وفاقی وزیر اویس لغاری نے بنکوں سے قرض کا نیا نام "مالی معاہدہ" رکھ دیا ۔۔ سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے
اپنے ایکس پیغام میں وزیرتوانی اویس لغاری نے کہا کہ الحمداللہ آج وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سمری پر بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) ختم کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا 1275ارب روپے کا مالی معاہدمنظور کر لیا۔
https://twitter.com/x/status/1935376984680350173
اس پر صحافی ماجد نظامی نے تبصرہ کیا کہ کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا 1275 ارب روپے کا مالی معاہدہ"۔۔۔ براہ کرم ایسے خوشنما الفاظ سے عوام کو دھوکا نہ دیں۔ بتائیں کہ 2400 ارب کے گردشی قرضے میں کمی کےلئے سود پر 1275 ارب کا مزید قرض لیا ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ عوام فی یونٹ مزید کتنا جرمانہ ادا کرے گی جس سے یہ قرض واپس ہو گا۔۔۔
https://twitter.com/x/status/1935406030478794919
احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ کمرشل بینکوں سے ایک ہزار 275 ارب روپے قرض لیں گے، یہ رقم مہنگے پاور پلانٹ والی کمپنیوں کو دی جائے گی، پاکستانی 1275 ارب روپے سود سمیت واپس کریں گے، اس میں ’’الحمداللہ‘‘ والی کون سی بات ہے۔ قابل شرم بات ہے ویسے
https://twitter.com/x/status/1935407425076740609
محمد عمیر نے سوال اٹھایا کہ لغاری صاحب بھاری بھرکم بلوں کے بعد اب اس قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر فی یونٹ کتنا بوجھ پڑے گا؟
https://twitter.com/x/status/1935409683587575965
اکبر نے ردعمل دیا کہ پہلے ہم نے 1250 ارب روپے پاور کمپنیوں کے دینے تھے اب وہی پیسے ہم نے بینکوں کے دینے ہیں اس طرح گردشی قرضہ ختم ہوگیا ہے ۔۔ مالی معاہدہ
https://twitter.com/x/status/1935416335103635780
عبدالقیوم نے کہا کہ ظالموں یہ عوام کی جیب سے پورا کروگے۔اللہ تم لوگوں کو پوچھے گا اتنا ظلم عوام پر ایک طرف دودوہزار یونٹ مفت اور دوسری اس مفتے کے بل بھی عوام کی جیب سے۔
https://twitter.com/x/status/1935421025329516813
فوادیوسفزئی نے تبصرہ کیا کہ اور یہ گردشی قرضہ جو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے جمع ہوا ہے اب صارفین کے جیب سے نکالا جائیگا اگلے 6 سال میں بینکوں سے قرض لئے گئے 1275 ارب روپے بمع 663 ارب سود کے عوام سے وصول کئے جائنگے۔۔۔صارفین ہوجاو تیار ٹوٹل 1938 ارب پیمینٹ کے لئے
https://twitter.com/x/status/1935500532535246955
Last edited by a moderator: