انسپکٹر جمشید اور سپاہ صحابہ

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

اگر اِس مُلک میں کھُلے عام شیعوں کو گالیاں بکنے سے خرابی پیدا نہیں ہوئی تو دیوبندیوں اور وہابیوں کیخلاف لِکھنے سے کیسے ہوگی؟



Haideriam
user-offline.png

Intermediate​
Join DateJan 2014LocationPakistanPosts274Age32Post Thanks / Like

Re: کیا ہم اتنے گر گئے ہیں؟کچهہ ممبرز کے لئے


quote_icon.png
Originally Posted by Mechanical Monster
واقعی، مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے کیوں کہ وہ اپنے انجام کو پوھنچ گئے ہیں. دوسرا مسلمان کی موت کے بعد اس کی غیبت کرنا تو انتہائی قبیح فیل ہے

ویسے اگر بندہ ذرا آنکھیں کھولے تو اسے حقیقت نظر آ جاتی ہے

کیا مسلمانوں کے مقابلے پر کوئی دوسری قوم ہے دنیا میں؟ میرا خیال ہے نہیں

کیوں کہ مسلمانوں میں سے صرف مغل خاندان نے بر صغیر پر ٤٠٠ سال حکومت کی ہے جب کہ انگریز کا ٩٠ سالوں میں بینڈ بج گیا . ایسا کون سا حکمرانی کا گر ہے جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے؟

سوچو اور پھر جواب دو




او میاں بشیرے، پہلے اپنی غیبت کی تعریف ٹھیک کر لو۔ کہنے بولنے کو تُم شیعہ لگتے ہو لیکن تمہاری ساری مبادیات ہی ٹیڑھی ہیں۔
مُردہ اپنے انجام کو پہنچ گیا، انجام قبر ہے یا یومِ الحساب؟
تُم جیسے مقصرین نے وکھرا ہی لُچ تلا ہوا ہے۔






:biggthumpup:​
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
Haideriam
user-offline.png

Intermediate​
Join DateJan 2014LocationPakistanPosts274Age32Post Thanks / Like

Re: کیا ہم اتنے گر گئے ہیں؟کچهہ ممبرز کے لئے

quote_icon.png
Originally Posted by Mechanical Monster
واقعی، مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے کیوں کہ وہ اپنے انجام کو پوھنچ گئے ہیں. دوسرا مسلمان کی موت کے بعد اس کی غیبت کرنا تو انتہائی قبیح فیل ہے

ویسے اگر بندہ ذرا آنکھیں کھولے تو اسے حقیقت نظر آ جاتی ہے

کیا مسلمانوں کے مقابلے پر کوئی دوسری قوم ہے دنیا میں؟ میرا خیال ہے نہیں

کیوں کہ مسلمانوں میں سے صرف مغل خاندان نے بر صغیر پر ٤٠٠ سال حکومت کی ہے جب کہ انگریز کا ٩٠ سالوں میں بینڈ بج گیا . ایسا کون سا حکمرانی کا گر ہے جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے؟

سوچو اور پھر جواب دو




او میاں بشیرے، پہلے اپنی غیبت کی تعریف ٹھیک کر لو۔ کہنے بولنے کو تُم شیعہ لگتے ہو لیکن تمہاری ساری مبادیات ہی ٹیڑھی ہیں۔
مُردہ اپنے انجام کو پہنچ گیا، انجام قبر ہے یا یومِ الحساب؟
تُم جیسے مقصرین نے وکھرا ہی لُچ تلا ہوا ہے۔






:biggthumpup:​
تُم کرنے کے بعد اپنی پوسٹ پڑھتے بھی ہو؟
 

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)
یہ میری تحریر نہیں ہے۔ لیکن آپ کی اپنی تحقیق کے مطابق یہ تعداد ففٹی پرسنٹ ٹھیک ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آپ ایک چیز شیئر کرتےہیں، مگر اس میں دئے گئے حقائق کو اپنانے سے احتراز کرتے ہیں۔
مجھے پچاس ہزار یا ساٹھ ہزار کی فگر سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا بلکہ تحقیق کی جائے تو شاید نقصان اس سے بھی ذیادہ ہو، ہاں البتہ میرا موقف ہے کہ اس میں دو طرفہ نقصان شامل ہیں۔
 

drkhan22

Senator (1k+ posts)
Aapke ihterazat ke jawab men kuch arz ker doon. Aap ko bareeee mushkil ke baad ik sahabi millay jin kee bait na kerne ki riwayat aap ne kisi be mustanad hadees ki kitab se paish nahee kee. Kooi hawala Bukhari Shareef or Muslim Shareef ka milay to zaroor paish kijiye ga.
Hazret Ameer Muaviah RA ka Hazret ALI Ra kee bait se inkar ik Sahabi ka ikhtilaf hay. Sahaba e Rasool ikhtilaf ker saktay hen or unhon ne kia hay. Mager ham Khulfa rashideen ka inkar or un per taan o malamat nahee ker saktay.
Ameer Muaviah ka khilafat mannay se inkar aap ko bhari maloom ho raha hay, halankay ye ikhtilaf tha. Lekin aap ye kion bhool jaatay hen ke Ameer Muaveeah RA ne Ali Ra ke barkhilaf apni khilafat ka b ilaan nahee kia tha. Balke sirf ALI RA ne hee apni khilafat ka ilaan kia tha. Ameer MUavueeah RA ne Apni khilafat ki dastar bandi tabh ki jab Hassan RA ne apni khilafat un ke hawalay ki. Ye kitna qabil e tehseen amal hay, Ke Ameer Muveeah RA ne apni khilafat ka tab ilaan kia jab saari ummet, bashamool Hassnain e kareemain ke, ne unki khilafat per razamandi zahir ker dee or muttahid ho gayee.
Iztaar men ALi RA bhee jo ghalti karen ge, vali riwayat ka koi mustanad hawala den hazret. Warna kitaben bohet or riwayaten bhee bohet hen.


مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ معلومات صرف علمی نقطہ نظر سے شیئر کرنی پڑ رہی ہیں۔

حضرت سعد بن عبادہ انصاریؓ جو کہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور غزوہ بدر و احد و خندق اور دوسرے غزوات میں شریک رہے اور بعیت رضوان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعیت کرنے والوں میں سے تھے انھوں نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مرتے دم تک بعیت نہیں کی۔


الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفي276هـ)، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 14، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1418هـ - 1997م؛

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 244، ناشر: دار الكتب العلمية بيروت؛

الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 194 تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص 22 تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛

الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 3، ص 483، ناشر: دار المعرفة - بيروت 1400.

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 339،تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.

إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 2، ص 599، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 10، ص 281، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ 1980م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 3، ص 66، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ 1992م


اگر مخاطب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفہ راشد جانتے ہیں تو پھر معاملات بہت ہی خراب ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر اور بہت سارے لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بعیت نہیں کی تھی۔ حتی کہ جب صفین میں تحکیم کے معاملہ پر معاہدہ ہونے لگا تو معاہدہ لکھنے والے نے لکھا کہ یہ معاہدہ امیرالمومنین حضرت علی اور معاویہ کے درمیان قرار پایا تو مخالفین (معاویہ اور عمر بن العاص وغیرہ) کی طرف سے یہ اعتراض آیا کہ اگر ہم علی کو امیرالمومنین اور خلیفہ برحق جانتے تو اُن سے لڑتے ہی کیوں اسلیے معاہدہ یوں لکھا جائے کہ یہ معاہدہ علی ابن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان قرار پایا۔

Tehkim.jpg



کیا مہربانی کرکے میرا مخاطب ان حقائق کی روشنی میں اپنے الفاظ کی وضاحت کرے گا؟؟؟؟؟؟


 

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

یقیناًً آپ کا منتظر کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن سیف پاک کی پوسٹ نے میرے ذھن میں پرانی یادیں تازہ کردیں تھیں۔ جو بات اُس نے پوسٹ میں لکھی میں برملا اپنے اھل تشیع ہم جماعت دوستوں سے اُن کے منہ پر کیا کرتا تھا۔ اور جو جواب میں نے پوسٹ کیا وہ اُن میں سے کُچھ دوستوں کے ساتھ اس سلسلے میں تفصیلی بحثوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس کے بعد میں نے اُس وقت اپنی ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح ان باتوں کا منطقی جواب دے سکوں۔ بہت سارے علما اور جاننے والے لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن کوئی ایسا جواب جو خود میرے دل کو مطمئن کرے اور میں بحث میں جوابی طور پر پیش کروں مجھے نہیں ملا۔ پس اب بھی اگر کوئی دوست متانت کے ساتھ علمی طور پر جواب سے سکے تو میں شکریے کے ساتھ قبول کروں گا۔
اشارہ تو آپ خوب سمجھیں ہیں، مگر افسوس آپ کا یہ جو معاملہ ہے وہ صدیوں پرانی شیعہ سنی بحث ہے جس میں نہ میں پہلے ملوث ہوا ہوں اور نہ اب ہوں گا۔
البتہ جہاں تک آپ کے تھریڈ کا تعلق ہے تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ آپ نے اشتیاق احمد پراعتراض کیا ہے جسےاگر ایک جملہ میں بیان کروں تو وہ ہے کہ "اشتیاق احمد نےاپنے نظریات کا پرچار کیا ہے"۔یہ اعتراض اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ سنی العقیدہ شخص ہے تو وہ اپنا ہی عقیدہ بیان کریں گے، نہ کہ شیعہ کا موقف بیان کریں گے۔ اسی طرح اگر وہ سمجھتے تھے کہ ایران پاکستان کا دشمن ہے تو انہوں نے یہی چیز ناولوں میں دکھانی تھی۔یہ ایسے ہی ہے جیسے میں اعتراض کروں کہ شیعہ حضرات اپنی مجالس میں شیعہ عقائد کا تذکرہ کرتے ہیں۔آپ نے جو سینکڑوں پوسٹیں کی ہیں، ان میں اپنا موقف اور نظریہ بیان کیا ہے یا کسی اور ممبر کا؟
 

Sajid1020

Citizen
IShtiaq Ahmad is really a very great writer. He has wrote every thing that is a fact. I like him so much. I hate the haters of Sahahaba chahai koi b ho. ***** ho Sahaba say nafrat karnay waloo per. Sahaba kai dushmano ko beneqab karnay waloo ko 1000 times Salute
 

drkhan22

Senator (1k+ posts)
Maria : Biddat ki jo definition aap ne banai hay ager aap himmat ker uss pe qaim rahen to men kuch arz karoon ga.
Agger ALLAH or uss ka Rasool SAW hee Deen ki bunyad hen or kisi ka koi amal dakhal nahee to mera sawal hay aap se.
1) Ager koi badbakht 4th Khalifa waqt ALI RA ko galiaan de or un per tabarra kare or un ko mannay se inkar kare to uss ki saza kia hay?? Ager aap sahee hay to koi saza nahee hay or naa hee uss per lanaat bheji jai verna ye ik biddat ho jaigee.
2) Imam Mehdi jo (Shia ke 12th imam hen) ko koi manayse inkar kare uss per kia fatway hay?? Or ager koi hadd se guzray or unko bee maan behn ki galian de bilkul ussi tara jese zakireen dete hen to kia fatwa aaiye ga.aap apni hadees ki roshni men or apne wazaah kerda asool ke mutabiq bayan ker den.
3) Aap ke wazah kerda asool ka matlab hay ke tamam 12 imamon ko jitni galian deni hen, jitna taan o tahsneeh ka nishana banana hay
bilkul isi tara jese zakireen sahabah ko bnataya hen, or un per koi had jaari na kee jai. Isliaye ke deen ki asal bunyad ALLAH or uska Rasool hen ???
Kisi bhee muqadas hasti ko jis ka tahaluq ALLAH or uss ke Rasool se ho uss ki toheen haram hay or qabil e garift hay. Chahay wo 12 imam hon ya Akabireen sahaba hon.
Aapki daleel ki koi bunyad nahee, na is to ahl e tashayyo mante hen naa Ahl e sunnat.


یہ آپ نے دین میں "بدعت" جاری کر دی ہے۔

اسلام کی "بنیاد" فقط اللہ کی وحدانیت اور رسول (ص) کی رسالت کی گواہی تک محدود ہے۔

صحابہ کا اس بنیاد سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر آپ صحابہ کو اٹھا کر اللہ اور رسول (ص) کے ساتھ رکھ دیتے ہیں تو یہ ظلم اور بدعتِ و ضلالت ہے، اور آپکی طرف سے اپنی شریعت جاری کرنے کے مترادف ہے۔


اسوۃ صدیقی: حضرت ابو بکر خود ان انتہا پسند تکفیری حضرات پر لعنت بھیج رہے ہیں

حضرت ابو بکر خود اس بات کی گواھی دیتے ہیں۔
4365 - حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن يونس، عن حميد بن هلال، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا هارون بن عبد الله، ونصير بن الفرج، قالا حدثنا أبو أسامة، عن يزيد بن زريع، عن يونس بن عبيد، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مطرف، عن أبي برزة، قال كنت عند أبي بكر رضي الله عنه فتغيظ على رجل فاشتد عليه فقلت تأذن لي يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أضرب عنقه قال فأذهبت كلمتي غضبه فقام فدخل فأرسل إلى فقال ما الذي قلت آنفا قلت ائذن لي أضرب عنقه ‏.‏ قال أكنت فاعلا لو أمرتك قلت نعم ‏.‏ قال لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلى الله عليه وسلم ‏.‏ قال أبو داود هذا لفظ يزيد قال أحمد بن حنبل أى لم يكن لأبي بكر أن يقتل رجلا إلا بإحدى الثلاث التي قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم كفر بعد إيمان أو زنا بعد إحصان أو قتل نفس بغير نفس وكان للنبي صلى الله عليه وسلم أن يقتل
ترجمہ:۔
ابو برزہ کہتے ہیں کہ میں ابو بکرابن ابی قحافہ کے ساتھ تھا۔ اُن کا ایک آدمی سے جھگڑا ہو گیا اور گرم الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں نے کہا: اے خلیفہ رسول! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کا گلا کاٹ دوں؟ میرے یہ الفاظ سن کرجناب ابو بکر کا غصہ دور ہو گیا اور وہ اٹھ کر اندر چلے گئے۔ پھر انہوں نے مجھ کو بلا بھیجا اور کہا: "تم نے ابھی کیا کہا کہ اگر میں کہوں تو تم اس کو قتل تک کر دو گے"؟ میں نے کہا،"جی ہاں"۔ اس پر حضرت ابو بکر بولے، "نہیں، میں اللہ کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ اس بات کی کسی کے لیے اجازت نہیں ہے"۔ حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب 38، حدیث4350 (آنلائن لنک)۔


اور سنن نسائی میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے اس شخص کو کہا "تیری ماں تجھ پر روئے کہ تو وہ کام کرنا چاہتا ہے جو رسول ﷺ کی وفات کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں رہا)۔


معاویة بن صالح اشعری، عبد اللہ بن جعفر، عبید اللہ، زید، عمرو بن مرة، ابونضرة، ابوبرزة سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر ایک شخص پر سخت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ اس شخص کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! خدا کی قسم اگر تم مجھ کو حکم دو تو میں اس شخص کی گردن اڑا دوں۔ میری یہ بات کہتے ہی وہ ایسے ہو گئے کہ جیسے ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو اور ان کا غصہ اس شخص کی طرف سے زائل ہوگیا اور کہنے لگے کہ اے ابوبرزہ تمہاری ماں تم پر روئے (یہ عرب کا ایک محاورہ ہے) یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت کی اسناد میں غلطی ہوگئی ہے اور ابونضرہ کی بجائے ابونضر ٹھیک ہے اور اس کا نام حمید بن ہلال ہے حضرت شعبہ نے اس طریقہ سے روایت کیا ہے۔



کیا ناصبی حضرات کے لیے یہ اسوہ صدیقی کافی نہیں کہ وہ صحابہ کے نام پر دوسروں کو کافر بنانے اور اُن کو قتل کرنے سے باز آ جائیں؟ مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ ناصبی حضرات صحابہ پرستش کی بیماری کا ایسا شکار ہیں کہ جس میں انہوں نے صحابہ کے مرتبے کو اٹھا کر انہیں رسول ﷺ کا ہم مرتبہ بنا دیا ہے (معاذ اللہ)۔


بے شمار مواقع ایسے آئے کہ صحابہ نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی موجودگی میں ایک دوسرے کو گالیاں دیں، مگر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس جرم کی سزا کے طور پر کبھی کسی شخص کے قتل کا حکم جاری نہیں کیا۔


امام احمد بن حنبل ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں:۔
"ایک شخص حضرت ابو بکر کو گالیاں دے رہا تھا اور رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ جب وہ شخص باز نہیں آیا تو حضرت ابو بکر نے بھی اسے جواب دینا شروع کر دیا۔ اس پر رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اٹھ کر چلے گئے۔ابو بکر نے کہا، "یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، جب تک وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیٹھے سنتے (اور مسکراتے) رہے۔ مگر جیسے ہی میں نے جواب دینا شروع کیا تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ناراض ہو گئے"۔ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا، "اے ابو بکر، جب وہ تمکو گالیاں دے رہا تھا، تو ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اسکو جواب دے رہا تھا۔ مگر جب تم نے خود جواب دینا شروع کیا تو شیطان آ گیا۔ اور میں اور شیطان ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے"۔
حوالہ: (مسند احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 436)۔


یہی روایت سنن ابو داؤد میں بھی موجود ہے:۔


4898 - حدثنا عيسى بن حماد، أخبرنا الليث، عن سعيد المقبري، عن بشير بن المحرر، عن سعيد بن المسيب، أنه قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس ومعه أصحابه وقع رجل بأبي بكر فآذاه فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثانية فصمت عنه أبو بكر ثم آذاه الثالثة فانتصر منه أبو بكر فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انتصر أبو بكر فقال أبو بكر أوجدت على يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نزل ملك من السماء يكذبه بما قال لك فلما انتصرت وقع الشيطان فلم أكن لأجلس إذ وقع الشيطان ‏"‏ ‏.‏
ترجمہ:۔
عیسی بن حماد لیث، سعید مقبری، بشیربن محر ر، حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام بھی تھے ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں زبان درازی کی اور انہیں ایذا دی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خاموش رہے اس نے پھر دوسری بار ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو تکلیف دی تو بھی وہ چپ رہے اس نے تیسری بار بھی تکلیف پہنچائی تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے جواب میں کچھ کہہ دیا۔ جونہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھ پر ناراض ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا ہے وہ اس تکلیف پہنچانے والی کی تکذیب کرتا رہا جب تم نے اسے جواب دیا تو درمیان میں شیطان آپڑا لہذا جب شیطان آپڑے تو میں بیٹھنے والا نہیں ہوں۔
حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب الادب (آنلائن لنک)۔


علماء کے فتاوی'


حضرت عمر بن عبد العزیز:۔
کوفہ سے ان کے ایک عامل نے لکھا:۔
مجھے ایک ایسے آدمی کے متعلق مشورہ دیں کہ جس نے حضرت عمر کو گالی دی ہو۔ تو آپ نے جواب میں یوں لکھا کہ، "کسی بھی مسلمان شخص کو کسی کو گالی دینے پر قتل کرنا جائز نہیں ہے سوائے اس کہ کہ اس نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دی ہو۔ پس جس نے نبی کو گالی دی ہو، اس کا خون مباح ہو گیا۔
(1)الشفاء بتعریف حقوق مصطفی'، جلد 2، صفحہ 325، مطبوعہ رھلی
(2)سلالہ الرسالہ۔ ملا علی قاری صفحہ 18، طبع اردن
(3)طبقات الکبری جلد 5 صفحہ 369 طبع جدید بیروت


امام مالک

امام مالک کا موقف یہ ہے کہ:
"جس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دی، اس کو قتل کر دیا جائے، اور جس نے صحابہ کو گالی دی اس کو ادب سکھایا جائے گا"
الشفاء قاضی عیاض جلد 2، صفحہ ، 376 طبع بریلی
الصارم المسلول صفحہ569 بحوالہ دفاع ابو ہریرہ، طبع پشاور


امام مالک کی یہ رائے صواعق محرقہ صفحہ 259 طبع مصر میں بھی موجود ہے۔
امام نووی الشافعی


آپ جمہور علماء اہل سنت کا اتفاق رائے بیان کرتے ہوئے لکہتے ہیں:۔
"جمہور آئمہ اور فقہائے اہل سنت کا متفقہ مسلک ہے کہ صحابہ کرام کو گالی دینا حرام اور فواحش محرمات سے ہے مگر اس کی سزا قتل نہیں"
النووی شرح مسلم جلد 2، صفحہ 310، طبع دھلی


ملا علی قاری حنفی

فقہ حنفیہ کے ترجمان ملا علی قاری اپنی رائے یوں پیش فرماتے ہیں:
"ابو بکر و عمر کی توہین کرنے والے کو کافر کہنا اور اسے قتل کرنا نہ صحابہ سے ثابت ہے اور نہ ہی تابعین سے اور آئمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ، امام محمد اور امام ابو یوسف کے نزدیک تو ایسے شخص کی گواہی بھی قابل قبول ہے۔
حوالہ: سلالتہ الرسالہ صفحہ 19، طبع اردن
اور اسی بات پر مزید بحث کرتے ہوئے آپ اپنی کتاب "شرح فقہ اکبر" میں لکھتے ہیں:
"اور حضرت ابو بکر اور عمر کو گالی دینے سے کوئی کافر نہیں ہو جاتا جیسا کہ ابو شکور سالمی نے اپنی کتاب"تمہید میں اس قول کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں کیونکہ ہر ایک مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔ جیسا کہ حدیث رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں ثابت ہے اور اس حکم کے تحت ابو بکر و عمر اور تمام مسلم برابر ہیں۔ اور اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ کسی نے شیخین (ابو بکر و عمر) بلکہ ان کے ساتھ ختنین (علی و عثمان) کو بھی قتل کر دیا ہے تب بھی ایسا شخص اھل سنت و جماعت کے نزدیک اسلام سے خارج نہیں ہو گا۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ گالی کا درجہ قتل سے کمتر ہے۔"
حوالہ: (شرح فقہ اکبر، صفحہ 86، کانپور)۔



امام حافظ ابن تیمیہ الدمشقی
ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول صفحہ 759، طبع مصر میں توہین صحابہ کے عدم کفر کی دلیلیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"انبیاء کرام کے علاوہ کسی کو سب و شتم کرنے سے کفر لازم نہیں آتا ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں بعض صحابہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہے اور کوئی ان کے کفر کا قائل نہيں ہے۔"


علامہ ابن حجر الہیثمی المکی

مصر کے مشہور محدث ابن حجر تحریر کرتے ہیں۔
"میں نے کسی اہل علم کے کلام میں یہ بات نہیں پائی کہ صحابی کو گالی دینا قتل کو واجب کر دیتا ہو سوائے اس کہ کے ہمارے بعض اصحاب اور اصحاب ابو حنیفہ کے اطلاق کفر کے متعلق آتا ہے۔ مگر انہوں نے بھی قتل کی تصریح نہیں کی۔ اور ابن منذر کہتے ہیں کہ میں کسی شجص کو نہیں جانتا ہوں کہ جو نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد کسی کو گالی دینے والے کا قتل واجب گردانتا ہو۔ "
صواعق محرقہ صفحہ 255، طبع مصر



علامہ علاء الدین الحصکفی الحنفی
آپ اپنی کتاب در المختار باب الامامت صفحہ 76 طبع دھلی میں رقمطراز ہیں۔
"اور جتنے لوگ ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں وہ کافر نہیں ہوتے۔ حتی کہ خارجی بھی کافر نہیں جو ہماری جان و مال کو حلال جانتے ہیں۔ اور جو لوگ صحابہ کو سب کرنا جائز جانتے ہیں اور صفات باری تعالی کے منکر ہیں اور خدا کے دیدار کے جواز کے منکر ہیں یہ لوگ کافر نہیں کیونکہ ان کا اعتقاد تاویل اور شبہ پر مبنی ہے۔ اور ان کے کافر نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی گواہی مقبول ہے۔ (یعنی کافر ہوتے تو ان کی گواہی مسلمانوں میں قبول نہ ہوتی۔ چونکہ ان کی گواہی مقبول ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہیں)۔


علامہ عبد الحئ لکھنوی

بر صغیر کے یہ مشہور عالم ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
"مفتی بہ اور صحیح ترین قول شیعہ کی عدم تکفیر کا ہے۔ اور ابو بکر اور عمر کو سب کرنا موجب کفر نہیں ہے۔ یہی قول ابو حنیفہ کے مذھب کے مطابق ہے۔"
اس کے بعد ابو شکور سالمی کی کتاب التمہید فی بیان التوحید کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔
" اور جو یوگ یہ کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) افضل ہیں شیخین سے تو یہ بدعت ہے کفر نہیں۔ اور جو کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) کے مخالف مثل عائشہ و معاویہ کے لعنت بھیجنا واجب ہے، یہ سب بدعت ہے کفر نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تاویل سے صاور ہوا ہے۔ اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کو سب کرنے کی وجہ سے شیعہ کو کافر کہنا محققین کے مذھب کے سراسر خلاف ہے"
(مجموعہ الفتاوی' جلد 1، صفحہ 3 اور 4، طبع لکھنؤ)


مولانا رشید احمد گنگوہی
ان کے نزدیک صحابہ کو ملعون اور مردود کہنے والا سنت و جماعت سے خارج نہیں ہوتا۔ سوال و جواب ملاحضہ فرمائیں۔
سوال۔ صحابہ کو ملعون اور مردود کہنے والا،کیا اپنے اس کبیرہ گناہ کی وجہ سے سنت و جماعت سے خارج ہو جائے گا؟
جواب۔ وہ اپنے اس کبیرہ گناہ کی وجہ سے سنت و جماعت سے خارج نہیں ہو گا۔
(ملخصا" از فتاوی' رشیدیہ، جلد 2، صفحہ 130، طبع دھلی)



مولانا محمد رفیق اثری مدرس دارالعلوم محمدیہ ملتان لکھتے ہیں۔
"صحیح یہ ہے کہ قتل کی سزا صرف نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات پر بیہودہ گوئی پر دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ابو بکر نے فرمایا کہ نبی کے بعد کسی کو کہ استحقاق نہیں ہے کہ اس پر تنقید کی وجہ سے ناقد کو قتل کر دیا جائے۔ (سنن نسائی)"
(السیف المسلؤل مترجم صفحہ 520، طبع ملتان)
اہل حدیث کے نامور عالم حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی بحوالہ صارم المسلول لکھتے ہیں۔
"نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو گالی دینے کی سزا قتل ہے کسی امیر المومنین کو گالی دینے والے کو محض اس بناء کے قتل نہیں کیا جا سکتا"
(احیاء االمیت مع تنویر الابصار صفحہ 46 طبع لاہور)


جسٹس ملک غلام علی (جماعت اسلامی)۔
"میں کہتا ہوں کہ سب و شتم کا آغاز اور اس کے جواب میں سب و شتم کا آغاز جس نے بھی کیا بہت برا کیا۔ آج بھی جو ایسا کرتا ہے بہت برا کرتا ہے۔ لیکن یہ جرم بغاوت کے مترادف نہیں ہے۔ اور نہ اس کی سزا قتل ہے۔ بعض علمائے سلف اس بات کے قائل تو ہوئے ہیں کہ شاتم رسول واجب القتل ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ کسی دوسرے کی بد گوئی کرنا یا گالی دینا اسلام میں ہر گز قتل کا موجب نہیں ہے۔"
(خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ صقحہ 272، طبع، لاہور)


[/QUOTE]
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
I have not presented it as a root cause of terrorism in Pakistan. But it give little or more favor to ill mentality end up to Hate and terrorism. if you think it is healthy way of writing and no problem with it, some of which I have highlighted, then present your point of view with evidence.

I am not talking about the thread only but the infavour replies. It might do a bit but majority of 'hate' creation came from govt and state's policies when our bagger and corrupt ruling elite welcomed Foreign $$$ and Reyals in early 80s without realising its result. If only Saudian Reyals are stopped for numerous Madrasses things might chang in 5-10 years. Before 80s conditions were not that much bad.
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)

اگر اِس مُلک میں کھُلے عام شیعوں کو گالیاں بکنے سے خرابی پیدا نہیں ہوئی تو دیوبندیوں اور وہابیوں کیخلاف لِکھنے سے کیسے ہوگی؟

میں نے اس تھریڈ میں دیوبندیوں اور اھلحدیث کے خلاف نہیں لکھا۔ بلکہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے متشدد گروہ اور اُن کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ اور اشتیاق احمد صاحب کی بچوں کے ناولوں کے اندر سپاہ صحابہ کی پالیسیوں کی حمائت میں پلاٹ گھڑنے پر تنقید کی ہے۔ بات کو وہیں تک رکھا جانا چاہیے جہاں تک وہ ہے۔ اگر اسی روش پر چلا جائے کہ کُچھ لوگوں کا الزام سب پر لگا دیا جائے تو پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز بہت آسان ہوجائے۔ صیہونیوں کے لیے یہ مشکل نہیں کہ ہر مکتبہ فکر میں سے ایک ایک متشدد گروہ کھڑا کردیں اور اُس کے کالے کرتوتوں کا الزام پورے مکتبہ فکر پر دھر کر ایک سول وار کا آغاز کردیں۔
 

Freedomlover

Minister (2k+ posts)
کیا لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش والے مجاھد فی سبیل اللہ ہیں؟؟؟؟؟؟؟

نام تو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے جو مجاہد ہیں ان کو کفار بھی مانتے ہیں

 

Freedomlover

Minister (2k+ posts)

جس طرح تمھیں اپنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت کی اہمیت کا احساس ہے کاش کہ بالکل اسی طرح تمھیں دوسرے اسلامی مکاتب فکر کی آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نسبت کی اہمیت کا بھی احساس ہو جائے۔ کیا یہ مقدس رشتہ کافی نہیں کہ مسلمان آپس میں محبت کی زنجیر میں پرو کر اکٹھے ہو سکیں اور جو کچھ اختلافات ہیں اُسے اس مقدس رشتے کی خاطر نظر انداز کرکے مل جُل کر رہ سکیں۔ اور اسلامی معاشرے میں برداشت اور رواداری اور خلوص کو رواج دیں۔

جی بلکل مسلمان کو مل جل کر اکھٹے رہنا چاہیے اور جو مسلمان کے ساتھ غداری کرے اس کو بدترین سزا ملنی چاہیے

 

Freedomlover

Minister (2k+ posts)

سب سے پہلے یہ بات مدنظر رکھی جائے کہ اشتیاق احمد بچوں کیلیے جاسوسی ناول نگار کے طور پر مشہور ہے۔ اور اپنے ناول وہ 9 سے 18 سال کی عمر کے پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کیلیے لکھتا ہے۔

پاکستانی بچے شیعہ، سُنی بریلوی، سنی دیوبندی، اھلحدیث، عیسائی، ہندو، ، سکھ اور احمدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستانی قوم ایک وسیع کمیونٹی ہے۔ جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ساتھ بہت سے غیر مسلم پاکستانی بھی شامل ہیں۔ جب آپ ناول لکھتے ہیں تو پھر وہ ایک ناول ہے۔ اور اگر اُس ناول میں آپ اپنے مخصوص نظریات کا اس شدومد کے ساتھ پرچار کریں اور دوسری کمیونٹیوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات کا پرچار اپنے ناول کے کرداروں کے ذریعے کروائیں اور انھیں ناول کی کہانی میں پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا دکھائیں وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے انتہائی مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے۔ تو پڑھنے والے بچوں کے اذھان میں آپ دوسری کمیونٹیوں کے خلاف زہر بھر رہے ہیں۔ وہ خواہ مخواہ بغیر کسی وجہ سے اُن سے نفرت کرے گا۔

ذرا اشتیاق احمد صاحب کا خود اپنا بیان ملاحظہ کریں


یعنی اشتیاق احمد کا اسلامی رنگ یہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف لکھا جائے۔ بریلویوں کے خلاف شرک و بدعت کے عنوان سے ناول میں لکھا جائے۔ شیعوں کے خلاف لکھا جائے۔ عیسائیوں کے خلاف لکھا جائے کہ یہ سب اسلام دُشمن عناصر ہیں اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں جب وطن عزیز میں ایسے قصے کہانیاں لکھے جائیں گے تو پھر موجودہ دہشت گردی پر حیرت کس بات کی۔ پھر احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ، شیعوں اور بریلویوں کا قتل عام اور عیسائیوں کے خلاف بلووں کیلیے زمین تو آپ نے ہموار کردی۔ اور یہ سب جذبہ حب الوطنی اور اسلام کی خدمت کے عنوان سے ہو گا۔

اشتیاق احمد نے حق باتیں لکھی ہیں جیسا کہ فریڈم لوورز نے کہا یا اُس نے کوئی بات غلط نہیں لکھی جیسا کہ ڈاکٹر خان نے دعوٰی کیا۔

ذرا حق باتوں کا نمونہ ملاحظہ ہو
بازنطان (ایران) میں عام طور پر لوگ (شیعہ) نماز نہیں پڑھتے۔۔۔۔
اسلامی رنگ یعنی ناول کے پلاٹ میں بریلویوں، شیعوں عیسائیوں اور احمدیوں وغیرہ کے خلاف لکھا جائے کہ وہ پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں
بازنطان (ایران) والے خاص طور پر مسلمان عورتوں کو سمگل کرتے ہیں کیونکہ اسلام کے دُشمن ہیں۔
بازنطانیوں (ایرانیوں) کا مشغلہ یہ ہے کہ اسلام کی کاٹ کی جائے۔ (یعنی اسلام دُشمنی اُن کا ہوبی ہے)۔
جنگ صفین شروع ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دونوں طرف سے عبداللہ بن سبا کے پیروکاروں نے تیروں کی بارش کردی تھی۔۔۔۔ (کسی ایک کتاب سے ثابت کر دیجیے
حضرت امام حسینؑ کے غم میں رونے کا کام ایک طبقہ کرتا ہے مسلمان نہیں کرتے۔
وغیرہ وغیرہ
حالانکہ یہ ایک کُھلی حقیقت ہے کہ ایام شہادتِ حضرت امام حسین علیہ السلام شیعہ اور سُنی دونوں
مل کر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں اپنے اپنے طریقے سے نہائت ادب اور احترام سے مناتے ہیں۔ کیا غم منانے والے سُنی بھی مسلمان نہیں۔۔۔۔


اگراشتیاق احمد کی اوپر بیان کردہ باتیں ٹھیک ہیں اور حق ہیں تو پھر میں تم سے پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ
اگر تم نے جہالت کا نام حق رکھ دیا ہے تو تم اپنی بات میں سچے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کوئی ایرانی مصنف جاسوسی ناولوں کے من گھڑت پلاٹ میں پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف لکھنا شروع کردے کہ یہ اسلام دُشمن ہیں۔ یا بھارت کے اندر کوئی ہندو اپنے تعصب کی بنیاد پر بچوں کے ناولوں میں بھارتی سکھوں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف لکھنا شروع کردے کہ یہ سب بھارت دُشمن لوگ ہیں اور آنے والی نئی نسل کی یوں نفرت اور تعصب سے ذھن سازی کرے تو وہ اپنے اس فعل میں کس قدر حق بجانب ہو گا۔؟؟؟
حقیقت یہ ہے کہ غلط بات غلط ہوتی ہے۔ اگر یہ کام کوئی پاکستانی شیعہ یا بریلوی یا کسی اور طبقہ فکر کا آدمی اس طرح سر انجام دے گا تو اسکی بھی اسیطرح مذمت کی جائے گی۔ جب آپ اپنی کتاب بچوں کا ناول کہ کر بازار میں لاتے ہیں تو پھر وہ بچوں کا ناول ہی ہونی چاہیے اور اگر آپ کو اُس میں اسلامی رنگ شامل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو 80 فیصد مُشترکات پر بات کیجئے نہ کہ 20 فیصد اختلافات کی وجہ سے اپنے ناول کے پلاٹس میں باقی سب کو اسلام دُشمن قرار دے کر اُن کے خلاف فرضی افسانے تراشیے۔ کیا اسلامی رنگ پاکستان کی 80 فیصد آبادی کے خلاف نفرت کی رنگ آمیزی کا نام ہے؟؟؟؟۔



ایک مسلمان کے لیے اسلام سب کچھ ہے باقی باتیں ثانوی ہیں

 

safe-pak

Politcal Worker (100+ posts)

اگر اِس مُلک میں کھُلے عام شیعوں کو گالیاں بکنے سے خرابی پیدا نہیں ہوئی تو دیوبندیوں اور وہابیوں کیخلاف لِکھنے سے کیسے ہوگی؟

Ameer ul momineen
Hazarat Umar Farooq (RZ)
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
Aapke ihterazat ke jawab men kuch arz ker doon. Aap ko bareeee mushkil ke baad ik sahabi millay jin kee bait na kerne ki riwayat aap ne kisi be mustanad hadees ki kitab se paish nahee kee. Kooi hawala Bukhari Shareef or Muslim Shareef ka milay to zaroor paish kijiye ga.
Hazret Ameer Muaviah RA ka Hazret ALI Ra kee bait se inkar ik Sahabi ka ikhtilaf hay. Sahaba e Rasool ikhtilaf ker saktay hen or unhon ne kia hay. Mager ham Khulfa rashideen ka inkar or un per taan o malamat nahee ker saktay.
Ameer Muaviah ka khilafat mannay se inkar aap ko bhari maloom ho raha hay, halankay ye ikhtilaf tha. Lekin aap ye kion bhool jaatay hen ke Ameer Muaveeah RA ne Ali Ra ke barkhilaf apni khilafat ka b ilaan nahee kia tha. Balke sirf ALI RA ne hee apni khilafat ka ilaan kia tha. Ameer MUavueeah RA ne Apni khilafat ki dastar bandi tabh ki jab Hassan RA ne apni khilafat un ke hawalay ki. Ye kitna qabil e tehseen amal hay, Ke Ameer Muveeah RA ne apni khilafat ka tab ilaan kia jab saari ummet, bashamool Hassnain e kareemain ke, ne unki khilafat per razamandi zahir ker dee or muttahid ho gayee.
Iztaar men ALi RA bhee jo ghalti karen ge, vali riwayat ka koi mustanad hawala den hazret. Warna kitaben bohet or riwayaten bhee bohet hen.

میں نے اس تھریڈ کے اندر تمھاری دونوں پوسٹوں کو بغور پڑھا ہے۔ اور میں اس لب و لہجے سے بخوبی واقف ہوں جو ان پوسٹوں میں اختیار کیا گیا۔
عقل مند کیلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن آپ بحث کو خواہ مخواہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ جو حوالے میں نے دیے تھے اُس میں کئی رجال کی کُتب بھی تھیں مگر آپ کی فرمائش پر اپنی پہلی بات کے ثبوت کے لیے بخاری شریف کی دو احادیث مکمل طور پر لکھ دیں ہیں۔


صحیح بخاری کتاب الفضائل باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث نمبر: 3668

[FONT=&amp]فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا،‏‏‏‏ فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا،‏‏‏‏ وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.[/FONT]

[FONT=&amp]ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp] صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp])[/FONT][FONT=&amp]کو پوجتا تھا[/FONT][FONT=&amp](یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے)[/FONT][FONT=&amp]تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد[/FONT][FONT=&amp]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp]کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔[/FONT][FONT=&amp](پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)[/FONT][FONT=&amp]إنك ميت وإنهم ميتون‏[/FONT][FONT=&amp]اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔[/FONT][FONT=&amp]اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا[/FONT][FONT=&amp]وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين‏[/FONT][FONT=&amp]محمد[/FONT][FONT=&amp]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp]صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔[/FONT][FONT=&amp]راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم[/FONT][FONT=&amp](مہاجرین)[/FONT][FONT=&amp]میں سے ہو گا[/FONT][FONT=&amp](دونوں مل کر حکومت کریں گے)[/FONT][FONT=&amp]پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم[/FONT][FONT=&amp](قریش)[/FONT][FONT=&amp]امراء ہیں اور تم[/FONT][FONT=&amp](جماعت انصار)[/FONT][FONT=&amp]وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو[/FONT][FONT=&amp](وجہ یہ ہے کہ)[/FONT][FONT=&amp]قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک[/FONT][FONT=&amp](یعنی مکہ)[/FONT][FONT=&amp]عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ[/FONT][FONT=&amp] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [/FONT]
[FONT=&amp]کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔


[/FONT]
[FONT=&amp]۔31- بَابُ رَجْمِ الْحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ:۔
[/FONT]

باب: زنا سے حاملہ ہونے والی عورت کو رجم کرنے کا بیان جب کہ وہ شادی شدہ ہو
حدیث نمبر: 6830

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ،‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، ‏‏‏‏‏‏إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ هُمُ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا يَعُوهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْرَافِ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ:‏‏‏‏ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، ‏‏‏‏‏‏إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ الِاعْتِرَافُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقُولُوا:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يُبَايَعُ هُوَ:‏‏‏‏ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالزُّبَيْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ مَعَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ ؟ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏اقْضُوا أَمْرَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ مَنْ هَذَا:‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لَهُ قَالُوا:‏‏‏‏ يُوعَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ عَلَى رِسْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى سَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَدَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، ‏‏‏‏‏‏أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، ‏‏‏‏‏‏وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، ‏‏‏‏‏‏مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَسَطَ يَدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَايَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔


رہ گئی بات جنگ صفین میں تحکیم کا معاہدہ تحریر کرتے وقت مخالفین کی طرف سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لقب کو مٹانے کا مطالبہ کیا گیا اُس کے ثبوت میں جو روایت پیش کی تھی وہ سنن نسائی کبرٰی میں بھی بعینہ موجود ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 8576 اور پرانے ایڈیشن میں حدیث نمبر 8523 اور اُس واقعہ کے شواھد میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ ہوں۔

لما خَرجَتِ الحَروريَّةُ اجتَمعوا في دارٍ وهُم ستَّةُ آلافٍ أتيتُ عليًّا فقلتُ: يا أميرَ المؤمِنين ابرِد بالظُّهرِ لعَلِّي آتي هؤلاءِ القَومِ فأكلِّمَهُم قال: إنِّي أخافُ عليكَ قلتُ: كلَّا قالَ ابنُ عبَّاسٍ: فخرجتُ إليهِم ولبِستُ أحسَنَ ما يكونُ مِن حُلَلِ اليَمنِ قال أبو زُمَيلٌ: كان ابنُ عبَّاسٍ جَميلًا جَهيرًا قال ابنُ عبَّاسٍ: فأتيتُهم وهُم مُجتَمِعون في دارِهم قائلونَ فسلَّمتُ عليهِم فقالوا: مرحبًا بكَ يا ابنَ عبَّاسٍ فَما هذِهِ الحله ؟ قالَ قُلتُ: ما تَعيبونَ عليَّ لقَد رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم في أحسَنِ ما يكونُ مِنَ الحُلَلِ ونزلَت: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قالوا: فما جاءَ بكَ ؟ قلتُ: أتيتُكُم من عندِ صحَابَةِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مِنَ المهاجِرينَ والأنصارِ لأبلِغَكُم ما يقولونَ المخبِرونَ بما يَقولونَ فعَليهِم نزلَ القُرآنُ وهُم أعلَمُ بالوَحيِ منكُم وفيهِم أُنزِلَ ( ولَيسَ فيكُم منهُم أحَدٌ ) فقال بعضُهم: لا تُخاصِموا قريشًا فإنَّ اللهَ يقولُ: بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قال ابنُ عبَّاسٍ: وأتيت قوما قط أشد اجتِهادًا منهُم مُسهِمَةٌ وجوهُهُم من السَّهَرِ كأنَّ أيديهِم وركبَهُم تُثني علَيهِم فمَضى مَن حضَر فقالَ بعضُهم لنُكلِّمنَّهُ ولننظُرَنَّ ما يقولُ قلتُ: أخبِروني ماذا نقِمتُم علَى ابنِ عمِّ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وصِهرِهِ والمهاجرينَ والأنصارِ ؟ قالوا: ثلاثًا قلتُ: ما هنَّ ؟ قالوا: أمَّا إحداهُنَّ فإنَّهُ حَكَّم الرِّجالَ في أمرِ اللهِ وقالَ اللهُ تعالى إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ وما للرِّجالِ وما للحُكمِ فقُلتُ هذهِ واحدَةٌ قالوا: وأمَّا الأُخرى فإنَّهُ قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَمْ فلئِن كان الَّذي قاتلَ كفَّارًا لقد حلَّ سبيُهُم وغنيمتُهم ولئن كانوا مؤمنين ما حلَّ قتالُهم قُلتُ: هذه اثنتانِ فما الثَّالثةُ ؟ قال: إنه مَحا نفسَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فهو أميرُ الكافرينَ قلتُ أعندَكُم سِوى هذا ؟ قالوا: حَسبُنا هذَا فقُلتُ لهم: أرأيتُم إن قرأتُ عليكُم مِن كتابِ اللهِ ومِن سنَّةِ نبيَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ما يُرَدَّ به قولُكُم أتَرضَون ؟ قالوا: نعَم فقلت: أمَّا قولكُم حكَّم الرجالَ في أمرِ اللهِ فأنا أتلو عليكُم ما قَد رُدَّ حُكمُهُ إلى الرِّجالِ في ثَمنِ رُبعِ دِرهَم في أرنَبٍ ونحوِها مِنَ الصَّيدِ فقالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ إلى قوله: يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ فنشَدتكُمُ اللهَ أَحُكمُ الرِّجالِ في أرنَبٍ ونحوِها من الصَّيدِ أفضلُ أم حكمُهم في دمائهِم وصلاحِ ذاتِ بينِهم ؟ وأن تعلَموا أنَّ اللهَ لو شاءَ لحكَمَ ولم يُصيِّرْ ذلكَ إلى الرِّجالِ وفي المرأةِ وزوجِها قال اللهُ عزَّ وجلَّ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فجعلَ اللهُ حُكمَ الرِّجالِ سنَّةً مأمونَةً أخرَجتُ عَن هذِهِ قالوا: نعَم قال: وأما قولُكُم قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَم أتَسْبُونَ أمَّكمْ عائشَةَ ثم يستحلُّونَ منها ما يُستَحَلُّ مِن غيرِها فلئن فعَلتُم لقَد كفرتُم وهي أمُّكُم ولئن قلتُم ليسَت أمَّنا لقَد كفرتُم فإن كفرتُم فإنَّ اللهَ يقولُ: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ فأنتُم تَدورونَ بين ضَلالتَينِ أيُّهما صِرتُم إليها صرتُم إلى ضلالَةٍ فنظَرَ بعضُهم إلى بعضٍ قلتُ: أخرَجتُ مِن هذِهِ ؟ قالوا: نعَم وأما قولُكُم: محَا اسمَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فأنا أتيكُم بمن ترضَونَ ورأيكم قد سمعتُم أنَّ النبيَّ صلَّى الله عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ كاتَبَ سهيلَ بنَ عمرٍو وأبا سُفيانَ بنَ حربٍ فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ لأميرِ المؤمنينَ: اكتُبْ يا علِيُّ هذا ما اصطَلح عليهِ مُحمَّدٌ رسولُ اللهِ فقالَ المشركونَ: لا واللَّهِ ما نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ لو نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ ما قاتَلناكَ: فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ: اللهُمَّ إنَّكَ تعلَمُ أنِّي رسولُ اللهِ اكتُبْ يا عليُّ هذا ما اصطَلحَ عليه مُحمَّدُ بنُ عبدِ اللهِ فو اللَّهِ لَرسولُ اللهِ خيرٌ من عليٍّ وما أخرجَهُ من النبوَّةِ حينَ محَا نفسَهُ قال عبدُ اللهِ بنُ عبَّاسٍ: فرجع مِن القَومِ ألفانِ وقُتِلَ سائرهُمْ علَى ضلالَةٍ الراوي: عبد الله بن عباس المحدث: الحاكم - المصدر: المستدرك - الصفحة أو الرقم: 2/495
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم

Source

صرف ہائی لائٹ عبارت کا ترجمہ دیا گیا ہے
۔(حضرت عبداللہ ابن عباسؓ خوارج سے بحث کرتے ہوئے اور اُن کے حضرت علی کرم اللہ رجہہ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) اور تمھارا یہ اعتراض کہ انھوں (حضرت علیؑ) نے اپنے نام کے ساتھ (تحکیم کے دوران) لفظ امیرالمومنین ہٹا دیا تھا تو میں تمھارے سامنے ایسی بات پیش کرتا ہوں جس سے تم لوگ راضی ہوجاؤ۔ کیا تم لوگوں نے نہیں سن رکھا کہ صلح حدیبیہ والے دن سھیل بن عمر اور ابوسفیان بن حرب (مشرکین کی طرف سے) کاتب تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین سے فرمایا کہ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے تو مشرکین بول اُٹھے نہیں اللہ کی قسم ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کاہے کو آپ سے لڑتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ائے اللہ تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے تحریر پایا۔
پھر ابن عباسؓ بولے پس اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی سے بہتر ہیں اور اپنے ہاتھ سے اس مٹانے کے باوجود وہ نبوت سے خارج نہیں ہوئے۔


ہم صحیح مسلم میں پڑھتے ہیں

قام سهلُ بنُ حنيفٍ يومَ صفِّينَ فقال : أيها الناسُ ! اتهموا أنفسكم . لقد كنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ . ولو نرى قتالًا لقاتلنا . وذلك في الصلحِ الذي كان بين رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وبين المشركين . فجاء عمرُ بنُ الخطابِ . فأتى رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قالا ( بلى ) قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال ( بلى ) قال : ففيمَ نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكم اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال ( يا ابنَ الخطابِ ! إني رسولُ اللهِ . ولن يُضيِّعني اللهُ أبدًا ) قال : فانطلق عمرُ فلم يصبر متغيِّظًا . فأتى أبا بكرٍ فقال : يا أبا بكرٍ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قال : بلى . قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال : بلى . قال : فعلام نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكمُ اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال : يا ابنَ الخطابِ ! إنَّهُ رسولُ اللهِ ولن يُضيِّعَه اللهُ أبدًا . قال : فنزل القرآنُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بالفتحِ . فأرسل إلى عمرَ فأقرأَه إياهُ . فقال : يا رسولَ اللهِ ! أو فتحٌ هوَ ؟ قال ( نعم ) فطابت نفسُه ورجع .۔
الراوي: شقيق بن سلمة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1785
خلاصة حكم المحدث:
صحيح

سھل بن حنیف صفین والے دن کھڑے ہو کر بولے۔ ائے لوگو اپنے نفسوں کو الزام دو۔ ہم لوگ حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور پھر وہی صلح حدیبیہ کا قصہ ذکر فرمایا۔

سوال یہ ہے کہ جنگ صفین والے دن سھل بن حنیف نے صلح حدیبیہ کا قصہ لوگوں کو کیوں سنایا۔ صاف ظاہر ہے تحکیم کے دوران حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لفظ مٹانے پر جو اعتراض ہوا تھا اُسکے جواب میں۔


رہ گئی بات عبداللہ بن عمر کی حضرت علیؑ کی بیعت نہ کرنے کی تو ایک ریفرنس پیش خدمت ہے

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:۔
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔


Source


باقی جو کچھ بحث آپ نے کی ہے اُس کا حاصل یہ ہے کہ سیف پاک کا یہ قول اسطرح نہیں ہونا چاہیے
Khulfa e Rashdeen ko naa man nay waloo par L..AN., AT beshumaar
بلکہ کُچھ یوں ہونا چاہیے
Sahaba ko Chorr kr Khulfa e Rashdeen ko naa man nay waloo par L..AN., AT beshumaar
اور اس قول پر مجھے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھنے والوں کیلیے کُھلی نشانیاں ہیں
باقی ضمنی مباحث جو آپ نے گفتگو میں چھیڑے ہیں میں انھیں بلا تبصرہ چھوڑتا ہوں

 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
اشارہ تو آپ خوب سمجھیں ہیں، مگر افسوس آپ کا یہ جو معاملہ ہے وہ صدیوں پرانی شیعہ سنی بحث ہے جس میں نہ میں پہلے ملوث ہوا ہوں اور نہ اب ہوں گا۔
البتہ جہاں تک آپ کے تھریڈ کا تعلق ہے تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ آپ نے اشتیاق احمد پراعتراض کیا ہے جسےاگر ایک جملہ میں بیان کروں تو وہ ہے کہ "اشتیاق احمد نےاپنے نظریات کا پرچار کیا ہے"۔یہ اعتراض اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ سنی العقیدہ شخص ہے تو وہ اپنا ہی عقیدہ بیان کریں گے، نہ کہ شیعہ کا موقف بیان کریں گے۔ اسی طرح اگر وہ سمجھتے تھے کہ ایران پاکستان کا دشمن ہے تو انہوں نے یہی چیز ناولوں میں دکھانی تھی۔یہ ایسے ہی ہے جیسے میں اعتراض کروں کہ شیعہ حضرات اپنی مجالس میں شیعہ عقائد کا تذکرہ کرتے ہیں۔آپ نے جو سینکڑوں پوسٹیں کی ہیں، ان میں اپنا موقف اور نظریہ بیان کیا ہے یا کسی اور ممبر کا؟

اس بار آپ کے لفظوں کے ھیر پھیر کو ایسے نہیں جانے دوں گا۔
آپ کی بات تو تب صحیح سمجھی جائے جب آپ کوئی اور مثال بھی پیش کریں جس میں کسی اور مصنف نے بچوں کے ناولوں میں اسلامی رنگ کے نام پر اپنے مخصوص نظریات کی یوں بھنگ ڈالی ہو۔ کیا باقی مصنفین اور لکھاری نظریات سے عاری لوگ ہیں۔ یا ایسا کرنا وہ قلمی بددیانتی سمجھتے ہیں۔ کیا آپ کوئی ایک مثال بھی دے سکتے ہیں۔
ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ مخصوص نظریات رکھے۔ اگر اشتیاق صاحب ایران کو دشمن سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ کہ بچوں کے ناول میں من گھڑت قصوں کی مدد سے یوں دشمنی نکالیں۔ ایرانی نماز نہیں پڑھتے۔ اسلام کی کاٹ کرنا ایرانیوں کا ہوبی ہے یا ایرانی اسلام سے عداوت کی بنا پر مسلمان عورتیں اغوا کرتیں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
بات کرنی ہے تو حقائق کی بنیاد پر کریں نہ کہ تعصب اور جہالت کی بنیاد پر
اور جو کُچھ اسلامی تاریخ کے بہانے حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ وہ؟؟؟؟ آپ اگر ایک بات لکھ رھے ہیں تو اُسکا کوئی صحیح غلط ریفرنس تو ہونا چاہیے نہ کہ جو جی میں آیا خود ہی سے لکھ دیا۔ ایک عدد مثال میں اس پوسٹ میں دے چُکا ہوں
اگر آپ یہ سب صحیح سمجھتے ہیں تو مجھے آپ کی خیر اندیشی پر حیرت ہے۔
اور بات سُنی شیعہ کی نہیں۔ سُنی شیعہ کہ کر مغالطہ مت دیا کریں۔ بات قلمی بددیانتی اور بچوں کے ناولوں میں من گھڑت قصوں کی بنیاد پر نفرت انگیز مسالہ شامل کرنے کی ہے اور اس طرح بچوں کی مخصوص ذھن سازی کرنے کی ہے جو کہ آخر کار دہشت گردی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔

 

Piyasa

Minister (2k+ posts)
عشرہ مبشرہ--- رضوان اللہ عنھم

عشرہ مبشرہ ،آخرالزمّاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔​

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ، عثمان رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہيں ، علی رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ، زبیر رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،
سعد رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہيں ، سعید رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں
حوالہ :سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3682 ) ۔

 
Last edited:

drkhan22

Senator (1k+ posts)
Mohtram achi guftagu keliye acha andaz hona zaroori hay. Aapke gosh guzaar ker doon ke muje aapki riwayat per ihteraz ye tha ke Nabi SAW ne Ali RA se ye kaha tha kia ke aap ke sath be yahee muamla hoga jo mere sath hudaybia men hua hay ???? Jo riwayat aap ne mustanad paish kee hen uss men is ka ziker nahee milta. Aaap khudh bee dekh len or apne ilfaz men bayan ker den meri tara. Na ke lambay lambay safhaat paste ker den. Phir se sawal sun len . Sulah e Hudaibia men ALI RA se Nabi SAW ke ye kab kaha ke mera naam mittay ga aaj to ay Ali RA aap ka naam bee mitaya jaiga .
Rahee bat Muaveeah RA ka bait se inkar , to bhai uss men dhakki chupi kon see bat hay. Unhon ne inkar kia tha apne ikhtilaf ki bunyad per. Ahl e Sunnat ke nazdeek dono haq per thay or fasad barpa kia hua abduLLAH bin saba ka tha. ishara aap b samjh gaye honge. Asal bat ye hay ke kia phir unhon ne apni khilafat ka ilaan kia tha ???? ager nahee kia or yaqeenan nahee kia to kion nhaee kia ????? aap bee sochen or muje apni jawab se zaroor agah karen :)
Rahee bat ke aap ne Jo riwayat kee hay Sideeq e Akbar RA ke hawalay say to bhai saab uss men aap ka muddaa kia tha or kia daleel paish kerna chah rahe thay zara apne ilfaaz men bayan ker den. Men ne arz kia tha ke jis sahabi ne bait nahee kee thee( Saad Bin Ubada jo ke khilafat ke khawaish mand thay) aapki riwayat ke mutabiq saari umer, uss ka koi mustanad hawala de den. Jo aap ke pas hay koi nahee. Is liaye phir sawal dhuhra deta hoo ke jis shaksh ka aap ne ziker kia uss ne bait saari umer nahee kee thee us ka mustanad hawala de den. Unka khalifa bannay per israr ham sab ko maloonm hay , mager jab sab sahaba ne Abu BAkr RA ko chun lia to sab ne bait kee the bhayya bashamool ALI ibne Abi Talib RA ne.

Gufatgu ilmi honi chayye or apne khialat to achay mahol men share kerna munasib amal hay naa ke ik doosray ko ridicule kerna.


میں نے اس تھریڈ کے اندر تمھاری دونوں پوسٹوں کو بغور پڑھا ہے۔ اور میں اس لب و لہجے سے بخوبی واقف ہوں جو ان پوسٹوں میں اختیار کیا گیا۔
عقل مند کیلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن آپ بحث کو خواہ مخواہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ جو حوالے میں نے دیے تھے اُس میں کئی رجال کی کُتب بھی تھیں مگر آپ کی فرمائش پر اپنی پہلی بات کے ثبوت کے لیے بخاری شریف کی دو احادیث مکمل طور پر لکھ دیں ہیں۔


صحیح بخاری کتاب الفضائل باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث نمبر: 3668

[FONT=&amp]فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا،‏‏‏‏ فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا،‏‏‏‏ وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.[/FONT]

[FONT=&amp]ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد[/FONT][FONT=&amp]([/FONT][FONT=&amp] صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp])[/FONT][FONT=&amp]کو پوجتا تھا[/FONT][FONT=&amp](یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے)[/FONT][FONT=&amp]تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد[/FONT][FONT=&amp]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp]کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔[/FONT][FONT=&amp](پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)[/FONT][FONT=&amp]إنك ميت وإنهم ميتون‏[/FONT][FONT=&amp]اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔[/FONT][FONT=&amp]اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا[/FONT][FONT=&amp]وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين‏[/FONT][FONT=&amp]محمد[/FONT][FONT=&amp]صلی اللہ علیہ وسلم [/FONT][FONT=&amp]صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔[/FONT][FONT=&amp]راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم[/FONT][FONT=&amp](مہاجرین)[/FONT][FONT=&amp]میں سے ہو گا[/FONT][FONT=&amp](دونوں مل کر حکومت کریں گے)[/FONT][FONT=&amp]پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم[/FONT][FONT=&amp](قریش)[/FONT][FONT=&amp]امراء ہیں اور تم[/FONT][FONT=&amp](جماعت انصار)[/FONT][FONT=&amp]وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو[/FONT][FONT=&amp](وجہ یہ ہے کہ)[/FONT][FONT=&amp]قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک[/FONT][FONT=&amp](یعنی مکہ)[/FONT][FONT=&amp]عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ[/FONT][FONT=&amp] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم [/FONT]
[FONT=&amp]کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔


[/FONT]
[FONT=&amp]۔31- بَابُ رَجْمِ الْحُبْلَى مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ:۔
[/FONT]

باب: زنا سے حاملہ ہونے والی عورت کو رجم کرنے کا بیان جب کہ وہ شادی شدہ ہو

حدیث نمبر: 6830

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ،‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، ‏‏‏‏‏‏إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمْ هُمُ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا يَعُوهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْرَافِ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ:‏‏‏‏ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، ‏‏‏‏‏‏إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ الِاعْتِرَافُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقُولُوا:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يُبَايَعُ هُوَ:‏‏‏‏ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَالزُّبَيْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ مَعَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ ؟ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏اقْضُوا أَمْرَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ مَنْ هَذَا:‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لَهُ قَالُوا:‏‏‏‏ يُوعَكُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، ‏‏‏‏‏‏أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ عَلَى رِسْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى سَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، ‏‏‏‏‏‏وَدَارًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، ‏‏‏‏‏‏أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، ‏‏‏‏‏‏وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، ‏‏‏‏‏‏مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَبَسَطَ يَدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَايَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔


رہ گئی بات جنگ صفین میں تحکیم کا معاہدہ تحریر کرتے وقت مخالفین کی طرف سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لقب کو مٹانے کا مطالبہ کیا گیا اُس کے ثبوت میں جو روایت پیش کی تھی وہ سنن نسائی کبرٰی میں بھی بعینہ موجود ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 8576 اور پرانے ایڈیشن میں حدیث نمبر 8523 اور اُس واقعہ کے شواھد میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ ہوں۔

لما خَرجَتِ الحَروريَّةُ اجتَمعوا في دارٍ وهُم ستَّةُ آلافٍ أتيتُ عليًّا فقلتُ: يا أميرَ المؤمِنين ابرِد بالظُّهرِ لعَلِّي آتي هؤلاءِ القَومِ فأكلِّمَهُم قال: إنِّي أخافُ عليكَ قلتُ: كلَّا قالَ ابنُ عبَّاسٍ: فخرجتُ إليهِم ولبِستُ أحسَنَ ما يكونُ مِن حُلَلِ اليَمنِ قال أبو زُمَيلٌ: كان ابنُ عبَّاسٍ جَميلًا جَهيرًا قال ابنُ عبَّاسٍ: فأتيتُهم وهُم مُجتَمِعون في دارِهم قائلونَ فسلَّمتُ عليهِم فقالوا: مرحبًا بكَ يا ابنَ عبَّاسٍ فَما هذِهِ الحله ؟ قالَ قُلتُ: ما تَعيبونَ عليَّ لقَد رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّم في أحسَنِ ما يكونُ مِنَ الحُلَلِ ونزلَت: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قالوا: فما جاءَ بكَ ؟ قلتُ: أتيتُكُم من عندِ صحَابَةِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مِنَ المهاجِرينَ والأنصارِ لأبلِغَكُم ما يقولونَ المخبِرونَ بما يَقولونَ فعَليهِم نزلَ القُرآنُ وهُم أعلَمُ بالوَحيِ منكُم وفيهِم أُنزِلَ ( ولَيسَ فيكُم منهُم أحَدٌ ) فقال بعضُهم: لا تُخاصِموا قريشًا فإنَّ اللهَ يقولُ: بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قال ابنُ عبَّاسٍ: وأتيت قوما قط أشد اجتِهادًا منهُم مُسهِمَةٌ وجوهُهُم من السَّهَرِ كأنَّ أيديهِم وركبَهُم تُثني علَيهِم فمَضى مَن حضَر فقالَ بعضُهم لنُكلِّمنَّهُ ولننظُرَنَّ ما يقولُ قلتُ: أخبِروني ماذا نقِمتُم علَى ابنِ عمِّ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وصِهرِهِ والمهاجرينَ والأنصارِ ؟ قالوا: ثلاثًا قلتُ: ما هنَّ ؟ قالوا: أمَّا إحداهُنَّ فإنَّهُ حَكَّم الرِّجالَ في أمرِ اللهِ وقالَ اللهُ تعالى إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ وما للرِّجالِ وما للحُكمِ فقُلتُ هذهِ واحدَةٌ قالوا: وأمَّا الأُخرى فإنَّهُ قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَمْ فلئِن كان الَّذي قاتلَ كفَّارًا لقد حلَّ سبيُهُم وغنيمتُهم ولئن كانوا مؤمنين ما حلَّ قتالُهم قُلتُ: هذه اثنتانِ فما الثَّالثةُ ؟ قال: إنه مَحا نفسَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فهو أميرُ الكافرينَ قلتُ أعندَكُم سِوى هذا ؟ قالوا: حَسبُنا هذَا فقُلتُ لهم: أرأيتُم إن قرأتُ عليكُم مِن كتابِ اللهِ ومِن سنَّةِ نبيَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم ما يُرَدَّ به قولُكُم أتَرضَون ؟ قالوا: نعَم فقلت: أمَّا قولكُم حكَّم الرجالَ في أمرِ اللهِ فأنا أتلو عليكُم ما قَد رُدَّ حُكمُهُ إلى الرِّجالِ في ثَمنِ رُبعِ دِرهَم في أرنَبٍ ونحوِها مِنَ الصَّيدِ فقالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ إلى قوله: يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ فنشَدتكُمُ اللهَ أَحُكمُ الرِّجالِ في أرنَبٍ ونحوِها من الصَّيدِ أفضلُ أم حكمُهم في دمائهِم وصلاحِ ذاتِ بينِهم ؟ وأن تعلَموا أنَّ اللهَ لو شاءَ لحكَمَ ولم يُصيِّرْ ذلكَ إلى الرِّجالِ وفي المرأةِ وزوجِها قال اللهُ عزَّ وجلَّ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فجعلَ اللهُ حُكمَ الرِّجالِ سنَّةً مأمونَةً أخرَجتُ عَن هذِهِ قالوا: نعَم قال: وأما قولُكُم قاتَلَ ولم يَسبِ ولم يغنَم أتَسْبُونَ أمَّكمْ عائشَةَ ثم يستحلُّونَ منها ما يُستَحَلُّ مِن غيرِها فلئن فعَلتُم لقَد كفرتُم وهي أمُّكُم ولئن قلتُم ليسَت أمَّنا لقَد كفرتُم فإن كفرتُم فإنَّ اللهَ يقولُ: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ فأنتُم تَدورونَ بين ضَلالتَينِ أيُّهما صِرتُم إليها صرتُم إلى ضلالَةٍ فنظَرَ بعضُهم إلى بعضٍ قلتُ: أخرَجتُ مِن هذِهِ ؟ قالوا: نعَم وأما قولُكُم: محَا اسمَهُ مِن أميرِ المؤمنينَ فأنا أتيكُم بمن ترضَونَ ورأيكم قد سمعتُم أنَّ النبيَّ صلَّى الله عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ كاتَبَ سهيلَ بنَ عمرٍو وأبا سُفيانَ بنَ حربٍ فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ لأميرِ المؤمنينَ: اكتُبْ يا علِيُّ هذا ما اصطَلح عليهِ مُحمَّدٌ رسولُ اللهِ فقالَ المشركونَ: لا واللَّهِ ما نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ لو نَعلَمُ أنَّكَ رسولُ اللهِ ما قاتَلناكَ: فقالَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ: اللهُمَّ إنَّكَ تعلَمُ أنِّي رسولُ اللهِ اكتُبْ يا عليُّ هذا ما اصطَلحَ عليه مُحمَّدُ بنُ عبدِ اللهِ فو اللَّهِ لَرسولُ اللهِ خيرٌ من عليٍّ وما أخرجَهُ من النبوَّةِ حينَ محَا نفسَهُ قال عبدُ اللهِ بنُ عبَّاسٍ: فرجع مِن القَومِ ألفانِ وقُتِلَ سائرهُمْ علَى ضلالَةٍ الراوي: عبد الله بن عباس المحدث: الحاكم - المصدر: المستدرك - الصفحة أو الرقم: 2/495
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم

Source

صرف ہائی لائٹ عبارت کا ترجمہ دیا گیا ہے
۔(حضرت عبداللہ ابن عباسؓ خوارج سے بحث کرتے ہوئے اور اُن کے حضرت علی کرم اللہ رجہہ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) اور تمھارا یہ اعتراض کہ انھوں (حضرت علیؑ) نے اپنے نام کے ساتھ (تحکیم کے دوران) لفظ امیرالمومنین ہٹا دیا تھا تو میں تمھارے سامنے ایسی بات پیش کرتا ہوں جس سے تم لوگ راضی ہوجاؤ۔ کیا تم لوگوں نے نہیں سن رکھا کہ صلح حدیبیہ والے دن سھیل بن عمر اور ابوسفیان بن حرب (مشرکین کی طرف سے) کاتب تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین سے فرمایا کہ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے تو مشرکین بول اُٹھے نہیں اللہ کی قسم ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر کاہے کو آپ سے لڑتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ائے اللہ تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ائے علیؑ لکھو کہ یہ صلح کا معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے تحریر پایا۔
پھر ابن عباسؓ بولے پس اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی سے بہتر ہیں اور اپنے ہاتھ سے اس مٹانے کے باوجود وہ نبوت سے خارج نہیں ہوئے۔


ہم صحیح مسلم میں پڑھتے ہیں

قام سهلُ بنُ حنيفٍ يومَ صفِّينَ فقال : أيها الناسُ ! اتهموا أنفسكم . لقد كنا مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ الحديبيةِ . ولو نرى قتالًا لقاتلنا . وذلك في الصلحِ الذي كان بين رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وبين المشركين . فجاء عمرُ بنُ الخطابِ . فأتى رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قالا ( بلى ) قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال ( بلى ) قال : ففيمَ نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكم اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال ( يا ابنَ الخطابِ ! إني رسولُ اللهِ . ولن يُضيِّعني اللهُ أبدًا ) قال : فانطلق عمرُ فلم يصبر متغيِّظًا . فأتى أبا بكرٍ فقال : يا أبا بكرٍ ! ألسنا على حقٍّ وهم على باطلٍ ؟ قال : بلى . قال : أليس قتلانا في الجنةِ وقتلاهم في النارِ ؟ قال : بلى . قال : فعلام نُعطي الدنيَّةَ في ديننا ، ونرجعُ ولما يحكمُ اللهُ بيننا وبينهم ؟ فقال : يا ابنَ الخطابِ ! إنَّهُ رسولُ اللهِ ولن يُضيِّعَه اللهُ أبدًا . قال : فنزل القرآنُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بالفتحِ . فأرسل إلى عمرَ فأقرأَه إياهُ . فقال : يا رسولَ اللهِ ! أو فتحٌ هوَ ؟ قال ( نعم ) فطابت نفسُه ورجع .۔
الراوي: شقيق بن سلمة المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1785
خلاصة حكم المحدث:
صحيح

سھل بن حنیف صفین والے دن کھڑے ہو کر بولے۔ ائے لوگو اپنے نفسوں کو الزام دو۔ ہم لوگ حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور پھر وہی صلح حدیبیہ کا قصہ ذکر فرمایا۔

سوال یہ ہے کہ جنگ صفین والے دن سھل بن حنیف نے صلح حدیبیہ کا قصہ لوگوں کو کیوں سنایا۔ صاف ظاہر ہے تحکیم کے دوران حضرت علیؑ کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کے لفظ مٹانے پر جو اعتراض ہوا تھا اُسکے جواب میں۔


رہ گئی بات عبداللہ بن عمر کی حضرت علیؑ کی بیعت نہ کرنے کی تو ایک ریفرنس پیش خدمت ہے

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:۔
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔


Source


باقی جو کچھ بحث آپ نے کی ہے اُس کا حاصل یہ ہے کہ سیف پاک کا یہ قول اسطرح نہیں ہونا چاہیے

بلکہ کُچھ یوں ہونا چاہیے

اور اس قول پر مجھے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھنے والوں کیلیے کُھلی نشانیاں ہیں
باقی ضمنی مباحث جو آپ نے گفتگو میں چھیڑے ہیں میں انھیں بلا تبصرہ چھوڑتا ہوں

 

drkhan22

Senator (1k+ posts)
Apki insaf pasand tabeeat ko ham daad den ge ager aap Sipah E Muhamad ( Shia terrorist ) or tehreek e jaafria per bee kuch tanqeedi tabsira karen. Kuch ahl e Tashayyo ke aqaid per b ik tanqeedi jaiza ho jai janab .... Phir ham maanay ge aap waqai sehooni quuoton ke khilaf hen or kisi firqa ki himayat nahee kerte

میں نے اس تھریڈ میں دیوبندیوں اور اھلحدیث کے خلاف نہیں لکھا۔ بلکہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے متشدد گروہ اور اُن کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ اور اشتیاق احمد صاحب کی بچوں کے ناولوں کے اندر سپاہ صحابہ کی پالیسیوں کی حمائت میں پلاٹ گھڑنے پر تنقید کی ہے۔ بات کو وہیں تک رکھا جانا چاہیے جہاں تک وہ ہے۔ اگر اسی روش پر چلا جائے کہ کُچھ لوگوں کا الزام سب پر لگا دیا جائے تو پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز بہت آسان ہوجائے۔ صیہونیوں کے لیے یہ مشکل نہیں کہ ہر مکتبہ فکر میں سے ایک ایک متشدد گروہ کھڑا کردیں اور اُس کے کالے کرتوتوں کا الزام پورے مکتبہ فکر پر دھر کر ایک سول وار کا آغاز کردیں۔
 

Back
Top