ایران اور امریکہ, اسلامک بلاک اور سی پیک!!!

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوگی؟

نہیں جانتے؟
چلیں ہم آپ کو آج بتاتے ہیں کہ اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہوگی کہ

"امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا"۔
اب یہ بھی سن لیں کہ یہ صرف ایک بریکنگ نیوز ہے جو فلحال صرف آپ کو میری تحریر میں ہی پڑھنے کو ملے گی۔
لیکن ایسا حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہونے والا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ ایک لمبی داستان ہے جس کی توثیق آپ کو کچھ اس طرح سے بھی مل سکتی ہے اگر آپ آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمید گل کی گفتگو سن لیں یا ان کا کوئی انٹرویو پڑھ لیں جس میں اس بابت بات کی گئی ہو جیسے کہ جنرل حمید گل صاحب مرحوم فرما گئے کہ
"بےشک میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا اگر امریکہ یا اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ کرے۔"
حمید گل صاحب نے یہ بات یوں ہی ہوا میں تکا مار کے نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کی زندگی کا ایک اچھا خاصا تجربہ ہے۔
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے بھی اس میں رتی برابر شک نہیں لگا بلکہ جو میرے ذہن میں چل رہا تھا یہ بالکل اس کے عین مطابق ترجمانی تھی۔
میں بچپن سے پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں یہ سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں کے امریکہ اور ایران کی آپس میں دشمنی ہے کیونکہ ایران اسرائیل کا دشمن ہے۔
لیکن اصل مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ درپردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بہترین اوربڑے محافظ ہیں۔
ایران کا خوف اور دبدبہ خطےمیں ایک تسلسل سے بنانے کا فائدہ امریکہ٫ اسرائیل اور ایران کو ہی ہوا۔
کیونکہ اگر خطے میں ایران جیسی ریاست نہ ہوتی اور اس کا مذہبی یا مسلکی پس منظر نہ ہوتا جو مڈل ایسٹ میں موجود اس کے متضاد مسلک والے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی عالمی سازشی دیگ کبھی بھی چولہے پر نہ چڑھتی۔
ایک طرف امریکہ٫ ایران کو دھمکیاں لگاتا رہتا ہے لیکن کبھی ایک گولی بھی ایران پر نہیں چلاتا۔
جبکہ دوسری طرف اسرائیل٫ ایران کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے لیکن اس کی اٹھکیلیاں اور لاڈ بھی جاری رہتے ہیں۔
اور ایران؟
ایران کی تو کیا ہی بات ہے؟
ایران ایک طرف امریکہ کو اپنے جوہری طاقت بننے کی دھمکی لگاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو تباہ کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت جب جب خطے میں کوئی جنگی یا درون خانہ سازشںی بساط سجتی ہے تب تب ایران ہر وہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو خطے میں محفوظ کرتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ اس سال فروری میں محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تب بیک وقت بھارت اور ایران میں فالس فلیگ آپریشن اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات رو پذیر ہوئے۔
جن کے ڈانڈے ان دونوں ممالک نے پاکستان سے زبردستی جوڑنے کی کوشش کی اور صرف کوشش نہیں کی بلکہ دھمکی بھی دی۔
اور اسی کا تسلسل پھر پاک بھارت محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا اور جس میں بعد کی انٹیلی جنسیو رپورٹس کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیک وقت 3 سے 4 ممالک پاکستان کو اپنے حملے کی زد پر لینے کے لئے تیار بیٹھے تھے صرف بھارت ایک دفعہ کھل کر بسم اللہ کرتا۔
کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ 4 ممالک میں سے بھارت کے علاوہ باقی تین کون کون سے تھے؟
ایران٫ اسرائیل اور امریکا۔
اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین ممالک کو بھارت کے علاوہ پاکستان سے کیا تکلیف ہے اور یہ کس وجہ سے درون خانہ ایک جیسے مفادات رکھتے ہیں جو پاکستان کی تباہی پر منتج ہیں۔
سی پیک۔ ۔ ۔
جی ہاں سی پیک ہی وہ مشترکہ تکلیف ہے جو بیک وقت بھارت٫ ایران٫ اسرائیل٫ امریکہ اور افغانستان کو ہے۔
اس تکلیف کو تقویت اس وقت مزید پہنچی جب روس٫ سعودی عرب٫ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک سمیت چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں اظہار دلچسپی دکھایا بلکہ یہاں تک کہ محمد بن سلمان جب پاکستان میں دورے پر آئے تب سی پیک کے حوالے سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کی بات کرکے گئے جس سے خطے میں راتوں رات سیاسی اور نظریاتی بھونچال آیا۔
اب یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ ہم لوگ موجودہ عالمی صورتحال کو سمجھ نہ سکیں۔
امریکہ اور اسرائیل کسی صورت نہیں چاہتے کہ خطے میں پاکستان کسی بھی صورت جڑ پکڑے کہ اسے مشرق وسطی میں وہی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو جو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں حاصل تھی۔
مطلب یہ سارے عرب ممالک کہیں سی پیک میں سرمایا کاری اور منافع کے لالچ میں پاکستان کی طرف جھک کر اسے خطے کا چوہدری نہ بنا دیں کہ ایک بڑا اسلامک بلاک تشکیل پا جائے لہذا ہر وہ طریقہ ہر وہ چال اپنائی جائے جس سے پاکستان کو اپنے لالے پڑے رہیں اور ہم خطے میں بلا شرکت غیرے چوہدری بن کر پنجائتیں سجاتے رہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑی رہے۔
اس میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے وہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان٫ ایران اور بھارت ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ تو خطےمیں اپنا بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج لیکر بیٹھ گیا ہے۔
درحقیقت یہ بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج خلیج میں ایران کی سرکوبی کے لئے نہیں بلکہ سعودی عرب کو کنٹرول میں رکھنے اور پاکستان پر قریب سے نظر رکھنے کے لئے اتاری گئی ہیں۔
یہ اچانک سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملے٫ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر جھڑپیں اور تنازعات٫ افغانستان کی طرف سے عسکری اور نظریاتی مداخلت اور بھارت کی طرف سے دن رات پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے جبکہ امریکہ پاکستان کو دیدہ و نادیدہ شکنجوں میں لپیٹ رہا ہے۔
اور پچھلے دو سالوں میں جو درحقیقت بریکنگ نیوز تھیں جن پر امت مسلمہ کا شدید ردعمل آنا چاہیے تھا خواہ وہ عسکری اور سیاسی ہوتا یا نظریاتی۔
لیکن پہلی چوٹ پر چِلانے کے بعد باقی معاملات پر معذرت کے ساتھ امت مسلمہ سمیت وہ ممالک بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
آغاز امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کیا٫ پھر نئی امریکی حکومت نے پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے جس نے امریکہ سے 33 بلین ڈالر کی امداد وصول کرکے امریکہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا٫ اس کے بعد امریکہ بنفس نفیس شام میں اتر آیا اور وہاں اس نے کیا کیا گل کھلائے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور سب سے آخر میں جو اہم پیشرفت ہوئی وہ یہ کہ گولان کی پہاڑیاں آفیشلی اسرائیل کے حوالے کردیں اور پورے حق سے کیں یہاں تک کہ انداز بھی جارحانہ تھا اور اب شنید ہے کہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر میں حائل سے سب سے بڑی رکاوٹ مسجد اقصیٰ کا انہدام بھی جلد ہی ٹرمپ کی مہربانی اور اجازت سے ممکن ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کا گھوم پھر کر ہر بل پاکستان پر پھٹا کہ پاکستان یکدم سفارتی اور خارجی سطح پر دنیا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں ابھر کر سامنے آنے کی کوشش کر رہا تھا جو امریکہ کی دور رس نتائج والی صیقل پالیسیوں کے خلاف تھا۔
اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو چیز٫ بات٫ شخصیت٫ نظریہ اور ملک
امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس کے مفادات کے حق میں نہیں۔
اچھا ویسے امریکہ کے مفادات دراصل ہیں کیا؟
سب سے پہلے تو امریکہ کی سپر ویژن برقرار رہے٫ اسرائیل ناصرف محفوظ رہے بلکہ دن بدن پھلے اور پھولے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اسلام یا اسلامی ممالک کسی صورت وہ طاقت نہ حاصل کر سکیں جو ماضی میں ان کو حاصل تھی۔
یہ ہے امریکی مفادات کا وہ نچوڑ جس کے اردگرد رہ کر امریکہ کی ساری سیاسی و عسکری پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
میں پھر کہوں گا کہ اگر کسی بھائی کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے خطے میں آکر بیٹھا ہے یا کسی بھی وقت امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملہ کریں گے یا ایران جوابی کارروائی میں امریکا یا اسرائیل پر کوئی شدید حملہ کرے گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے کہ ایسا ہوتا ہوا فی الحال نظر نہیں آتا۔
وہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو"٫ اس وقت خطے میں "ساس" مطلب کہ امریکہ جو کچھ بھی "بیٹی" یعنی ایران کو سنا رہا ہے وہ دراصل "بہو" یعنی کے سعودی عرب اور پاکستان کو سنا اور جتا رہا ہے۔
مجھے اس بات پر ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ امریکہ ناک ناک تنگ آچکا ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور سی پیک کے بعد متوقع معاشی ترقی کو بھانپ کر لہذا اب امریکا کھل کر نہ سہی پر کسی حد تک جتا کر پاکستان کے سر پر بیٹھنے کے لئے خلیج میں اترا ہے کہ
"بھائی تم میری باتوں کو یا شورشرابے کو دور کے ڈھول سہانے سمجھ کر کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کو اس صورتحال کا اندازہ تھا اسی وجہ سے ان کے درمیان گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں ہر طرح کا تعاون اور قربتیں بڑھی ہیں۔
باقی اگر کسی کو ایک فیصد بھی یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیے آیا ہے یا محدود پیمانے کا حملہ کرے گا تو چلو دیکھ لیتے ہیں پھر۔
بیس سال تو ہوگئے ہیں یہ سنتے اور پڑھتے ہوئے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔
اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو پھر یہ واقعی ایک بریکنگ نیوز ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بریکنگ نیوز آپ کو اور مجھے کب اپنے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔۔

 
Last edited by a moderator:

zzzindagi

Minister (2k+ posts)
تاریخ میں یہودیوں اور عیسایوں کا تصادم صرف سنی مسلمانوں سے ہوا ہے . صلیبی جنگیں بھی سنی حکمرانوں سے ہی لڑی گی ہیں . اسرائیل مسجد اقصیٰ کو شہید کیوں کرنا چاہتا ہے . اور مسجد اقصیٰ کس فرقے سے ہے . یہ سب ثبوت ہیں کے ان کا دشمن اور ٹارگٹ کون ہے .
 

brissie-aussie

Politcal Worker (100+ posts)
واٹس ایپ جاسوس ایران پر کیوں نظریں گاڑے ہوئے ہیں؟
پال دانهاربیورو چیف واشنگٹن، بی بی سی
  • 15 مئ 2019
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionاسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے اور جب وہ فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں
اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔

اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔
اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔
اشتہار

واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو 'سبوتاژ' کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔
یہ بھی پڑھیے!
’واٹس ایپ پر حملے میں اسرائیلی سافٹ ویئر استعمال ہوا‘
پومپیو: امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا ہے
خلیج اومان میں ٹینکرز پر ’حملے کا ذمہ دار ایران‘
’سائبر حملے کا توڑ صرف ایک فائل‘
تصویر کے کاپی رائٹAFPواٹس ایپ حملے میں ہوا کیا تھا؟
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔
واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔
کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘
فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔
جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے!
ایران کا فیصلہ جوہری بلیک میل ہے: امریکی اہلکار
’ایران پابندیوں کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے‘
ایران کے جوہری معاہدے کے لیے حتمی لڑائی شروع
اسرائیلی فوج اور این ایس او گروپ
اسرائیلی فوج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ اسرائیل کے بہت سے صنعتی کاروباری اداروں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ جو تعلق ان کا قومی فرض ادا کرنے کے دوران قائم ہوتا ہے وہ تاحیات قائم رہتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹAFP
ایک نوجوان شخص کی زندگی میں یہ سب سے اہم وقت ہوتا ہے جو اس پر یونیورسٹی کی تعلیم سے بھی زیادہ اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا مخصوص گروہ ہے، جو کہ اسرائیلی فوج میں کام کرنے والوں کا خاص گروپ ہے۔
اسرائیلی فوج ہر سال نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ ان کی سب سے اہم طاقت کا اندازہ لگاتے ہی اور ان کو اس جگہ بھیج دیتی ہے جہاں وہ قومی خدمت سے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوں۔
وہ کمپیوٹر ماہر جو ویسے تو ہر وقت اپنے گھروں کے تہہ خانوں میں بند رہتے ہیں، انھیں قومی خدمت کے لیے سائبر جنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اور جب وہ اسرائیلی فوج چھوڑتے ہیں تو وہ تمام مہارت اور تعلقات جو انھوں نے فوج میں کام کے دوران بنائے انڈسٹریل سیکٹر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں وہ این ایس او گروپ جیسی کمپنیاں بناتے ہیں۔
این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionواٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو 'سبوتاژ' کرنے کی کوشش کرنا، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کے کردار ہیں
مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔
عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔
اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔
اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیںایران سے سالمیت کو خطرہ
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔
سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔
سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں۔
لہٰذا، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں.
بہت سی تجارت ہو رہی ہے
کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی۔
تصویر کے کاپی رائٹEPA
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔
اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔
مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے۔
اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔
ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں۔
نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ 2010 سے 2013 کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔
 

Aslan

Chief Minister (5k+ posts)
America has already evacuated its citizens from Iraq.The Dutch and German governments have stopped their security advisors going to Iraq.America has moved a lot of military hardware to the Gulf.It is very costly to keep the aircraft carriers and missile defence systems ready for combat .An attack on Iran may not be imminent but it can't be ruled out.America and Israel are waiting are waiting for an excuse and the mullahs will give them one.Israel has agents all over the middle east so a false flag operation may be set up to attack Iran.
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوگی؟

نہیں جانتے؟
چلیں ہم آپ کو آج بتاتے ہیں کہ اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہوگی کہ

"امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا"۔
اب یہ بھی سن لیں کہ یہ صرف ایک بریکنگ نیوز ہے جو فلحال صرف آپ کو میری تحریر میں ہی پڑھنے کو ملے گی۔
لیکن ایسا حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہونے والا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ ایک لمبی داستان ہے جس کی توثیق آپ کو کچھ اس طرح سے بھی مل سکتی ہے اگر آپ آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمید گل کی گفتگو سن لیں یا ان کا کوئی انٹرویو پڑھ لیں جس میں اس بابت بات کی گئی ہو جیسے کہ جنرل حمید گل صاحب مرحوم فرما گئے کہ
"بےشک میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا اگر امریکہ یا اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ کرے۔"
حمید گل صاحب نے یہ بات یوں ہی ہوا میں تکا مار کے نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کی زندگی کا ایک اچھا خاصا تجربہ ہے۔
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے بھی اس میں رتی برابر شک نہیں لگا بلکہ جو میرے ذہن میں چل رہا تھا یہ بالکل اس کے عین مطابق ترجمانی تھی۔
میں بچپن سے پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں یہ سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں کے امریکہ اور ایران کی آپس میں دشمنی ہے کیونکہ ایران اسرائیل کا دشمن ہے۔
لیکن اصل مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ درپردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بہترین اوربڑے محافظ ہیں۔
ایران کا خوف اور دبدبہ خطےمیں ایک تسلسل سے بنانے کا فائدہ امریکہ٫ اسرائیل اور ایران کو ہی ہوا۔
کیونکہ اگر خطے میں ایران جیسی ریاست نہ ہوتی اور اس کا مذہبی یا مسلکی پس منظر نہ ہوتا جو مڈل ایسٹ میں موجود اس کے متضاد مسلک والے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی عالمی سازشی دیگ کبھی بھی چولہے پر نہ چڑھتی۔
ایک طرف امریکہ٫ ایران کو دھمکیاں لگاتا رہتا ہے لیکن کبھی ایک گولی بھی ایران پر نہیں چلاتا۔
جبکہ دوسری طرف اسرائیل٫ ایران کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے لیکن اس کی اٹھکیلیاں اور لاڈ بھی جاری رہتے ہیں۔
اور ایران؟
ایران کی تو کیا ہی بات ہے؟
ایران ایک طرف امریکہ کو اپنے جوہری طاقت بننے کی دھمکی لگاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو تباہ کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت جب جب خطے میں کوئی جنگی یا درون خانہ سازشںی بساط سجتی ہے تب تب ایران ہر وہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو خطے میں محفوظ کرتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ اس سال فروری میں محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تب بیک وقت بھارت اور ایران میں فالس فلیگ آپریشن اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات رو پذیر ہوئے۔
جن کے ڈانڈے ان دونوں ممالک نے پاکستان سے زبردستی جوڑنے کی کوشش کی اور صرف کوشش نہیں کی بلکہ دھمکی بھی دی۔
اور اسی کا تسلسل پھر پاک بھارت محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا اور جس میں بعد کی انٹیلی جنسیو رپورٹس کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیک وقت 3 سے 4 ممالک پاکستان کو اپنے حملے کی زد پر لینے کے لئے تیار بیٹھے تھے صرف بھارت ایک دفعہ کھل کر بسم اللہ کرتا۔
کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ 4 ممالک میں سے بھارت کے علاوہ باقی تین کون کون سے تھے؟
ایران٫ اسرائیل اور امریکا۔
اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین ممالک کو بھارت کے علاوہ پاکستان سے کیا تکلیف ہے اور یہ کس وجہ سے درون خانہ ایک جیسے مفادات رکھتے ہیں جو پاکستان کی تباہی پر منتج ہیں۔
سی پیک۔ ۔ ۔
جی ہاں سی پیک ہی وہ مشترکہ تکلیف ہے جو بیک وقت بھارت٫ ایران٫ اسرائیل٫ امریکہ اور افغانستان کو ہے۔
اس تکلیف کو تقویت اس وقت مزید پہنچی جب روس٫ سعودی عرب٫ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک سمیت چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں اظہار دلچسپی دکھایا بلکہ یہاں تک کہ محمد بن سلمان جب پاکستان میں دورے پر آئے تب سی پیک کے حوالے سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کی بات کرکے گئے جس سے خطے میں راتوں رات سیاسی اور نظریاتی بھونچال آیا۔
اب یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ ہم لوگ موجودہ عالمی صورتحال کو سمجھ نہ سکیں۔
امریکہ اور اسرائیل کسی صورت نہیں چاہتے کہ خطے میں پاکستان کسی بھی صورت جڑ پکڑے کہ اسے مشرق وسطی میں وہی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو جو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں حاصل تھی۔
مطلب یہ سارے عرب ممالک کہیں سی پیک میں سرمایا کاری اور منافع کے لالچ میں پاکستان کی طرف جھک کر اسے خطے کا چوہدری نہ بنا دیں کہ ایک بڑا اسلامک بلاک تشکیل پا جائے لہذا ہر وہ طریقہ ہر وہ چال اپنائی جائے جس سے پاکستان کو اپنے لالے پڑے رہیں اور ہم خطے میں بلا شرکت غیرے چوہدری بن کر پنجائتیں سجاتے رہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑی رہے۔
اس میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے وہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان٫ ایران اور بھارت ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ تو خطےمیں اپنا بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج لیکر بیٹھ گیا ہے۔
درحقیقت یہ بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج خلیج میں ایران کی سرکوبی کے لئے نہیں بلکہ سعودی عرب کو کنٹرول میں رکھنے اور پاکستان پر قریب سے نظر رکھنے کے لئے اتاری گئی ہیں۔
یہ اچانک سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملے٫ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر جھڑپیں اور تنازعات٫ افغانستان کی طرف سے عسکری اور نظریاتی مداخلت اور بھارت کی طرف سے دن رات پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے جبکہ امریکہ پاکستان کو دیدہ و نادیدہ شکنجوں میں لپیٹ رہا ہے۔
اور پچھلے دو سالوں میں جو درحقیقت بریکنگ نیوز تھیں جن پر امت مسلمہ کا شدید ردعمل آنا چاہیے تھا خواہ وہ عسکری اور سیاسی ہوتا یا نظریاتی۔
لیکن پہلی چوٹ پر چِلانے کے بعد باقی معاملات پر معذرت کے ساتھ امت مسلمہ سمیت وہ ممالک بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
آغاز امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کیا٫ پھر نئی امریکی حکومت نے پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے جس نے امریکہ سے 33 بلین ڈالر کی امداد وصول کرکے امریکہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا٫ اس کے بعد امریکہ بنفس نفیس شام میں اتر آیا اور وہاں اس نے کیا کیا گل کھلائے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور سب سے آخر میں جو اہم پیشرفت ہوئی وہ یہ کہ گولان کی پہاڑیاں آفیشلی اسرائیل کے حوالے کردیں اور پورے حق سے کیں یہاں تک کہ انداز بھی جارحانہ تھا اور اب شنید ہے کہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر میں حائل سے سب سے بڑی رکاوٹ مسجد اقصیٰ کا انہدام بھی جلد ہی ٹرمپ کی مہربانی اور اجازت سے ممکن ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کا گھوم پھر کر ہر بل پاکستان پر پھٹا کہ پاکستان یکدم سفارتی اور خارجی سطح پر دنیا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں ابھر کر سامنے آنے کی کوشش کر رہا تھا جو امریکہ کی دور رس نتائج والی صیقل پالیسیوں کے خلاف تھا۔
اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو چیز٫ بات٫ شخصیت٫ نظریہ اور ملک
امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس کے مفادات کے حق میں نہیں۔
اچھا ویسے امریکہ کے مفادات دراصل ہیں کیا؟
سب سے پہلے تو امریکہ کی سپر ویژن برقرار رہے٫ اسرائیل ناصرف محفوظ رہے بلکہ دن بدن پھلے اور پھولے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اسلام یا اسلامی ممالک کسی صورت وہ طاقت نہ حاصل کر سکیں جو ماضی میں ان کو حاصل تھی۔
یہ ہے امریکی مفادات کا وہ نچوڑ جس کے اردگرد رہ کر امریکہ کی ساری سیاسی و عسکری پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
میں پھر کہوں گا کہ اگر کسی بھائی کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے خطے میں آکر بیٹھا ہے یا کسی بھی وقت امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملہ کریں گے یا ایران جوابی کارروائی میں امریکا یا اسرائیل پر کوئی شدید حملہ کرے گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے کہ ایسا ہوتا ہوا فی الحال نظر نہیں آتا۔
وہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو"٫ اس وقت خطے میں "ساس" مطلب کہ امریکہ جو کچھ بھی "بیٹی" یعنی ایران کو سنا رہا ہے وہ دراصل "بہو" یعنی کے سعودی عرب اور پاکستان کو سنا اور جتا رہا ہے۔
مجھے اس بات پر ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ امریکہ ناک ناک تنگ آچکا ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور سی پیک کے بعد متوقع معاشی ترقی کو بھانپ کر لہذا اب امریکا کھل کر نہ سہی پر کسی حد تک جتا کر پاکستان کے سر پر بیٹھنے کے لئے خلیج میں اترا ہے کہ
"بھائی تم میری باتوں کو یا شورشرابے کو دور کے ڈھول سہانے سمجھ کر کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کو اس صورتحال کا اندازہ تھا اسی وجہ سے ان کے درمیان گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں ہر طرح کا تعاون اور قربتیں بڑھی ہیں۔
باقی اگر کسی کو ایک فیصد بھی یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیے آیا ہے یا محدود پیمانے کا حملہ کرے گا تو چلو دیکھ لیتے ہیں پھر۔
بیس سال تو ہوگئے ہیں یہ سنتے اور پڑھتے ہوئے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔
اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو پھر یہ واقعی ایک بریکنگ نیوز ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بریکنگ نیوز آپ کو اور مجھے کب اپنے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔۔


نجس المسلک بہاری تجھے بہت جلدی پڑی ہوئی ہے ایران پر حملہ کروانے کی اگر یہ جنگ ہوئی تو یہ ملا عمر کانے والی جنگ نہیں ہو گی جس میں وہ اپنی عورتوں بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا ہنڈا ایک سو پچیس وہ بھی ایران کی تیار کردہ پر امریکہ جانتا ہے کے ایران پر حملے میں کیا نقصانات ہوں گے اور کتنی لمبی یہ جنگ ہو گی یہ باتیں تیرے جیسے کھوتے کھانے والے نجس ملعون کو سمجھ نہیں آئیں گی لیے حوصلہ رکھ
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوگی؟

نہیں جانتے؟
چلیں ہم آپ کو آج بتاتے ہیں کہ اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہوگی کہ

"امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا"۔
اب یہ بھی سن لیں کہ یہ صرف ایک بریکنگ نیوز ہے جو فلحال صرف آپ کو میری تحریر میں ہی پڑھنے کو ملے گی۔
لیکن ایسا حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہونے والا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ ایک لمبی داستان ہے جس کی توثیق آپ کو کچھ اس طرح سے بھی مل سکتی ہے اگر آپ آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمید گل کی گفتگو سن لیں یا ان کا کوئی انٹرویو پڑھ لیں جس میں اس بابت بات کی گئی ہو جیسے کہ جنرل حمید گل صاحب مرحوم فرما گئے کہ
"بےشک میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا اگر امریکہ یا اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ کرے۔"
حمید گل صاحب نے یہ بات یوں ہی ہوا میں تکا مار کے نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کی زندگی کا ایک اچھا خاصا تجربہ ہے۔
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے بھی اس میں رتی برابر شک نہیں لگا بلکہ جو میرے ذہن میں چل رہا تھا یہ بالکل اس کے عین مطابق ترجمانی تھی۔
میں بچپن سے پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں یہ سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں کے امریکہ اور ایران کی آپس میں دشمنی ہے کیونکہ ایران اسرائیل کا دشمن ہے۔
لیکن اصل مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ درپردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بہترین اوربڑے محافظ ہیں۔
ایران کا خوف اور دبدبہ خطےمیں ایک تسلسل سے بنانے کا فائدہ امریکہ٫ اسرائیل اور ایران کو ہی ہوا۔
کیونکہ اگر خطے میں ایران جیسی ریاست نہ ہوتی اور اس کا مذہبی یا مسلکی پس منظر نہ ہوتا جو مڈل ایسٹ میں موجود اس کے متضاد مسلک والے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی عالمی سازشی دیگ کبھی بھی چولہے پر نہ چڑھتی۔
ایک طرف امریکہ٫ ایران کو دھمکیاں لگاتا رہتا ہے لیکن کبھی ایک گولی بھی ایران پر نہیں چلاتا۔
جبکہ دوسری طرف اسرائیل٫ ایران کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے لیکن اس کی اٹھکیلیاں اور لاڈ بھی جاری رہتے ہیں۔
اور ایران؟
ایران کی تو کیا ہی بات ہے؟
ایران ایک طرف امریکہ کو اپنے جوہری طاقت بننے کی دھمکی لگاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو تباہ کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت جب جب خطے میں کوئی جنگی یا درون خانہ سازشںی بساط سجتی ہے تب تب ایران ہر وہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو خطے میں محفوظ کرتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ اس سال فروری میں محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تب بیک وقت بھارت اور ایران میں فالس فلیگ آپریشن اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات رو پذیر ہوئے۔
جن کے ڈانڈے ان دونوں ممالک نے پاکستان سے زبردستی جوڑنے کی کوشش کی اور صرف کوشش نہیں کی بلکہ دھمکی بھی دی۔
اور اسی کا تسلسل پھر پاک بھارت محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا اور جس میں بعد کی انٹیلی جنسیو رپورٹس کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیک وقت 3 سے 4 ممالک پاکستان کو اپنے حملے کی زد پر لینے کے لئے تیار بیٹھے تھے صرف بھارت ایک دفعہ کھل کر بسم اللہ کرتا۔
کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ 4 ممالک میں سے بھارت کے علاوہ باقی تین کون کون سے تھے؟
ایران٫ اسرائیل اور امریکا۔
اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین ممالک کو بھارت کے علاوہ پاکستان سے کیا تکلیف ہے اور یہ کس وجہ سے درون خانہ ایک جیسے مفادات رکھتے ہیں جو پاکستان کی تباہی پر منتج ہیں۔
سی پیک۔ ۔ ۔
جی ہاں سی پیک ہی وہ مشترکہ تکلیف ہے جو بیک وقت بھارت٫ ایران٫ اسرائیل٫ امریکہ اور افغانستان کو ہے۔
اس تکلیف کو تقویت اس وقت مزید پہنچی جب روس٫ سعودی عرب٫ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک سمیت چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں اظہار دلچسپی دکھایا بلکہ یہاں تک کہ محمد بن سلمان جب پاکستان میں دورے پر آئے تب سی پیک کے حوالے سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کی بات کرکے گئے جس سے خطے میں راتوں رات سیاسی اور نظریاتی بھونچال آیا۔
اب یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ ہم لوگ موجودہ عالمی صورتحال کو سمجھ نہ سکیں۔
امریکہ اور اسرائیل کسی صورت نہیں چاہتے کہ خطے میں پاکستان کسی بھی صورت جڑ پکڑے کہ اسے مشرق وسطی میں وہی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو جو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں حاصل تھی۔
مطلب یہ سارے عرب ممالک کہیں سی پیک میں سرمایا کاری اور منافع کے لالچ میں پاکستان کی طرف جھک کر اسے خطے کا چوہدری نہ بنا دیں کہ ایک بڑا اسلامک بلاک تشکیل پا جائے لہذا ہر وہ طریقہ ہر وہ چال اپنائی جائے جس سے پاکستان کو اپنے لالے پڑے رہیں اور ہم خطے میں بلا شرکت غیرے چوہدری بن کر پنجائتیں سجاتے رہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑی رہے۔
اس میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے وہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان٫ ایران اور بھارت ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ تو خطےمیں اپنا بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج لیکر بیٹھ گیا ہے۔
درحقیقت یہ بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج خلیج میں ایران کی سرکوبی کے لئے نہیں بلکہ سعودی عرب کو کنٹرول میں رکھنے اور پاکستان پر قریب سے نظر رکھنے کے لئے اتاری گئی ہیں۔
یہ اچانک سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملے٫ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر جھڑپیں اور تنازعات٫ افغانستان کی طرف سے عسکری اور نظریاتی مداخلت اور بھارت کی طرف سے دن رات پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے جبکہ امریکہ پاکستان کو دیدہ و نادیدہ شکنجوں میں لپیٹ رہا ہے۔
اور پچھلے دو سالوں میں جو درحقیقت بریکنگ نیوز تھیں جن پر امت مسلمہ کا شدید ردعمل آنا چاہیے تھا خواہ وہ عسکری اور سیاسی ہوتا یا نظریاتی۔
لیکن پہلی چوٹ پر چِلانے کے بعد باقی معاملات پر معذرت کے ساتھ امت مسلمہ سمیت وہ ممالک بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
آغاز امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کیا٫ پھر نئی امریکی حکومت نے پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے جس نے امریکہ سے 33 بلین ڈالر کی امداد وصول کرکے امریکہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا٫ اس کے بعد امریکہ بنفس نفیس شام میں اتر آیا اور وہاں اس نے کیا کیا گل کھلائے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور سب سے آخر میں جو اہم پیشرفت ہوئی وہ یہ کہ گولان کی پہاڑیاں آفیشلی اسرائیل کے حوالے کردیں اور پورے حق سے کیں یہاں تک کہ انداز بھی جارحانہ تھا اور اب شنید ہے کہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر میں حائل سے سب سے بڑی رکاوٹ مسجد اقصیٰ کا انہدام بھی جلد ہی ٹرمپ کی مہربانی اور اجازت سے ممکن ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کا گھوم پھر کر ہر بل پاکستان پر پھٹا کہ پاکستان یکدم سفارتی اور خارجی سطح پر دنیا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں ابھر کر سامنے آنے کی کوشش کر رہا تھا جو امریکہ کی دور رس نتائج والی صیقل پالیسیوں کے خلاف تھا۔
اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو چیز٫ بات٫ شخصیت٫ نظریہ اور ملک
امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس کے مفادات کے حق میں نہیں۔
اچھا ویسے امریکہ کے مفادات دراصل ہیں کیا؟
سب سے پہلے تو امریکہ کی سپر ویژن برقرار رہے٫ اسرائیل ناصرف محفوظ رہے بلکہ دن بدن پھلے اور پھولے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اسلام یا اسلامی ممالک کسی صورت وہ طاقت نہ حاصل کر سکیں جو ماضی میں ان کو حاصل تھی۔
یہ ہے امریکی مفادات کا وہ نچوڑ جس کے اردگرد رہ کر امریکہ کی ساری سیاسی و عسکری پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
میں پھر کہوں گا کہ اگر کسی بھائی کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے خطے میں آکر بیٹھا ہے یا کسی بھی وقت امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملہ کریں گے یا ایران جوابی کارروائی میں امریکا یا اسرائیل پر کوئی شدید حملہ کرے گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے کہ ایسا ہوتا ہوا فی الحال نظر نہیں آتا۔
وہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو"٫ اس وقت خطے میں "ساس" مطلب کہ امریکہ جو کچھ بھی "بیٹی" یعنی ایران کو سنا رہا ہے وہ دراصل "بہو" یعنی کے سعودی عرب اور پاکستان کو سنا اور جتا رہا ہے۔
مجھے اس بات پر ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ امریکہ ناک ناک تنگ آچکا ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور سی پیک کے بعد متوقع معاشی ترقی کو بھانپ کر لہذا اب امریکا کھل کر نہ سہی پر کسی حد تک جتا کر پاکستان کے سر پر بیٹھنے کے لئے خلیج میں اترا ہے کہ
"بھائی تم میری باتوں کو یا شورشرابے کو دور کے ڈھول سہانے سمجھ کر کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کو اس صورتحال کا اندازہ تھا اسی وجہ سے ان کے درمیان گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں ہر طرح کا تعاون اور قربتیں بڑھی ہیں۔
باقی اگر کسی کو ایک فیصد بھی یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیے آیا ہے یا محدود پیمانے کا حملہ کرے گا تو چلو دیکھ لیتے ہیں پھر۔
بیس سال تو ہوگئے ہیں یہ سنتے اور پڑھتے ہوئے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔
اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو پھر یہ واقعی ایک بریکنگ نیوز ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بریکنگ نیوز آپ کو اور مجھے کب اپنے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔۔

پاکستان تیرے پیو نے بنایا تھا ؟ بےغیرت لوگو جنہوں نے پاکستان بنایا ان کے ساتھ تم لوگوں نے وہی کیا جو آل رسول کے ساتھ کیا اور اسلام کے مامے بنے تھے جس طرح چودہ سو سال پہلے اسی طرح تم لوگ پاکستان کے مامے بن گئے ہو جو لوگ اس مملکت خداداد کو بنانے کےگناہ سے خود کو مبراء سمجھتے ہیں وہ ہی اس ملک کے دشمن ہیں دیو بندیوں نے ایک لاکھ پاکستانی مار دیے تب بھی پاکستانی کہلاتے ہیں یہ دیکھ کر مجھے بعد وصال رسول خدا کا وقت یاد آ جاتا ہے تم لوگوں کا حشر بہت خراب ہونا ہے اور ان شاء الله تم لوگ شجرہ ملعونہ کے ساتھ روز محشر کھڑے ہو گے
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوگی؟

نہیں جانتے؟
چلیں ہم آپ کو آج بتاتے ہیں کہ اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہوگی کہ

"امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا"۔
اب یہ بھی سن لیں کہ یہ صرف ایک بریکنگ نیوز ہے جو فلحال صرف آپ کو میری تحریر میں ہی پڑھنے کو ملے گی۔
لیکن ایسا حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہونے والا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ ایک لمبی داستان ہے جس کی توثیق آپ کو کچھ اس طرح سے بھی مل سکتی ہے اگر آپ آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمید گل کی گفتگو سن لیں یا ان کا کوئی انٹرویو پڑھ لیں جس میں اس بابت بات کی گئی ہو جیسے کہ جنرل حمید گل صاحب مرحوم فرما گئے کہ
"بےشک میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا اگر امریکہ یا اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ کرے۔"
حمید گل صاحب نے یہ بات یوں ہی ہوا میں تکا مار کے نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کی زندگی کا ایک اچھا خاصا تجربہ ہے۔
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے بھی اس میں رتی برابر شک نہیں لگا بلکہ جو میرے ذہن میں چل رہا تھا یہ بالکل اس کے عین مطابق ترجمانی تھی۔
میں بچپن سے پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں یہ سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں کے امریکہ اور ایران کی آپس میں دشمنی ہے کیونکہ ایران اسرائیل کا دشمن ہے۔
لیکن اصل مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ درپردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بہترین اوربڑے محافظ ہیں۔
ایران کا خوف اور دبدبہ خطےمیں ایک تسلسل سے بنانے کا فائدہ امریکہ٫ اسرائیل اور ایران کو ہی ہوا۔
کیونکہ اگر خطے میں ایران جیسی ریاست نہ ہوتی اور اس کا مذہبی یا مسلکی پس منظر نہ ہوتا جو مڈل ایسٹ میں موجود اس کے متضاد مسلک والے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی عالمی سازشی دیگ کبھی بھی چولہے پر نہ چڑھتی۔
ایک طرف امریکہ٫ ایران کو دھمکیاں لگاتا رہتا ہے لیکن کبھی ایک گولی بھی ایران پر نہیں چلاتا۔
جبکہ دوسری طرف اسرائیل٫ ایران کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے لیکن اس کی اٹھکیلیاں اور لاڈ بھی جاری رہتے ہیں۔
اور ایران؟
ایران کی تو کیا ہی بات ہے؟
ایران ایک طرف امریکہ کو اپنے جوہری طاقت بننے کی دھمکی لگاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو تباہ کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت جب جب خطے میں کوئی جنگی یا درون خانہ سازشںی بساط سجتی ہے تب تب ایران ہر وہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو خطے میں محفوظ کرتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ اس سال فروری میں محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تب بیک وقت بھارت اور ایران میں فالس فلیگ آپریشن اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات رو پذیر ہوئے۔
جن کے ڈانڈے ان دونوں ممالک نے پاکستان سے زبردستی جوڑنے کی کوشش کی اور صرف کوشش نہیں کی بلکہ دھمکی بھی دی۔
اور اسی کا تسلسل پھر پاک بھارت محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا اور جس میں بعد کی انٹیلی جنسیو رپورٹس کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیک وقت 3 سے 4 ممالک پاکستان کو اپنے حملے کی زد پر لینے کے لئے تیار بیٹھے تھے صرف بھارت ایک دفعہ کھل کر بسم اللہ کرتا۔
کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ 4 ممالک میں سے بھارت کے علاوہ باقی تین کون کون سے تھے؟
ایران٫ اسرائیل اور امریکا۔
اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین ممالک کو بھارت کے علاوہ پاکستان سے کیا تکلیف ہے اور یہ کس وجہ سے درون خانہ ایک جیسے مفادات رکھتے ہیں جو پاکستان کی تباہی پر منتج ہیں۔
سی پیک۔ ۔ ۔
جی ہاں سی پیک ہی وہ مشترکہ تکلیف ہے جو بیک وقت بھارت٫ ایران٫ اسرائیل٫ امریکہ اور افغانستان کو ہے۔
اس تکلیف کو تقویت اس وقت مزید پہنچی جب روس٫ سعودی عرب٫ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک سمیت چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں اظہار دلچسپی دکھایا بلکہ یہاں تک کہ محمد بن سلمان جب پاکستان میں دورے پر آئے تب سی پیک کے حوالے سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کی بات کرکے گئے جس سے خطے میں راتوں رات سیاسی اور نظریاتی بھونچال آیا۔
اب یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ ہم لوگ موجودہ عالمی صورتحال کو سمجھ نہ سکیں۔
امریکہ اور اسرائیل کسی صورت نہیں چاہتے کہ خطے میں پاکستان کسی بھی صورت جڑ پکڑے کہ اسے مشرق وسطی میں وہی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو جو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں حاصل تھی۔
مطلب یہ سارے عرب ممالک کہیں سی پیک میں سرمایا کاری اور منافع کے لالچ میں پاکستان کی طرف جھک کر اسے خطے کا چوہدری نہ بنا دیں کہ ایک بڑا اسلامک بلاک تشکیل پا جائے لہذا ہر وہ طریقہ ہر وہ چال اپنائی جائے جس سے پاکستان کو اپنے لالے پڑے رہیں اور ہم خطے میں بلا شرکت غیرے چوہدری بن کر پنجائتیں سجاتے رہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑی رہے۔
اس میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے وہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان٫ ایران اور بھارت ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ تو خطےمیں اپنا بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج لیکر بیٹھ گیا ہے۔
درحقیقت یہ بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج خلیج میں ایران کی سرکوبی کے لئے نہیں بلکہ سعودی عرب کو کنٹرول میں رکھنے اور پاکستان پر قریب سے نظر رکھنے کے لئے اتاری گئی ہیں۔
یہ اچانک سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملے٫ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر جھڑپیں اور تنازعات٫ افغانستان کی طرف سے عسکری اور نظریاتی مداخلت اور بھارت کی طرف سے دن رات پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے جبکہ امریکہ پاکستان کو دیدہ و نادیدہ شکنجوں میں لپیٹ رہا ہے۔
اور پچھلے دو سالوں میں جو درحقیقت بریکنگ نیوز تھیں جن پر امت مسلمہ کا شدید ردعمل آنا چاہیے تھا خواہ وہ عسکری اور سیاسی ہوتا یا نظریاتی۔
لیکن پہلی چوٹ پر چِلانے کے بعد باقی معاملات پر معذرت کے ساتھ امت مسلمہ سمیت وہ ممالک بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
آغاز امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کیا٫ پھر نئی امریکی حکومت نے پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے جس نے امریکہ سے 33 بلین ڈالر کی امداد وصول کرکے امریکہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا٫ اس کے بعد امریکہ بنفس نفیس شام میں اتر آیا اور وہاں اس نے کیا کیا گل کھلائے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور سب سے آخر میں جو اہم پیشرفت ہوئی وہ یہ کہ گولان کی پہاڑیاں آفیشلی اسرائیل کے حوالے کردیں اور پورے حق سے کیں یہاں تک کہ انداز بھی جارحانہ تھا اور اب شنید ہے کہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر میں حائل سے سب سے بڑی رکاوٹ مسجد اقصیٰ کا انہدام بھی جلد ہی ٹرمپ کی مہربانی اور اجازت سے ممکن ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کا گھوم پھر کر ہر بل پاکستان پر پھٹا کہ پاکستان یکدم سفارتی اور خارجی سطح پر دنیا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں ابھر کر سامنے آنے کی کوشش کر رہا تھا جو امریکہ کی دور رس نتائج والی صیقل پالیسیوں کے خلاف تھا۔
اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو چیز٫ بات٫ شخصیت٫ نظریہ اور ملک
امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس کے مفادات کے حق میں نہیں۔
اچھا ویسے امریکہ کے مفادات دراصل ہیں کیا؟
سب سے پہلے تو امریکہ کی سپر ویژن برقرار رہے٫ اسرائیل ناصرف محفوظ رہے بلکہ دن بدن پھلے اور پھولے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اسلام یا اسلامی ممالک کسی صورت وہ طاقت نہ حاصل کر سکیں جو ماضی میں ان کو حاصل تھی۔
یہ ہے امریکی مفادات کا وہ نچوڑ جس کے اردگرد رہ کر امریکہ کی ساری سیاسی و عسکری پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
میں پھر کہوں گا کہ اگر کسی بھائی کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے خطے میں آکر بیٹھا ہے یا کسی بھی وقت امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملہ کریں گے یا ایران جوابی کارروائی میں امریکا یا اسرائیل پر کوئی شدید حملہ کرے گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے کہ ایسا ہوتا ہوا فی الحال نظر نہیں آتا۔
وہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو"٫ اس وقت خطے میں "ساس" مطلب کہ امریکہ جو کچھ بھی "بیٹی" یعنی ایران کو سنا رہا ہے وہ دراصل "بہو" یعنی کے سعودی عرب اور پاکستان کو سنا اور جتا رہا ہے۔
مجھے اس بات پر ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ امریکہ ناک ناک تنگ آچکا ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور سی پیک کے بعد متوقع معاشی ترقی کو بھانپ کر لہذا اب امریکا کھل کر نہ سہی پر کسی حد تک جتا کر پاکستان کے سر پر بیٹھنے کے لئے خلیج میں اترا ہے کہ
"بھائی تم میری باتوں کو یا شورشرابے کو دور کے ڈھول سہانے سمجھ کر کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کو اس صورتحال کا اندازہ تھا اسی وجہ سے ان کے درمیان گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں ہر طرح کا تعاون اور قربتیں بڑھی ہیں۔
باقی اگر کسی کو ایک فیصد بھی یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیے آیا ہے یا محدود پیمانے کا حملہ کرے گا تو چلو دیکھ لیتے ہیں پھر۔
بیس سال تو ہوگئے ہیں یہ سنتے اور پڑھتے ہوئے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔
اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو پھر یہ واقعی ایک بریکنگ نیوز ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بریکنگ نیوز آپ کو اور مجھے کب اپنے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔۔

baN9yrv.png
 

oscar

Minister (2k+ posts)
کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کیا ہوگی؟

نہیں جانتے؟
چلیں ہم آپ کو آج بتاتے ہیں کہ اس صدی کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہوگی کہ

"امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا"۔
اب یہ بھی سن لیں کہ یہ صرف ایک بریکنگ نیوز ہے جو فلحال صرف آپ کو میری تحریر میں ہی پڑھنے کو ملے گی۔
لیکن ایسا حقیقت میں کبھی بھی نہیں ہونے والا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ ایک لمبی داستان ہے جس کی توثیق آپ کو کچھ اس طرح سے بھی مل سکتی ہے اگر آپ آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمید گل کی گفتگو سن لیں یا ان کا کوئی انٹرویو پڑھ لیں جس میں اس بابت بات کی گئی ہو جیسے کہ جنرل حمید گل صاحب مرحوم فرما گئے کہ
"بےشک میری قبر پر آکر پیشاب کر دینا اگر امریکہ یا اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ کرے۔"
حمید گل صاحب نے یہ بات یوں ہی ہوا میں تکا مار کے نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے ان کی زندگی کا ایک اچھا خاصا تجربہ ہے۔
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھے بھی اس میں رتی برابر شک نہیں لگا بلکہ جو میرے ذہن میں چل رہا تھا یہ بالکل اس کے عین مطابق ترجمانی تھی۔
میں بچپن سے پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں میں یہ سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں کے امریکہ اور ایران کی آپس میں دشمنی ہے کیونکہ ایران اسرائیل کا دشمن ہے۔
لیکن اصل مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ درپردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بہترین اوربڑے محافظ ہیں۔
ایران کا خوف اور دبدبہ خطےمیں ایک تسلسل سے بنانے کا فائدہ امریکہ٫ اسرائیل اور ایران کو ہی ہوا۔
کیونکہ اگر خطے میں ایران جیسی ریاست نہ ہوتی اور اس کا مذہبی یا مسلکی پس منظر نہ ہوتا جو مڈل ایسٹ میں موجود اس کے متضاد مسلک والے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی عالمی سازشی دیگ کبھی بھی چولہے پر نہ چڑھتی۔
ایک طرف امریکہ٫ ایران کو دھمکیاں لگاتا رہتا ہے لیکن کبھی ایک گولی بھی ایران پر نہیں چلاتا۔
جبکہ دوسری طرف اسرائیل٫ ایران کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے لیکن اس کی اٹھکیلیاں اور لاڈ بھی جاری رہتے ہیں۔
اور ایران؟
ایران کی تو کیا ہی بات ہے؟
ایران ایک طرف امریکہ کو اپنے جوہری طاقت بننے کی دھمکی لگاتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو تباہ کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت جب جب خطے میں کوئی جنگی یا درون خانہ سازشںی بساط سجتی ہے تب تب ایران ہر وہ چال چلتا ہوا نظر آتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو خطے میں محفوظ کرتی ہے۔
کیا یہ اتفاق ہے کہ اس سال فروری میں محمد بن سلمان جب پاکستان کے دورے پر آئے تب بیک وقت بھارت اور ایران میں فالس فلیگ آپریشن اور من گھڑت دہشت گردی کے واقعات رو پذیر ہوئے۔
جن کے ڈانڈے ان دونوں ممالک نے پاکستان سے زبردستی جوڑنے کی کوشش کی اور صرف کوشش نہیں کی بلکہ دھمکی بھی دی۔
اور اسی کا تسلسل پھر پاک بھارت محدود پیمانے کی جنگ کی صورت میں ساری دنیا نے دیکھا اور جس میں بعد کی انٹیلی جنسیو رپورٹس کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیک وقت 3 سے 4 ممالک پاکستان کو اپنے حملے کی زد پر لینے کے لئے تیار بیٹھے تھے صرف بھارت ایک دفعہ کھل کر بسم اللہ کرتا۔
کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ وہ 4 ممالک میں سے بھارت کے علاوہ باقی تین کون کون سے تھے؟
ایران٫ اسرائیل اور امریکا۔
اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تین ممالک کو بھارت کے علاوہ پاکستان سے کیا تکلیف ہے اور یہ کس وجہ سے درون خانہ ایک جیسے مفادات رکھتے ہیں جو پاکستان کی تباہی پر منتج ہیں۔
سی پیک۔ ۔ ۔
جی ہاں سی پیک ہی وہ مشترکہ تکلیف ہے جو بیک وقت بھارت٫ ایران٫ اسرائیل٫ امریکہ اور افغانستان کو ہے۔
اس تکلیف کو تقویت اس وقت مزید پہنچی جب روس٫ سعودی عرب٫ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک سمیت چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں اظہار دلچسپی دکھایا بلکہ یہاں تک کہ محمد بن سلمان جب پاکستان میں دورے پر آئے تب سی پیک کے حوالے سے اچھی خاصی انویسٹمنٹ کی بات کرکے گئے جس سے خطے میں راتوں رات سیاسی اور نظریاتی بھونچال آیا۔
اب یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں کہ ہم لوگ موجودہ عالمی صورتحال کو سمجھ نہ سکیں۔
امریکہ اور اسرائیل کسی صورت نہیں چاہتے کہ خطے میں پاکستان کسی بھی صورت جڑ پکڑے کہ اسے مشرق وسطی میں وہی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو جو انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں حاصل تھی۔
مطلب یہ سارے عرب ممالک کہیں سی پیک میں سرمایا کاری اور منافع کے لالچ میں پاکستان کی طرف جھک کر اسے خطے کا چوہدری نہ بنا دیں کہ ایک بڑا اسلامک بلاک تشکیل پا جائے لہذا ہر وہ طریقہ ہر وہ چال اپنائی جائے جس سے پاکستان کو اپنے لالے پڑے رہیں اور ہم خطے میں بلا شرکت غیرے چوہدری بن کر پنجائتیں سجاتے رہیں اور سب کو اپنی اپنی پڑی رہے۔
اس میں جو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے وہ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے تین ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان٫ ایران اور بھارت ہیں۔
اب آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ جب کہ امریکہ تو خطےمیں اپنا بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج لیکر بیٹھ گیا ہے۔
درحقیقت یہ بحری بیڑہ اور فضائی و بری افواج خلیج میں ایران کی سرکوبی کے لئے نہیں بلکہ سعودی عرب کو کنٹرول میں رکھنے اور پاکستان پر قریب سے نظر رکھنے کے لئے اتاری گئی ہیں۔
یہ اچانک سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملے٫ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر جھڑپیں اور تنازعات٫ افغانستان کی طرف سے عسکری اور نظریاتی مداخلت اور بھارت کی طرف سے دن رات پروپیگنڈا مشینری پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہے جبکہ امریکہ پاکستان کو دیدہ و نادیدہ شکنجوں میں لپیٹ رہا ہے۔
اور پچھلے دو سالوں میں جو درحقیقت بریکنگ نیوز تھیں جن پر امت مسلمہ کا شدید ردعمل آنا چاہیے تھا خواہ وہ عسکری اور سیاسی ہوتا یا نظریاتی۔
لیکن پہلی چوٹ پر چِلانے کے بعد باقی معاملات پر معذرت کے ساتھ امت مسلمہ سمیت وہ ممالک بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔
آغاز امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے کیا٫ پھر نئی امریکی حکومت نے پاکستان کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ پاکستان ایک دھوکے باز ملک ہے جس نے امریکہ سے 33 بلین ڈالر کی امداد وصول کرکے امریکہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا٫ اس کے بعد امریکہ بنفس نفیس شام میں اتر آیا اور وہاں اس نے کیا کیا گل کھلائے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور سب سے آخر میں جو اہم پیشرفت ہوئی وہ یہ کہ گولان کی پہاڑیاں آفیشلی اسرائیل کے حوالے کردیں اور پورے حق سے کیں یہاں تک کہ انداز بھی جارحانہ تھا اور اب شنید ہے کہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر میں حائل سے سب سے بڑی رکاوٹ مسجد اقصیٰ کا انہدام بھی جلد ہی ٹرمپ کی مہربانی اور اجازت سے ممکن ہونے والا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کا گھوم پھر کر ہر بل پاکستان پر پھٹا کہ پاکستان یکدم سفارتی اور خارجی سطح پر دنیا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں ابھر کر سامنے آنے کی کوشش کر رہا تھا جو امریکہ کی دور رس نتائج والی صیقل پالیسیوں کے خلاف تھا۔
اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو چیز٫ بات٫ شخصیت٫ نظریہ اور ملک
امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ اس کے مفادات کے حق میں نہیں۔
اچھا ویسے امریکہ کے مفادات دراصل ہیں کیا؟
سب سے پہلے تو امریکہ کی سپر ویژن برقرار رہے٫ اسرائیل ناصرف محفوظ رہے بلکہ دن بدن پھلے اور پھولے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور اسلام یا اسلامی ممالک کسی صورت وہ طاقت نہ حاصل کر سکیں جو ماضی میں ان کو حاصل تھی۔
یہ ہے امریکی مفادات کا وہ نچوڑ جس کے اردگرد رہ کر امریکہ کی ساری سیاسی و عسکری پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔
میں پھر کہوں گا کہ اگر کسی بھائی کو یہ غلط فہمی ہو رہی ہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے کے لئے خطے میں آکر بیٹھا ہے یا کسی بھی وقت امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملہ کریں گے یا ایران جوابی کارروائی میں امریکا یا اسرائیل پر کوئی شدید حملہ کرے گا تو وہ یہ غلط فہمی دور کر لے کہ ایسا ہوتا ہوا فی الحال نظر نہیں آتا۔
وہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ "کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو"٫ اس وقت خطے میں "ساس" مطلب کہ امریکہ جو کچھ بھی "بیٹی" یعنی ایران کو سنا رہا ہے وہ دراصل "بہو" یعنی کے سعودی عرب اور پاکستان کو سنا اور جتا رہا ہے۔
مجھے اس بات پر ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ امریکہ ناک ناک تنگ آچکا ہے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت اور سی پیک کے بعد متوقع معاشی ترقی کو بھانپ کر لہذا اب امریکا کھل کر نہ سہی پر کسی حد تک جتا کر پاکستان کے سر پر بیٹھنے کے لئے خلیج میں اترا ہے کہ
"بھائی تم میری باتوں کو یا شورشرابے کو دور کے ڈھول سہانے سمجھ کر کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔"
مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کو اس صورتحال کا اندازہ تھا اسی وجہ سے ان کے درمیان گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ میں ہر طرح کا تعاون اور قربتیں بڑھی ہیں۔
باقی اگر کسی کو ایک فیصد بھی یہ بات حقیقت لگتی ہے کہ امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیے آیا ہے یا محدود پیمانے کا حملہ کرے گا تو چلو دیکھ لیتے ہیں پھر۔
بیس سال تو ہوگئے ہیں یہ سنتے اور پڑھتے ہوئے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔
اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو پھر یہ واقعی ایک بریکنگ نیوز ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بریکنگ نیوز آپ کو اور مجھے کب اپنے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔۔۔

کراچی والا، آپ وہی نیوزیلینڈ والے بابے ہو نا جو پال ٹاک پر ڈیفینڈرز روم چلایا کرتے تھے جس کے دوسرے ایڈمن کی 2004 کے لگ بھگ ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی۔
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
تکفیریت کے فروغ میں سعودی عرب کے بازو؟




اس مرکز(سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ ) کے ساتھ ساتھ دیگر کئی سعودی فاؤنڈیشنز اور مراکز بھی اس ملک کے رسوخ کو عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں رہنے والے لوگوں پر قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،چنانچہ ان مراکز کا کام پوری دنیا میں مسلمانوں کے امور میں مداخلت اور خود آپس میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنا اور لوگوں کو سعودی عرب سے شائع ہونے والا لٹریچر فراہم کرنا ہے۔




رپورٹ کے مطابق قطر کے مشہور اخبار الشرق نے حال ہی میں سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی ایک خفیہ دستاویز کو شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کس طرح تکفریت اور وہابیت نے پوری دنیا میں اپنا فکری جال بچھایا ہے سعودی عرب نے ۱۹۸۱ء میں تکفیری و وہابی افکار کی تبلیغ و ترویج کے لئے ایک سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ کی داغ بیل ڈالی تھی ،اگرچہ ظاہر میں اس سنڈیکیٹ سے سعودی عرب کا مقصد اپنی سابقہ شبیہہ کو سنوارنا تھا جبکہ دوسری طرف دنیا میں تکفیری و وہابی افراطی افکار کو پھیلانا تھا۔
حالیہ شائع شدہ اس دستاویز کی بنیاد پر بعض ایسے ٹیلیگراف ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرکز(سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ)کا ایک مقصد اسلامی ممالک میں سعودی رسوخ اور اس کی وہابی فکر کی ترویج کرنا ہے چنانچہ اس دستاویز میں یہ بھی آیا ہے کہ انہوں اس فکر سے کسی ملک کو مستثنیٰ نہیں رکھا ہے۔
اس مرکز(سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ ) کے ساتھ ساتھ دیگر کئی سعودی فاؤنڈیشنز اور مراکز بھی اس ملک کے رسوخ کو عالم اسلام بلکہ مغربی ممالک میں رہنے والے لوگوں پر قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،چنانچہ ان مراکز کا کام پوری دنیا میں مسلمانوں کے امور میں مداخلت اور خود آپس میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنا اور لوگوں کو سعودی عرب سے شائع ہونے والا لٹریچر فراہم کرنا ہے چونکہ ان مراکز کا دعوٰی یہ ہے کہ صرف نجات پانے والا فرقہ وہی ہے جس کے پابند آل سعود ہیں لہذا باقی سارے مکاتب فکر ہلاکت کے مستحق ہیں یہ مراکز خاص طور پر مسلمان اقلیت میں کھانا،لباس اور تعلیم جیسے دوسرے بہانوں سے اپنا لٹریچر پہونچاتے ہیں جو تکفیریت و وہابیت کی باتوں نیز دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف فتنہ اور بدعت کی نسبت سے بھرے ہوتے ہیں۔
اس سنڈیکیٹ نے اپنی تاسیس سے ۱۱ ستمبر کے مخملی حادثہ تک اپنی کارکردگی کو باقاعدہ منظم طور پر انجام دیا۔
یاد رہے کہ یہ مرکز سن ۱۹۸۱ ء میں مکہ مکرمہ کی اسلامی کانفرنس کے بعد وجود میں آیا تھا لیکن ۱۱ ستمبر کے حادثہ کے بعد اس کی کارکردگی متوقف ہوگئی تھی اور یہ حملہ سعودی رسوخ کے لئے رکاوٹ بن گیا چونکہ اس حملہ میں اس سینڈیکیٹ کے بعض اراکین کی شمولیت کا خدشہ تھا چنانچہ امریکہ میں اس تفکر کے خلاف کچھ شکایتیں حکومت وقت کو موصول ہوئی تھیں۔
اس دستاویز میں موجود اطلاعات گواہی دیتی ہیں کہ سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ اپنی مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے افراطی تکفیری فکر کی فروغ کو ہی اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ یہ مرکز بوکوحرام سمیت مشرقی و افریقی ممالک میں سرگرم تکفیری کالعدم گروہوں کے درمیان معروف ہے نیز یہ بھی یاد رہے کہ دنیا میں کسی بھی دہشتگرد کا گھر سنڈیکیٹ آف اسلامک ورلڈ سے شائع شدہ کتابوں سے خالی نہیں ہے ایسی کتابیں کہ جو لوگوں کو بدعت گذار کہتی ہیں اور اس فکر کے سب سے بڑے نمونہ خود وہ تکفیری دہشتگرد ہیں جنہوں نے ان کے تعلمی مراکز میں تعلیم حاصل کی ہے۔
تقریباً ۱۵ برس سے ابھی تک سعودی عرب مسلسل اپنی تمام مشینری مال و منال اور خارجہ رسوخ اور ڈپلومیسی طاقت کو صرف یہ سمجھانے میں لگا رہا ہے کہ ہم دہشتگردوں کے حامی نہیں ہیں نیز اس کی یہ کوشش بھی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملہ میںسعودی ملزموں کو امریکہ سے پناہ دلوا سکے، لیکن دلائل کی رو سے واشنگٹن نے سعودی باشندوں کی ۱۱ ستمبر کے حملہ میں شمولیت جو دستاویر جاری کی ہے اس سے شاید سعودی کی تمام کوششیں نقش بر آب ہو جائیں ۔



 

منتظر

Minister (2k+ posts)
کراچی والا، آپ وہی نیوزیلینڈ والے بابے ہو نا جو پال ٹاک پر ڈیفینڈرز روم چلایا کرتے تھے جس کے دوسرے ایڈمن کی 2004 کے لگ بھگ ٹارگٹ کلنگ ہوئی تھی۔
یہ بہاری ادھر کینیڈا میں بیٹھا ہے ویلفری
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
آ گیا وہ شاہکار جسکا سب کو انتظار تھا۔ ایرانی ایجنٹ عرف منتظر جو کہ اپنے خمیر کااعلان کرتا ہے کہ کس جگہ کا ہے۔
بھگوڑے کیوں تیرے پیو ملا کے کرتوٹ روز سامنے نہیں آ رہے؟
کیا ایرانی ملا پاکستان کے خلاف سازش نہیں کر رہا؟
کیا تیرا نام اس لسٹ میں نہیں جو میں پہلے شئر کی تھی؟
کیا تجھ کو ایرانی ملا چالیس ہزار ماہانہ نہیں دیتا؟

 
Last edited:

منتظر

Minister (2k+ posts)
آ گیا وہ شاہکار جسکا سب کو انتظار تھا۔ ایرانی ایجنٹ عرف منتظر جو کہ اپنے خمیر کااعلان کرتا ہے کہ کس جگہ کا ہے۔
بھگوڑے کیوں تیرے پیو ملا کے کرتوٹ روز سامنے نہیں آ رہے؟
کیا ایرانی ملا پاکستان کے خلاف سازش نہیں کر رہا؟
کیا تیرا نام اس لسٹ میں نہیں جو میں پہلے شئر کی تھی؟
کیا تجھ کو ایرانی ملا چالیس ہزار ماہانہ نہیں دیتا؟

اپنی بات کا ثبوت دیتا ہوں۔
6.jpg
ویسے تیری سلگتے دیکھ کر مزہ بڑا آتا ہے مجھے۔
کبھی اپنی شکل دیکھی ہے کسی کھوتے کے کھر اپنی اوقات سے بڑھ کر باتیں مت کر یہ جو تو نے بکواس لکھی ہے نہ ایک ہی پوسٹ کرتا ہوں اس سے دیکھ لیں گے سب کے امریکی صدرکیا کہ رہا ہے اور حکومتی ترجمان جو پہلے تھا پنجاب حکومت کا یہ دونوں ویڈیو دیکھ کس طرح کتے والی کی ہے اس بادشاہ کی جو نجس نجدی ہے جس کے ریالوں کی گریس سے تم لوگوں کا جنم ہوا ہے اس کی کیا اوقات ہے سب دیکھیں کس کس کی سلگتی ہے وہ یہ ویڈیو فیصلہ کرے گی




تیرا روزہ تو ویسے ہی مکروہ ہوتا ہے تیری مکروہ صورت کی طرح کیوں کے تیرے عمال ہی ایسے ہیں یہ ویڈیوز دیکھ کر دل چاہا کے جن جن دیو گنڈوں وہابڑ وں نے تجھے لائک دیے ہیں ان سب کو میری طرف سے افطاری یا سحری کا تحفه دوں اس لیے یہ حاضر ہے

????
 
Last edited:

منتظر

Minister (2k+ posts)
آ گیا وہ شاہکار جسکا سب کو انتظار تھا۔ ایرانی ایجنٹ عرف منتظر جو کہ اپنے خمیر کااعلان کرتا ہے کہ کس جگہ کا ہے۔
بھگوڑے کیوں تیرے پیو ملا کے کرتوٹ روز سامنے نہیں آ رہے؟
کیا ایرانی ملا پاکستان کے خلاف سازش نہیں کر رہا؟
کیا تیرا نام اس لسٹ میں نہیں جو میں پہلے شئر کی تھی؟
کیا تجھ کو ایرانی ملا چالیس ہزار ماہانہ نہیں دیتا؟

اس مہینے کے چالیس ہزار پہنچے نہیں اپا اپنی سے سے کہو بھجوا دیں وہ انچارج ہیں مالی امور کی
?????

 

Back
Top