
لاہور کی خصوصی سنٹرل عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے شہباز شریف سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم فوری طور پر عائد کرنے کی مخالفت کر دی۔
دوران پیشی شہبازشریف اور حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے تو ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے گزارش کی کہ چالان میں جو ملزمان اشتہاری ہیں پہلے ان کے خلاف کارروائی مکمل کریں، تمام ملزمان پر اکٹھے ہی فرد جرم لگائی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پراسکیوشن 4 ماہ کیوں خاموش رہی، کیا ملزمان کو فائدہ پہنچانا تھا۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا تاحال چالان میں ملزموں کو ضابطے کی کارروائی کے بعد اشتہاری نہیں کیا۔
جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ میں نے تو اشتہاری قرار دینے کا آرڈر جاری کر رکھا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ عدالت نے چالان میں سرخ رنگ سے تحریر کیے گئے اشتہاری ملزمان کے مطابق آرڈر جاری کیا۔
شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا کہ میرے خلاف لندن کرائم ایجنسی نے تحقیقات کیں، دبئی ، فرانس ، سوئٹزر لینڈ میں بھی میرے خلاف پونے دو سال تحقیقات کروائی گئیں۔
وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ مقدمے میں جن 14 اکاؤنٹس سے لین دین کا ذکر ہوا وہ سب بینکنگ چینل سے ہوئیں، اس کیس میں بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا ، ملزمان نے بغیر ثبوت کے بدنامی برداشت کی۔
شہبازشریف کے وکیل نے کہا لگتا ہے ایف آئی آر نیٹ فلکس سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے، یہ فلمی ایف آئی آر ہے۔ عدالت نے سلمان شہباز سمیت دیگر کو اشتہاری قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی عدالت میں پیشی کے موقع پر سخت سیکیورٹی کے باعث صحافیوں اور سائلین کو عدالت جانے سے روک دیا گیا۔ جج اعجاز اعوان نے شہباز شریف سے کہا کہ جو حالات عدالت کے باہر ہیں ایسا تو کبھی نہیں دیکھا، میں گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری ہی گاڑی روک لی گئی، آپ کی سکیورٹی والے نے میرے گن مین کا گریبان پکڑا ہوا تھا۔ آپ کی سکیورٹی نے عدالت کو ہی بند کردیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہماری طرف سے ایسی کوٸی ہدایت نہیں دی گئی تھی، مجھے بھی اندر نہیں آنے دیا جارہا تھا، میں خود باہر کھڑا تھا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ عدالت نے کہا آپ وزیراعظم ہیں انتظامیہ کے سربراہ ہیں، یہاں بھی حکم دے سکتے تھے۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں ابھی حمزہ کو تحقیقات کے لیے کہتا ہوں۔ ایس پی سیکیورٹی نے عدالت میں پیش ہوکر بدنظمی پر معذرت کر لی۔
صحافیوں کا داخلہ بند کرنے پر لیگی رہنما عطا تارڑ نے عدالت کے باہر دھرنا دے کر کہا کہ وزیراعظم بھی اسی وقت اندر جائیں گے جب صحافی جائیں گے۔ دھرنے کی وجہ سے وزیراعظم بھی عدالت کے باہر ہی کھڑے رہے اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انہیں آگے جانے سے روکا گیا۔ بعدازاں سیکیورٹی نے صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔
Last edited: