Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی سلطنت (Safavid Empire) تھی۔ جس نے تیموریوں کے بعد ایران میں عروج حاصل کیا. اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا چنانچہ انہی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلاتا ہے ۔
تاریخ کا ایک پس منظر حوالہ سے بات کی جائے توشیخ صفی الدین کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے تھے جو شیعی فرقہ اثنا عشری کے ساتویں امام ہیں لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ۔ یہ خاندان دراصل ترکی النسل تھا۔ شیخ صفی الدین اور ان کے بیٹے صدر الدین سنی عقائد رکھتے تھے ۔ لیکن ان کے پوتے خواجہ علی نے شیعی مذہب اختیار کرلیا,یہاں سے ایران میں شیعت شروع ہوئی۔۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شیخ صفی الدین کے گھرانے کا لوگوں کا بڑا احترام تھا۔
امیر تیمور نے بایزید عثمانی پر فتح پانے کے بعد خواجہ علی (1392ءتا 1456)کو آذربائیجان کے شہر اردبیل اور اس کے نواح کا علاقہ دے دیا تھا۔ اس بخشش کے علاوہ میدان جنگ میں ان کو کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا ہے، ہاں خواجہ علی کے پوتوں نے تلوار سنبھالی تھی مگر یہ دونوں شاہ شیروان سے جنگ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔
عباس اعظم اس خاندان کا نمایاں حکمران ہے۔ عباس نے بے کسی کےحالات کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کرلیا اور آذربائیجان، گرجستان اور لورستان کا ایک حصہ اُن کے حوالے کردیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آرہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کردیا۔
شاہ عباس نے صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کردیں۔
صلیبی قوتیں، عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لئے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بعینہ یہی سیاست آج بھی کھیلی جارہی ہے۔
شاہ عباس نے ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان مسلم سچمن قوتوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کردیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہوگئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کردیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ ہرمز چھین لیا اور خلیج فارس کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک بندر عباس کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔
شاہ عباس اگرچہ ایک کامیاب اور سمجھدار حکمران تھا لیکن اعظم کا لقب اس کو زیب نہیں دیتا۔ وہ انتہائی ظالم اور شکی مزاج تھا اس نے محض شک کی بنیاد پر اپنے ایک لڑکے کو قتل اور دو کو اندھا کردیا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں 500 جلاد لوگوں کو قتل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، وہ بدترین مستبد حکمران تھا۔
اس کے بعد صفوی خاندان میں 4 حکمران ہوئے۔ عباس کا جانشیں شاہ صفی (1629ء تا 1641ء) نہایت ظالم اور سفاک تھا۔ اس کے عہد میں 1634ء میں بغداد پر ترکوں نے اور 1638ء میں قندھار پر دہلی کے مغلوں نے قبضہ کرلیا۔
عباس دوم (1641ء تا 1668ء) کے بعد اس کا جانشیں سلیمان (1668ء تا 1694ء) اپنے باپ کی پالیسی پر چلتا رہا اور شاہ سلیمان کے بعد صفویوں کا زوال شروع ہوگیا۔ آخری حکمران شاہ حسنین (1694ء تا 1722ء) نا اہل ثابت ہوا۔ شیعہ علماء کے زیر اثر آکر اس نے سنیوں پر مظالم کئے جس کا نتیجہ افغانوں کی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ قندھار کے افغانوں نے دہلی کے مغلوں سے بچنے کے لئے خود کو ایران کی حفاظت میں دے دیا تھا لیکن جب ایرانیوں نے ان پر سختی کی تو انہوں نے اپنے ایک سردار میر اویس کی قیادت میں آزادی کا اعلان کردیا۔ 1715ء میں اویس کے انتقال کے بعد اس کے جانشیں امیر محمود نے ایران پر حملہ کردیا اور 1722ء میں اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔
تاریخ کا ایک پس منظر حوالہ سے بات کی جائے توشیخ صفی الدین کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے تھے جو شیعی فرقہ اثنا عشری کے ساتویں امام ہیں لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں ۔ یہ خاندان دراصل ترکی النسل تھا۔ شیخ صفی الدین اور ان کے بیٹے صدر الدین سنی عقائد رکھتے تھے ۔ لیکن ان کے پوتے خواجہ علی نے شیعی مذہب اختیار کرلیا,یہاں سے ایران میں شیعت شروع ہوئی۔۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شیخ صفی الدین کے گھرانے کا لوگوں کا بڑا احترام تھا۔
امیر تیمور نے بایزید عثمانی پر فتح پانے کے بعد خواجہ علی (1392ءتا 1456)کو آذربائیجان کے شہر اردبیل اور اس کے نواح کا علاقہ دے دیا تھا۔ اس بخشش کے علاوہ میدان جنگ میں ان کو کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا ہے، ہاں خواجہ علی کے پوتوں نے تلوار سنبھالی تھی مگر یہ دونوں شاہ شیروان سے جنگ کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔
عباس اعظم اس خاندان کا نمایاں حکمران ہے۔ عباس نے بے کسی کےحالات کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کرلیا اور آذربائیجان، گرجستان اور لورستان کا ایک حصہ اُن کے حوالے کردیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آرہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کردیا۔
شاہ عباس نے صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کردیں۔
صلیبی قوتیں، عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لئے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بعینہ یہی سیاست آج بھی کھیلی جارہی ہے۔
شاہ عباس نے ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان مسلم سچمن قوتوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کردیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہوگئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کردیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ ہرمز چھین لیا اور خلیج فارس کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک بندر عباس کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔
شاہ عباس اگرچہ ایک کامیاب اور سمجھدار حکمران تھا لیکن اعظم کا لقب اس کو زیب نہیں دیتا۔ وہ انتہائی ظالم اور شکی مزاج تھا اس نے محض شک کی بنیاد پر اپنے ایک لڑکے کو قتل اور دو کو اندھا کردیا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں 500 جلاد لوگوں کو قتل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، وہ بدترین مستبد حکمران تھا۔
اس کے بعد صفوی خاندان میں 4 حکمران ہوئے۔ عباس کا جانشیں شاہ صفی (1629ء تا 1641ء) نہایت ظالم اور سفاک تھا۔ اس کے عہد میں 1634ء میں بغداد پر ترکوں نے اور 1638ء میں قندھار پر دہلی کے مغلوں نے قبضہ کرلیا۔
عباس دوم (1641ء تا 1668ء) کے بعد اس کا جانشیں سلیمان (1668ء تا 1694ء) اپنے باپ کی پالیسی پر چلتا رہا اور شاہ سلیمان کے بعد صفویوں کا زوال شروع ہوگیا۔ آخری حکمران شاہ حسنین (1694ء تا 1722ء) نا اہل ثابت ہوا۔ شیعہ علماء کے زیر اثر آکر اس نے سنیوں پر مظالم کئے جس کا نتیجہ افغانوں کی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ قندھار کے افغانوں نے دہلی کے مغلوں سے بچنے کے لئے خود کو ایران کی حفاظت میں دے دیا تھا لیکن جب ایرانیوں نے ان پر سختی کی تو انہوں نے اپنے ایک سردار میر اویس کی قیادت میں آزادی کا اعلان کردیا۔ 1715ء میں اویس کے انتقال کے بعد اس کے جانشیں امیر محمود نے ایران پر حملہ کردیا اور 1722ء میں اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔