عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل خان ولی نے ملک میں تباہ کن سیلاب پر ٹویٹ کیا کہ سوچیں، آج اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو کتنی تباہی ہونی تھی
انہوں نےمزید کہا کہ ہم اپنے اکابرین کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمیں اس تباہی سے بچایا، اس سیلابی صورتحال میں تمام متاثرین کے ساتھ شریک ہیں اور ہر علاقے میں خدائی خدمتگار آرگنائزیشن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رضاکار میدان میں ہیں۔
ایمل خان ولی کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا،اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا،
ملک خرم خان نے لکھا کہ آپ کے اکابرین نے کالاباغ ڈیم نہ بننے دے کرنہ صرف خدائی نعمت کوپاکستانی قوم کےلیےزحمت بنادیا بلکہ ساتھ ہی بھارت کو بھی یہ موقع دیا کہ وہ ہمارے دریائے سندہ پر لا تعداد ڈیم بننا کر اسی پانی کو اپنے لیے نعمت بنا سکے اور جب چاہے اپنے ڈیموں کے گیٹ کھول کر پاکستان کیطرف سیلاب چھوڑ دے۔
میر محمد علی خان نے ٹویٹ کیا کہ ایک بھارتی فلم میں سیاستدان وِیلن اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ اگر پانی سے بجلی نکال لو گے تو پھر پانی میں بچے گا ہی کیا، ہم یہ ڈیم نہیں بننے دینگے،مُجھے نہیں پتہ تھا کہ پاکستان میں بھی اُس فلمی سیاستدان کا رشتے دار رہتا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ یہ ہیں پاکستانی عوام کے خیر خواہ، جو ملک و عوام کو گمراہ کر کے موت کے منہ میں لے جاتے ہیں اور کچھ نہیں پانی ذخائر سے انکو اتنی نفرت ہے تو گڈو کی اہمیت سندھ سے پوچھو کہ ہر سال سندھ کو بچاتا ہے۔
ریاض الحق نے لکھا کہ ہوش کے ناخن لو نواب زادے، ڈیم ملکوں کو تباہی سے بچاتے ہیں۔ اے این پی کے پاس پچھلے بیس سالوں میں سیاست کیلئے بچا کیا ہے؟ سوائے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی سیاست کرنے کے۔
خرم اقبال نے لکھا یہ ہیں کالا باغ ڈیم کے سب سے بڑے مخالف،
محمد فیضان خان نے لکھا کہ جناب آپ کی اور آپ کے اکابرین کی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی وجہ سے ہی آج کے پی کے میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ اس کے ذمہ دار آپ اور آپ سمیت تمام ایسے لوگ ہیں جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔
ذوالقرنین اقبال نے لکھا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں مجرمانہ رکاوٹیں ڈالنے والوں پر نہ صرف سنگین غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے بلکہ تمام جاں بحق افراد کے قتل کا پرچہ ہونے کے ساتھ متاثرین کے نقصان کا ازالہ بھی انہی ظالموں سے کرنا چاہیے۔
اسلم احمد نے لکھا کہ اگر پاکستان دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی پروگرام مکمل کر لیتا ہے تو کچھ لوگوں کی ناراضگی کیوں ڈیم بناتے وقت نہیں لی جا سکتی؟
لالہ مرتضی نے لکھا کہ لگتا ہے آج تم نے کچھ زیادہ ہی پی رکھی ہے،کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پاکستان میں سیلاب نہ آتے اور نہ ہی پاکستان مہنگی بجلی پیدا کرکے دیوالیہ ہوتا
غریبوں کو بجلی بل بھی ادا کرنے آسان ہوتے،انڈسٹری کو سستی بجلی مہیا ہوتی ہے، غداروں نے دشمنوں سے مل کر ڈیمز نہیں بننے دیئے
صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی کے پیر پہائی نامی گاؤں کے قریب کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کام 1950 میں شروع کیا گیا لیکن حکومتِ پاکستان کا بجلی پیدا کرنے کا یہ ’سب سے بڑا منصوبہ نامکمل ہے،ڈیم کی کالونی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی تھی اور کالونی میں بنائے گئے کوارٹرز کے شیشے ٹوٹ کر زمین پر بکھرے تھے،قیمتی مشینری، کرین اور دیگر ساز و سامان کھلے آسمان تلے پڑا تھا۔
صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں،بلوچستان کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے وہ سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔