
ایران نے عندیہ دیا ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ جوہری معاملے پر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے تحت امریکی انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کر سکتا ہے۔
ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان ممالک کے معائنہ کار، جو برسوں سے ایران کے خلاف غیر منصفانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، تہران کے لیے قابل قبول نہیں رہے۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ اگر ایران کے مطالبات کو تسلیم کیا گیا تو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ذریعے امریکی انسپکٹرز کو قبول کرنے پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔
محمد اسلامی نے مزید کہا، "اگر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے اور ہمارے تقاضے مدنظر رکھے جاتے ہیں تو ہم اس بارے میں سوچ سکتے ہیں۔"
ایران پر طویل عرصے سے مغربی طاقتیں جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کا الزام عائد کرتی رہی ہیں، جسے تہران نے بارہا مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ ہفتوں میں اس معاملے پر مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں، جو 2018 میں امریکا کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 2015 کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے بعد اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ تصور کیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد، امریکا نے ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی بحال کرتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بدھ کو کہا کہ مذاکرات کے آئندہ دور کے وقت اور مقام کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اور حتمی فیصلہ ہونے کے بعد اس کا اعلان عمان کی جانب سے کیا جائے گا۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان، جو اس وقت عمان کے سرکاری دورے پر ہیں، نے خلیجی ریاست کی ثالثی کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان 1979 کے بعد سے کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات موجود نہیں ہیں۔
افزودگی ناقابل مذاکرات
ایرانی حکام نے واضح کیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی ایران کا ’ناقابل مذاکرات‘ اصول ہے۔ محمد اسلامی نے کہا کہ حالیہ مذاکرات میں افزودگی کا موضوع زیر بحث نہیں آیا اور اسے سیاسی مسئلہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، "افزودگی کی شرح کا تعلق اس کے استعمال کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ اعلیٰ شرح پر افزودہ یورینیم کی موجودگی کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔"
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کی جوہری صنعت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور اس اصول کے خلاف کوئی بھی تجویز یا اقدام ناقابل قبول ہے۔
ایران اس وقت 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے، جو کہ غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کے لیے سب سے بلند شرح ہے۔ اگرچہ یہ شرح 90 فیصد کی حد سے کم ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہے، تاہم یہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔
معاہدے کے یورپی فریقین — فرانس، جرمنی اور برطانیہ — اس وقت اس ’اسنیپ بیک‘ میکانزم کو فعال کرنے پر غور کر رہے ہیں جس کے تحت ایران کی خلاف ورزی کی صورت میں اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کی جا سکتی ہیں۔ ایران اس اقدام کے خلاف بارہا انتباہ جاری کر چکا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2025/05/28172406651839f.jpg