
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی حالیہ گفتگو میں پاکستان کی معاشی صورت حال، ٹیکس اصلاحات، اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے حوالے سے اہم نکات پیش کیے ہیں۔
انہوں نے معاشی استحکام کے حصول کے لیے کئی اقدامات پر روشنی ڈالی، تاہم کچھ سوالات سے گریز کیا، خاص طور پر نیا بجٹ لانے یا ٹیکس کے ہدف پر دوبارہ بات چیت کرنے کے حوالے سے۔
وزیر خزانہ نے ایف بی آر کے ٹیکس ہدف میں شارٹ فال کا اعتراف کیا، جہاں 1.37 ٹریلین روپے کے ماہانہ ہدف میں سے صرف 50 فیصد حاصل کیا جا سکا ہے۔
انکے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایف بی آر کو ماہ کے باقی دنوں میں ایک کھرب روپے کا مزید ریونیو جمع کرنا ہوگا۔ نان فائلرز کو قانونی طور پر لین دین کی اجازت دینے اور کمرشل بینکوں کے ساتھ ایڈوانس ٹیکس پر سمجھوتے کا عندیہ دیا گیا۔
ٹیکس اصلاحات حکومت کے ڈھانچہ جاتی ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہیں، جس کا مقصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو تین سال میں 13.5 فیصد تک لے جانا ہے۔ ڈیجٹلائزیشن کو شفافیت اور ریونیو بڑھانے کا اہم ذریعہ قرار دیا گیا۔ شوگر، سیمنٹ، اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں ٹیکس گیپ اور لیکیجز کو ڈیٹا تجزیے کے ذریعے کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے۔
کرپشن اور ہراسانی کے واقعات کو روکنے کے لیے ڈیجٹلائزیشن پر کام جاری ہے، جس کی منظوری ستمبر میں دی گئی اور اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
خسارے کو کنٹرول کرکے مہنگائی کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ مہنگائی 30-40 فیصد سے کم ہو کر 5 فیصد تک آ گئی ہے۔
گزشتہ مالی سال کی ٹیکس وصولی میں 29 فیصد اضافے کے مقابلے میں اس سال 40 فیصد نمو کا ہدف پرجوش قرار دیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ چاہتے ہیں صرف تنخواہ دار طبقہ اور صنعتوں پر بوجھ نہ پڑے۔ صاحب حیثیت افراد کو پاکستان کی ترقی میں جائز حصہ ڈالنے کی ترغیب دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ نیک نیتی سے مذاکرات کرے گی اور کوئی غیر متوقع سرپرائز نہیں دے گی۔
انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ ٹیکس پالیسی اور معاشی مفروضوں پر نظرثانی کی جا رہی ہے تاکہ معاشی استحکام اور اہداف کے حصول میں مدد مل سکے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/imfh1i12h23421.jpg