Noman Alam
Politcal Worker (100+ posts)
نعمان عالم ، خارکوف ، یوکرین ، مورخہ تین مارچ سن دو ہزار تیرہ
میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ اگر دعائیں بن اعمال کے اتنا اثر رکھتیں تو یقیناً مولانا طارق جمیل آج فوربز Forbez میگزین میں دنیا کے پہلے یا دوسرے امیر ترین شخص ہوتے ، پاکستان دنیا کا امیر اور خوشحال ترین ملک ہوتا ، یورپی یونین افغانستان سے قرضے کی درخواست کرتی ، امریکا ایران سے بھیک مانگ رہا ہوتا ، صومالی کے لوگ دنیا میں اپنی این جی اوز چلا رہے ہوتے ، روس اریٹیریا کا بے حد مقروض ہوتا اور جاپانی سوڈان میں اپنا اقامہ لگوانے کے لیے صبح پانچ بجے سے سوڈانی سفارت خانے کے باہر خوار ہو رہے ہوتے اور انگلینڈ کے باشندے پاکستانی لڑکیوں کو پھنسانے کے چکروں میں ہوتے تاکہ ویزا بھی لگ جاۓ اور پاکستان کا پاسپورٹ بھی مل جاۓ صد افسوس ایسا نہیں ہے
آؤ مل بیٹھ کر ایک چیز پر غور کرتے ہیں ، مجھے ملحد مت کہنا ، مجھے کافر مت کہنا کیونکہ میرا ایمان الله پر ہے ، غور سے سوچو پچھلے پینسٹھ سالوں سے کتنے لوگوں نے مسجدوں کے علاوہ خانہ کعبہ کے ارد گرد کھڑے ہو کر پاکستان کی سلامتی کی دعائیں کی ہونگی ؟ ظاہر ہے بےتحاشا ، پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا الله عزوجل کو اپنے گھر کا بھی پاس نہیں ؟
دور جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ، ہر چیز آسان فہم ہے ، تم سمجھنے والے بنو ، سورہ البقرہ اوائل میں آدم کی تخلیق بارے میں چند آیات ہیں جنکی مماثلت انجیل مقدس کے پہلے پارے خروج کے اوائل سے ہوتی ہے ، یعنی جوکچھ قران میں ہے وہی بائبل میں ہے صرف چند لفظوں کی کمی و بیشی کے ساتھ ، فرشتوں کے سوالات اور الله عزوجل کے جوابات سے ہی آپکو معلوم ہو جاۓ گا کہ ہماری گڑ گراہٹ بے اثر ہے یا الله عزوجل کو اپنے ہی بندوں کا پاس نہیں
ہمارا پیدا ہونا ہی ایک عمل ہے ، پہلے لمحے سے ہی ہم زندگی میں عمل پیرا ہو جاتے ہیں ، ہماری تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کائنات کو تسخیر کیا جاۓ ، اچھے برے کی تمیز کی جاۓ ، قران کہتا ہے کہ ہم فرشتوں سے بھی ایک مقام اوپر ہیں ، یعنی جو عقل ، فہم اور آزادی عمل ہمیں میسر ہے کسی اور مخلوق کو میسر نہیں ، اسی لیے تو ہم ہی ہیں اشرف المخلوقات ، عمل کے نمونے اور عمل کی مدد سے پرکھنے والے
اب آ جائیں دعاؤں کی طرف واپس ، دعائیں تو ہندو بھی مانگتا ہے ، عیسائی بھی مانگتا ہے ، یہودی بھی اور ہم مسلمان بھی ، دعا نفسیاتی معمہ ہے ، دعا ترقی کا ذریع ہرگز نہیں ، اگر ہے تو آج سے آپ کام پر جانا چھوڑ دیں اور رزق میں برکت والا وظیفہ پڑھیں ، روزانہ پڑھیں ، ٹھیک دس دن بعد آپ کے گھر میں فاقے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے
ہٹ دھرمی تو یہ کہ ہم خدا کی خدائیت کے منکر ہیں ، الله عزوجل ہم سے عمل مانگتا ہے ، ہم آنکھیں بند کر کے دعائیں کرنے میں مصروف ہیں ، یا الله یہ کر دے ، یا الله وہ کر دے ، لیکن الله عزوجل ہماری التجاؤں کی کوئی شنوائی ہی نہیں کرتے ، آخر کیوں ؟ آخر ہالینڈ پر ہی الله کیوں اتنا مہربان ہے ؟ آخر جرمنی پچھلے صرف پینتیس سالوں میں دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے ملیا میٹ کو پر کرنے میں کامیاب کیوں ہو گیا ؟ دو سال پہلے فوکوشیما تباہ ہوا ، آج وہاں ٹماٹر اگا کر انکو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے کہ یہ کھانے کے قابل ہیں کہ نہیں ، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آیندہ ایک سال تک اگر تین فصلیں اور اگائی جائیں تو چوتھی فصل قابل نوش ہو جاۓ گئی ، جرمنی اور جاپان کی مثالیں اس لیے دی ہیں کہ ہم انکا ویزا لینے کے لیے کتنے رگڑے کھاتے ہیں اور امت کی معلومات میں اضافے کی غرض سے بتاتا چلوں کہ جرمنی اور جاپان میں تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ملحد ہے ، دعا تو کیا وہ تو کسی خدا کو مانتے ہی نہیں لیکن پھر بھی خدا ان پر اتنا مہربان ؟
بات عمل کی ہے ، دعائیں کرنے سے ، زرداری کو کتا کہنے سے اپنے دل کی تسکین کرتے ہو ، زرداری تمہاری گلی میں کھلے گٹر کا ذمہ دار نہیں تم خود ہو ، تم انسان ہو جانور نہیں ، تم میں عقل ہے ، خود ڈھکن لگا کر اپنے بچوں کو اور دوسروں کے بچوں کو بدبو سے بچا سکتے ہو ، الله عزوجل اعمال کے بدلے میں کچھ دیتے ہیں ، اعمال نہیں تو مر مر کے جیو ، سسک سسک کر زندگی گزارو ، ماتھے پر چاہے سب سے گہرا محراب بن جاۓ رہو گے غریب ہی ، تمھارے بچے ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے ، جب تک عمل نہیں ہو گا کوئی ترقی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اگر صرف دعاؤں سے استفادہ کرنا ہے تو ست بسم الله ، پچھلے پینسٹھ سال سے یہی تو کر رہے ہو ، یہی تمہارا مقدر ہے اور یہی تمہاری پسند کرتے جاؤ ، بھگتتے جاؤ عمران خان سے امید لگاۓ بیٹھے ہو ، ایک کیا دس الیکشن اور ہو جائیں ، ہر کسی کو آزما لو جب تک تمہاری اپنی نیت ٹھیک نہیں ، عمل نہیں تم خوار ہو گے