
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے 60سے زائد بلوں کو کامیابی کے ساتھ پاس کرا لیا گیا، ان بلوں میں الیکٹرانک ووٹنگ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور کلبھوشن سے متعلق بلز سمیت بلز منظور کرائے گئے جبکہ اپوزیشن نے اس دوران خوب شور مچایا اور واک آؤٹ بھی کیا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ گنتی صحیح نہیں کی گئی جس کے بعد اس مشترکہ اجلاس پر ایک بحث چل نکلی ہے کہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مشترکہ اجلاس کے دوران کل تعداد کو گنا جانا چاہیے جو کہ 1994کے رولز میں کہا گیا ہے۔
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق ایوان میں موجود لوگوں سے رائے لی جائے گی اور وہاں پر موجود لوگوں میں سے جس کے زیادہ ووٹ ہوں گے بل کی منظوری یا نامنظوری کا دارومدار اسی پر ہوگا۔
صحافی نجم سیٹھی نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس بحث میں پڑا جائے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کون سچا ہے تو حکومت آئین کے آرٹیکل 74 کی شق4 کی بات کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن رول کی بات کرتی ہے۔ اگر آئین اور رول کو دیکھا جائے تو جیت آئین کی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس بلانے کا ایک طریقہ کار ہے اور اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے وہ اس طرح کہ اگر کوئی بل پاس کرانا مقصود ہو تو اس کو پہلے سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے اگر وہاں سے مسترد ہو جائے تو واپس قومی اسمبلی میں آتا ہے۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے والے دوبارہ سمجھیں کہ اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے تو وہ واپس سینیٹ میں بھیج دیتے ہیں، پھر اگر سینیٹ مسترد کر دے تو وہ واپس قومی اسمبلی میں آ جاتا ہے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی اجازت ہے جس میں دونوں ایوانوں میں موجود ارکان کی رائے سے بل کو منظور یا مسترد کیا جاتا ہے۔
سینیئر صحافی نے کہا کہ حکومت نے اگر مشترکہ اجلاس بلوانا تھا تو بتایا جائے کہ یہ بل سینیٹ میں کب بھیجے گئے تھے اور وہاں سے ریجیکٹ ہو کر کب واپس قومی اسمبلی آئے؟ مگر اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/imran-sethi-211jj.jpg