تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلیے ترقی کی ضامن ہے۔ تعلیم ہی حقیقی معنوں میں معاشرے میں انقلاب لاسکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف حکومتوں کی جانب سے دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیم پرخصوصی توجہ دینے اوربجٹ میں اضافے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔۔ پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائے سی اے) کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح اٹھارہویں ترمیم نے وفاقی اورصوبائی سطح پر تعلیم کومتاثرکیا ہے۔۔۔۔
تعلیم نہ صرف ملکوں کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے بلکہ معاشرے کی روش کا تعین بھی صحیح اورمثبت سمت میں رکھتی ہے۔ پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائی سی اے) اورایجوکیشن چیمپیئن نیٹ ورک (ای سی این) نے حال ہی میں وائٹ پیپر شائع کیا ہے جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کےتحت شعبہ تعلیم وفاق سے لے کرصوبوں کودیے جانے کے کیا مضمرات سامنے آئے۔
وائٹ پیپرمیں احاطہ کیا گیا ہے کہ وفاق اورصوبے پیسہ کیسے اکٹھا کرتے ہیں۔ صوبوں کووفاق کی جانب سے این ایف سی کےتحت کتنا پیسہ دیا جاتا ہے اوروقت کےساتھ ساتھ وفاق کی جانب سے صوبوں کےبجٹ میں کتنی کمی کی جارہی ہے جس سے شعبہ تعلیم متاثرہورہا ہے۔
٭اٹھارہویں ترمیم میں شعبہ تعلیم صوبوں کے حوالے٭
جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان ایک وفاقی ملک ہے اوراس کی انتظامی اعتبارسے تین اکائیاں ہیں، پہلی وفاقی دوسری صوبائی اورتیسری مقامی۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ تعلیم سے متعلقہ اختیارات خصوصی طور پر صوبائی حکومتوں کو سونپ دیے گئے۔
یعنی تعلیمی نظام کے حوالے سے بڑے پیمانے پر انتظامی اورمالیاتی فیصلے صوبوں کے حوالے کردیے گئے۔ جبکہ وفاقی حکومت صرف اپنےجغرافیائی دائرہ اختیارمیں سکول ایجوکیشن اورمجموعی طورپراعلیٰ تعلیم کے لیے ذمہ دارہے۔
باوجود اس کے کہ وفاقی حکومت اب اسکول ایجوکیشن کیلئے آپریشنل یا مالیاتی اعتبار سے کوئی عمل دخل نہیں رکھتی مگرپھر بھی یہ صوبائی معاملات اورترجیحات کی سمت متعین کرنے والا اہم اسٹیک ہولڈرہے۔ اس کی وجہ وفاقی حکومت کے ملکی ٹیکس سسٹم کے نظام میں خزانچی کا کردار ہے۔
٭پیسہ کہاں سے آتا ہے؟٭
عاصم بشیرخان کی جانب سے لکھے گئے اس وائٹ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیسہ وفاقی حکومت کہاں سے اکٹھا کرتی ہے، وفاقی حکومت ٹیکس ریونیوکا بڑا حصہ اکٹھا کرتی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) اور چند دیگر ٹیکس صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔
اس اقدام کا مقصد صوبوں کو اپنی ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے قابل بنانا تھا۔ اور اس طرح، جہاں 2010 سے پہلے مجموعی ٹیکس وصولی کے صوبوں کی مجموعی ٹیکس وصولی کی شرح 4 فیصد تھی، وہ 2020 تک بہتر ہو کر 8.9 فیصد ہو گئی۔ اس کے باوجود وفاقی حکومت کی ٹیکس وصولی مجموعی ٹیکسوں کا 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سے وفاقی حکومت سے صوبوں کوسالانہ مالیاتی منتقلی ایک ضرورت بن جاتی ہے۔
ان وفاقی منتقلیوں کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970 کے بعد سے صوبوں کے اپنے بجٹ میں حصہ ڈالنے والے ریونیو کا تناسب وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے، جو کہ سالانہ وفاقی منتقلی پر صوبائی انحصار میں مسلسل اضافہ کی نشاندہی کرتا ہے۔
٭اب سوال یہ ہے کہ وفاق کی جانب سے ملنے والا بجٹ تعلیم میں سرمایہ کاری کو کیسے متاثرکرتا ہے؟٭
وائٹ پیپر کے مطابق سال 2010 کے بعد لگاتارہرسال اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے بجٹ میں کمی کی جاتی رہی ہے سوائے صوبہ بلوچستان کے جسے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت خصوصی حیثیت حاصل ہے اور اسے ان کٹوتیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی صوبوں میں سے کوئی بھی سالانہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ہدف تک نہیں پہنچ پاتا جو کہ وفاق کی جانب سے سیٹ کیا جاتا ہے۔
اب اگردیکھا جائے تو2010 سے 2020 کے دوران سوائے مالی سال 16-2015 کے ہرسال صوبوں کے درمیان بجٹ کی تقسیم میں وفاق کی جانب سے کمی ہی کی گئی ہے۔
چونکہ صوبوں کی ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں کے باوجود صوبے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر پائے اس لیے وفاقی حکومت کی طرف سے کٹوتی ان کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی ترجیحات کو متاثر کرتی ہے اس میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔
یہ مضمون پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کی مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب ہینڈلز کو فالو کریں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/education-pakistan.jpg
Last edited by a moderator: