aftabkhalid
Politcal Worker (100+ posts)
انسانیت کی خدمت اور خادم اعلیٰ کا ویژن
٢٠٠٤ میں مجھے میو ہسپتال لاہور میں وقت گزرنے کا موقع ملا. میرے ایک عزیز کا وہاں پر آپریشن تھا رات بھر جاگ کر گزاری. ہسپتال کے انتظامات اس طرح سے تو نہیں تھے جیسے ہونے چاہیے تھے لیکن ایک بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کے امید کی کرن جاگی کے پاکستان میں بھی ایسا ہو سکتا ہے. بورڈ پر لکھا تھا کہ سٹاف کو کسی بھی قسم کی ادویات کے پیسے نہ دیں صرف پرچی فیس ادا کریں ادویات حکومت پنجاب ادا کر رہی ہے. یہ وارڈ آوٹ ڈور یا ایمرجنسی کا نہیں تھا یہ وارڈ ان مریضوں کا تھا جو علاج یا آپریشن ہسپتال سے کروا رہے تھے لیکن خادم اعلیٰ نے یہ سہولت عام آدمی کے لئے ختم کر دی افسوس صد افسوس کے یہ سارے فنڈز ان جگہوں پر لگنا شروع ہو گے جن کی شائد عوام کو اتنی ضرورت نا تھی
کسی بھی معاشرے کو چار بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے. انسان کوعزت کی روٹی چاہیے تا کے وہ اپنی بھوک مٹا سکے. انسان کو اچھی صحت اور علاج چاہیے. انسان کو تعلیم اور انصاف چاہیے. کم از کم یہ چار بنیادی چیزیں حکومت کی ذمداری میں آتی ہیں کے وہ عوام کو فراہم کریں لیکن ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور ان کی ترجیحات شائد خادم اعلیٰ بننا تو ہے لیکن خدمات گار بننا نہیں. آپ اپنے ارد گرد کسی بھی حکومتی ادارے کو دیکھ لیں وہاں پر ہوتے ہوے کاموں سے آپ کو پتا چل جاۓ گے کے خدمت کس بھاؤ بکتی ہے. سکولوں کی حالت زار کو دیکھ لیں یا ہسپتالوں میں پڑے ہوے مریضوں کو کہیں بھی عوام کو بنیادی سہولتیں ملتی ہوئی نظر نہیں آتی
پاکستان میں ایک ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی ہے جو صرف سیلاب آنے پر چند ادویات اور کچھ کھانے کی چیزیں اٹھاے پھرتے ہیں. حکومت کی ترجیحات اس ادارے کوایسا بنانا نہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو. آپ کے سامنے ایک تازہ مثال اٹک میں شجاع خانزادہ کی ہلاکت کا ہے حکومت کا اپنا وزیر ایک گھنٹے تک ملبے سے آوازیں دیتا رہا حکومت کے پاس کوئی ایسا سسٹم ہی نہیں تھا کہ شجاع خانزادہ کی زندگی کو بچایا جا سکے اگر حکومت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا ریسکو ١١٢٢ کو اس قابل بناتی اور ان اداروں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرتی جس کا عوام کو فائدہ ہوتا تو شائد شجاع خانزادہ کو بھی بچایا جا سکتا تھا. بہت دکھ کی بات ہے کہ جو حکومت اپنے وزیر کو نہ بچا سکی وہ عوام کو کیسے بچانے گی؟
میں نے اس معاملے پر بہت سوچا کے آخر خادم اعلیٰ کا ویژن بڑے بڑے پروجیکٹس بنانا ہی کیوں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جتنا بڑا پروجیکٹ ہو گا مال بھی اتنا بنے گا اور دوسری وجہ بڑا پروجیکٹ عوام کو نظر آتا ہے بھلا خادم اعلیٰ کو کیا ضرورت ہے میٹرو جیسا پروجیکٹ چھوڑ کر وہ لاہور کا سیورج سسٹم ٹھیک کر دیں. سیورج سسٹم تو عوام کو نظر تو نہیں آے گا اگر یہ نظر نہیں آے گا تو بھولی عوام ووٹ کہاں سے دیں گے؟
میری شہباز شریف سے گزارش ہے کہ اپنی ترجیحات کو بدلیں اور وہ کام کریں جس کی عوام کو پہلے ضرورت ہے باقی کام تب کریں جب عوام کو بنیادی سہولتیں میسرآ جائیں گی
٢٠٠٤ میں مجھے میو ہسپتال لاہور میں وقت گزرنے کا موقع ملا. میرے ایک عزیز کا وہاں پر آپریشن تھا رات بھر جاگ کر گزاری. ہسپتال کے انتظامات اس طرح سے تو نہیں تھے جیسے ہونے چاہیے تھے لیکن ایک بورڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کے امید کی کرن جاگی کے پاکستان میں بھی ایسا ہو سکتا ہے. بورڈ پر لکھا تھا کہ سٹاف کو کسی بھی قسم کی ادویات کے پیسے نہ دیں صرف پرچی فیس ادا کریں ادویات حکومت پنجاب ادا کر رہی ہے. یہ وارڈ آوٹ ڈور یا ایمرجنسی کا نہیں تھا یہ وارڈ ان مریضوں کا تھا جو علاج یا آپریشن ہسپتال سے کروا رہے تھے لیکن خادم اعلیٰ نے یہ سہولت عام آدمی کے لئے ختم کر دی افسوس صد افسوس کے یہ سارے فنڈز ان جگہوں پر لگنا شروع ہو گے جن کی شائد عوام کو اتنی ضرورت نا تھی
کسی بھی معاشرے کو چار بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے. انسان کوعزت کی روٹی چاہیے تا کے وہ اپنی بھوک مٹا سکے. انسان کو اچھی صحت اور علاج چاہیے. انسان کو تعلیم اور انصاف چاہیے. کم از کم یہ چار بنیادی چیزیں حکومت کی ذمداری میں آتی ہیں کے وہ عوام کو فراہم کریں لیکن ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور ان کی ترجیحات شائد خادم اعلیٰ بننا تو ہے لیکن خدمات گار بننا نہیں. آپ اپنے ارد گرد کسی بھی حکومتی ادارے کو دیکھ لیں وہاں پر ہوتے ہوے کاموں سے آپ کو پتا چل جاۓ گے کے خدمت کس بھاؤ بکتی ہے. سکولوں کی حالت زار کو دیکھ لیں یا ہسپتالوں میں پڑے ہوے مریضوں کو کہیں بھی عوام کو بنیادی سہولتیں ملتی ہوئی نظر نہیں آتی
پاکستان میں ایک ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی ہے جو صرف سیلاب آنے پر چند ادویات اور کچھ کھانے کی چیزیں اٹھاے پھرتے ہیں. حکومت کی ترجیحات اس ادارے کوایسا بنانا نہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو. آپ کے سامنے ایک تازہ مثال اٹک میں شجاع خانزادہ کی ہلاکت کا ہے حکومت کا اپنا وزیر ایک گھنٹے تک ملبے سے آوازیں دیتا رہا حکومت کے پاس کوئی ایسا سسٹم ہی نہیں تھا کہ شجاع خانزادہ کی زندگی کو بچایا جا سکے اگر حکومت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا ریسکو ١١٢٢ کو اس قابل بناتی اور ان اداروں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرتی جس کا عوام کو فائدہ ہوتا تو شائد شجاع خانزادہ کو بھی بچایا جا سکتا تھا. بہت دکھ کی بات ہے کہ جو حکومت اپنے وزیر کو نہ بچا سکی وہ عوام کو کیسے بچانے گی؟
میں نے اس معاملے پر بہت سوچا کے آخر خادم اعلیٰ کا ویژن بڑے بڑے پروجیکٹس بنانا ہی کیوں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جتنا بڑا پروجیکٹ ہو گا مال بھی اتنا بنے گا اور دوسری وجہ بڑا پروجیکٹ عوام کو نظر آتا ہے بھلا خادم اعلیٰ کو کیا ضرورت ہے میٹرو جیسا پروجیکٹ چھوڑ کر وہ لاہور کا سیورج سسٹم ٹھیک کر دیں. سیورج سسٹم تو عوام کو نظر تو نہیں آے گا اگر یہ نظر نہیں آے گا تو بھولی عوام ووٹ کہاں سے دیں گے؟
میری شہباز شریف سے گزارش ہے کہ اپنی ترجیحات کو بدلیں اور وہ کام کریں جس کی عوام کو پہلے ضرورت ہے باقی کام تب کریں جب عوام کو بنیادی سہولتیں میسرآ جائیں گی
- Featured Thumbs
- http://www.pmln.co.uk/images/shahbazsharif.jpg
Last edited by a moderator: