ایرانیوں نے میدان مار لیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں شامل بین الاقوامی ماہرین اور سفارتکاروں نے معاہدے کی ہر شِق کی مین میخ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ان طویل اور تلخ مذاکرات کے دوران کئی مرتبہ بات بگڑ بھی گئی لیکن مذاکرات کاروں نے تھوڑی بہت رد و بدل کے بعد مذاکرات کو پٹری سے اترنے نہیں دیا اور مرکزی نکتے پر بات چیت جاری رکھی۔
لیکن مشرق وسطیٰ میں، جہاں ایک مضبوط تر ایران کو خوف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں کبھی بھی کسی کے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ نہیں ہوگا۔
اسرائیل، سعودی عرب اور خطے کی وہ دیگر ریاستیں جنھیں نئے معاہدے کی شرائط سے خطرہ محسوں ہو رہا ہے، وہاں ہر کوئی کئی ماہ سے یہ بات قبول کر چکا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں پانچ بڑی طاقتیں یہ تہیہ کر چکی ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے دم لیں گی اور یہ طاقتیں ایران پر ایک پابندی کے عوض اسے بڑی بڑی رعایات دینے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدے کی شرائط پر نظر ڈالیں تو آپ کو صاف دکھائی دیتا ہے کہ تمام تر خطرات کے باوجود بین الاقوامی طاقتیں یہ معاہدہ کر کے رہیں گی۔ اسی طرح ایران کو ایک خطرناک اور جارح ہمسایہ سمجھنے والی خلیج کی سنّی ریاستوں کا خیال بھی یہی ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدہ زیادہ سخت شرائط پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ایک اسرائیل وزیر، ڈینی ڈنون اس معاہدے کی تشریح بڑے خوفناک الفاظ میں کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’ یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیل کے لیے بُرا ہے بلکہ یہ تمام آزاد دنیا کے لیے خطرناک ہے۔ دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے حمایتی کو جوہری ہتھیار بنانے کی کھلی چُھٹی دے دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ آگ لگانے کے خبط میں مبتلا کسی شخص کے ہاتھ میں ماچس تھما دیں۔‘
امداد برائے اسلحہ
ویانا میں مذاکرات کاروں کو ہر وقت نہ صرف ایران کے ایٹمی توانائی کے منصوبے اور اس کے ممکنہ جوہری ہتھیاروں کو ذہن میں رکھنا تھا بلکہ انھیں نہایت پیچیدہ معاملات کے ایک ملغوبے کو بھی نظر میں رکھنا تھا۔
اس کے علاوہ مذاکرات کاروں کو مشرق وسطیٰ میں ایران کے مخالف ممالک کی فکرمندی کو بھی ذہن میں رکھنا تھا۔ایران پر عائد اقتصای پابندیوں میں نرمی سے اس کی معاشی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد ایران مشرق وسطیٰ میں اپنی حمایت یافتہ عسکری طاقتوں کو زیادہ پیسے اور اسلحہ فراہم کر سکے گا۔ خطے میں ایران در پردہ جن گروہوں کی مدد کر رہا ہے ان میں عراق کی شیعہ ملیشیا اور لبنان کی ملیشیا طاقت حْزب اللہ شامل ہے جو ایران کے اتحادی بشارالاسد کے لیے لڑ رہی ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف ایران کی اس حیثیت کو تقویت ملے گی کہ وہ خطے کے تمام ممالک کی شیعہ برادریوں کا واحد محافظ ہے بلکہ وہ سعودی عرب اور خلیج کی دیگر سُنی بادشاہتوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ بھی ایران کے خلاف جوابی کریں۔
مشرق وسطیٰ، خاص طور پر عراق اور شام میں جاری تنازعات کی ایک توجیح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ تنازعات اصل میں اسلامی دنیا کی دو مرکزی روایات، یعنی شیعہ اور سنی روایات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نشاندھی کرتے ہیں۔
ایران کو زیادہ پیسے اور زیادہ اسلحے تک دسترس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ شیعہ سنّی کشیدگی میں اضافہ ہو جائے۔
’ایرانیوں نے مات دے دی‘
مشرق وسطیٰ کے وہ لوگ جو شکوک اور خدشات کا شکار ہیں انھیں خوف ہے کہ امریکی قیادت میں جو مذاکرت کار اس بات چیت میں شامل رہے ہیں وہ اس میدان میں اُس مہارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے جو ایرانیوں کو حاصل ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مذاکرات کاروں کی اس نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران بین الاقوامی برادی میں اپنی بحالی میں کامیاب ہو گیا ہے اور اس عمل میں ایران اپنی یہ شبیہہ قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہا ہے کہ وہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے بلکہ وہ اپنا انقلاب برآمد بھی کرتا رہے گا
مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں صدر اوباما کا رویہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا
مشرق وسطیٰ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی مذاکرات کاروں کی کمزوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ آپس میں منقسم ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو شاید اپنے اتحادی اسرائیل کے اس خدشے کا ادراک ہی نہیں کہ اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایران کے پاس جو پیسے آئے گا اس سے وہ حزب اللہ کو زیادہ جدید ہتھیار فراہم کر دے گا تاکہ وہ اسرائیل کو نشانہ بنا سکے۔
لیکن چین اور روس کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ جلد از جلد ایران کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کر دیں کیونکہ ان دونوں ممالک کا خیال ہے کہ زیادہ پیسے آنے کے بعد ایران ان کے ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار بن جائے گا۔
میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے ایرانی مذاکرات کاروں نے چھ بڑی طاقتوں کے ان باہمی اختلافات سے خوب فائدہ اٹھایا۔اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں صدر اوباما کا رویہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
کیا اوباما وہ امریکی صدر بننا چاہتے ہیں جو صدر نکسن کی طرح خارجہ پالیسی کے میدان میں کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیں جسے لوگ مدتوں یاد رکھیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی تو بین الاقوامی برادری میں ایران کی واپسی صدر اوباما کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں تعینات ایک سینیئر سفارت کار نے اس خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’چلیں ہم دونوں اس بات پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ صدر اوباما کی اچھی یادیں چھوڑنے کی خواہش سے ہم زیادہ محفوظ نہیں ہو جائیں گے۔‘
’ادلے کا بدلہ‘
اسرائیل اپنے ان خدشات کا اظہار کھلے الفاظ میں کرتا رہا ہے کہ ایران کی جانب سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہے کیونکہ ایران کئی مرتبہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکیاں دے چکا ہے۔
ایران کے ساتھ مذاکرات نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان دنوں کی یاد تازہ کر دی ہے جب امریکی قیادت میں کام کرنے والے مذاکرات کار بڑے مطمعن تھے کہ اگر شمالی کوریا کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس ’اچھوت ریاست‘ کی جوہری خواہشات پر قابو پا لیا جائے گا۔
اگر آپ ان دنوں کی تصویری جھلکیاں دیکھیں تو آپ کو لگتا ہے کہ اس وقت بھی عالمی طاقتوں کے مذاکرات کار بڑے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ رہے تھے کہ شمالی کوریا کے ساتھ معاہدے کے بعد دنیا زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایران کے معاملے میں عالمی مذاکرات کاروں کی یہ سوچ اتنی ہی غلط ثابت ہو جتنی شمالی کوریا کے معاملے میں کلنٹن انتظامیہ کی سوچ غلط ثابت ہوئی تھی۔
ایران کے دشمنوں کے اس خدشے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ ایران ہر صورت میں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا مصصم ارداہ رکھتا ہے اور وہ اس منصوبے کو مؤخر کرنے پر صرف اس لیے رضامند ہوا ہے تاکہ اسے فی الحال کچھ سہولتیں حاصل ہو جائیں۔
جوہری معاہدے کے بعد اب ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جوہری صلاحیت کی حامل ایک شیعہ ریاست کے مقابلے میں سعودی عرب ایک سُنّی جوہری ریاست کھڑی کر سکتا ہے۔
یہ خیال آتے ہی مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی مقابلہ بازی کا ایک ڈراؤنا خواب آپ کوگھیر لیتا ہے۔
سعودی عرب کے علاوہ، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جوہری ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کیا کرے گا۔ اگرچہ اسرائیل کی پالیسی یہی ہے کہ جوہری صلاحیت کے بارے میں اقرار کرو اور نہ ہی انکار، لیکن یہ بات کوئی راز نہیں کہ اسرائیل جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔
فوجی مقاصد
امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اسرائیل کے ہمدردوں کی کوئی کمی نہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اب کانگریس میں اپنے حامی نمائندوں کے پیچھے پڑ جائیں کہ وہ صدر اوباما کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں کہ وہ امریکیوں کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ایران کے ساتھ معاہدہ ایک اچھی خبر ہے۔
اس حکمت عملی کا ایک نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ صدر اوباما اور مسٹر نتن یاہو کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو جائیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کے خیال میں وہ ایران کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔
اسرائیل اس فلسفے پر ڈٹا ہوا ہے کہ ایسی کسی ریاست کو تباہ کن ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا جو اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتی ہویہ تمام خدشات اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ایران کی جانب سے جوہری ہھتیاروں کے حصول کی بِھنک پڑتے ہی اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی بات شروع کر دے گا۔
کیا واقعی اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیت کو کمزور کرنے کے لیے اس قسم کا حملہ کر سکتا ہے؟
اسرائیل یہ مؤقف اختیار کر سکتا ہے کہ دراصل یہ اسرائیلی حملے کی دھمکی کا نتیجہ ہی ہے کہ ایران جوہری مذاکرات پر رضامند ہوا۔
گذشتہ برسوں میں ایرانی تنصیبات پر حملے کی باتیں ماند پڑ گئی تھیں کیونکہ اسرائیل کا خیال یہی تھا کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو وقت دیا جانا چاہئیے کیونکہ اس سے مذاکرات کو بھی تقویت حاصل ہو گی۔
لیکن اسرائیلی خفیہ اداروں کی سوچ سے باخبر ایک ماہر کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے سابق وزیرِ اعظم بیگن کے اس فلسفے پر پوری طرح ڈٹا ہوا ہے کہ ایسی کسی ریاست کو تباہ کن ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا جو اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتی ہو۔
اگر اوباما انتظامیہ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے حلیف ممالک کو جدید ترین اسلحے کی کھیپ کی کڑوی گولی پر شکر چڑہا بھی دیتی ہے تب بھی ان حلیفوں کو قائل کرنا آسان نہیں کہ کہ ایران کے ساتھ معاہدے سے انھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب جوں جوں امریکی کانگریس میں اس معاہدے پر بحث کے دن قریب آ رہے ہیں مشرق وسطیٰ میں یہ بحث تیز تر ہوتی جا رہی ہے کہ جوہری معاہدے کے بعد یہ خطہ کن مشکلات اور خطرات کا شکار ہو سکتا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/07/150715_iran_deal_and_meast_sq
ان طویل اور تلخ مذاکرات کے دوران کئی مرتبہ بات بگڑ بھی گئی لیکن مذاکرات کاروں نے تھوڑی بہت رد و بدل کے بعد مذاکرات کو پٹری سے اترنے نہیں دیا اور مرکزی نکتے پر بات چیت جاری رکھی۔
لیکن مشرق وسطیٰ میں، جہاں ایک مضبوط تر ایران کو خوف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں کبھی بھی کسی کے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ نہیں ہوگا۔
اسرائیل، سعودی عرب اور خطے کی وہ دیگر ریاستیں جنھیں نئے معاہدے کی شرائط سے خطرہ محسوں ہو رہا ہے، وہاں ہر کوئی کئی ماہ سے یہ بات قبول کر چکا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں پانچ بڑی طاقتیں یہ تہیہ کر چکی ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے دم لیں گی اور یہ طاقتیں ایران پر ایک پابندی کے عوض اسے بڑی بڑی رعایات دینے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدے کی شرائط پر نظر ڈالیں تو آپ کو صاف دکھائی دیتا ہے کہ تمام تر خطرات کے باوجود بین الاقوامی طاقتیں یہ معاہدہ کر کے رہیں گی۔ اسی طرح ایران کو ایک خطرناک اور جارح ہمسایہ سمجھنے والی خلیج کی سنّی ریاستوں کا خیال بھی یہی ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدہ زیادہ سخت شرائط پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ایک اسرائیل وزیر، ڈینی ڈنون اس معاہدے کی تشریح بڑے خوفناک الفاظ میں کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’ یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیل کے لیے بُرا ہے بلکہ یہ تمام آزاد دنیا کے لیے خطرناک ہے۔ دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے حمایتی کو جوہری ہتھیار بنانے کی کھلی چُھٹی دے دینا ایسے ہی ہے جیسے آپ آگ لگانے کے خبط میں مبتلا کسی شخص کے ہاتھ میں ماچس تھما دیں۔‘
امداد برائے اسلحہ
ویانا میں مذاکرات کاروں کو ہر وقت نہ صرف ایران کے ایٹمی توانائی کے منصوبے اور اس کے ممکنہ جوہری ہتھیاروں کو ذہن میں رکھنا تھا بلکہ انھیں نہایت پیچیدہ معاملات کے ایک ملغوبے کو بھی نظر میں رکھنا تھا۔
اس کے علاوہ مذاکرات کاروں کو مشرق وسطیٰ میں ایران کے مخالف ممالک کی فکرمندی کو بھی ذہن میں رکھنا تھا۔ایران پر عائد اقتصای پابندیوں میں نرمی سے اس کی معاشی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد ایران مشرق وسطیٰ میں اپنی حمایت یافتہ عسکری طاقتوں کو زیادہ پیسے اور اسلحہ فراہم کر سکے گا۔ خطے میں ایران در پردہ جن گروہوں کی مدد کر رہا ہے ان میں عراق کی شیعہ ملیشیا اور لبنان کی ملیشیا طاقت حْزب اللہ شامل ہے جو ایران کے اتحادی بشارالاسد کے لیے لڑ رہی ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف ایران کی اس حیثیت کو تقویت ملے گی کہ وہ خطے کے تمام ممالک کی شیعہ برادریوں کا واحد محافظ ہے بلکہ وہ سعودی عرب اور خلیج کی دیگر سُنی بادشاہتوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ بھی ایران کے خلاف جوابی کریں۔
مشرق وسطیٰ، خاص طور پر عراق اور شام میں جاری تنازعات کی ایک توجیح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ تنازعات اصل میں اسلامی دنیا کی دو مرکزی روایات، یعنی شیعہ اور سنی روایات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نشاندھی کرتے ہیں۔
ایران کو زیادہ پیسے اور زیادہ اسلحے تک دسترس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ شیعہ سنّی کشیدگی میں اضافہ ہو جائے۔
’ایرانیوں نے مات دے دی‘
مشرق وسطیٰ کے وہ لوگ جو شکوک اور خدشات کا شکار ہیں انھیں خوف ہے کہ امریکی قیادت میں جو مذاکرت کار اس بات چیت میں شامل رہے ہیں وہ اس میدان میں اُس مہارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے جو ایرانیوں کو حاصل ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مذاکرات کاروں کی اس نااہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران بین الاقوامی برادی میں اپنی بحالی میں کامیاب ہو گیا ہے اور اس عمل میں ایران اپنی یہ شبیہہ قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہا ہے کہ وہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے بلکہ وہ اپنا انقلاب برآمد بھی کرتا رہے گا
مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں صدر اوباما کا رویہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا
مشرق وسطیٰ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی مذاکرات کاروں کی کمزوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ آپس میں منقسم ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو شاید اپنے اتحادی اسرائیل کے اس خدشے کا ادراک ہی نہیں کہ اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایران کے پاس جو پیسے آئے گا اس سے وہ حزب اللہ کو زیادہ جدید ہتھیار فراہم کر دے گا تاکہ وہ اسرائیل کو نشانہ بنا سکے۔
لیکن چین اور روس کی خواہش بھی یہی ہے کہ وہ جلد از جلد ایران کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کر دیں کیونکہ ان دونوں ممالک کا خیال ہے کہ زیادہ پیسے آنے کے بعد ایران ان کے ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار بن جائے گا۔
میز کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے ایرانی مذاکرات کاروں نے چھ بڑی طاقتوں کے ان باہمی اختلافات سے خوب فائدہ اٹھایا۔اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں صدر اوباما کا رویہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
کیا اوباما وہ امریکی صدر بننا چاہتے ہیں جو صدر نکسن کی طرح خارجہ پالیسی کے میدان میں کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیں جسے لوگ مدتوں یاد رکھیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی تو بین الاقوامی برادری میں ایران کی واپسی صدر اوباما کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں تعینات ایک سینیئر سفارت کار نے اس خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’چلیں ہم دونوں اس بات پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ صدر اوباما کی اچھی یادیں چھوڑنے کی خواہش سے ہم زیادہ محفوظ نہیں ہو جائیں گے۔‘
’ادلے کا بدلہ‘
اسرائیل اپنے ان خدشات کا اظہار کھلے الفاظ میں کرتا رہا ہے کہ ایران کی جانب سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہے کیونکہ ایران کئی مرتبہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکیاں دے چکا ہے۔
ایران کے ساتھ مذاکرات نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان دنوں کی یاد تازہ کر دی ہے جب امریکی قیادت میں کام کرنے والے مذاکرات کار بڑے مطمعن تھے کہ اگر شمالی کوریا کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس ’اچھوت ریاست‘ کی جوہری خواہشات پر قابو پا لیا جائے گا۔
اگر آپ ان دنوں کی تصویری جھلکیاں دیکھیں تو آپ کو لگتا ہے کہ اس وقت بھی عالمی طاقتوں کے مذاکرات کار بڑے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ رہے تھے کہ شمالی کوریا کے ساتھ معاہدے کے بعد دنیا زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایران کے معاملے میں عالمی مذاکرات کاروں کی یہ سوچ اتنی ہی غلط ثابت ہو جتنی شمالی کوریا کے معاملے میں کلنٹن انتظامیہ کی سوچ غلط ثابت ہوئی تھی۔
ایران کے دشمنوں کے اس خدشے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ ایران ہر صورت میں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا مصصم ارداہ رکھتا ہے اور وہ اس منصوبے کو مؤخر کرنے پر صرف اس لیے رضامند ہوا ہے تاکہ اسے فی الحال کچھ سہولتیں حاصل ہو جائیں۔
جوہری معاہدے کے بعد اب ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جوہری صلاحیت کی حامل ایک شیعہ ریاست کے مقابلے میں سعودی عرب ایک سُنّی جوہری ریاست کھڑی کر سکتا ہے۔
یہ خیال آتے ہی مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی مقابلہ بازی کا ایک ڈراؤنا خواب آپ کوگھیر لیتا ہے۔
سعودی عرب کے علاوہ، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جوہری ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کیا کرے گا۔ اگرچہ اسرائیل کی پالیسی یہی ہے کہ جوہری صلاحیت کے بارے میں اقرار کرو اور نہ ہی انکار، لیکن یہ بات کوئی راز نہیں کہ اسرائیل جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔
فوجی مقاصد
امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اسرائیل کے ہمدردوں کی کوئی کمی نہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اب کانگریس میں اپنے حامی نمائندوں کے پیچھے پڑ جائیں کہ وہ صدر اوباما کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں کہ وہ امریکیوں کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ایران کے ساتھ معاہدہ ایک اچھی خبر ہے۔
اس حکمت عملی کا ایک نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ صدر اوباما اور مسٹر نتن یاہو کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو جائیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کے خیال میں وہ ایران کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔
اسرائیل اس فلسفے پر ڈٹا ہوا ہے کہ ایسی کسی ریاست کو تباہ کن ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا جو اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتی ہویہ تمام خدشات اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ایران کی جانب سے جوہری ہھتیاروں کے حصول کی بِھنک پڑتے ہی اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی بات شروع کر دے گا۔
کیا واقعی اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیت کو کمزور کرنے کے لیے اس قسم کا حملہ کر سکتا ہے؟
اسرائیل یہ مؤقف اختیار کر سکتا ہے کہ دراصل یہ اسرائیلی حملے کی دھمکی کا نتیجہ ہی ہے کہ ایران جوہری مذاکرات پر رضامند ہوا۔
گذشتہ برسوں میں ایرانی تنصیبات پر حملے کی باتیں ماند پڑ گئی تھیں کیونکہ اسرائیل کا خیال یہی تھا کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو وقت دیا جانا چاہئیے کیونکہ اس سے مذاکرات کو بھی تقویت حاصل ہو گی۔
لیکن اسرائیلی خفیہ اداروں کی سوچ سے باخبر ایک ماہر کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے سابق وزیرِ اعظم بیگن کے اس فلسفے پر پوری طرح ڈٹا ہوا ہے کہ ایسی کسی ریاست کو تباہ کن ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا جو اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتی ہو۔
اگر اوباما انتظامیہ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے حلیف ممالک کو جدید ترین اسلحے کی کھیپ کی کڑوی گولی پر شکر چڑہا بھی دیتی ہے تب بھی ان حلیفوں کو قائل کرنا آسان نہیں کہ کہ ایران کے ساتھ معاہدے سے انھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب جوں جوں امریکی کانگریس میں اس معاہدے پر بحث کے دن قریب آ رہے ہیں مشرق وسطیٰ میں یہ بحث تیز تر ہوتی جا رہی ہے کہ جوہری معاہدے کے بعد یہ خطہ کن مشکلات اور خطرات کا شکار ہو سکتا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/07/150715_iran_deal_and_meast_sq