ایشیائی ثقافتوں کا جان لیوا چیوئنگ گم

Ali Khurram Tirmezi

Councller (250+ posts)
150322045246_betel_nut_512x288_bbc_nocredit.jpg


پان اور چھالیا کااستعمال کرنے والے کئی سال بعد منہ کے کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں۔دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ اسے استعمال کرتا ہے۔ یہ چھ پیالی کافی کے برابر ہے اور اسے پیار کی علامت سمجھا جاتا ہے اسے شادی کی تقریب میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے اور اسے بدہمضمی اور مردانہ کمزوری پر قابو پانے کے لیے بطور دوا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ چیز ہزاروں افراد کو وقت سے پہلے قبر تک بھی لے جاتی ہے۔
قصوروار پان اور چھالیا ہیں۔
ایشیا بھر میں چھالیا کے درختوں کی کاشت ہوتی ہے جس میں گرمائش، جوش اور تحریک پیدا کرنے کے خواص ہوتے ہیں۔
کینسر کا سبب بننے والی ٹکیا

تمباکوں کی ٹکیا بجھے ہوئے چونے اور پان سے بنتی ہے جس میں دارچینی، الائچی اور تمباکو کا اضافہ اسے ذائقے دار بناتا ہے۔ کینسر پر تحقیق کرنے والے بین القوامی ادارے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تمباکو کی اس ٹکیہ میں الائچی اور دارچینی کے علاوہ دیگر تمام اجزا کینسر کا سبب بنتے ہیں۔

اپنے انھیں اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں تمباکو، الکوحل اور کیفین کے ساتھ ساتھ پان اور چھالیا بھی ذہن کو متحرک کرنے والی اشیا کے طور پر معروف ہیں۔
عورتوں اور بچوں کے علاوہ چھالیا کام کرنے والے مرد حضرات میں بھی مقبول ہے جو لمبے اوقات میں ڈرائیونگ، مچھلی کا شکار کرنے اور کھلی تعمیرات کے شعبے میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
لیکن اس تھوڑی دیر کے فائدے کی ایک بڑی قیمت ہے۔ پان اور چھالیا خریدنے والوں کی زندگی منہ کے سرطان کی صورت میں تباہ ہو رہی ہے اور یہ مرض فوری نہیں بلکہ اس کے استعمال کے سالوں بعدلاحق ہوتا ہے۔
تائیوان میں اسے ’تائیوان کا چیوئنگ گم‘ کہا جاتا ہے۔جبکہ ملک کی حکومت صدیوں سے وہاں کے مکینوں کے استعمال میں آنے والی اس مہلک ’چیونگ گم‘ کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو ہر سال ہزاروں افراد کی جان لے لیتی ہے۔
150322045351_betel_nut_cancer_624x351_bbc.jpg


ہر سال تائیوان میں 5400 افراد میں منہ کے کینسر کی تشخص یا اس مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہوتی ہےخطرناک امتزاج

پان ایشیائی ثقافتوں کا ایک اہم جزو ہے جسے خشک، تازہ یا پھر ایک پتے میں لپیٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اسے ’تمباکو کی ٹکیا‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ اسے ہر ملک کی ثقافت کے لحاظ سے مختلف انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
تمباکوں کی ٹکیا بجھے ہوئے چونے اور پان سے بنتی ہے جس میں دارچینی، الائچی اور تمباکو کا اضافہ اسے ذائقے دار بناتا ہے۔
بجھا ہوا چونا چھالیا کھانے والے افراد کا منہ اندر سے چھیل دیتا ہے اور یہی کیمیکل ممکنہ طور پر کینسر کی ابتدا کا باعث ہے۔ لیکن چھالیا استعمال کرنے والے نصف افراد اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہی چیز منہ کے کینسر کی وجہ ہے۔ڈاکٹر ہان لیان جیّن


کینسر پر تحقیق کرنے والے بین القوامی ادارے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تمباکو کی اس ٹکیہ میں الائچی اور دارچینی کے علاوہ دیگر تمام اجزا کینسر کا سبب بنتے ہیں۔
نیشنل تائیوان یونیورسٹی ہسپتال میں منہ کے کینسر کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹر ہان لیان جیّن کہتے ہیں کہ’ بجھا ہوا چونا چھالیا کھانے والے افراد کا منہ اندر سے چھیل دیتا ہے اور یہی کیمیکل ممکنہ طور پر کینسر کی ابتدا کا باعث ہے۔ لیکن چھالیا استعمال کرنے والے نصف افراد اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہی چیز منہ کے کینسر کی وجہ ہے۔‘
دنیا بھر میں تائیوان دوسرے یا پھر تیسرے نمبر پر ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں منہ کے کینسر کی وجہ سہ سب سے زایادہ اموات ہوتی ہیں۔
کیوا یوزن ہوانگ کی عمر 54 برس ہے اور وہ وفات کے بعد لوگوں کی تدفین کا انتظام کرنے والی ایک کمپنی مکے سابقہ ملازم ہیں۔ انھوں نے 10 سال تک پان اور چھالیا کا استعمال کیا لیکن اسے اسے ترک کرنے کے 20 سال بعد وہ منہ کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ اس خطرے سے بے خبر تھےاور یہ کہ لوگ اسے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
’میں نے اسے اس لیے چبانا شروع کیا کیونکہ سب لوگ ایسا کر رہے تھے۔‘
تین سال قبل ان کے چہرے میں بائیں گال پر ایک چھوٹا سا سوراخ نمودار ہوا اور فقط تین ماہ میں اس نے گالف کی گیند جتنے پھوڑے کی شکل اختیار کر لی اور ہوانگ کی زندگی بدل دی۔
انھوں نے بتایا کہ وہ جو کچھ بھی کھاتے تھے وہ بہہ کر باہر نکل جاتا تھا۔وہ باریک پٹی کو انپی گال پر بنے سوراخ پر رکھتے لیکن اس سے انھیں تکلیف ہوتی تھی اور گھر سے نکلنا بھی ان کے لیے باعث شرمندگی بن چکا تھا۔
ہر سال تائیوان میں 5400 افراد میں منہ کے کینسر کی تشخص یا اس مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 80 سے 90 فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو پان کے استعمال کے عادی تھے۔
ابتدائی علامات میں منہ کے اندر جلد سفید یا سرخ ہوجاتی اور تکلیف شروع ہوتی ہے لیکن پھر یہ جلد ہی ایک رسولی بن جاتی ہے جو جلد کو کھانا شروع کر دیتی ہے۔
سرطان کی دیگر اقسام کے برعکس منہ کے سرطان کو چھپانا مشکل ہوتا ہے اور اس میں مبتلا افراد جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت بھی برداشت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ہان کہتے ہیں کہ کبھی کھبار کامیاب آپریشن کے بعد بھی چہرے کے بنیادی افعال کام نہیں کر پاتے جیسا کہ مریض اپنے تاثرات کے ذریعے جذبات کا اظہار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
150322045447_betel_nut_palms_624x351_bbc.jpg


تائیوان کی حکومت کسانوں کو سبسڈی دے کر پان کے درختوں کے بجائے متبادل فصلوں کی کاشت کی تلقین کر رہی ہےتباہی سے نمٹنا

54 سالہ کیویوزن ہوانگ خوش قسمت ہیں جن کا بائیاں گال کینسر متاثر ہونے کے بعد اب ٹھیک ہوچکا ہے۔
مگر تائیوان کی حکومت تقریباً دس لاکھ افراد کے ٹیسٹ کا مفت بندوبست کر کے لوگوں کو اس مرض کی جلد تشخیص کروانے میں مدد کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو اس مہلک عادت کو چھوڑنے کے لیے آگاہی کےپروگرام بھی شروع کیے گیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 2013 میں چھالیا کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں نصف حد تک کمی دیکھنے کو ملی۔
اسی طرح حکومت پان کے درختوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کو پان کے بجائے کسی دوسری فصل کی کاشت کرنے پر انھیں سبسڈی دے رہی ہے۔
اسی طرح بھارت اور تھائی لینڈ میں بھی حکومت پان اور چھالیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے خصوصی مہمیں چلا رہی ہے۔
لیکن ابھی طویل راستہ باقی ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے ہوسکتا ہے کہ تاییوان میں ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد کے بچوں کے سکول میں تقریبًا سبھی بچوں نے ہاتھ اٹھا کر اس سوال کا جواب ہاں میں دیا کہ ان کے والدین یا رشتہ دار ’تمباکو کی ٹکیہ‘ یعنی پان اور چھالیا کا استعمال کرتے ہیں۔
منہ کےکینسر کے ظاہر ہونےمیں 20 برس لگتے ہیں اور موجود تبدیلی شاید بہت سے لوگوں کے لیے بہت دیر ہی سے آئی ہے۔ کیویوزن ہوانگ بھی جانتے ہیں کہ ’میں خوش قسمت افراد میں سے ایک ہوں۔‘

http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2015/03/150322_deadly_betel_nut_hk

 
Last edited by a moderator:

Night_Hawk

Siasat.pk - Blogger
[h=1]Asia's deadly secret: The scourge of the betel nut
[/h]
It is used by almost a tenth of the world's population. It gives people a buzz equivalent to six cups of coffee and is used variously as a symbol of love, marriage and a cure for indigestion and impotence.
But it is also leading tens of thousands to an early grave.
The culprit? The humble betel nut.
Found across Asia, these nuts are harvested from the Areca palm and are chewed for their warming glow and stimulating properties.
Such is its effectiveness, that alongside nicotine, alcohol and caffeine, betel nuts are believed to be one of the most popular mind-altering substances in the world.
Although used by women and children, the nuts are especially popular among working-age men, who chew to stay awake through long hours of driving, fishing or working on construction sites.
But the short-lived benefits come at a terrible cost.
High rates of oral cancer are destroying the lives of many who buy betel nuts, often decades after their first taste.
Now in Taiwan, where the nuts are affectionately known as 'Taiwan's chewing gum', the government is taking action to curb this centuries-old habit and reduce the thousands of lives lost each year.



The betel nut is a key part of many Asian cultures and can be consumed dried, fresh or wrapped up in a package known as a quid.
Although the exact preparation varies across countries and cultures, the quid is usually a mixture of slaked lime, a betel leaf and flavourings such as cardamom, cinnamon and tobacco.
Worryingly, the International Agency for Research on Cancer lists each ingredient, with the exception of cardamom and cinnamon, as a known carcinogen - or cancer-causing agent.
The slaked lime is seen as a particular problem as it causes hundreds of tiny abrasions to form in the mouth. This is thought to be a possible entry point for many of the cancer-causing chemicals.
"About half of the men here still don't know that betel nuts can cause oral cancer," says Prof Hahn Liang-jiunn, an oral cancer specialist at the National Taiwan University Hospital.
"[This is despite] Taiwan's incidence or mortality rates for oral cancer ranking among the top two or three in the world."
[h=2]'I started chewing because everyone else did'[/h]
_81757446_mrqui.jpg

Qui Zhen-huang now warns others about the dangers of betel nuts.

Like most people, Qiu Zhen-huang, 54, was completely unaware of the risks.

A former gravel company worker, he chewed for ten years. Twenty years after quitting, he developed the disease.
"I started chewing betel nut because everyone at work did it," says Mr Qiu.
"We shared it with each other to build good relations."
Three years ago, a small hole developed in his left cheek and in just three months, the tumour grew to the size of a golf ball and completely changed his life.
"Whatever I ate flowed out. I had a gauze pad over it. It hurt," he said.
"It affected me a lot. I was so ashamed I avoided going out."
Each year, 5,400 Taiwanese men like Mr Qiu are diagnosed with oral cancer or pre-cancerous lesions and an estimated 80 to 90% of those also chew betel nuts.
An early symptom includes white or red lesions inside the mouth, but this can rapidly progress to grotesque flesh-eating tumours.
Unlike other cancers, these are difficult to hide, leaving sufferers physically and psychologically devastated.
"It's miserable for them," says Prof Hahn.
"Sometimes, even after surgery, they still can't perform basic functions, including expressing emotions through their face because the lower jaw also has to be cut depending on the scale of the cancer."
[h=2]Tackling the scourge
[/h]
_81759168_cuttingdownbetelnutpalms.jpg

Luckily for Qiu Zhen-huang, his cancer was treated and his cheek reconstructed.

But the Taiwanese government is helping people detect the disease much sooner by providing around one million free screenings and funding programs to help people quit betel nuts for good.

In 2013, these measures helped cut the usage rate among men by nearly half.
The government is also trying to reduce the domestic supply of betel nuts by offering subsidies to farmers to cut down their trees and plant alternative crops.
Other countries such as India and Thailand have also launched campaigns to discourage betel nut chewing.
But there is still a way to go. At a recent presentation to elementary school children of fishing industry workers, nearly all raised their hands when asked whether their parents or relatives chewed betel nuts.
And as the cancer can take up to 20 years to appear, the current changes will have come too late for many people - a fact that Mr Qiu keeps close to his heart.
"I'm one of the luckier ones."

The Taiwanese government is offering subsidies in return for cutting down betel nut palms
http://www.bbc.com/news/health-31921207
 

Back
Top