میں نے اس تھریڈ کے اندر تمھاری دونوں پوسٹوں کو بغور پڑھا ہے۔ اور میں اس لب و لہجے سے بخوبی واقف ہوں جو ان پوسٹوں میں اختیار کیا گیا۔
عقل مند کیلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن آپ بحث کو خواہ مخواہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ جو حوالے میں نے دیے تھے اُس میں کئی رجال کی کُتب بھی تھیں مگر آپ کی فرمائش پر اپنی پہلی بات کے ثبوت کے لیے بخاری شریف کی دو احادیث مکمل طور پر لکھ دیں ہیں۔
صحیح بخاری کتاب الفضائل باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث نمبر: 3668
[FONT=&]فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: "أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، وَقَالَ: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ: وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ: فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، فَقَالَ: حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا، فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ: قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ: عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.[/FONT]
[FONT=&]ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد[/FONT][FONT=&]([/FONT][FONT=&] صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&])[/FONT][FONT=&]کو پوجتا تھا[/FONT][FONT=&](یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے)[/FONT][FONT=&]تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد[/FONT][FONT=&]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&]کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔[/FONT][FONT=&](پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)[/FONT][FONT=&]إنك ميت وإنهم ميتون[/FONT][FONT=&]اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔[/FONT][FONT=&]اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا[/FONT][FONT=&]وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين[/FONT][FONT=&]محمد[/FONT][FONT=&]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&]صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔[/FONT][FONT=&]راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم[/FONT][FONT=&](مہاجرین)[/FONT][FONT=&]میں سے ہو گا[/FONT][FONT=&](دونوں مل کر حکومت کریں گے)[/FONT][FONT=&]پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم[/FONT][FONT=&](قریش)[/FONT][FONT=&]امراء ہیں اور تم[/FONT][FONT=&](جماعت انصار)[/FONT][FONT=&]وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو[/FONT][FONT=&](وجہ یہ ہے کہ)[/FONT][FONT=&]قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک[/FONT][FONT=&](یعنی مکہ)[/FONT][FONT=&]عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ[/FONT][FONT=&] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [/FONT][FONT=&]کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
[/FONT][FONT=&]۔31- بَابُ رَجْمِ الْحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ:۔
[/FONT]
باب: زنا سے حاملہ ہونے والی عورت کو رجم کرنے کا بیان جب کہ وہ شادی شدہ ہو
حدیث نمبر: 6830
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى، وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ، فَغَضِبَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ، وَأَنْ لَا يَعُوهَا، وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ، وَأَشْرَافِ النَّاسِ، فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا، فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ، وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ، فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا، قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ: لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ، فَأَنْكَرَ عَلَيَّ، وَقَالَ: مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ، فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا، لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي، فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ، ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ، أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ، يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ، يَقُولَ: إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُبَايَعُ هُوَ: وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَمَنْ مَعَهُمَا، وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، اقْضُوا أَمْرَكُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا: فَقَالُوا: هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: مَا لَهُ قَالُوا: يُوعَكُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَكَتَ، أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، حَتَّى سَكَتَ، فَقَالَ: مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، فَبَسَطَ يَدَهُ، فَبَايَعْتُهُ، وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا: وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
رہ گئی بات جنگ صفین میں تحکیم کا معاہدہ تحریر کرتے وقت مخالفین کی طرف سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لقب کو مٹانے کا مطالبہ کیا گیا اُس کے ثبوت میں جو روایت پیش کی تھی وہ سنن نسائی کبرٰی میں بھی بعینہ موجود ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 8576 اور پرانے ایڈیشن میں حدیث نمبر 8523 اور اُس واقعہ کے شواھد میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ ہوں۔
لما خَرجَتِ الحَروريَّةُ اجتَمعوا في دارٍ وهُم ستَّةُ آلافٍ أتيتُ عليًّا فقلتُ: يا أميرَ المؤمِنين ابرِد بالظُّهرِ لعَلِّي آتي هؤلاءِ القَومِ فأكلِّمَهُم قال: إنِّي أخافُ عليكَ قلتُ: كلَّا قالَ ابنُ عبَّاسٍ: فخرجتُ إليهِم ولبِستُ أحسَنَ ما يكونُ مِن حُلَلِ اليَمنِ قال أبو زُمَيلٌ: كان ابنُ عبَّاسٍ جَميلًا جَهيرًا قال ابنُ عبَّاسٍ: فأتيتُهم وهُم مُجتَمِعون في دارِهم قائلونَ فسلَّمتُ عليهِم فقالوا: مرحبًا بكَ يا ابنَ عبَّاسٍ فَما هذِهِ الحله ؟ قالَ قُلتُ: ما تَعيبونَ عليَّ لقَد رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم في أحسَنِ ما يكونُ مِنَ الحُلَلِ ونزلَت: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قالوا: فما جاءَ بكَ ؟ قلتُ: أتيتُكُم من عندِ صحَابَةِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مِنَ المهاجِرينَ والأنصارِ لأبلِغَكُم ما يقولونَ المخبِرونَ بما يَقولونَ فعَليهِم نزلَ القُرآنُ وهُم أعلَمُ بالوَحيِ منكُم وفيهِم أُنزِلَ ( ولَيسَ فيكُم منهُم أحَدٌ ) فقال بعضُهم: لا تُخاصِموا قريشًا فإنَّ اللهَ يقولُ: بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قال ابنُ عبَّاسٍ: وأتيت قوما قط أشد اجتِهادًا منهُم مُسهِمَةٌ وجوهُهُم من السَّهَرِ كأنَّ أيديهِم وركبَهُم تُثني علَيهِم فمَضى مَن حضَر فقالَ بعضُهم لنُكلِّمنَّهُ ولننظُرَنَّ ما يقولُ قلتُ: أخبِروني ماذا نقِمتُم علَى ابنِ عمِّ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وصِهرِهِ والمهاجرينَ والأنصارِ ؟ قالوا: ثلاثًا قلتُ: ما هنَّ ؟ قالوا: أمَّا إحداهُنَّ فإنَّهُ حَكَّم الرِّجالَ في أمرِ اللهِ وقالَ اللهُ تعالى إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ وما للرِّجالِ وما للحُكمِ فقُلتُ هذهِ واحدَةٌ قالوا: وأمَّا الأُخرى فإنَّهُ قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَمْ فلئِن كان الَّذي قاتلَ كفَّارًا لقد حلَّ سبيُهُم وغنيمتُهم ولئن كانوا مؤمنين ما حلَّ قتالُهم قُلتُ: هذه اثنتانِ فما الثَّالثةُ ؟ قال: إنه مَحا نفسَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فهو أميرُ الكافرينَ قلتُ أعندَكُم سِوى هذا ؟ قالوا: حَسبُنا هذَا فقُلتُ لهم: أرأيتُم إن قرأتُ عليكُم مِن كتابِ اللهِ ومِن سنَّةِ نبيَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ما يُرَدَّ به قولُكُم أتَرضَون ؟ قالوا: نعَم فقلت: أمَّا قولكُم حكَّم الرجالَ في أمرِ اللهِ فأنا أتلو عليكُم ما قَد رُدَّ حُكمُهُ إلى الرِّجالِ في ثَمنِ رُبعِ دِرهَم في أرنَبٍ ونحوِها مِنَ الصَّيدِ فقالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ إلى قوله: يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ فنشَدتكُمُ اللهَ أَحُكمُ الرِّجالِ في أرنَبٍ ونحوِها من الصَّيدِ أفضلُ أم حكمُهم في دمائهِم وصلاحِ ذاتِ بينِهم ؟ وأن تعلَموا أنَّ اللهَ لو شاءَ لحكَمَ ولم يُصيِّرْ ذلكَ إلى الرِّجالِ وفي المرأةِ وزوجِها قال اللهُ عزَّ وجلَّ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فجعلَ اللهُ حُكمَ الرِّجالِ سنَّةً مأمونَةً أخرَجتُ عَن هذِهِ قالوا: نعَم قال: وأما قولُكُم قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَم أتَسْبُونَ أمَّكمْ عائشَةَ ثم يستحلُّونَ منها ما يُستَحَلُّ مِن غيرِها فلئن فعَلتُم لقَد كفرتُم وهي أمُّكُم ولئن قلتُم ليسَت أمَّنا لقَد كفرتُم فإن كفرتُم فإنَّ اللهَ يقولُ: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ فأنتُم تَدورونَ بين ضَلالتَينِ أيُّهما صِرتُم إليها صرتُم إلى ضلالَةٍ فنظَرَ بعضُهم إلى بعضٍ قلتُ: أخرَجتُ مِن هذِهِ ؟ قالوا: نعَم وأما قولُكُم: محَا اسمَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فأنا أتيكُم بمن ترضَونَ ورأيكم قد سمعتُم أنَّ النبيَّ صلَّى الله عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ كاتَبَ سهيلَ بنَ عمرٍو وأبا سُفيانَ بنَ حربٍ فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ لأميرِ المؤمنينَ: اكتُبْ يا علِيُّ هذا ما اصطَلح عليهِ مُحمَّدٌ رسولُ اللهِ فقالَ المشركونَ: لا واللَّهِ ما نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ لو نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ ما قاتَلناكَ: فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ: اللهُمَّ إنَّكَ تعلَمُ أنِّي رسولُ اللهِ اكتُبْ يا عليُّ هذا ما اصطَلحَ عليه مُحمَّدُ بنُ عبدِ اللهِ فو اللَّهِ لَرسولُ اللهِ خيرٌ من عليٍّ وما أخرجَهُ من النبوَّةِ حينَ محَا نفسَهُ قال عبدُ اللهِ بنُ عبَّاسٍ: فرجع مِن القَومِ ألفانِ وقُتِلَ سائرهُمْ علَى ضلالَةٍ الراوي: عبد الله بن عباس المحدث: الحاكم - المصدر: المستدرك - الصفحة أو الرقم: 2/495
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم
صرف ہائی لائٹ عبارت کا ترجمہ دیا گیا ہے
۔(حضرت عبداللہ ابن عباسؓ خوارج سے بحث کرتے ہوئے اور اُن کے حضرت علی کرم اللہ رجہہ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) اور تمھارا یہ اعتراض کہ انھوں (حضرت علیؑ) نے اپنے نام کے ساتھ (تحکیم کے دوران) لفظ امیرالمومنین ہٹا دیا تھا تو میں تمھارے سامنے ایسی بات پیش کرتا ہوں جس سے تم لوگ راضی ہوجاؤ۔ کیا تم لوگوں نے نہیں سن رکھا کہ صلح حدیبیہ والے دن سھیل بن عمر اور ابوسفیان بن حرب (مشرکین کی طرف سے) کاتب تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین سے فرمایا کہ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے تو مشرکین بول اُٹھے نہیں اللہ کی قسم ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کاہے کو آپ سے لڑتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ائے اللہ تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے تحریر پایا۔
پھر ابن عباسؓ بولے پس اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی سے بہتر ہیں اور اپنے ہاتھ سے اس مٹانے کے باوجود وہ نبوت سے خارج نہیں ہوئے۔
ہم صحیح مسلم میں پڑھتے ہیں
قام سهلُ بنُ حنيفٍ يومَ صفِّينَ فقال : أيها الناسُ ! اتهموا أنفسكم . لقد كنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ . ولو نرى قتالًا لقاتلنا . وذلك في الصلحِ الذي كان بين رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وبين المشركين . فجاء عمرُ بنُ الخطابِ . فأتى رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قالا ( بلى ) قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال ( بلى ) قال : ففيمَ نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكم اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال ( يا ابنَ الخطابِ ! إني رسولُ اللهِ . ولن يُضيِّعني اللهُ أبدًا ) قال : فانطلق عمرُ فلم يصبر متغيِّظًا . فأتى أبا بكرٍ فقال : يا أبا بكرٍ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قال : بلى . قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال : بلى . قال : فعلام نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكمُ اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال : يا ابنَ الخطابِ ! إنَّهُ رسولُ اللهِ ولن يُضيِّعَه اللهُ أبدًا . قال : فنزل القرآنُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بالفتحِ . فأرسل إلى عمرَ فأقرأَه إياهُ . فقال : يا رسولَ اللهِ ! أو فتحٌ هوَ ؟ قال ( نعم ) فطابت نفسُه ورجع .۔
الراوي: شقيق بن سلمة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1785
خلاصة حكم المحدث: صحيح
سھل بن حنیف صفین والے دن کھڑے ہو کر بولے۔ ائے لوگو اپنے نفسوں کو الزام دو۔ ہم لوگ حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور پھر وہی صلح حدیبیہ کا قصہ ذکر فرمایا۔
سوال یہ ہے کہ جنگ صفین والے دن سھل بن حنیف نے صلح حدیبیہ کا قصہ لوگوں کو کیوں سنایا۔ صاف ظاہر ہے تحکیم کے دوران حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لفظ مٹانے پر جو اعتراض ہوا تھا اُسکے جواب میں۔
رہ گئی بات عبداللہ بن عمر کی حضرت علیؑ کی بیعت نہ کرنے کی تو ایک ریفرنس پیش خدمت ہے
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:۔
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
Source
باقی جو کچھ بحث آپ نے کی ہے اُس کا حاصل یہ ہے کہ سیف پاک کا یہ قول اسطرح نہیں ہونا چاہیے
بلکہ کُچھ یوں ہونا چاہیے
اور اس قول پر مجھے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھنے والوں کیلیے کُھلی نشانیاں ہیں
باقی ضمنی مباحث جو آپ نے گفتگو میں چھیڑے ہیں میں انھیں بلا تبصرہ چھوڑتا ہوں