ے"میاں منشاء کے نشاط گروپ نے 600 سے زائد ملازمین کو بغیر تنخواہ ومراعات فارغ کردیا-"
کل ایک عزیز دوست نے میسج کرکے پوچھا کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت کو کونسے تین اہم کام کرنے چاہیں- اس طالبعلم کا کہنا تھا کہ فی الحال تو حکومت اتنا کرے کہ وباء کا پھیلاؤ روکے اور متاثرین کے علاج معالجہ میں کوئی کسر روا نہ رکھے، اشیاۓ خوردونوش کی رسد متاثر نہ ہونے
دے تاکہ قیمتیں معمول پر رہیں اور سماج افراتفری کا شکار نہ ہو، تیسرا کام غریب طبقہ تک امداد کی تقیسم یقینی بنائے- یہ اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں جن کا مقصد سانس کی ڈوری کو قائم رکھنا ہے
جہاں تک معیشت میں بہتری لانے کے اقدامات کا تعلق ہے، یہ تبھی ہوگا جب وباء تھمے گی- معیشت ابھی تنزلی کی جانب رواں ہے- وباء کا کچھ اثر ٹوٹے تو معیشت کی تعمیر دوبارہ سے ہوگی
میری محدود دانست میں پاکستانی معیشت میں طویل المدتی اسٹرکچرل تبدیلیاں درکار ہیں- ایسی اصلاحات جو گراس روٹ لیول پہ ہوں، دور رس اور پائیدار ہوں- انہیں میں سے ایک لیبر یعنی مزدور کی فلاح وبہود سے متعلق ہیں
مزدور جب تک سرمایہ دار کے رحم وکرم پر ہے، خوشحالی اور آسودگی اس سے کوسوں دور رہے گی- کم اجرتیں، علاج ومعالجہ کی عدم انشورنس، ناگہانی آفت کی صورت میں مالی مداوا نہ ہونا اور پینشن جاری نہ کرنا ہمارے پرائیوٹ شعبے میں ایسی خامیاں ہیں جنھیں دور کرنا ریاستی ذمہ داری ہے- محنت کار اپنے خون پسینے سے کارخانوں اور ملوں کو رواں رکھتا ہے، اور جب سرمایہ دار کا نفع کچھ کم ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے مزدور سے گلوخلاصی چاہتا ہے
سرمایہ دار اپنے مزدور کی فنی تعلیم وتربیت پر کچھ خرچ نہیں کرتا جس کی وجہ سے مزدور کی فی کس پیداوار کم رہتی ہے- کم سطح کی استعداد کار ہونے کا نقصان ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی کوالٹی پر پڑتی ہے- گھٹیا معیار کی اشیاء پر مزدور/معمار کونہیں، سرمایہ دار کو موردالزام ٹھہرائیے جو مزدور کو مناسب ٹریننگ نہیں دے رہا- انڈسٹریلائزیشن کا عمل اسی لیے نہیں پنپ رہا
دوسرا رخ دیکھیے
وباء جب تھمے گی تو یہی سرمایہ دار اپنے قرضے معاف کروائیں گے، ٹیکس میں خصوصی مراعات لیں گے اور اپنی برآمدات پر سبسڈی بھی-
کیونکر یہ سب کچھ ہوگا؟ اس لیے انہی کے حمایت یافتہ اقتدار کے ایوانوں میں ہیں، بیوروکریسی میں ہیں اور اداروں میں تو ہیں ہی ان کے وظیفہ خور- سرمایہ دار نے ہرجگہ اپنی سرمایہ کاری کررکھی ہے
حل کیا ہے
سرمایہ دار کے نفع میں مزدور کو حصہ دار بنایا جاۓ- نوکری بغیر کانٹریکٹ کے نہ ہو، معاہدے میں مزدور کے علاج معالجہ، تعلیم وتربیت، اور پینشن کی دفعات شامل ہوں- نوکری سے برخاستگی کو مشروط کیا جاۓ- اس کے لیے انشورنس کا نظام متعارف کروایا جاۓ جو یورپی ممالک میں رائج ہے تاکہ مزدور کے حالات بدلیں
وباء جہاں امتحان ہے وہیں ایک موقع بھی، جس سے فائدہ اٹھا کر عمران خان معیشت میں تعطل کی شکار اصلاحات نافذ کرسکتے ہیں
شر سے میں سے خیر کا پہلو نکالیے
کل ایک عزیز دوست نے میسج کرکے پوچھا کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت کو کونسے تین اہم کام کرنے چاہیں- اس طالبعلم کا کہنا تھا کہ فی الحال تو حکومت اتنا کرے کہ وباء کا پھیلاؤ روکے اور متاثرین کے علاج معالجہ میں کوئی کسر روا نہ رکھے، اشیاۓ خوردونوش کی رسد متاثر نہ ہونے
دے تاکہ قیمتیں معمول پر رہیں اور سماج افراتفری کا شکار نہ ہو، تیسرا کام غریب طبقہ تک امداد کی تقیسم یقینی بنائے- یہ اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں جن کا مقصد سانس کی ڈوری کو قائم رکھنا ہے
جہاں تک معیشت میں بہتری لانے کے اقدامات کا تعلق ہے، یہ تبھی ہوگا جب وباء تھمے گی- معیشت ابھی تنزلی کی جانب رواں ہے- وباء کا کچھ اثر ٹوٹے تو معیشت کی تعمیر دوبارہ سے ہوگی
میری محدود دانست میں پاکستانی معیشت میں طویل المدتی اسٹرکچرل تبدیلیاں درکار ہیں- ایسی اصلاحات جو گراس روٹ لیول پہ ہوں، دور رس اور پائیدار ہوں- انہیں میں سے ایک لیبر یعنی مزدور کی فلاح وبہود سے متعلق ہیں
مزدور جب تک سرمایہ دار کے رحم وکرم پر ہے، خوشحالی اور آسودگی اس سے کوسوں دور رہے گی- کم اجرتیں، علاج ومعالجہ کی عدم انشورنس، ناگہانی آفت کی صورت میں مالی مداوا نہ ہونا اور پینشن جاری نہ کرنا ہمارے پرائیوٹ شعبے میں ایسی خامیاں ہیں جنھیں دور کرنا ریاستی ذمہ داری ہے- محنت کار اپنے خون پسینے سے کارخانوں اور ملوں کو رواں رکھتا ہے، اور جب سرمایہ دار کا نفع کچھ کم ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے مزدور سے گلوخلاصی چاہتا ہے
سرمایہ دار اپنے مزدور کی فنی تعلیم وتربیت پر کچھ خرچ نہیں کرتا جس کی وجہ سے مزدور کی فی کس پیداوار کم رہتی ہے- کم سطح کی استعداد کار ہونے کا نقصان ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی کوالٹی پر پڑتی ہے- گھٹیا معیار کی اشیاء پر مزدور/معمار کونہیں، سرمایہ دار کو موردالزام ٹھہرائیے جو مزدور کو مناسب ٹریننگ نہیں دے رہا- انڈسٹریلائزیشن کا عمل اسی لیے نہیں پنپ رہا
دوسرا رخ دیکھیے
وباء جب تھمے گی تو یہی سرمایہ دار اپنے قرضے معاف کروائیں گے، ٹیکس میں خصوصی مراعات لیں گے اور اپنی برآمدات پر سبسڈی بھی-
کیونکر یہ سب کچھ ہوگا؟ اس لیے انہی کے حمایت یافتہ اقتدار کے ایوانوں میں ہیں، بیوروکریسی میں ہیں اور اداروں میں تو ہیں ہی ان کے وظیفہ خور- سرمایہ دار نے ہرجگہ اپنی سرمایہ کاری کررکھی ہے
حل کیا ہے
سرمایہ دار کے نفع میں مزدور کو حصہ دار بنایا جاۓ- نوکری بغیر کانٹریکٹ کے نہ ہو، معاہدے میں مزدور کے علاج معالجہ، تعلیم وتربیت، اور پینشن کی دفعات شامل ہوں- نوکری سے برخاستگی کو مشروط کیا جاۓ- اس کے لیے انشورنس کا نظام متعارف کروایا جاۓ جو یورپی ممالک میں رائج ہے تاکہ مزدور کے حالات بدلیں
وباء جہاں امتحان ہے وہیں ایک موقع بھی، جس سے فائدہ اٹھا کر عمران خان معیشت میں تعطل کی شکار اصلاحات نافذ کرسکتے ہیں
شر سے میں سے خیر کا پہلو نکالیے