Ali Khurram Tirmezi
Councller (250+ posts)

پان اور چھالیا کااستعمال کرنے والے کئی سال بعد منہ کے کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں۔دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ اسے استعمال کرتا ہے۔ یہ چھ پیالی کافی کے برابر ہے اور اسے پیار کی علامت سمجھا جاتا ہے اسے شادی کی تقریب میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے اور اسے بدہمضمی اور مردانہ کمزوری پر قابو پانے کے لیے بطور دوا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ چیز ہزاروں افراد کو وقت سے پہلے قبر تک بھی لے جاتی ہے۔
قصوروار پان اور چھالیا ہیں۔
ایشیا بھر میں چھالیا کے درختوں کی کاشت ہوتی ہے جس میں گرمائش، جوش اور تحریک پیدا کرنے کے خواص ہوتے ہیں۔
کینسر کا سبب بننے والی ٹکیا
تمباکوں کی ٹکیا بجھے ہوئے چونے اور پان سے بنتی ہے جس میں دارچینی، الائچی اور تمباکو کا اضافہ اسے ذائقے دار بناتا ہے۔ کینسر پر تحقیق کرنے والے بین القوامی ادارے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تمباکو کی اس ٹکیہ میں الائچی اور دارچینی کے علاوہ دیگر تمام اجزا کینسر کا سبب بنتے ہیں۔
اپنے انھیں اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں تمباکو، الکوحل اور کیفین کے ساتھ ساتھ پان اور چھالیا بھی ذہن کو متحرک کرنے والی اشیا کے طور پر معروف ہیں۔
عورتوں اور بچوں کے علاوہ چھالیا کام کرنے والے مرد حضرات میں بھی مقبول ہے جو لمبے اوقات میں ڈرائیونگ، مچھلی کا شکار کرنے اور کھلی تعمیرات کے شعبے میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
لیکن اس تھوڑی دیر کے فائدے کی ایک بڑی قیمت ہے۔ پان اور چھالیا خریدنے والوں کی زندگی منہ کے سرطان کی صورت میں تباہ ہو رہی ہے اور یہ مرض فوری نہیں بلکہ اس کے استعمال کے سالوں بعدلاحق ہوتا ہے۔
تائیوان میں اسے ’تائیوان کا چیوئنگ گم‘ کہا جاتا ہے۔جبکہ ملک کی حکومت صدیوں سے وہاں کے مکینوں کے استعمال میں آنے والی اس مہلک ’چیونگ گم‘ کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو ہر سال ہزاروں افراد کی جان لے لیتی ہے۔

ہر سال تائیوان میں 5400 افراد میں منہ کے کینسر کی تشخص یا اس مرض کی ابتدائی علامات ظاہر ہوتی ہےخطرناک امتزاج
پان ایشیائی ثقافتوں کا ایک اہم جزو ہے جسے خشک، تازہ یا پھر ایک پتے میں لپیٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اسے ’تمباکو کی ٹکیا‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ اسے ہر ملک کی ثقافت کے لحاظ سے مختلف انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
تمباکوں کی ٹکیا بجھے ہوئے چونے اور پان سے بنتی ہے جس میں دارچینی، الائچی اور تمباکو کا اضافہ اسے ذائقے دار بناتا ہے۔
بجھا ہوا چونا چھالیا کھانے والے افراد کا منہ اندر سے چھیل دیتا ہے اور یہی کیمیکل ممکنہ طور پر کینسر کی ابتدا کا باعث ہے۔ لیکن چھالیا استعمال کرنے والے نصف افراد اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہی چیز منہ کے کینسر کی وجہ ہے۔ڈاکٹر ہان لیان جیّن
کینسر پر تحقیق کرنے والے بین القوامی ادارے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تمباکو کی اس ٹکیہ میں الائچی اور دارچینی کے علاوہ دیگر تمام اجزا کینسر کا سبب بنتے ہیں۔
نیشنل تائیوان یونیورسٹی ہسپتال میں منہ کے کینسر کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹر ہان لیان جیّن کہتے ہیں کہ’ بجھا ہوا چونا چھالیا کھانے والے افراد کا منہ اندر سے چھیل دیتا ہے اور یہی کیمیکل ممکنہ طور پر کینسر کی ابتدا کا باعث ہے۔ لیکن چھالیا استعمال کرنے والے نصف افراد اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہی چیز منہ کے کینسر کی وجہ ہے۔‘
دنیا بھر میں تائیوان دوسرے یا پھر تیسرے نمبر پر ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں منہ کے کینسر کی وجہ سہ سب سے زایادہ اموات ہوتی ہیں۔
کیوا یوزن ہوانگ کی عمر 54 برس ہے اور وہ وفات کے بعد لوگوں کی تدفین کا انتظام کرنے والی ایک کمپنی مکے سابقہ ملازم ہیں۔ انھوں نے 10 سال تک پان اور چھالیا کا استعمال کیا لیکن اسے اسے ترک کرنے کے 20 سال بعد وہ منہ کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ اس خطرے سے بے خبر تھےاور یہ کہ لوگ اسے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
’میں نے اسے اس لیے چبانا شروع کیا کیونکہ سب لوگ ایسا کر رہے تھے۔‘
تین سال قبل ان کے چہرے میں بائیں گال پر ایک چھوٹا سا سوراخ نمودار ہوا اور فقط تین ماہ میں اس نے گالف کی گیند جتنے پھوڑے کی شکل اختیار کر لی اور ہوانگ کی زندگی بدل دی۔
انھوں نے بتایا کہ وہ جو کچھ بھی کھاتے تھے وہ بہہ کر باہر نکل جاتا تھا۔وہ باریک پٹی کو انپی گال پر بنے سوراخ پر رکھتے لیکن اس سے انھیں تکلیف ہوتی تھی اور گھر سے نکلنا بھی ان کے لیے باعث شرمندگی بن چکا تھا۔
ہر سال تائیوان میں 5400 افراد میں منہ کے کینسر کی تشخص یا اس مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 80 سے 90 فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جو پان کے استعمال کے عادی تھے۔
ابتدائی علامات میں منہ کے اندر جلد سفید یا سرخ ہوجاتی اور تکلیف شروع ہوتی ہے لیکن پھر یہ جلد ہی ایک رسولی بن جاتی ہے جو جلد کو کھانا شروع کر دیتی ہے۔
سرطان کی دیگر اقسام کے برعکس منہ کے سرطان کو چھپانا مشکل ہوتا ہے اور اس میں مبتلا افراد جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت بھی برداشت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ہان کہتے ہیں کہ کبھی کھبار کامیاب آپریشن کے بعد بھی چہرے کے بنیادی افعال کام نہیں کر پاتے جیسا کہ مریض اپنے تاثرات کے ذریعے جذبات کا اظہار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

تائیوان کی حکومت کسانوں کو سبسڈی دے کر پان کے درختوں کے بجائے متبادل فصلوں کی کاشت کی تلقین کر رہی ہےتباہی سے نمٹنا
54 سالہ کیویوزن ہوانگ خوش قسمت ہیں جن کا بائیاں گال کینسر متاثر ہونے کے بعد اب ٹھیک ہوچکا ہے۔
مگر تائیوان کی حکومت تقریباً دس لاکھ افراد کے ٹیسٹ کا مفت بندوبست کر کے لوگوں کو اس مرض کی جلد تشخیص کروانے میں مدد کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو اس مہلک عادت کو چھوڑنے کے لیے آگاہی کےپروگرام بھی شروع کیے گیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 2013 میں چھالیا کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں نصف حد تک کمی دیکھنے کو ملی۔
اسی طرح حکومت پان کے درختوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کو پان کے بجائے کسی دوسری فصل کی کاشت کرنے پر انھیں سبسڈی دے رہی ہے۔
اسی طرح بھارت اور تھائی لینڈ میں بھی حکومت پان اور چھالیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے خصوصی مہمیں چلا رہی ہے۔
لیکن ابھی طویل راستہ باقی ہے۔ اس کا اندازہ اس مثال سے ہوسکتا ہے کہ تاییوان میں ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد کے بچوں کے سکول میں تقریبًا سبھی بچوں نے ہاتھ اٹھا کر اس سوال کا جواب ہاں میں دیا کہ ان کے والدین یا رشتہ دار ’تمباکو کی ٹکیہ‘ یعنی پان اور چھالیا کا استعمال کرتے ہیں۔
منہ کےکینسر کے ظاہر ہونےمیں 20 برس لگتے ہیں اور موجود تبدیلی شاید بہت سے لوگوں کے لیے بہت دیر ہی سے آئی ہے۔ کیویوزن ہوانگ بھی جانتے ہیں کہ ’میں خوش قسمت افراد میں سے ایک ہوں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2015/03/150322_deadly_betel_nut_hk
Last edited by a moderator: