished the prayer he said: Who amongst you uttered these words? The people remained silent. He (the Holy Prophet again said) -: Who amongst you uttered these words? He said nothing wrong. Then a man said: I came and had a difficulty in breathing, so I uttered them. He replied: I saw twelve angels facing one another as to who will take them up (to Allah). (Sahih Muslim Book #004, Hadith #1247)

Narrated Rifa'a bin Rafi AzZuraqi: One day we were praying behind the Prophet. When he raised his head from bowing, he said, "Sami'a-l-lahu Liman hamida." A man behind him said, "Rabbana walaka-l hamd hamdan Kathiran taiyiban mubarakan fihi" (O our Lord! All the praises are for You, many good and blessed praises). When the Prophet completed the prayer, he asked, "Who has said these words?" the man replied, "I." the Prophet said, "I saw over thirty angels competing to write it first." Prophet rose (from bowing) and stood straight till all the vertebrae of his spinal column came to a natural position. (Sahih Bukhari, Book #12, Hadith #764)

Conclusion: If Muslim were doing any act of Ibadat (عبادت) not supported by Qur'aan and Hadith, Mu'awiya(رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) would have stopped them from doing it. Muslims still sit together in mosques in order to remember Allah. For example, after obligatory prayers Muslims do Tasbeh of Suhan-Allah, Al-humdolillah and Suhan-Allah. Which is fine and not biddat as is suported by authentic hadiths. The biddat is doing religious acts without the support of Quraan and Authentic Hadiths.

No Muslim says that uttering these words " Praise be to Allah, much praised and blessed " is biddat (بدعت). The biddat (even Shirk) is that if somebody start uttering "Ya Ghaus ul Azam" , "Ya Ali" etc.

I have personally experienced a biddat. Some of Muslims now a days, utter words like "Allah hoo" in groups in chorus, inside a room with all lights off and at the same time shaking their head (and body) up and down. That would be called biddat.
 
Last edited:

cheema

Citizen
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

jo loog boltay heen k islam saudia se aya he for kinde information saudia ki history 100 saal bi nahe he or 100 saal ka baad siruf wahabi he aayay heen islam nahee aya asia men islaam ki histury us se pehly ki he is aap kabi bi saudia ki masaal na dia karen
 

Shariah

Politcal Worker (100+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&#157

Achah tau aap aisa karien key aap azaan key alfaazon ko bhi badal lien, uss mien bhi tabdeelian ley aayin aur iss ka wohi jawaz bana lien jo aap ne azaan se pehley durood ka diya hai. Wah wah subhanallah, kya behtreen tariqa hai bidaat aam karney ka, subhanallah.
AB sawal iss baat ka utha hai key bidaat hain kya, kiyun key jiss cheez kee mumaniat aayi hai woh tau nafli ibadat ban hee nahin sakti ?!?
allah ki ****** hai jhutoon par'

BIBI aap zara bidaat kee sahih taareef kar dien, aur yeh doghla pan khatam karien, jo aap ne apney shirk aur biddaat key bazar ko garam rakhney key liye jawaz pesh kiye hain.


kulu bidaatin dallale, wa kullu dallatin finnar
 

Night_Hawk

Siasat.pk - Blogger
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&#157

With due respect to all isn't these type of discussions come under religious Groups.
Why this is being discussed here.
 

Shariah

Politcal Worker (100+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

jo loog boltay heen k islam saudia se aya he for kinde information saudia ki history 100 saal bi nahe he or 100 saal ka baad siruf wahabi he aayay heen islam nahee aya asia men islaam ki histury us se pehly ki he is aap kabi bi saudia ki masaal na dia karen

WAH jee!
Achah tau kya Sahaba radiallahu ajmaaeen (nauzubillah) europe se aye tey?!?
tauba tauba kya khulla jhoot pehla raha hai.
Saudi garr hai Islam ka, aur Imam mehdi bhi wahin aain gey.
Aur aik hadeeth ka mafhoom hai key qiyamat se pheley tamam Ilm samat jaey ga madinah mien.
 

Shariah

Politcal Worker (100+ posts)
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

With due respect to all isn't these type of discussions come under religious Groups.
Why this is being discussed here.

What?:13:
mmmm.....ok....SO dO u consider a discussion on BIDAAT as more sporty or political?!? maybe we could take such discussions under the sports or siasi section.
it would be v interesting to know ur point of view. :lol:

DHATT, levanai
 

Night_Hawk

Siasat.pk - Blogger
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

What?:13:
mmmm.....ok....SO dO u consider a discussion on BIDAAT as more sporty or political?!? maybe we could take such discussions under the sports or siasi section.
it would be v interesting to know ur point of view. :lol:

DHATT, levanai

You can laugh as much you want.
The purpose of these groups is to discuss these type of discussions there.
http://www.siasat.pk/forum/group.php
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

Some people do not want to talk with people of same same minds, like discussion in groups.

Because they want to just stir up the quite and calm situation. and start discussion just to prove that their Allah is the best , their belief is best.

This is called Dispute ( Fitna ) and this fitna is worse than murder.

My request is not to discuss these thoughts on the siasi plateform , go to the like minded people's group and increase other' knowledge and Eman too.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: بدعت کے نام پر نفلی عبادات کو حرام ٹہرانا (&

And the main thing is that this is the practical life.....one person does the lots of zikar and does nothing is not included in deen.

Our all ebadat should reflect in our action.

We as muslims are lacking of this qualities. This is obvious by the results.

The deen is to follow the future , the future is that our body will die and soul or spirit will live for ever.

We have to worry about this soul, better to be forgiven and go to jannat.

All prophets came for this massage and telling u the right path.

If we are sincere with ourself , we will get the way , otherwise just keep on discuss about the past, and all the Ahadees.

Hazrat Muhammed was also Basheer and Nazeer.It was about future....

And we discuss only about Past.....

We need to change the behavior.
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top